نامراد

انہیں کمرے میں داخل ہوتے دیکھ مراد لپک کر اُن کی طرف آیا۔ ”اماں“ اس سے آگے کچھ نہ پوچھا گیا۔ نوکرانی پانی کا گلاس لے آئی۔ انہوں نے چادر تہ کر کے الماری میں رکھی اور پلنگ پر پانی کا گلاس لے کر بیٹھ گئیں۔ یہ لمحے مراد کو بہت گراں گزر رہے تھے۔ وہ بولتی کیوں نہیں اُن کی خاموشی سب کچھ کہہ رہی تھی۔ لیکن ایک باہر کا پڑھا لکھا کھلے ذہن کا نوجوان شاید جن باتوں پر یقین نہ رکھے اس کے ہونے پر بھی اسے شک ہی رہتا ہے۔ ایک امید اور آس تھی تو اُسے کہ شاید….
”بس بیٹا بھول جاﺅ اُسے یوں سمجھو کہ وہ تیری قسمت میں نہیں۔“ پانی کا گلاس میز پر رکھا۔
”کیا کہا انہوں نے؟“ وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
”کیا کہنا تھا باتوں باتوں میں یہی کہا کہ ہم اپنی ذات برادری میں ہی شادی کرتے ہیں اگر جوڑ کا ملا تو کریں گے۔“
”اماں یہ تو ظلم ہے اس کی اجازت تو مذہب بھی نہیں دیتا۔“
”بیٹا وہ ہم سے زیادہ مذہب جانتے ہیں بھلا اس بات سے لاعلم ہو سکتے ہیں۔“
”یہ لاعلمی ہی تو ہے اماں پرانی روایات کو اپنی آن سمجھنا اور اللہ کی بات کو رد کرنا۔“
”دیکھو مراد اُس کو بھول جاﺅ وہ کبھی نہیں مانیں گے۔“ اماں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔
”اماں کچھ باتیں بھولنا ممکن ہی نہیں۔ وہ تو تیر کی طرح دل میں گڑ جاتی ہیں آپ کوششوں کے باوجود دل سے نکال کر پھینک ہی نہیں سکتے۔“ وہ بہت ہارے ہوئے انداز میں بُڑبڑایا تو اماں اُس کا منہ دیکھ کر رہ گئیں۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!