گل موہر اور یوکلپٹس

”جی پچھلے مہینے چاند کی اٹھارہ تاریخ کو مَیں نے بہت سے سوال پوچھے تھے جن کے جواب چندا ماموں کو معلوم نہیں تھے۔ مَیں نے پوچھا تھا کہ اس دنیا میں لوگ ایک دوسرے سے پیار کیوں نہیں کرتے، ایک دوسرے سے بات کیوں نہیں کرتے، ایک دوسرے سے اتنی جلد ناراض کیوں ہو جاتے ہیں۔ اتنی اتنی دیر تک ایک دوسرے سے ناراض کیوں رہتے ہیں۔ اس طرح غصے سے اور چلَا کر بات کیوںکرتے ہیں جس طرح سعد اور ماما مجھ پر نظر پڑتے ہی کرتے ہیں۔ اگر اللہ میاں درختوں، تتلیوں، پرندوں، بارشوں اور موسموں کو زبان دے دیتے تو کیا وہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح بولتے؟ مَیں نے چندا ماموں سے یہ بھی پوچھا تھا کہ تمام انسان ایک دوسرے سے اتنی محبت کیوں نہیں کرتے جتنی مَیں ایتھنا، یوکلپٹس، سندباد اور چندا ماموں سے اور وہ سب مجھ سے کرتے ہیں ۔“
وہ خود کلامی کے سے مخصوص انداز میں اپنی دُھن میں بولتا رہا اور حنین بے یقینی کے عالم میں دم سادھے اس کی معصومیت، صداقت اور محبت سے گندھی باتیں سنتی رہی۔
یہ اس دنیا کی باتیں نہیں تھیں جہاں ایک انسان دوسرے انسان کی لاش پر اپنا قصر تعمیر کرتاہے۔
جہاں دوسروں کو دھکیل اور پیروں تلے روند کر آگے نکل جانا دوڑ جیتنے کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
جہاں بظاہر سب کچھ ہوتے ہوئے انسان کے اندر سوائے انسانیت کے باقی سب کچھ ہوتا ہے۔
نہ جانے کیوں حنین کا دماغ ابھی تک یہ نتیجہ اخذ کرنے کو تیار نہیں ہو رہا تھا کہ اس کے سامنے کھڑا پیکر ذہنی طور پر نابالغ تھا یا پھر عدم تندرستی کا شکار۔
اس کی باتوں میں معصومیت اور دانائی کا بہت عجیب سا امتزاج تھا۔
دفعتہ اسے اندر سے ایک آواز آئی”یہ جو کوئی بھی ہے، مَیں اسے صدیوں سے جانتی ہوں۔“
”مَیں نہیں جانتی کہ چندا ماموں کے علاوہ آپ نے جو نام لیے۔میرا مطلب ہے، ایتھنا، یوکلپٹس اور سند باد یہ سب دراصل کون ہیں، مگر آپ سے مل کر دل چاہنے لگا ہے کہ آپ کے ان اپنوں میں ایک نام میرا بھی ہو۔ میرا مطلب ہے کیا آپ مجھے اپنا دوست بنانا پسند کریں گے؟“
جواب ایک گہری سوچ میںڈھل گیا اور جنید ٹھوڑی پر انگلی رکھے سرجھکائے معصومانہ انداز میں گویااس پیشکش کے تمام پہلوو ¿ں کا تفصیلی جائزہ لینے لگا۔
”بہت سالوں سے مَیں نے کوئی نیا دوست نہیں بنایا، سوچ کر بتاو ¿ں گا۔ کوئی نیا دوست بنانے سے پہلے چندا ماموں، یوکلپٹس، سندباد اور ایتھنا سے بھی تو پوچھنا پڑے گا نا۔“
”مجھے کوئی اعتراض نہیں، آپ اپنے فرینڈز سے پوچھ لیں۔ تب تک مَیںانتظار کرلوں گی اور جب ہم دونوں اپنے دیس کی طرف اکٹھے واپس جائیں گے، تو راستے میں ہم دونوں ڈھیروں باتیں کریں گے اور اگر ہماری دوستی نہ ہوئی تو وہ سب باتیں کیسے ہوں گی؟“
”ہوں۔یہ تو ہے۔ جنید نے خیال انگیز انداز میں سر ہلایا اورپھراچانک واپس جانے کے لیے چل پڑا۔ایک لمحے کے لیے حنین کا دل چاہا کہ وہ اسے روکے اور کہے کہ ابھی وہ کچھ دیر اور اس کی سچائی، معصومیت اور ملمع کاری سے پاک باتوں کے سفید بے داغ پھول چُننا چاہتی ہے ،ابھی کچھ دیر اور اس کی خوبصورت دنیا کا حصہ بننا چاہتی ہے جس کی تلاش میں وہ اب تک سرگرداں تھی۔“
لان کے عقبی حصے میں چھائے ہوئے گہرے اندھیرے میں غائب ہونے سے پہلے جنید ایک لمحے کے لیے رکا، مڑ کر اسے دیکھا اور ہچکچاہٹ سے الوداعی انداز میں اسے ہاتھ ہلاتا لان کے اندھیرے میں غائب ہو گیا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کھوئے والی قلفی

Read Next

المیزان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!