گل موہر اور یوکلپٹس

اس سہ پہرحنین نے پھر ایک لمحے کے لیے بھی جنید کا ہاتھ نہیں چھوڑا۔
جنید کا ہاتھ ملائمت، لطافت اور طراوت کا مرقّع تھا جس میں اوس،تتلیوں،گُلوںاوررنگوں کے واضح سندیسے تھے۔
اس کا ہاتھ کبھی صاف اور کبھی توتلی زبان میں باتیں کرتا تھا جسے حنین تمام سہ پہرکان لگائے بغور سنتی رہی اور سمجھنے کی کوشش بھی کرتی رہی۔
جنید نے جب سے سمندر دیکھا تھا وہ توگویا بے زبانی کے گہری کھائی میں گر گیا ۔ وہ کبھی لہروں کی سفید اُجلی جھاگ کو دیکھتا، کبھی آتی جاتی لہروں کو گننا، کبھی اُفق کی حدیں ناپنے لگتا اور کبھی پیروں تلے سرکتی ریت کے جادوئی کرتب میں کھو جاتا۔
حنین کے زیادہ تر سوالات کے جوابات انتہائی مختصراور مبہم تھے۔ اُسے یوں محسوس ہوا جیسے جنید پہلی نظر میں ہی سمندر کی محبت کا شکار ہو گیا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ چند برس قبل پہلی ہی ملاقات میںدانیال ملک کی سحر انگیز گفتگو اوردلفریب شخصیت کا شکار ہوگئی تھی۔
 انسانوں اور سمندر کی فطرت میں شاید یہی ایک مماثلت ہے کہ ان دونوں کے اندر پلنے والے طوفان نقطہ ¿ عروج پر پہنچنے تک کسی کو نظر نہیں آتے۔
 ان دونوں کی فطرت میں جو واضح فرق ہے وہ یہ کہ سمندرکے طوفان جب اپنی حدوں سے باہرنکل جاتے ہیں، تو تباہی اور بربادی صاف دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس کے برپاکیے ہوئے نقصانات کا تخمینہ بھی لگایا جا سکتا ہے، لیکن انسان کے اندرکسی بھی طوفان کے باعث ہونے والی ٹوٹ پُھوٹ،شکست و ریخت اور نقصانات نہ تو کسی کو بآسانی نظر آتے ہیں اور نہ ہی ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔محبت اور توجہ کی بہت خاص عینک لگائیں تب کہیں جا کریہ راز منکشف ہوتا ہے کہ بظاہر صحیح سلامت اور سالم نظر آنے والا کوئی طوفان زدہ انسان اپنی ذات کی چھوٹی چھوٹی کرچیاں، اپنا مسخ شدہ ڈھانچہ اور اپنی ناقابلِ شناخت لاش اپنے ہی کندھے پر اٹھائے کس طرح گھوم رہا ہوتا ہے۔
” مَیں نے اب تک سب سے زیادہ ساحل سمندر پرسن سیٹ پینٹنگز بنائی ہیں۔“ جنید خود کلامی کے انداز میں بڑبڑایا، تو حنین نے چونک کا اس کا چہرہ دیکھا، مگر عبارت پڑھنے میں ناکام رہی۔
”اچھا لگتا ہے آپ کو سن سیٹ کا منظر بہت اچھا لگتا ہے۔“
جنید نے گیلی ریت پر دم توڑتی لہروں کو دیکھ کر صرف اثبات میں سر ہلایا۔
”اور آپ کو؟“ کچھ توقف کے بعد جنید نے حنین سے جونہی یہ سوال پوچھا ،گویا کڑوا دھواں اس کی آنکھوں میں اور زمانے بھر کی کثافت اس کے لہجے میں بھر گئی۔
”لوگوں کوسمندر پر غروبِ آفتاب کا منظر بہت خوبصورت لگتا ہے۔کبھی مجھے بھی لگتا تھا، مگر اب نہیں۔“
’ ©’کیوں؟“
