”شہیر بس کے انتظار میں بس اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ جب ایک سیاہ نسان یک دم اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ شہیر نے گاڑی کے اندر جھانکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ گاڑی کسی اور کو دیکھ کر رکی ہے۔ بس اسٹاپ پر اور بھی بہت سے لوگ تھے۔ تب ہی ڈرائیونگ سیٹ پر موجود عورت نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا اور باہر جھانکتے ہوئے شہیر کو مخاطب کیا۔
”ہیلو شہیر!” شہیر نے چونک کر اسے دیکھا۔ سیاہ چشمہ لگائے وہ عورت مسکراتے ہوئے کھڑکی سے گردن باہر نکالے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے اس کا چہرہ شناسا لگا مگر وہ فوری طور پر اسے پہچان نہیں پایا۔ قدرے الجھی ہوئی نظروں سے وہ اسے دیکھنے لگا۔
”آؤ۔ کہاں جانا ہے؟ میں ڈراپ کر دیتی ہوں۔” شائستہ نے اس کے تاثرات پر غور کیے بغیر کہا۔
”سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں؟ شہیر نے جواباً وہیں کھڑے رہنے کے بجائے چند قدم آگے بڑھ کر شائستہ سے کہا۔ اس کے جملے پر شائستہ نے اپنا چشمہ اتار لیا۔
”اوہ ۔ مسز ہارون کمال۔” شہیر کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ وہ اسے پہچان گیا تھا۔ شائستہ بے ساختہ مسکرائی۔
”مجھے خوشی ہوئی تم نے مجھے پہچان لیا۔” اس نے بڑی بے تکلفی کے ساتھ دوسری طرف کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ ”آؤ بیٹھو میں ڈراپ کر دیتی ہوں۔” اس کی بے تکلفی نے شہیر کو دنگ کر دیا۔
”نہیں شکریہ مسز ہارون! میری بس آنے والی ہے میں چلا جاؤں گا۔”
”کم آن۔ اتنے تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ڈراپ کر دوں گی۔” شائستہ نے اصرار کیا۔
”آپ کو زحمت ہو گی۔”
”نہیں ہو گی۔ میں اسی طرف جا رہی ہوں۔ آؤ بیٹھو۔” شائستہ نے اس کی بت کاٹتے ہوئے کہا۔ وہ پوچھ نہیں سکا کہ کس طرف’ آخر وہ کیسے جانتی تھی کہ وہ کس طرف جا رہا تھا۔
اس نے مزید کوئی سوال کرنا مناسب نہیں سمجھا بس اسٹاپ پر کھڑے سارے لوگ بڑی دلچسپی سے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہے تھے۔
وہ فٹ پاتھ سے اتر کر دوسری طرف سے ہوتے ہوئے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ مگر اس کا ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا۔
”کہاں جانا ہے تمہیں؟” شائستہ نے مسکراتے ہوئے گلاسز دوبارہ آنکھوں پر چڑھائے اور گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے شہیر سے پوچھا۔ اس نے چونک کر شائستہ کی طرف دیکھا۔ کچھ دیر پہلے وہ کہہ رہی تھی کہ وہ جانتی ہے اسے کس سمت جانا ہے اور اب وہ اس سے راستہ پوچھ رہی تھی۔
شائستہ اس کے تاثرات سے جیسے اس کا سوال جان گئی۔ اس لئے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”بھئی وہ تو میں نے ایسے ہی کہہ دیا تھا کہ میں بھی اسی طرف جا رہی ہوں ورنہ مجھے کیا پتہ کہ تمہیں کس طرف جانا ہے۔”
