استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 8

تحریر:مدیحہ شاہد

”استنبول سے انقرہ تک ”  (سفرنامہ)

”لاہور لاہور ہے”
باب8

ہم مقررہ وقت پر استنبول سے جدہ جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔ میری سیٹ ایک محرب خاتون کے ساتھ تھی جس کا نام نادیہ تھا۔ وہ سعودی عرب سے اپنے گروپ کے ساتھ سیرو تفریح کی غرض سے ترکی آئی تھی مگر کسی وجہ سے اسے جلد ہی ترکی سے سعودی عرب جانا پڑا تھا۔ وہ درمیانی عمر کی سوبر، خوش اخلاق اور بہادر خاتون تھی۔ اسے زیادہ انگلش نہیں آتی تھی۔ ہم دونوں کو آپس میں گفتگو کرتے ہوئے اشاروں کی زبان میں بھی بات کرنی پڑی۔ میری پچھلی سیٹ پر عقیلہ آنٹی اور انکل سعید شمسی بیٹھے تھے۔ وہ اردو انگریزی ، عربی اور اشاروں کی زبان میں ہونے والی اس مکس گفتگو کو سنتے ہوئے حیران ہو رہے تھے کئی گھنٹوں کا سفر تھا، ہمسفر خاتون سے بات کرنا بھی ضروری تھا ورنہ سفر بھلا کیسے کٹتا۔ جہاز نے ٹیک آف کیا تو میں ذرا خوفزدہ ہوگئی۔ نادیہ نے مجھے تسلی دی اور کچھ جملے بولے جن کامطلب تھا کہ مسلمان کو صرف اللہ سے ڈرنا چاہیے، اور کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔





