گل موہر اور یوکلپٹس

حنین کے ذہن پر جنید سے ہونے والی ملاقات اور اس کی باتوںکا اس قدر شدیداثر ہواکہ وہ رات گئے اپنے بستر پر لیٹی کتنی ہی دیر اس کے متعلق سوچتی اور بے چینی کے ساتھ پہلو بدلتی رہی۔ جب تنگ آ گئی تو نظر کا چشمہ چڑھائے اپنی سٹڈی ٹیبل پر جا بیٹھی اور لیپ ٹاپ پر تقریباً دو گھنٹے کی انٹرنیٹ سرفنگ کی مدد سے Autism کے متعلق مختلف آرٹیکل تلاش کرکے پڑھتی رہی۔رات کے پچھلے پہر نیند سے ہارنے سے پہلے وہ Autism کے متعلق تقریباً تمام ضروری معلومات حاصل کر چکی تھی کہ عصبی رویے کی حامل ایک پیچیدہ بیماری Autism کا ماخذ یونان کو سمجھا جاتا ہے جس کی ابتدائی علامات بچپن میں عموماً تین برس کی عمر میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں، لڑکیوںسے پانچ گنا زیادہ تعداد میں لڑکے اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک autistic بچہ عموماً بہت تنہائی پسند ہوتا ہے، سب میں گھلنے ملنے،تعلق قائم کرنے،گفتگوواظہارکرنے اور دوسروں کی بات سمجھنے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنے الفاظ بار بار دہرا کر گفتگو کرتاہے،خود کلامی کا عادی ہوتا ہے، حقیقت سے زیادہ خود ساختہ تخیلاتی دنیا میں رہتا ہے،چندمخصوص چیزوں کے ساتھ اس کی وابستگی بہت غیر معمولی اور گہری ہوتی ہے جس کی ایک تہائی تعداد الفاظ سے زیادہ اشاراتی یا علامتی گفتگو پر مشتمل ہوتی ہے، Autism کے شکار لوگوں کوتعلیم دینے کے لیے مخصوص اسکول اور اساتذہ کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ عام اسکولوں میں نہیں پڑھ سکتے، Autism کے شدید ترین درجے کے لوگ درد، اشارے، آوازیں، لمس، سونگھنے اور کبھی کبھی درست انداز میںدیکھنے کی صلاحیت سے بھی جزوی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں،چیزوں اور اردگرد کے ماحول کی طرف آسانی سے متوجہ نہیں ہو پاتے۔ اکثر کم خوابی کا شکار رہتے ہیں، تیز آوازوں سے بہت جلد گھبرا جاتے ہیں، اکثرچیزوں کی نوعیت،سمت اور رفتار کا صحیح اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو زخمی تک کر بیٹھتے ہیں، ان کی چند مخصوص عادات میں چیزوں کو ایک قطار اور ترتیب میں لگانا شامل ہوتی ہیں۔اس کے باوجود اس بیماری کے شکار لوگ بعض معاملات میں حیرت انگیز حد تک با صلاحیت اورغیر معمولی ہو سکتے ہیں۔ چیزوں ، واقعات، لوگوں کو یادرکھنے ، کسی فن میں مثلاً آلاتِ موسیقی استعمال کرنے ، پینٹنگ کرنے اور اسکیچ بنانے اورگنجلک حسابی سوال منٹوں میں حل کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔وہ کچھ مخصوص لوگوں، باتوں اور چیزوں کو کبھی نہ بھولنے کے معاملے میں عام لوگوں سے کہیں زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔ دنیا میں تقریباً بائیس میلین لوگوں میں مبتلا ایک تہائی Autistic لوگ اٹھارہ برس کی عمر میں مکمل توجہ،مخصوص تعلیم و تربیت، بروقت تشخیص اور علاج کے باعث تقریباً نارمل بھی ہو جاتے ہیں۔ ایک آرٹیکل میں یہ جاننے کے بعد کہ مشہور ہالی ووڈ فلم Rain Man ؒ جس نے چار آسکر ایوارڈ جیتے تھے اس فلم کا مرکزی کردار Autism کا شکارایک شخص تھا،اس نے یہ فلم دیکھنے کا مصمم ارادہ باندھ لیا۔
اس شب بیداری کا نتیجہ یہ نکلا کہ صبح ہوتے ہوتے جنید اس کے سر پرپوری طرح سوار ہو چکا تھا۔
اس کے کہے ہوئے کچھ فکر انگیز اور کچھ معصوم ترین جملے اس کے دماغ میںبار بار گونجتے رہے جن کا تعلق نہ جانے کیوں اسے اپنی زندگی اور ذات سے جڑتا محسوس ہوا۔
ایسا نہیں تھا کہ ہمیشہ کی طرح صرف اس کا دل ہی اس سے ہم کلا م تھا اور وہ صرف اسی کی صدا سن رہی تھی۔ وقتاً فوقتاً دماغ بھی نقطہ ¿ اعتراض اٹھارہا تھاکہ آخروہ ایسا کیوں کر رہی تھی۔
ایک ہی ملاقات کے بعد اس نوجوان کا دھیان اس کے دماغ سے محو کیوں نہیں ہو رہا تھا اور اس کی باتیں اس کے حواس پر کیوں سوار ہو گئی تھیں۔
مگر جواب ….ندارد۔
ایک بات طے تھی کہ وہ خِرد اور معصومیت کا خوبصورت امتزاج رکھنے والا ایک منفرد ترین پیکر تھا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کھوئے والی قلفی

Read Next

المیزان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!