گل موہر اور یوکلپٹس

”اس دنیا میں سوائے خدا کے کوئی یکتا نہیں۔ ایک مرد اور عورت ساری زندگی تنہا بسر نہیں کر سکتے۔یہی law of nature ہے۔“
جنید نے جونہی کتاب میں لکھا ہوا یہ جملہ پڑھا، اس نے کتاب بند کر دی اور گہری سوچ کے پیچ و خم میں غلطاں اس کی نظریں اپنے کمرے کی ایک پوری دیوارکو گھیرے ہوئے لائبریری کے سب سے اُونچے شیلف پر بھٹکنے لگیں ۔
”اگریہی law of nature ہے تو مجھے کیوں سمجھ میں نہیں آتا؟اگر یہ سچ ہے تو اس زمین پر میں کیوں تنہا ہوں؟“ حسبِ عادت سامنے پڑی بال پوائنٹ کو گول گول گھماتے ہوئے اس نے سوچا۔
ایتھنا کی تربیت، محبت اور ہلا شیری تھی کہ وہ کتابوں کی طرف متوجہ ہوا۔ ایتھنا کے بعد جس عنصر نے اسے Autism کے مسائل اور کیفیات سے باہر نکلنے میں مدد دی وہ کتابیں تھیں۔ شہر میں Autism کا ایک بھی اسکول نہیں تھا، مگر ایتھنا اور کتابوں نے اب تک اس کی زندگی میں مدرسے کا سافعال کردار ادا کیا تھا۔اگر کچھ نہیں تھا تو وہ لوگوں سے سماجی و معاشرتی عدم رابطہ اورعدم تعلق تھا جس کا عملی طور پر تب کوئی حل موجود نہیں تھا۔
”ہیلو جنید! “
 کھلے دروازے پر دوسری باردستک ہوئی اور ایک بہت مترنم آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ بری طرح چونک اٹھا۔ مڑ کر دیکھا تو دروازے پرحنین اپنی دلفریب مسکراہٹ لیے اس کے کمرے، تنہائی اور دنیا میں داخلے کی اجازت طلب کر رہی تھی۔
’ ’آپ ….آپ تو وہی ہیں۔“ جنید نے حیرت سے کھڑے کھڑے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا۔
”ہاں۔مَیں وہی ہوں جس سے رات کو آپ کی ملاقات ہوئی تھی۔ کیا مَیں اندر آ سکتی ہوں؟“
”اندر؟“ جنید کے سوال نے حنین کو گڑبڑانے پر مجبور کر دیا۔
”میرا مطلب ہے ۔مَیں آپ کے کمرے کے اندر آ سکتی ہوں؟“
”مجھے نہیں معلوم …. اندر اور باہر کا کیا مطلب ہوتاہے۔مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ وہ سب کچھ جو مَیں دیکھتا ہوں، جہاں رہتا ہوں، وہ سب کچھ اندر ہے۔ باہرشاید اسے کہتے ہوں گے جسے ہم نے کبھی نہیں دیکھا ہو!۔“حنین کوجنید کے مبہم اور مشکل جواب نے گہری الجھن میں مبتلا کر دیا۔وہ کچھ دیر دروازے پر کھڑی اس کا مناسب جواب ڈھونڈنے لگی، لیکن جب کوئی جواب بن نہ پایا، تووہ سر جھٹکتے ہوئے اندر چلی آئی۔
”جہاں مَیں اب داخل ہوئی ہوں، یہ اندر ہے، اس سے پہلے مَیں باہر تھی۔ دراصل مَیں نے سوچا اپنی فرینڈ ریکویسٹ کا سٹیٹس خود آ کر آپ سے پوچھ لوں۔ آپ نے ایتھنا، یوکلپٹس ، سندباد اور چنداماموں سے پوچھا؟ انہوں نے آپ کو ایک بالکل نئے فرینڈ کی approval دی؟“