مجھے کچھ تسلی ملی۔ سفر کے دوران ہم باتیں کرتے رہے۔ نادیہ نے مجھے اپنے خاندان والوں کی تصاویر موبائل میں دکھائیں۔ وہ ترکی میں جن سیاحتی مقامات پر گئی تھی۔ ان کی تصاویر بھی دکھاتی رہی۔
اس نے ہمیں ایک تسبیح تحفے میں دی ۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ عرب بے حد دریا دل اور سخی ہوتے ہیں۔
ائیر ہوسٹس کھانے کی ٹرالی چلاتے ہوئے سب کو کھانا سرو کررہی تھی۔
ہم نے رغبت سے کھانا کھایا۔
کہ ہم کافی دیر سے سفر میں تھے۔
اس تھوڑے سے عرصے میں نادیہ سے میری بہت اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے موبائل نمبرز بھی لئے اور وعدہ کیا کہ اپنے گھر جاکر فون پر رابطہ کریں گے۔ دوستی عجب رشتہ ہے، بعض دفعہ آپ سالوں ایک دوسرے کے قریب رہتے ہیں مگر دوست نہیں بن پاتے اور بعض دفعہ کسی سے دوستی ہونے میں چند لمحے ہی لگتے ہیں۔
دوستی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ آپ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہوں۔
نادیہ پاکستان کو بہت پسند کرتی تھی اور پاکستانیوں سے مل کر خوش ہوتی تھی۔ بالآخر جہاز جدہ ائیرپورٹ پر لینڈ ہوا۔ ہم جہاز سے اترے۔ رن وے بہت وسیع تھا۔ ہم بس میں سوار ہوکر ائیرپورٹ کی عمارت تک پہنچے۔ ائیرپورٹ کا سعودی سٹاف بے حد بارعب تھا۔ وہ لوگ بلند آواز میں بارعب انداز میں انگریزی بولتے اور مسافر ذرا گھبرا جاتے اور مؤدب ہوجاتے۔ ہم ائیرپورٹ کی وسیع عمارت میں چلتے رہے، کہیں کوریڈور ، کہیں سیڑھیاں ، کہیں لفٹ ، ہم سے ہینڈ کیری سنبھالا نا جارہا تھا۔ مختلف جگہوں پر چیکنگ کرواتے رہے۔ سامان اٹھانے کے معاملے میں یوں بھی ہم اناڑی تھے۔
اسمارا ہماری مدد کو آئی اور کئی بار ہمارا ہینڈ کیری اٹھا کر چیکنگ والی مشین میں رکھا۔ ہمیں ائیرپورٹ پر کوئی ناکوئی رحمدل اور ہمدرد انسان مل ہی جاتا تھا۔ جو خوشی خوشی سامان اٹھانے میں ہماری مدد کرتا۔ کئی بار سوچا کیا ضرورت تھی اس سوٹ کیس کو ساتھ رکھنے کی اچھا ہوتا دوسرے سامان کے ساتھ بھیج دیتے مگر خیر اب کیا ہوسکتا تھا۔ ہم نے اس تعاون کے لئے اسمارا کا شکریہ ادا کیا۔
”اسمارا! تمہارا بہت شکریہ،ورنہ ائیرپورٹ پر کوئی کسی کے لئے رکتا نہیں ہے اور کسی کا سامان اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہینڈ کیری اتنا بھاری ہے کہ ہم سے اٹھایا نہیں جاتا۔ اب اسے ساتھ لانابھی ضروری تھا۔”
ہم نے ممنونیت سے کہا۔
کو”ئی بات نہیں ۔اتنا تو ہم ایک دوسرے کے لئے کر ہی سکتے ہیں”وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
”ترکی کے سفر میں ہم ساتھ رہے مگر ہمیں آج تمہاری خوبیوں اور اچھائیوں کا اندازہ ہوا ہے نیک اور رحمدل لڑکی خو ش رہو۔”
ہم نے دلی جذبات کا اظہار کیا۔
وہ ہنس دی۔
جن لوگوں نے عمر ے کے لئے جانا تھا ۔ وہ عمرہ کرنے چلے گئے۔ ہم وسیع و عریض ہال میں آگئے۔ جہاں بہت رش تھا۔ مسافر کرسیوں پر بیٹھے تھے اور اپنی فلائٹ کا انتظار کررہے تھے صد شکر کہ ہمیں بیٹھنے کے لئے کرسیاں مل گئیں۔ رات کا وقت تھا۔ میں نے ساتھ والی کرسی پر ہینڈ کیری رکھ دیا اور اسے تکیہ بنالیا اور دو کرسیوں پر لیٹ گئی۔ سوچا کچھ دیر آرام کرلیا جائے۔
اسمارا سے کہا کہ وہ بھی سوجائے۔
”نیند آئے گی تو سوجائوں گی۔”
وہ اطمینان سے بولی۔
جدہ سے لاہو رکی ہماری فلائٹ صبح تھی۔ رات ہم نے ائیرپورٹ پر ہی گزارنی تھی۔ ساری رات کرسی پر بیٹھ کر بھلا کیا کرتے، سوچاکچھ دیر آرام کرلیتے ہیں۔ ہم صبح کے انقرہ سے نکلے ہوئے تھے۔ کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد شام کوہم استنبول پہنچے تھے۔ پھر ائیرپورٹ پر بورڈنگ اور چیکنگ میں مصروف ہوگئے۔
وسیع و عریض ائیرپورٹ پر چلتے رہے۔ پھر کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد استنبول سے جدہ آئے۔ تھکاوٹ ہوگئی تھی۔ صبح سے سفر میں تھے، اب رات ہوگئی تھی۔ ایک نظر اِدھر اُدھر دیکھا۔ مختلف سمتوں میں ہمارے گروپ ممبرز کرسیوں پر بیٹھے نظر آئے۔