”اس سے جڑی بہت سی تلخ یادیں ہیں۔ کچھ دھوکوں اور برے لوگوں نے میری آنکھوں پر منفی طاقت والا چشمہ چڑھا دیا ہے۔پہلے سمندر پر سن سیٹ دیکھتی تھی تو یوںلگتا جیسے سکارلٹ، اورنج، پنک اور ریڈ کلر زکی آمیزش والا کوئی خوبصورت آتشیں آنچل پورے آسمان پر لہرا رہا ہو، لیکن اب مجھے لگتا ہے جیسے ہر شام سورج کو سمندر کے پھانسی گھاٹ پر سرِ عام پھانسی دی جاتی ہے اور اس کا خون شفق کی لالی میں ڈھل کر سمندر کی سطح پر پھیل جاتا ہے۔ ذرا دیکھیے توکتناچمکتا ہوا سورج ہے اس وقت۔ چند گھنٹوں بعد اس چمکتے سورج کو یہ سمندر کھا جائے گا اور پھر تھوڑی دیر بعد چاند اور ستارے سیاہ رنگ کا ماتمی لباس پہن کر چلے آئیں گے اورساری رات اگلی صبح ہونے تک سورج کی موت کے نوحے گاتے ہوئے ماتم کریں گے۔“نہ چاہتے ہوئے بھی حنین اپنے اندر کی تلخی باہر آنے سے نہ روک سکی۔جب وہ کہہ چکی، تو اسے احساس ہوا کہ اسے یہ سب کم از کم جنیدکے سامنے نہیں کہنا چاہیے تھا۔
”یوکلپٹس سے پہلے مَیں نے اپنے ہاتھوں سے گلِ چیں کا پلانٹ لگایا تھا۔ اس کا قد مجھ سے بھی بڑا ہو گیا۔ پھر….پھرایک روز بہت زور کی آندھی آئی اور وہ پلانٹ گر گیا۔ مَیں چندا ماموں کے سامنے خوب رویا۔ تب انہوں نے مجھے سمجھایا تھا کہ یہ مسئلہperspective کا ہوتا ہے۔جب ہم صحیح perspective سے چیزوں کو نہیں دیکھتے ، تو ہمیں سب کچھ غلط اورٹیڑھا نظر آتا ہے۔ انہوں نے مجھے سمجھایاکہ جس جگہ سورج ڈھلتا ہے،صرف وہاں رات ہوتی ہے۔ دراصل کہیں اور نکلنے اور اجالا پھیلانے کے لیے اسے وہاں ڈوبنا پڑتا ہے ۔ آپ کا perspectiveخراب ہو گیا ہے، اس لیے اب آپ کو سمندر پر سن سیٹ کا منظر اچھا نہیں لگتا ہوگا۔ کسی دن آپ مجھ سے میری آنکھیں اور نظرادھار لے جائیے گا اور یہاں آکر پھر سے اس سن سیٹ کو دیکھیے گا۔ پھر آپ کوسب کچھ ٹھیک ٹھیک نظر آئے گا۔“
جنید نے اپنے جواب میں کچھ اس کمال معصومیت اور دانائی کے ساتھ مدغم کیاکہ حنین چلتے چلتے بے اختیار رک گئی اور جنید کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چُھوٹ گیا۔کچھ دیر کو اسے یقین نہیں آیا کہ اتنی گہری اور الجھی ہوئی بات جنید نے کس کمال آسانی کے ساتھ سلجھا بھی ڈالی اور اسے سمجھا بھی ڈالی۔
وہ شاید کچھ دیر اسی عالم میں وہیں کھڑی رہتی لیکن جنید جو اپنی دُھن میں اس سے آگے نکل گیا، مڑ کر آیا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے یہ کہہ کر پھر سے تھام لیا۔
”اگر میرا perspective ٹھیک نہ ہوتا، تو مَیں کبھی ایک بھی پینٹنگ نہ بنا سکتا۔ اب چلیں؟ آج ہم دونوں دوست مل کر لہروں میں اپنے پاوں بھگوئیں گے۔ ایک greek myth ہے۔ دو دوست مل کرایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر پاو ¿ں پانی میں ڈال کر دیر تک بیٹھیں، تو ان کی دوست

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Loading

Read Previous

کھوئے والی قلفی

Read Next

المیزان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!