نامراد

جائے نماز پر بیٹھے دعا مانگتے ہوئے اس کے لب خود بہ خود مسکرا رہے تھے۔ اب تو دعا کے سوا کوئی کام ہی نہ تھا کھاتے، پیتے، ہنستے، بولتے، سونے سے پہلے اور جاگنے کے بعد صرف ایک ہی مُراد کہ دل کی مُراد زندگی کی مراد بن جائے۔ اسی لمحے اماں اندر داخل ہوئیں اور تاجور کو اسی طرح مسکراتے دیکھ ان کا دل ڈوب گیا۔ کتنے سال پہلے اسی جگہ ان کی نند شہلا بیٹھی ہوئی تھی، جو دعا مانگتے ہوئے بالکل اسی طرح مسکراتی تھی۔ جب بندے اور رب کے درمیان مسکراہٹ کا رشتہ بن جائے تو کسی بہت بڑی مراد کا پتا ملتا ہے جسے رو کر نہیں ہنس کر اور مُسکرا کر اپنے رب سے منوایا جا رہا ہو۔ انہیں یاد آیا کہ شہلا نے اپنی جس خواہش کو رب سے منوانے کی کوشش کی تھی وہ اس کی خواہش دل میں لئے دنیا سے چلی گئی تو کیا تاجور بھی ایسی ہی کسی مراد کا قرعہ اپنے رب کے آگے ڈال بیٹھی ہے۔ اے اللہ! ایسا ہرگز نہ ہو کیوں کہ یہ تو طے ہے ایسی خواہش اس گھر میں تو کبھی پوری نہ ہو گی۔ کچھ خواہشیں آزمائش ہوتی ہیں۔ انہیں یاد آیا کتنا روئی تھی شہلا اُن کے پاس بیٹھ کر۔ وہ مرید تھا میاں صاحب کا اور کسی دوسرے شہر سے اپنا روحانی علاج کروانے آیا تھا۔ شہلا کو دیکھ کر اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اور پھر دونوں کی ملاقاتیں ہوئیں۔ مگر جس دن میاں صاحب کے ایک مرید نے دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر میاں صاحب سے شکایت کی اُس دن گھر میں دھماکا ہو گیا۔ میاں صاحب نے اس مرید کو فوراً وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اور شہلا کو بھی سمجھا دیا دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے لیکن ایسا بالکل ممکن نہیں۔ اُس دن سے شہلا کو ایک دائمی سی چُپ لگ گئی اور اس نے اپنا ناطہ رب سے جوڑ لیا۔ کسی نے صحیح کہا ہے ہر نامراد شے کی شدید خواہش بندے اور رب کے درمیان عشقِ بامراد بن جاتی ہے اور وہ سالوں اپنے رب سے بامراد رہی اور ایک دن سجدے میں ہی رب سے جاملی۔
سجدے میں رب سے نہ جانے کیا کیا راز و نیاز ہوتے تھے۔ کئی سال وہ شہلا کی گواہ رہیں۔ ایک سکون سا ٹھہر گیا تھا شہلا کے چہرے پر دعا مانگتے صرف مسکراہٹ ہوتی روتے ہوئے دعا مانگتے کبھی نہ دیکھا آج اپنی بیٹی کے چہرے پر بھی ایسی مسکراہٹ اور سکون انہیں کسی آنے والی قیامت کی خبر دے رہا تھا۔ بیٹی تھی کیسے پوچھتیں ایک حجاب مانع تھا، اُن ماں بیٹی کے درمیان۔ اپنی نند کی تو وہ ایک طرح سے رازدار تھیں لیکن بیٹی کے بارے میں وہ ایسا سوچ بھی نہ سکتی تھیں اور وہ مسکرا رہی تھی آنکھیں بند تھیں۔ بند آنکھوں میں مراد کی مراد پوشیدہ تھی۔
ابھی چار ماہ پہلے تو عمارہ کی شادی میں تاجور مُراد سے ملی تھی۔ عمارہ اس کی بہترین دوست اور عمر مراد کا جگری یار۔ گھبرائی گھبرائی سی ہرنی کی طرح تاجور سیدھی عمر کے دوست مراد کے دل میں گھر کر گئی۔ اس نے اتنی صاف ستھری سیدھی کھُبتی ہوئی نظر کب دیکھی تھی۔ تاجور کی پہلی نظر ہی دل میں کھُب کررہ گئی۔ نظر ہی تو دل کا پتا دیتی ہے۔ سچی نظر بھی سچی دُعا طرح دل میں اُترتی ہے اور مراد اس کی نظر سے اس کے دل تک پہنچ گیا اس کے لیے واپسی کی اب کوئی راہ نہ بچی تھی۔
لڑکیاں بالیاں لُڈی ڈال رہی تھیں۔ تو وہ سر پر دوپٹہ لیے سب سے الگ تھلگ کھڑی صرف تالیاں بجا رہی تھی۔ مخلوط محفل تھی۔ لڑکیاں کُھلے عام، کُھلے سر لڑکوں کے درمیان لڈی ڈال کر محفل کو محظوظ کررہی تھیں۔ چالاک اور میک اپ زدہ چہروں کے درمیاں ایک معصوم اور صاف ستھرے چہرے والی خوب صورت سی تاجور بالکل الگ سی محسوس ہورہی تھی۔ جیسے کیچڑ میں کھِلا ہوا کنول کا پھول….
