گل موہر اور یوکلپٹس

”ام ایتھنا، آپ نے پوچھا ام جنید کا کیا لگتا، توhonestlyمعلوم نہیںام جنید کا کیا ہوتا۔ ایک گورنس،ایک دوست،ایک Autism Specialist، اس کا only audience۔یا پھر اس کا ماما…. آئی ایم سوری، آپ پلیز اندر آتا۔ ام جنید کو بلاتا۔ اس ٹائم وہ روزسٹڈی روم میںہوتا؟“ ایتھنا بہت محبت اور بے تکلفی سے حنین کا بازو تھام کر اسے بہت خوبصورتی سے آراستہ کیے ہوئے سیٹنگ روم میں لے آئی جس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد حنین کواس امرپریقین کرنا محال لگا کہ اس کی آرائش کے پیچھے اس عمر کی کسی بوڑھی عورت کا ہاتھ ہو سکتا تھا۔“
”مَیم!کیا جنید کو بلانے سے پہلے صرف ہم دونوں کچھ بات کر سکتے ہیں؟‘ ‘
”Sure سویٹی؟ امیشہ بات ہی سے آگے بات چلتا۔“
”آپ مجھے جانتی ہیں؟ میرا مطلب ہے آپ نے پوچھا نہیں کہ مَیں کون ہوں؟“ باہر لان میں دھرے بنچ پر بیٹھتے ہی حنین نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔
” سویٹی۔ام کو معلوم ہے کہ آپ Aphrodite ہوتا۔“
”Aphrodite?۔وہ کون؟“
”ام گریک ہوتا اور Aphrodite اماری Greek Mythologyکی زبان میں goddess of love and beauty کو بولتا۔“
کچھ دیر کے لیے حنین کے چہرے پر پل بھر کے لیے خوشی کی شمع روشن ہوئی اور پھر جیسے کسی کرب ناک خیال نے اس شمع کی لَو کو بجھا ڈالا۔
”اگرواقعی ایسا ہے، تو یہی میری سب سے بڑی بد قسمتی بھی ہے۔“
”سوری اگرام کچھ غلط بولتا، مگر اپنی طرف سے ام جو دیکھتا بالکل وہی بولتا۔“
”اٹس اوکے، تھینک یو۔ دراصل میرے پاپا عبید انکل کے بہت اچھے دوست ہیں اور اب بزنس پارٹنر بھی ہیں۔ مَیں کل رات جنید سے بائی چانس ملی تھی اسی جگہ۔ اپنی پرسنل لائف میں پچھلے دنوں بہت difficult phase سے گزری ہوں۔ نروس بریک ڈاو ¿ن کے بعد کئی مہینے ایک سائیکاٹرسٹ کے پاس انڈر ٹریٹمنٹ بھی رہی ہوں۔ نہ جانے کیوں اور کیسے، مگرجنید کی چند باتوں نے مجھ پر وہ اثر کیا جو پچھلے کئی مہینوں میں کسی ٹریٹمنٹ یا کسی اور بات سے نہیں ہوا۔ اسی وجہ سے رات بھرٹھیک سے سو بھی نہیں سکی اور صبح ہوتے ہی یہا ں چلی آئی ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے مَیں خود نہیں آئی ، کسی نے مجھے یہاںبھیجا ہے۔“
”آپ بالکل ٹھیک جگہ آتا Aphrodite۔اس دنیا میں جب بھی کوئی intellectuals سے دھوکا کھاتا ۔صرف innocence ہی اس کی مدد کو آتا۔“
اور پھر ایتھنا نے جنید اور اس کی شناخت کے متعلق کم و بیش وہی کہانی دہرائی جو گزشتہ شب اس کے والد نے اسے سنائی تھی۔
”ام کو تین سال کاجنیدبے بی کے لیے مسٹر جیلانی فل ٹائم بہت ہائی پیکج پر ایتھنز میں ہائر کرتا۔ پھر ایک سال بعد مسٹر جیلانی کمپنی بند کر تا اور واپس پاکستان آنے کا decision لیتا ۔ اس ٹائم تک ام جنید بے بی کے ساتھ بہت کلوز ہوتا۔ اس کا اصلی مدر کی طرح۔ سو مسٹر جیلانی مجھے ڈبل پیکج آفر کرتا اور اپنے ساتھ ادھر لاتا ، بس تب سے ام ادھر ہی ہوتا۔“
