من و سلویٰ کا بنیادی موضوع رزق حلال ہے۔ بنی اسرائیل پر نازل کی جانے والی نعمتوں میں سے ایک من و سلویٰ تھی۔ من ایک میٹھی دانے دار شے تھی جو آسمان سے رات کو شبنم کی طرح گر کر جم جاتی۔ سلویٰ ایک بٹیر تھا جو کثیر تعداد میں ان کے علاقے میں آتا اور وہ اسے پکڑ کر کھاتے۔ بنی اسرائیل چالیس سال تک جلا وطنی کے دور میں یہ آسمانی رزق کھاتے رہے پھر اس رزق پر اعتراض کرتے ہوئے حضرت موسیٰ سے ”زمینی رزق” کا مطالبہ کرنے لگے۔ وہ اس ”پاکیزہ سادہ کھانے” کے بجائے انواع و اقسام کے کھانے چاہتے تھے۔
مجھے من و سلویٰ کے بارے میں پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ بنی اسرائیل کے ”من و سلویٰ” اور ہمارے ”رزق حلال” میں بہت مماثلت ہے۔ وہ ”پاکیزہ سادہ کھانا” تھا۔ یہ ”پاکیزہ سادہ رزق” ہے۔ دونوں کا حصول بے حد آسان ہے مگر بنی اسرائیل کے لیے من و سلویٰ پر انحصار کرنا اور ہمارے لیے رزق حلال پر جینا مشکل ہے۔ وہ بنی اسرائیل کی سوچ تھی، یہ ہماری سوچ ہے۔ وہ من و سلویٰ سے ”ناخوش” تھے اور اس کا ”مذاق” اڑاتے تھے۔ ناشکری کرتے تھے۔ ہم کو رزق حلال ”پسند” نہیں ہے اور ہم اس پر ”اعتراض” کرتے ہیں۔ انہیں زمین سے اگنے والا انواع و اقسام کا رزق چاہیے تھا۔ ہمیں شارٹ کٹ سے کم وقت میں بہت زیادہ پیسہ چاہیے۔
بنی اسرائیل کی قوم کہتی تھی کہ موسی کا رب ”کنجوس” ہے جس کے پاس ان کے لیے من و سلویٰ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ہم آج یہ سمجھتے ہیں کہ ”ہمارا خدا” ہمیں رزق حلال کے علاوہ کچھ نہ دے کر ”تنگ” کر رہا ہے۔ بنی اسرائیل اپنی اس سوچ اور ناشکری کی وجہ سے مغضوب ہوئی اور ہم…
یقینا ہم مغضوب ہونا نہیں چاہتے۔ بنی اسرائیل کے ساتھ من و سلویٰ کے معاملے میں نظر آنے والی یہ مماثلت افسوس ناک ہے، شرم ناک ہے یا ہولناک، اس کا فیصلہ ہم سب اپنی اپنی جگہ پر کر سکتے ہیں۔
اور آخر میں بس ایک بات…
من و سلویٰ کوئی اسلامی کہانی نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی اسلامک اسکالرلی فکشن ہے۔ ایک ایشو کے بارے میں میری ذاتی رائے ہے جو بالکل غلط بھی ہو سکتی ہے۔ میرا علم ناقص ہے، میری عقل محدود اور مجھے ان دونوں پر کوئی گمان نہیں مگر میری نیت میں کوئی خرابی نہیں اور میں اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں۔
تو ”من و سلویٰ” حاضر ہے۔
عمیرہ احمد
One Comment
Nice