”میں نے اسی لیے آپ سے کہا تھا کہ آپ کو زحمت ہو گی۔ یہاں سے میرے آفس کا فاصلہ بہت زیادہ ہے۔” شہیر نے قدرے سنجیدگی سے شائستہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ وہ اسے سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
”اوہ آفس جانا ہے۔ اس وقت کس لیے’ اب تو شام ہو رہی ہے؟” شائستہ نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”میں پارٹ ٹائم کام کرتا ہوں وہاں۔”
شہیر نے اسے اپنی کمپنی کا نام بتایا’ شائستہ کے یکے بعد دیگرے سوالات اسے اور الجھا رہے تھے۔
”اور معراج ظفر کی کمپنی میں کام کرتے ہو تم۔” شائستہ نے کمپنی کا نام سنتے ہی اس کے سی۔ ای کا نام لیا۔ شہیر کی سنجیدگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”میرے بہت اچھے دوست ہیں وہ۔” شائستہ نے مزید کہا۔ شہیر جواباً خاموش رہا۔
”اچھا آدمی ہے۔” شائستہ نے تبصرہ کیا۔
”ہاں۔” شہیر نے یک حرفی جواب دیا۔ گاڑی میں کچھ دیر خاموشی رہی پھر شائستہ نے کہا۔
”کہاں رہتے ہو تم؟” شہیر نے اسے اپنے گھر کا پتا بتایا۔
”کب سے رہ رہے ہو وہاں؟”
”بہت عرصے سے۔”
”کتنے عرصے سے؟” شائستہ جیسے بال کی کھال اتار رہی تھی۔
”سولہ’ سترہ سال سے۔”
”اور اس سے پہلے کہاں رہتے تھے؟”
”پتہ نہیں۔ امی کو پتا ہو گا۔ میں نہیں جانتا۔” شہیر نے ہموار انداز میں کہا۔
”کتنی عمر ہے تمہاری؟” شہیر نے گردن موڑ کر شائستہ کو دیکھا وہ اس کے سوالوں کی نوعیت سمجھنے سے قاصر تھا۔
”بائیس سال۔” اس بار شائستہ نے کچھ نہیں کہا۔ وہ چپ چاپ گاڑی ڈرائیو کرتی رہی۔ شہیر نے اس کے سوالات ختم ہو جانے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ مگر اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔
”تمہارے فادر کیا کرتے ہیں؟” شائستہ نے اگلے ہی لمحے سوال کیا۔
”میں نے پچھلی ملاقات میں آپ کو بتایا تھا۔” شہیر نے اسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔ شائستہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”ہاں کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ جب وہ زندہ تھے تب کیا کرتے تھے؟”
”وہ بھی ٹیچر تھے۔”
”ان کی ڈیتھ کو کتنا عرصہ ہو گیا ؟”
”مجھے یاد نہیں۔”
شائستہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”کیوں؟”
”میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی ان کی ڈیتھ ہو چکی تھی۔” شہیر نے سنجیدگی سے کہا۔ شائستہ کے سوال اب اسے جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رہے تھے۔
”کتنے بہن بھائی ہو تم لوگ ؟” شائستہ جیسے خاموش نہ رہنے کا تہیہ کئے ہوئے تھی۔
”تین ۔ دو بھائی اور ایک بہن۔ آپ تینوں سے مل چکی ہے۔” شہیر نے ایک بار پھر جیسے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
”ارے ہاں۔ تمہاری بہن سے بھی تو اس دن ملی تھی۔ پی سی کی لابی میں۔” شائستہ نے مسکرانے کی کوشش کی ”مگر زیادہ بات نہیں ہوئی اس سے۔ کتنا چھوٹا ہے ثمر تم سے ؟”
”ثمر اور ثانی جڑواں ہیں۔”