وہ عمر سے اس کے بارے میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
”ارے میرے دوست خیر تو ہے تو تو بالکل ہی عاشق ہوگیا ہے۔“ عمر نے اُسے کہنی سے ٹہو کا دیا کیوں کہ وہ مراد کی نظر پر نظر رکھے ہوا تھا۔
”ارے نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں۔“ مراد جھینپ گیا۔
”ہاں میں خود تجھے بہت دیر سے دیکھ رہا ہوں تھوڑی تھوڑی دیر بعد تیری نظر اس پر ہی ٹھہر جاتی ہے۔“
”ہاں یار وہ بالکل مختلف ہے۔“ مراد نے جیسے اعتراف کیا۔
”ایسی لڑکیاں آج کل کہاں ہوتی ہیں میک اپ تھوپ کر ڈانس کرتی ان لڑکیوں کو دیکھو اور صاف ستھرے چہرے کے ساتھ اس تاجور کو۔“ عمر نے کھُلے دل سے تاجور کی تعریف کی۔
”اچھا تو اس کا نام تاجور ہے۔“ مراد کو نام بہت اچھا لگا۔
”ہاں عمارہ کی اچھی دوست ہے۔ والد صاحب جدّی پشتی ایک گدی نشین ہیں۔ پیری مریدی کا سلسلہ ہے۔ گھر کے ساتھ ہی مسجد ہے۔ وہاں امامت بھی کرواتے ہیں اور اپنا کام بھی کرتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں مُریدین ہیں لگتا ہے تجھے بھی ان کے ہاتھوں مرید بننا پڑے گا۔“
”بیٹی کا مرید تو بن گیا ہوں باپ کی مریدی بھی کر لیں گے۔“مراد نے قدرے شوخی سے کہا۔
”کیا کہہ رہا ہے تو۔“ عمر نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔
”کچھ نہیں یار تو صحیح کہہ رہا ہے۔“ مراد نے بات بنائی۔
یہ کیسے ممکن تھا کہ کسی کی نگاہوں کی تپش سے تاجور کے دل کی دیواریں نہ پگھلتیں۔ اُسے محسوس ہورہا تھا کہ مراد کی نظریں پوری محفل میں گھوم پھر کر اس پر ٹک جاتیں۔ کئی بار تو اس نے جگہ بدلی لیکن مراد بھی بے چین ہوکر اپنی نظروں کو وہیں مرکوز کر دیتا جہاں وہ کھڑی ہوتی۔ پہلے تو تاجور نے نظرانداز کیا پھر بہت برداشت کرتی ہوئی عمارہ کے پاس آگئی اور جھنجھلاتے ہوئے بولی ”یار یہ کون بدتمیز ہے اُسے لڑکیوں کو دیکھنے کی تمیز نہیں۔“
”تاجور وہ لڑکیوں کو نہیں صرف ایک لڑکی کو دیکھ رہا ہے دیکھو! دیکھو! ابھی بھی اُس کی نظریں تم پر ٹِکی ہوئی ہیں اور کتنے خواب ہیں اس کی آنکھوں میں۔“عمارہ نے شوخی سے کہا۔
”تمہارا دماغ تو خراب نہیں عمارہ۔“ اس نے سر پر دوپٹہ ٹھیک کیا اور منہ موڑ لیا۔

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!