جناح کا وارث — ریحانہ اعجاز
سارا گھر برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا ۔ مسٹر اور مسز احسن کے چہرے بھی خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔ آج علینہ کی دسویں
سارا گھر برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا ۔ مسٹر اور مسز احسن کے چہرے بھی خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔ آج علینہ کی دسویں
رات کی سیاہی صبح کے اجالوں سے جدا ہورہی تھی۔ روشن بیگم نے نماز پڑھنے کے بعد مٹی کے کٹورے میں پانی بھر کر رکھا
جبرل نیند سے فون کی آواز پر ہڑبڑا کر اٹھا تھا۔ اسے پہلا خیال ہاسپٹل کا آیا تھا لیکن اس کے پاس آنے والی وہ
مریم نے آفس کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ صبح کی تیز بارش، اب ہلکی سی پھوار کی شکل دھار چکی تھی۔ امریکا کے شہر
اوول آفس سے ملحقہ ایک چھوٹے سے کمرے میں پروٹوکول آفیسر کی رہنمائی میں داخل ہوتے ہوئے سالار سکندر کے انداز میں اس جگہ سے
امامہ کے لئے کیرولین کی فون کال ایک سرپرائز تھی۔ اس نے بڑے خوشگوار انداز میں اس سے بات چیت کرتے ہوئے امامہ کو اس
محبت کسی تتلی کے مانند اس کے دل سے اڑ گئی تھی یا شایدکسی غبارے سے ہوا کی طرح نکل گئی تھی۔ وہ شخص جو
’’بہو! او بہو، کہاں مر گئی ہے؟‘‘ زینب رشتے والی نے کمرے سے ہانک لگائی۔ اس وقت وہ شیشے کے سامنے تیار ہو رہی تھی۔اس
گرینڈ حیات ہوٹل کا بال روم اس وقت Scripps National Spelling Bee کے 92 ویں مقابلے کے دو فائنلسٹس سمیت دیگر شرکاء ان کے والدین،
ہر انسان اس زندگی میں اپنے حصے کی خوشیاں اور غم لے کر آتا ہے۔ وہ چاہے کوئی کتنا ہی خوش نصیب کیوں نہ ہو،
Alif Kitab Publications Dismiss