”اوہ۔” شائستہ نے کہا۔ ”مجھے اندازہ کر لینا چاہیے تھا۔ دونوں کی شکلیں آپس میں بہت ملتی ہیں۔ شائستہ نے کہا۔ شہیر کو اس کا لہجہ بہت کھوکھلا لگا۔
”اس کا مطلب ہے کہ تمہاری مدر نے تم لوگوں کی پرورش اکیلے ہی کی ہو گی۔ یا پھر تمہارے فادر یا مدر کی فیملی نے بھی تم لوگوں کو سپورٹ کیا؟”
اس نے ایک بار پھر بے حد عجیب سوال کیا۔ شہیر اب ان سوالوں سے مکمل طور پر بیزار ہو چکا تھا۔
”میری امی یا ابو کی فیملی سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ان دونوں کی فیملی زیادہ بڑی نہیں تھی اور جو چند لوگ ہیں بھی وہ بہت دور رہتے ہیں۔ امی نے اکیلے ہی ہماری پرورش کی ہے۔”
وہ جواب دیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اور اب اسے ثمر پر بے حد تاؤ آ رہا تھاجس کی وجہ سے وہ ساتھ بیٹھی ہوئی عورت سے متعارف ہوا تھا۔
”تمہاری شکل کس سے ملتی ہے۔ اپنی ممی سے یا فادر سے ؟”شہیر کو اندازہ نہیں تھا وہ اب اس طرح کے بچکانہ سوالوں پر اتر آئے گی۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا ان ”بچکانہ” سوالوں کے ذریعے شائستہ کیا جاننے کی کوشش کر رہی تھی۔
”میں نے اپنے ابو کو نہیں دیکھا۔ میری شکل امی سے ہی ملتی ہے۔” شہیر نے اس بار الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے سردمہری سے کہا۔
”آپ مجھے یہاں اتار دیں۔ میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔ مجھے یہاں کام بھی ہے۔” اس سے پہلے کہ شائستہ اس سے مزید کچھ پوچھتی شہیر نے اس سے کہا۔
”مگر تمہیں تو آفس جانا تھا؟” شائستہ نے کہا۔
”ہاں۔ مگر اس سے پہلے مجھے یہاں ایک دوست سے ملنا ہے۔ آفس یہاں سے تو قریب ہی ہے میں پیدل چلا جاؤں گا۔” شہیر نے بہت مہذب لہجے میں کہا۔ ”آپ پلیز گاڑی یہاں روک دیں۔”
اس نے ایک سائن بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شائستہ نے اس بار کچھ نہیں کہا’ اس نے خاموشی کے ساتھ گاڑی شہیر کی بتائی ہوئی جگہ پر روک دی۔
”آپ کا بہت شکریہ۔” شہیر نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ ”آپ نے میرے لیے خاصی زحمت اٹھائی۔”
”کیسی زحمت؟” شائستہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”میں نے تمہیں بتایا تو تھا میں پہلے ہی اسی طرف آ رہی تھی۔”
شہیر نے قدرے عجیب سی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ گاڑی سے اترتا۔ شائستہ نے اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔ ”تم سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔”
شہیر اس کے جملے کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ اس نے بہت حیرانی سے اپنے کندھے پر رکھے اس کے ہاتھ کی طرف دیکھا۔ شائستہ اس کی نظروں میں کچھ اور نیچے آئی تھی۔ مزید کچھ کہے بغیر وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر گیا۔ اس نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ شاید پیچھے مڑ کر دیکھ لیتا تو شائستہ کے چہرے کے تاثرات اسے اور حیران کرتے۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر دور جاتے ہوئے شہیر کو دیکھ رہی تھی۔ وہ سڑک پار کرنے کے بعد اب دوسری طرف فٹ پاتھ پر آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