”اور آپ کی پرسنل لائف؟ باقی فیملی؟“ ایک یورپین خاتون کا اپنا ملک، معاشرہ اور مستقبل ایک بچے کی خاطر چھوڑ کر اس طرح پاکستان چلے آنا،پوری عمر اس کے لیے وقف کر دینا حنین کو کافی ناقابلِ یقین سا محسوس ہو رہا تھا۔
”کوئی نہیں ہوتا۔ جب مسٹر جیلانی ام کو ہائر کرتا، تو early forties کا کامن فیس رکھنے والا ایک divorced لیڈی ہوتا۔ اس ٹائم ہاسپیٹل میں اپنی جاب lose کرکے گھر بیٹھتا۔ اس آفر کو accept کرنے کے بعد لائف میںام جو مانگتا اس سے بہت زیادہ اس جاب اور جنید سے ملتا۔ آپ پوچھتا، تو آپ کو بتاتا کہ جنید کو ان almost twenty years میںlook after کا experience کیسا لگتا۔ جنیداس دنیا کا سب سے پیارا اور سب سے سپیشل بچہ ہوتا جو اس کا ساتھ ایک بار مل لیتا،اس کا ساتھ تھوڑا وقت گزار لیتا ، اس کا زبان سمجھ لیتا وہ اماری طرح اور آپ کا طرح اس سے کبھی دُور نہیں جاسکتا۔ اسے کبھی بُھول نہیں سکتا۔ ام جانتا کہ جنید مائی چائلڈکتنا اسپیشلsoul ہوتا۔“
ایتھنا کی اس بات پر حنین فوراً ایمان لے آئی۔ واقعی اس کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا تھا۔
” بالکل ٹھیک کہا آپ نے میم! یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلی ملاقات کے بارہ گھنٹے بعد مَیں پھر سے یہاں موجود ہوں۔ مجھے پتا چلا ہے کہ جنید بچپن سے autism disorder کا شکاررہا ہے۔ کیا وہ اب بھی؟“
ایتھنا نے مسکرا کر اس کی بات کاٹ ڈالی۔
” نو سویٹی۔ یہ تو autism disorder رکھنے والا کسی patient کے بارے میں کوئی کبھی نہ بول سکتا۔ ام جنید پر اتنا سال اتنا محنت کرتامگر اب بھی اس میں تھوڑا تھوڑا autism کا symptoms نظر آتا۔ ابھی بھی اس میں سوشل انٹر یکشن کا کمی ہوتا۔ اس کا communication اب بھی پورا نارمل نہ ہوتا۔ بات کرتا تو اب بھی کبھی کبھی words کو repeat کرتا۔ امارا سِوا اس کا کوئی human friends نہ ہوتا۔ اسی واسطے وہ ہر وقت امیشہ اپنے so called فرینڈز یوکلپٹس،اپنی pet cat سندباداور چاند سے باتیں کرتا۔ جب ام اس کا early age میں improvementدیکھتا تو ام خود اس کو گھر پر پڑھاتا۔ کچھ سال بعدوہ ام کو اتنا اچھا ریسپانس دیتا کہ ام بہت حیران ہوتا۔ آپ بھی دیکھتا، تو حیران ہوتا۔ اس کا پاس کتنی کتابیں ہوتااور کبھی کبھی وہ کتنا wisdom والا بات کرتا ۔ سننے والا بس حیران ہوتا۔ پھر بھی اس کا باتوں میں کتابوں سے ملی ہوئی wisdom اور autism کا innocense مِکس اپ ہو جاتا۔ام اب ہر وقت یہی سوچتا کہ اب اس کو امارا سِوا کسی اور human friend کا بہت ضرورت ہوتا، مگر اس کا واسطے جنید اور اس کا ہسٹری سمجھنا بہت ضروری ہوتااوریہ سب بہت patience مانگتا۔ جنید مائی چائلڈ کو اب ایک اور ایتھنا کا بہت ضرورت ہوتا۔ اب ام گاڈ سے ہر وقت ایک ہی دعا کرتا کہ امارا مرنے سے پہلے اس کو دوسرا ایتھنا ضرور دیتا۔ ایسا ایتھنا جو اس کا ماما نہیںہوتا،اس کا لائف پارٹنر ہوتا !‘
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کھوئے والی قلفی

Read Next

المیزان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!