گل موہر اور یوکلپٹس

چاندستاروں کی رات بھر محنت کے بعدکشید کی ہوئی ایک روشن صبح جب عبید اختر جیلانی کے لان میں ہر منظر پر پھیلی تو درختوں، دیواروں اور گھاس کے بالائی سِروں پر سنہری قمقمے دمکنے لگے۔ اپنی بہت پیاری پالتو سفیدبلی سندبادکو گود میں اٹھائے جنید نے اپنے بچپن کے جگری دوست یوکلپٹس کے تنے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سر اٹھا کر اس کی بلندی کو دیکھا، تو ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھیں چندھیا سی گئیں۔برسوں پہلے اس نے اپنی گریک گورنس ایتھنا کے ساتھ مل کر اس یوکلپٹس کا پودا اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا اور اپنی عادت اور خصلت سے مجبور یوکلپٹس بہت کم عرصے میں اتنا ارفع ہو چکا تھا کہ بہ آسانی آس پاس کے گھروں میں جھانک سکتا تھا اور دُور دُورنظر آنے والے درختوں کے نازاںسروں کو بھی دیکھ سکتا تھا۔
جنید حسبِ عادت اپنے دوست یوکلپٹس کے سفیدی مائل تنے سے لپٹا اپنے دل کی بات اسے بتا رہا تھا۔
”ایک نیا دوست ملا ہے۔ اس کا چہرہ مجھے آپ جیسا، چندا ماموں جیسا، سندباد جیسا اور کچھ کچھ اپنے جیسا لگتا ہے کیا کروں؟“
اس سوال کے بعد اس نے اپنا کان یوکلپٹس کے تنے کے ساتھ لگایا، کچھ دیر خاموشی کے ساتھ سنتا رہا اور پھر جیسے اسے جواب مل گیا۔
”ارے واہ، کتنی اچھی بات کی آپ نے۔ واقعی نئے دوست نئے موسم کی طرح ہوتے ہیں۔ پرانامنظر بدل ڈالتے ہیں۔ اب آپ اور مَیںکتنا بدل گئے ہیں نا۔ بالکل ایک طرح سوچنے لگے ہیں۔ ورنہ کتنے موسم گزرے جی چاہتا تھا موسم کبھی نہ بدلے، کچھ بھی کبھی نہ بدلے۔“
اس کی گفتگو کا سلسلہ اس کے کاندھے پر رکھے جانے والے ایک بوڑھے سفید ہاتھ نے منقطع کر ڈالا۔
وہ ایتھنا تھی۔
جنید کی یونانی گورنس جس کے چہرے پر خوبصورت بوڑھے نقوش پر گزشتہ عمرکی پوری تاریخ رقم تھی۔بڑھاپا آخری حد تک کتنا باوقار اور خوبصورت ہو سکتا ہے وہ اس کا منہ بولتا ثبوت تھی۔سفید چھوٹے بال، سیاہ آنکھیں جن کی ساخت اور چمک نے ابھی تک بڑھاپے اور چہرے کی جھریوں سے شکست نہیں کھائی تھی۔ ہلکے گلابی رنگ کی قمیص اورہلکے براﺅن رنگ کی لمبی اسکرٹ میں ملبوس گویا وہ صبح کے سب رنگوں کی متناسب نمائندگی کر رہی تھی۔
”یوکلپٹس نے بالکل ٹھیک بولا مائی چائلڈ….یوکلپٹس امیشہ (ہمیشہ) ٹھیک بولتا۔چلوام اورتم مل کرناشتا کرتا۔ وہ ناشتا کب سے ٹیبل پر آپ کا اور امارا wait کرتا۔ سندباد بھی ابھی ام سب کی طرح بھوکا پھرتا اورآپ جانتا کہ آ ٓپ کا ماما اپنے چائلڈ کے بغیر کھانا، تو دُور کا بات سانس بھی نہ لے سکتا۔“
اتنے برس پاکستان میں رہنے کے بعدایتھنا نے کافی حد تک اردوزبان تو ضرور سیکھ لی تھی لیکن ابھی تک وہ اِس زبان کے قواعد و ضوابط ،تذکیر و تانیث اور جملوں کی ساخت و ترتیب کے استعمال میں اپنی غیر مادری زبان بلکہ یوں کہناچاہیے کہ اپنا یونانی حق ضرور استعمال کرتی تھی۔
”ماما! سکتا نہیں ، سکتی۔ آپ ایک فی میل ہیں۔‘ ‘ جنید نے دلفریب مسکراہٹ سے ایک بار پھر ایتھنا کی تصحیح کی، تو وہ اس کے معصومانہ اور بے ساختہ انداز پر بے اختیارہنس دی۔
” مائی چائلڈ۔ ام تو نہ میل تھا اور نہ فی میل۔ ام تو بس ایک گریک تھا مائی چائلڈ۔ آپ کا پیار نے ام کو پاکستانی بنا دیا۔ یہاں کا لینگویج اردو بولنا سکھا دیا۔ اگر ام آپ کا مدر نہ ہوتا، تو زندگی بھر پلین آملیٹ جیساگریک لینگویج کا سِوا اورکچھ کبھی نہ بول سکتا۔ مدر اور کچھ سمجھتا یا نہ سمجھتا، مگراپناچائلڈ کی زبان ضرور سمجھتا۔“
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کھوئے والی قلفی

Read Next

المیزان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!