٭٭٭
”تم کہیں جا رہی ہو؟” منیزہ نے اس صبح امبر کو تیار ہوتے دیکھ کر پوچھا۔
”ہاں!” اس نے اپنے کپڑے پریس کرتے ہوئے کہا۔
”کہاں جا رہی ہو؟”
”مارکیٹ تک۔” امبر نے مختصر جواب دیا۔ اس کی پوری توجہ اپنے کپڑوں پر تھی۔
”کچھ خریدنا ہے تمہیں ؟”
”اگر میں مارکیٹ جا رہی ہوں تو ظاہر ہے کچھ خریدنے کے لیے ہی جا رہی ہوں۔” اس نے یک دم سر اٹھا کر منیزہ کو دیکھا۔
”اب آپ پوچھیں گی کہ مجھے کیا خریدنا ہے۔” اس کے انداز میں ہلکی سی ناگواری تھی۔ ”اور پھر کہیں گی کیوں خریدنا ہے۔ صبغہ تو ہر روز صبح جاتی ہے آپ اس سے تو اتنے لمبے چوڑے سوال نہیں کرتیں۔” اس نے جیسے منیزہ سے شکوہ کیا۔
”صبغہ جاب کی تلاش کے لیے مختلف جگہوں پر انٹرویو دینے جاتی ہے۔” منیزہ نے جواباً کہا۔ ”اور پھر گھر کے سامان کے لیے بھی اسے ہر روز کہیں نہ کہیں جانا پڑتا ہے۔”
امبر نے منیزہ کی بات کاٹ دی۔ ”اور میں آوارہ گردی کے لیے جا رہی ہوں’ آپ یہی کہنا چاہتی ہیں؟”
”میں نے یہ کب کہا ہے۔” منیزہ کچھ گڑبڑائیں۔
”آپ ابھی یہی کہنے والی تھیں۔”
”میں ایسا کچھ نہیں کہنے والی تھی۔ تم تیار ہو جاؤ۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں۔”
امبر کپڑے پریس کرتے ہوئے رک گئی اور اس نے سر اٹھا کر ناراضی سے منیزہ کو دیکھا۔
”آپ صبغہ کے ساتھ ہر روز جاتی ہیں؟”
”نہیں مگر …” امبر نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”اگر آپ اس کے ساتھ نہیں جاتیں تو پھر میرے ساتھ کیوں جا رہی ہیں؟”
”تم کو اکیلے آنے جانے میں دقت ہو گی۔”
”پہلے بھی تو میں ہر جگہ اکیلے جاتی تھی۔”
”پہلے کی بات اور تھی۔ پہلے گاڑی ہوتی تھی اب تمہیں اس کے بغیر جانا ہے۔”
”میں جاسکتی ہوں’ اور میں اکیلے ہی جاؤں گی۔”
منیزہ کچھ دیر قدرے بے بسی سے اسے دیکھتی رہیں۔ ”اور واپس کب آؤ گی؟”
امبر کچھ دیر کے لئے جیسے کسی سوچ میں ڈوب گئی۔
”واپس؟ میں جلدی واپس آ جاؤں گی۔ ایک گھنٹہ ۔ نہیں دو تین گھنٹے یا پھر اس سے کچھ زیادہ۔” وہ کچھ سوچتے ہوئے الجھے انداز میں بار بار اپنی تصحیح کرتی رہی۔ منیزہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے خاموش ہو گئیں۔
تیار ہونے کے بعد گھر سے نکلنے سے پہلے امبر نے اپنا بیگ کھول کر اندر سے والٹ نکالا اور اس میں موجود ایک وزیٹنگ کارڈ نکال کر کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔ پھر کارڈ واپس والٹ میں رکھ کر اس نے بیگ میں رکھ دیا۔ تب اس کا ہاتھ بیگ کے اندر پڑی کسی چیز سے ٹکرایا۔ اس نے مسکراتے ہوئے اسے باہر نکال لیا۔ وہ ایک ڈائمنڈ ٹائی پن تھی۔