”وہ ۔وہ پہلی یادوسری ملاقات میں ہاتھ ملاتے ہی کوئی کسی کا دوست تو نہیں بن جاتا۔‘ ‘ سرجھکا کر کہے گئے اس جملے میں کمال کی معصومیت پنہاں تھی۔اس ایک معصوم اور بے ساختہ جملے نے حنین کو وہ بات سمجھائی جو وہ اب تک نہ سمجھ پائی تھی۔اب تک زندگی میں اس نے ہمیشہ اس غلطی کو انتہائی بے دردی کے ساتھ بار بار دہرایا تھا۔وہ پہلی اور دوسری ملاقات میںکسی کے متعلق جو تاثر لے لیتی اس کے پیچھے آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر چل پڑتی تھی اورتقریباً ہر بار دھوکے کی ایک گہری کھائی اسے منتظر ملا کرتی تھی۔ہر بار وہ پچھلی غلطی کو کبھی نہ دہرانے کا عزم کیا کرتی تھی اور اگلی بار شاہانہ انداز میں اپنے عزم کوبُھول جایا کرتی تھی۔
”یہ توآپ نے بالکل صحیح کہا۔ معلوم نہیں اتنی آسان اور سادہ بات مَیں آج تک کیوں سمجھ نہیں پائی۔ دوستی واقعی دھیمی آنچ پر پکنے والے کسی پکوان کی طرح ہوتی ہے۔پورا وقت لینے کے بعد ہی اس پکوان میں ذائقہ آتا ہے، مگر ان سب باتوں کے باوجوددوستی کی شروعات تو ہاتھ ملانے ہی سے ہوتی ہے نا….As a Formality۔بس اور کچھ نہیں۔“
جب وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکی، تو اس نے اپناہاتھ آگے بڑھا دیا۔جنید حیرت سے کچھ دیر کبھی حنین اور کبھی اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کی طرف دیکھتا رہا اور پھر سر جھکائے اس کی طرف دیکھے بغیرکچھ توقف و ہچکچاہٹ کے بعد اس نے حنین کے ساتھ ہاتھ ملالیا۔جنید کے ہاتھ میں تتلی کے پروں جیسی نرماہٹ،اوس کی سی طراوت اورفروری کی دھوپ کی سی خوشگوار گرماہٹ تھی۔
”تھینک یو جنید….I am so happy ۔اچھا اور سچا دوست مل جائے تو چھے گھوڑوں والی رتھ پر بیٹھ کرزمین سے چاند تک کاسفر بہت اچھا گزرتا ہے۔“ حنین کے لہجے میں بہت دنوں کے بعد مخصوص کھنک پھر سے لَوٹ آئی تھی۔
” اوہ….آپ بہت اچھی باتیں کرتی ہیں۔“ سر جھکائے، قدرے شرمائے اور زمین پر نظریں گاڑے جنید نے خوشگوار لہجے میں کہا، تو ضرور مگر حنین اس کے چہرے کے تاثرات نہ پڑھ سکی۔
”اور مجھے اچھی طرح علم ہے کہ اچھا دوست بننے کے لیے صرف اچھی باتیں کافی نہیں ہوتیں، اس کے لیے ڈھیر سا را وقت ساتھ گزارنا ضروری ہوتا ہے۔ کچھ اچھا اور کچھ مشکل، اچھا تو بتائیے کہ اس نئی دوستی کے پہلے دن کی ابتدا کیسے کی جائے؟“
جنید نے حیرت سے ایک نظر اسے دیکھا اور پھراُنگلی ٹھوڑی پر رکھ کر باقاعدہ سوچنے لگا۔
”یوکلپٹس کے تنے پر اپنا اپنا نام لکھ کر۔‘ ‘ کچھ توقف کے بعد جب اس نے معصومانہ اور بے ساختہ انداز میںجواب دیا، تو حنین جو زمین پر اُترے ہوئے اس چاند سے پہلے ہی بہت متاثر تھی کچھ مزید اس کی روشنی میں رنگ گئی۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کھوئے والی قلفی

Read Next

المیزان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!