نامراد

وہ بیلے کے پھولوں کو تیزی سے دھاگے میں پرو رہی تھی۔ پوری کیاری بھری تھی بیلے کے پھولوں سے اس نے خوب سارے اتارے۔ صحن بیلے کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ اس بار کیاری میں پھول بھی خوب آئے تھے۔ اُس نے ہلکی آواز میں ریڈیو بھی لگایا ہوا تھا۔
جواب کیوہوداتا ایسا نہ کیجیو
اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو
گانے کے خوب صورت سُر دھیمی آواز میں کمرے بکھر رہے تھے۔ اماں نہ جانے کس کام سے اندر داخل ہوئیں تو اُسے گجرے بناتے دیکھ کر سر پیٹ لیا۔
”یہ کیا کررہی ہو کنواری بالیاں گجرے کب پہنتی ہیں۔“
”کیوں کنواری بالیاں انسان نہیں ہوتیں یا ان کا دل اللہ کے پاس گروی رکھا ہوا ہے؟“ اس کا سوال تیکھا مگر بہت بے پروائی کا انداز لئے ہوا تھا۔ اماں کو سمجھ نہ آیا کہ کس طرح ڈانٹیں۔
”انسان تو ہوتیں ہیں لیکن کنواریاں خوشبو نہیں لگاتی کیوں کہ خوشبو لگانے اور پھول پہننے سے ان پر جن عاشق ہو جاتے ہیں۔“
”اب جانے بھی دیں اماں جنوں کو کوئی اور کام نہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر انسانوں پہ عاشق ہوتے رہیں اُن کی اپنی ”جنیاں“ کوئی کم نہ ہوں گی جو وہ ہم جیسی حوا زادیوں پر عاشق ہوں۔“
”اللہ کا خوف کر لڑکی کبھی کبھی زبان کی بات بھی پوری ہوجاتی ہے۔“
اب وہ کیا بتاتی اماں کسی انسان کو تو مجھ پر عاشق ہونے کی اجازت نہیں کبھی کبھی دل بہت چاہتا ہے کوئی جن ہی عاشق ہو جائے، اُف زندگی کتنی خوب صورت ہوجائے گی۔
مگر معلوم تھا اسے جواباً اماں کی صلواتیں سننے کو ملیں گی۔ اُسے بھوت، جن اور چڑیلوں پر کوئی یقین نہ تھا مگر روزانہ کے معمول میں ذکر ہی یہی ہوتا میاں صاحب کی روزی روٹی انہی معصوم صفت لوگوں کے درمیان گذر رہی تھی۔ جو اپنی مجبوریاں اُن کے پاس لاتے اور تعویز اور پڑھے ہوئے پانی کی صورت آسان ساحل لے جاتے۔ اکثر کی بیٹیاں کسی جن کی بدنظری کا شکار ہوتیں اور میاں صاحب کے جن اتارنے کے بعد ٹھیک ہو جاتیں۔ صبح سے شام تک لوگوں کی میاں صاحب پر جمی آس بھری نظریں اسے مجبور کرتیں کہ اس بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کیا جائے۔ کتنی معصوم بچیوں کے جن تو میاں جی نے اتار پھینکے تھے اور اب وہ شادی کے بعد اپنے گھروں میں ہنسی خوشی زندگی گزار رہی تھیں۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!