گھر سے باہر نکل کر محلے کی گلیوں میں سے گزرتے ہوئے یک دم اسے احساس ہوا کہ وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہی تھی۔ اس کی خوبصورتی’ اس کا رکھ رکھاؤ’ اس کا لباس’ اس کا انداز۔ اور سب سے بڑھ کر سر کو ڈھانپنے کے بجائے گلے میں لاپروائی سے لٹکایا ہوا دوپٹہ اسے اس وقت وہاں سب سے ممتاز کر رہا تھا۔ یا پھر شاید کسی حد تک عجیب بنا رہا تھا۔ وہ کسی بھی طرح اس محلے میں رہنے والی دیگر عورتوں کی طرح نہیں لگ رہی تھی۔ اور دس منٹوں میں اس نے جن گلیوں کو پار کیا تھا۔ وہاں چلتے پھرتے مردوں کی زبانوں پر اس کا نام نہیں مگر تذکرہ ضرور آ گیا تھا۔ وہ وہاں سے گزرتے ہوئے ہر جگہ اپنا تعارف چھوڑتی جا رہی تھی۔
صبغہ بہت سی باتوں کے بارے میں ایک عام لڑکی کے مقابلے میں زیادہ سمجھ دار اور حساس تھی۔ اس نے اس محلے میں آنا جانا شروع کرتے ہی نہ صرف اپنے لباس اور حلیے مناسب تبدیلی کر لی تھی’ بلکہ وہ دوپٹے سے باقاعدہ طریقے سے سر ڈھانپنے لگیتھی۔ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہاں انہیں عام طور پر اور اسے خاص طور پر کتنے مسائل کا سامنا ہو سکتا تھا۔ مگر وہ امبر کو اس بارے میں بتا نہیں سکی۔ یا پھر شاید اسے ابھی یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ امبر اس طرح ایک دن اچانک اس کی عدم موجودگی میں گھر سے نکل پڑے گی۔ اسے اندازہ ہوتا تو وہ امبر کو بھی ان تمام باتوں کے بارے میں کسی نہ کسی حد تک خبردار ضرور کر دیتی۔
اور اب امبر جب اپنے پرانے حلیے میں اسی لاپروائی کے ساتھ وہاں سے گزر رہی تھی تو وہ وہاں موجود مردوں کی نظروں کو اپنے وجود کو اندر چھیدتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ اور ایسا کیوں تھا وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
وہ اس دن ہارون کمال کو فون کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلی تھی۔ انہیں وہاں اس گھر میں منتقل ہوئے دو ہفتے ہو گئے تھے۔ اگرچہ منیزہ نے اسے ہارون کمال کی بیرون ملک روانگی اور قیام کے بارے میں بتایا تھا اس کے باوجود امبر اسے فون کرنے کے لیے چلی آئی تھی۔ اسے ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید وہ بیرون ملک سے جلد واپس آ گیا ہو۔ ہارون کمال کی ٹائی پن اس کی زندگی کا جزولانیفک بن گئی تھی۔ وہ زیادہ تر وقت اسے دیکھتے ہوئے گزار دیتی ٹائی پن میں لگا ہوا ہیرا اس کی زندگی میں ایک عجیب سی روشنی لے آیا تھا۔ اس کا ذہن مستقل طور پر ہارون کمال سے ہونے والی اس ملاقات کے بارے میں سوچتا رہتا’ طلحہ یک دم کسی کھائی میں جا گرا تھا۔
اس علاقے سے بہت دور ایک سپرمارکیٹ میں جا کر اس نے ایک فون بوتھ سے ہارون کے موبائل پر اسے کال کیا۔ موبائل کی بیل بجنے لگی۔ امبر کا دل بے اختیار دھڑکنے لگا۔ یعنی اس سے بات ہو سکتی تھی۔ مگر یہ بھی ممکن تھا کہ اس کے بجائے اس کی بیوی یا کسی اور سے بات ہو۔ ایک امید نے اس کا دل دھڑکا یا تو ایک خدشے نے اس کا دل دہلایا۔
چند باربیل بجنے کے بعد کسی نے کال ریسیو کی تھی۔ دوسری طرف سے ہارون کمال ہی کی آواز ابھری تھی۔
”ہیلو !” امبر کو لگا جیسے اس کا دل یک دم اچھل کر حلق سے باہر آ گیا ہو۔