نامراد

دوسری صُبح جب اماں اُسے اٹھانے آئیں تو اس کے ہاتھ پاﺅں مُڑے ہوئے تھے۔ منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ ”اللہ خیر“ کہہ کر انہوں نے بالے کو آواز دی۔
”بالے روبی دوڑ کر جا میاں صاحب کو بلا کر لا۔“ انہوں نے پریشانی سے اُس کے ہاتھ پیر سیدھے کرنے کی کوشش کی اور وہ آنکھیں اوپر چڑھا کر اینٹھے جا رہی تھی۔ منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں۔ میاں جی کے آتے ہی فیصلہ ہوا کہ اس پر جن آگیا ہے۔ اس پر سے جن اتارنے کی تدبیریں ہونے لگیں۔ ”بول کیا نام ہے تیرا کیوں میری معصوم بیٹی پر قبضہ کیا۔“ اپنی اولاد کو مارنا کتنا مشکل کام تھا جو اُن کو آج کرنا پڑا۔
وہ بلبلائی اور آنکھیں ابل پڑیں۔
”چھوڑ دے میاں چھوڑ دے ہمیں۔“ وہ مچلی۔
”نہیں چھوڑوں گا تجھے جب تک تو اس بچی کا جسم نہیں چھوڑے گا۔ بول کون ہے؟ تو کہاں سے آیا ہے؟“
”نہیں بتاﺅں گا کیا کر لے گا تو بول۔“ وہ پوری قوت سے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش بھی کر رہی تھی۔ میاں صاحب نے بہت تکلیف سے اس کے تلوﺅں پر ایک زوردار ڈنڈا رسید کیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ تمام عمر دوسروں کی بیٹیوں کے جن اتارے لیکن یہ حالت کبھی نہ ہوئی۔ آج احساس ہوا کہ جن اتارنا کس کو کہتے ہیں؟ ”بول“ اب کہ انہوں نے پوری شدت سے اس کے تلوﺅں پر ڈنڈا مارا۔
تو تاجور کے منہ سے ایک کراہ نکلی ”نامراد“۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!