گل موہر اور یوکلپٹس

جنید نے حنین کی نئی گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھنا شروع کیا، تو حنین جیسے اس کا مسئلہ فوراً سمجھ گئی۔ اس نے جنید کو گاڑی میں بیٹھنے اورسیفٹی بیلٹ لگانے میں پوری مدد دی۔
” کتنی دیر بعد کار میں بیٹھے ہو؟“ عبید اخترجیلانی گھر کے مین گیٹ سے باہر نکلتے ہی حنین نے گفتگو کا باقاعدہ آغاز کیا۔جنید کے چہرے پر ابھی تک ویسے ہی تاثرات تھے جیسے بہت دن اندھیرے میں رہنے والے کسی شخص کی پُتلیوں کو پوری روشنی سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
”بہت دنوں بعد۔“
”کوئی پریشانی؟‘ حنین نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ سا گیا۔
”پہلے تھا….اب نہیںہوں۔“
”اچھا،پہلے کیوں پریشان تھے اور اب کیوں نہیں ہیں؟“
”پہلے صرف سمندر کا سوچ رہا تھا۔ اب….اب مَیں آپ کے ساتھ ہوں۔ صرف اندر کے متعلق سوچ رہا ہوں۔اس لیے۔“ جنید کے خوبصورت جواب پر حنین کے دل سے واہ نکلی، مگر وہ ایک خوشگوار مسکراہٹ کے سوا اپنی خوشی کا اظہار نہ کر سکی۔
زیادہ تر کم گو رہنے والی حنین نے صبح سے شروع ہونے والے اس بیرونی مشن میں اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اور مسلسل گفتگو کی۔اس کے پاس شہر کی سڑکوں، عمارتوں، تاریخی مقامات کے متعلق جتنی بھی معلومات تھیں وہ سب اس نے جنید کو منتقل کر دیں۔جنید زیادہ وقت توجہ اور دلچسپی کے ساتھ اس کی باتیں سنتا رہا، لیکن وہ جب بھی ذہانت سے لِپٹا کوئی سوال حنین سے کرتا، وہ سٹپٹا جاتی اور اسے جنید کو مطمئن کرنے والے جواب کے لیے شدید محنت کرنا پڑتی۔
”ان سڑکوں پرجو لوگ چل پھر رہے ہیں، ان میں کتنے آدمی ہیں اور کتنے انسان؟“
”اتنا بڑا نیلا آسمان مَیں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں سمجھا تھا آسمان اتنا ہی ہوتا ہے جتنامَیں اپنے دو فٹ بائے تین فٹ کے پینٹنگ کینوس پر پینٹ کر سکتا ہوں ۔“
”آپ نے تو سمندر دیکھا۔بتائیے سمندر بڑا ہوتاہے یا آسمان ؟“
’اب تک ہم بڑے stem والے دو سو اکتیس درخت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔“
سمندر پہنچتے پہنچتے حنین کو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ جنید کے پاس کمال کی یادداشت ہے۔ وہ ایک بہترین پینٹر ہے اور کرہ ¿ ارض پر تخلیق ہونے والی پہلی پینٹنگ سے لے کر شہرت پانے والی ہر پینٹنگ کے بارے میں اسے علم تھا۔ ریاضی میں اس کی ریاضت نارمل لوگوں سے کئی گُنازیادہ اوپر درجے کی تھی۔ کثرتِ مطالعہ کے باعث علم کی تقریباً ہر شاخ کے متعلق جنیدکو وہ سب معلومات تھیں جو اصولاً ہر تجربہ کار اساتذہ میں ہونی چاہئیں۔ دنیائے ادب کے معاملے میںتو وہ گویا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیاتھا۔انگلش ادب میں جیفری چاسر سے لے کر برنارڈ شا تک،روسی ادب میں لیو ٹا سلٹائے سے لے کر چیخوف تک ، امریکی ادب میں رابرٹ فراسٹ سے لے کر ایذرا پاو ¿نڈ تک، فرانسیسی ادب میں ڈوما سے لے کر موپساں تک اور اردو ادب میں راجندر سنگھ بیدی سے لے کر احمد ندیم قاسمی تک اس نے ہر کسی کو پڑھ رکھا تھا۔
قصہ مختصر وہ ایک ایسا حیرت کدہ تھا جسے قسمت نے وسیع کائنات میں قائم ایک عریض ملک کے گنجان آباد شہر میں واقع ایک پانچ کنال کے بنگلے کے عقب میں چھپی پانچ مرلے کی انیکسی میں قید کر رکھا تھاجسے پوری دنیا میں اور پوری دنیا کے لئے ہونا چاہیئے تھا وہ شاید اپنا بھی نہ تھا اور نہ ہی اس کے اپنے اسے اپنانے اور اپنا ماننے کے لئے تیار تھے۔
اور پھر جونہی ان کی گاڑی سمندر والی سڑک پر مڑی،جنید جیسے ہر ایک نام اور ہر ایک کلام بھول گیا اور دم بخود ہو کرسمندر کی طرف یوںدیکھنے لگا جیسے کسی چوٹی کو سر کرنے کا ارادہ باندھنے کے بعد کوئی کوہ پیماہ سر اٹھا کر کسی بلند قامت پہاڑ کی بلندی کوپہلی بار اپنی آنکھوں سے ناپتاہے۔
گاڑی رکتے ہی جنید مشینی انداز میں سمندر پر نظریں جمائے گاڑی سے اترا اور نیچے دیکھے بغیر سمند رکی طرف یوں چل دیا جیسے سمندر نے اس پر کوئی منتر پڑھ دیا ہو۔ جب حنین نے اسے سمندر پر نظریں جمائے اس کی طرف بے پروا اور قدرے خطرناک انداز میں بڑھتے ہو ئے دیکھا، تویک دم جنید کی سلامتی اور اپنی ذمہ داری کا احساس بھرپور چنگھاڑ کے ساتھ بیدار ہوگئے۔ وہ سرعت کے ساتھ گاڑی سے اُتری اوراس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر اسے مزید آگے بڑھنے سے روک دیا ۔
اور پھرجیسے وہ اس سحرِِ تنویم سے آزاد ہو گیا اورہوش میں آکر متوحش نظروں سے کبھی سمندر، کبھی حنین اور کبھی حنین کے تھامے ہوئے ہاتھ کی طرف دیکھنے لگا۔
”نہ جانے جنیداس وقت کیا سوچ رہا ہے، کیسے سوچ رہاہے ۔“ حنین نے الجھے ہوئے انداز میں سوچا۔
”ایک حد سے زیادہ کسی خوبصورت اور چمکتی چیز کے پاس نہیں جاتے جنید۔انسان اپنا سب کچھ کھو دیتا ہے۔‘ ‘ حنین کے منہ سے جو بے ساختہ نکلا وہ اس کی اب تک کی زندگی کی الٹرا ساو ¿نڈ رپورٹ تھی۔
اس کی بات سن کرجنیدنے کچھ نہیں کہا۔بس حیرت سے پہلے ایک نظر حنین کے چہرے پرڈالی اور اگلی معنی خیزنظر حنین کے بائیںہاتھ پر جس کی قید میں اس کا دایاں ہاتھ تھا۔ حنین جیسے اس نظر کامتن اور جنیدکی ان کہی بات فوراً سمجھ گئی۔
”میری اور بات ہے جنید، میرے پاس اب ویسے بھی اپنے دوست کے ہاتھ اور ساتھ کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔‘ ‘ اور پھر اس نے کچھ سوچ کر اپنا دوسرا ہاتھ بھی جنید کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کھوئے والی قلفی

Read Next

المیزان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!