اسمارا ہماری ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔
”تمہاری دوست رمشہ اپنی والدہ یاسمین مشتاق اور بھائی طلحہ کے ساتھ عمرہ کرنے چلی گئی ہے۔ تم اب میرے ساتھ ہی رہنا۔ پردیس میں ہم وطن بہت اچھے دوست بن جاتے ہیں۔”
میں نے اسمارا سے کہا۔
”جی ہاں۔ ہمارا سفر بہت اچھا گزرا۔ ہمسفر اچھے دوست بن جایا کرتے ہیں۔ اس سفر سے پہلے ہم لوگ ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے مگر اس سفر نے ہمیں محبت اپنائیت اور دوستی کے رشتے میں باندھ دیا۔ یوں تو میں BDSکی پڑھائی میں بہت مصروف رہتی ہوں۔ چھٹیوں میں ہی سیرو تفریح کے پروگرام بنتے ہیں۔ ہماری پڑھائی کی روٹین اتنی ٹف ہے کہ ہم لوگ چھٹیوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ رمشہ ترکی جارہی تھی تومیں بھی اس کے ساتھ آگئی۔”
اسمارا نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
ہم کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔
رات کے اس پہر بھی ائیرپورٹ کے ہال میں گہما گہمی تھی۔ دکانیں کھلی تھیں اور اسٹاف کے لوگ چاک و چوبند تھے۔ پھر میں کچھ دیر کے لئے سوگئی۔
نیند آئی ہو اور انسان تھکا ہوا ہو تو وہ ائیرپورٹ کی کرسیوں پر بھی سوسکتا ہے۔
صبح سویرے میری آنکھ کھلی۔ اسمارا کرسی پر سو رہی تھی۔
میں گروپ کے باقی لوگوں کو دیکھنے کے لئے Prayer Room میں چلی آئی وہاں میری ملاقات زینب اور شہلا سے ہوئی۔ ان کے ساتھ میں نے ناشتا کیا۔ہماری فلائٹ میں ابھی کافی وقت تھا۔ کچھ ڈالرز پرس میں پڑے ہوئے تھے۔ سوچا کہ اب واپس جا ہی رہے ہیں تو بچے ہوئے پیسے خرچ کرلیتے ہیں ہم نے چائے اور بن خریدے اور Prayer Room میں بیٹھ کر اطمینان سے ناشتہ کیا۔ بہت سے لوگ ابھی سو رہے تھے۔ پھر میں رنگ برنگی چیزوں سے سجی ڈیوٹی فری شاپ میں چلی آئی جو صرف نام کی ہی ڈیوٹی فری شاپ تھی، قیمتیں اتنی زیادہ اور بے حد مہنگی چیزیں تھیں۔
میں نے وہاں سے کچھ شاپنگ کی اور بچوں کے لئے چاکلیٹس خریدیں اور کچھ دیر یونہی مختلف چیزیں دیکھتی رہی سوچا اس طرح وقت گزر جائے گا۔
میں واپس آئی تو دیکھا کہ اسمارا اٹھ چکی تھی اور کرسی پر بیٹھی کافی پی رہی تھی۔
”اٹھ گئی ہوا ناشتا کرلو۔ وہاں سامنے سے ناشتے کے آئٹمز مل رہے ہیں۔”
میں نے کہا۔
”بس میں نے کافی لے لی ہے۔ جہاز میں ناشتا کرلوں گی۔ فلائٹ میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا ہے۔”
رات میں کس ٹائم سوگئی تھی پتا ہی نہیں چلا۔ نیند آئی ہو تو انسان کرسی پر بیٹھے بیٹھے بھی سوسکتا ہے۔”
اس نے کافی پیتے ہوئے کہا۔
سوئے ہوئے لوگ اٹھ گئے تھے۔ کچھ ناشتے والے کائونٹر پر کھڑے تھے، کچھ ڈیوٹی فری شاپ کی طرف جارہے تھے۔ ماحول میں ہلچل سی مچ گئی۔
ہم ائیرپورٹ پر دیگر مسافروں سے بھی بات چیت کرتے رہے۔ بہت سے لوگ عمرہ کرنے انڈیا سے آتے تھے۔ انڈیا سے آئے لوگ ہمیں بہت سادہ سے لگے۔ سادہ لباس، سادہ انداز اور سادہ سامان، ان کے اردو بولنے کا انداز اور لہجہ مختلف تھا۔ کچھ لوگ Morrocco سے بھی آئے ہوئے تھے۔
کچھ دیر بعد ہماری فلائٹ کی انائونسمنٹ ہوئی تو ہم لوگ قطار میں کھڑے ہوگئے۔
اور قطار کی صورت میں ہی ہم باہر نکلے اور جدہ سے لاہور جانے والے جہاز پر سوار ہوگئے۔
میرے ساتھ ایک خاتون اپنی چھوٹی بچی کے ساتھ بیٹھی تھیں۔
ان کے شوہر سعودی عرب میں ملازمت کرتے تھے، وہ ان سے ملنے کے لئے آئی تھیں اور اب اپنی بچی کے ساتھ واپس پاکستان جارہی تھیں۔ روزگار کی خاطر پردیس میں رہنے والے پاکستانیوں کی بھی اک الگ داستان تھی۔ سفر میں اس خاتون کے ساتھ ہم گفتگو کرتے رہے۔
جہاز میں زیادہ تر عمرہ زائرین تھے جو عمرہ کرنے کے بعد پاکستان جارہے تھے اور بے حد خوش تھے۔ ہم بھی بے چینی سے لاہور آنے کا انتظار کررہے تھے۔ جہاز کے ائیرہوسٹس تھوڑی بہت اردو بھی سیکھ گئے تھے ، بلکہ انہیں تو پنجابی بھی آتی تھی۔ انگریزی نا سمجھنے والے لوگوں سے پنجابی میں پوچھ لیتے کہ مرغی چاہیے یا مچھلی چاہیے۔
ہم نے جہاز میں کھانا کھایا۔ جوس پیے، اور سعودی ائیر لائنز کی سروس سے خوب متاثر ہوئے۔ تھکن کے باوجود ہم خوش تھے کہ اپنے شہر لاہور جارہے ہیں۔ ذہن میں ترکی کی خوبصورت یادیں تھیں اور دل میں اطمینان تھا۔ لاہور سے ہماری محبت مثالی تھی۔
بلکہ مجھے لاہور شہر سے عشق تھا اور یہ محبت مجھے اپنی والدہ سے ورثے میں ملی تھی۔
جب ابو فوج سے ریٹائر ہوئے تو انہیں ایک سال کے لئے ٹیکسلا کینٹ میں گھر ملا تھا مگر ابو نے سامان سمیٹ لیا اور لاہور آنے کی تیاری کرنے لگے۔ لوگوں نے روکا بھی کہ آپ ایک سال کے لئے اس گھر میں رہ سکتے ہیں۔ اتنی جلدی لاہور جانے کی کیا ضرورت ہے، ابو بولے کہ کیا کرنا ہے یہاں رہ کر، برسوں نوکری کی وجہ سے ہم مختلف شہروں میں رہے ہیں۔ اب لاہور سیٹل ہونا چاہتے ہیں۔ پھر ابو وہاں رُکے نہیں، سامان پیک کروا لیا اور ایم ای ایس کا سامان انہیں ہینڈ اوور کردیا، جس کی رسید آج بھی ابو کے بریف کیس میں پڑی ہے۔ وہ چیزیں سنبھالنے والے آدمی تھے۔ ان کے بریف کیس میں برسوں پرانے کاغذات ، رسیدیں ، خطوط ۔ حتیٰ کہ دو روپے اور پانچ روپے کے پرانے نوٹ بھی سنبھال کررکھے ہوتے تھے۔ پھر ہم لاہور آگئے۔ امی ابو خوش تھے۔ میں شادی کے بعد راولپنڈی آگئی۔ میاںکے تبادلے کی وجہ سے میں مختلف شہروں میں رہی مگر ہر شہر میں لاہور کی رونقیں ڈھونڈتی رہی۔ ہر شہر مجھے پرایا لگتا۔ میاں کو پنڈی سے انس تھا وہ وہیں خوش رہتے۔ میں پنڈی اور اسلام آباد کے سنجیدہ لوگوں میں لاہوریوں کی خوش مزاجی تلاش کرتی۔ اس جستجو نے مجھے تھکادیا۔ کسی نئے شہر میں نئے دوست اور نیا حلقہ ٔ احباباب بنانا مشکل ہوتا ہے جب آپ کو لوگوں کے رویوں اور عادات کے متعلق بھی زیادہ علم نہ ہو۔





Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 7

Read Next

دیارِ خلیل – فرحین خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!