نامراد

خوابوں سے منہ موڑنے سے قسمت نہیں مُڑتی ڈیئر جو ہونا ہے وہ ہوکر رہتا ہے۔“ عمارہ نے ہلکے سے کان میں سرگوشی کی۔ زرد جوڑے میں ملبوس وہ لگ بھی بہت پیاری رہی تھی۔ بیلے کے پھول کانوں اور ہاتھوں میں پہنے بیلے کا ہی کوئی پھول محسوس ہورہی تھی۔
”لیکن تم جانتی ہو ہمارے ہاں خواب دیکھنے کی سزا میں دیواروں میں چنوا دیا جاتا ہے۔“ عمارہ کی ہر بات کا جواب تھا اس کے پاس۔
جن خوابوں کو آنکھوں کا مقدر بننا ہو وہ اتنی سزا بھی سہہ لیتے ہیں، تم کب تک گھر والوں کے خوف سے اپنی آنکھوں کے خواب نوچ نوچ کر پھینکتی رہو گی۔ یونی ورسٹی میں کون کون نہ تھا تمہارے طلب گاروں میں اور تم….
”تم ابا جی کو جانتی ہو نا اونچی ذات سے تعلق اُن کا فخر ہے۔ اپنی بیٹی سے بڑا فخر وہ اپنی زندہ بیٹی کو قربان کرسکتے ہیں مگر اپنے آباءکا دیا ہوا یہ مُردہ اعزاز اپنے سینے سے نوچ کر نہیں پھینک سکتے۔“ اس نے ہلکی سی اُداسی سے کہا۔
”یار اس صدی میں بھی ایسے خیالات، حیرت ہوتی ہے مجھے۔ پچیس سال کے بعد لڑکی ڈھلتی عمر کی سمجھی جاتی ہے جب خاندان میں تمہارے ساتھ کا کوئی جوڑ نہیں تو کردیں کہیں نہ کہیں۔“
”تم نہیں جانتیں جان جائے پر آن نہ جائے۔ تم تو خوش قسمت ہو تمہاری شادی رمیز بھائی سے ہو رہی ہے جو تمہارے اپنے ہیں۔“ اداسی اس کی آنکھوں سے جھلک رہی تھی۔ زرد لباس اور پھولوں کے زیور میں ملبوس وہ کوئی اکتوبر کی اداس سی شام لگ رہی تھی۔ جاتے ہوئے موسم کی جدائی اور آتے ہوئے موسم کے وصل کا احساس اس کی آنکھوں سے چھلکا پڑ رہا تھا۔ اُف اس معاشرے کے بوسیدہ دیمک زدہ اصولوں نے کتنے دلوں کو برباد کیا ہوا ہے مگر سارے اصول و ضوابط کی پوٹلی عورت کے حصّے میں کیوں آتی ہے؟
”تم بغاوت کیوں نہیں کرتیں یا شہلا پھوپھو کی طرح دنیا سے صبر اور خاموشی کا درد لے کر چلے جانا ہے۔ بعض اوقات صبر اور خاموشی میں صرف درد نہیں ہوتا بلکہ انگارے ہوتے ہیں، جلن ہوتی ہے جو رہ رہ کر اٹھتی اور تکلیف دیتی ہے۔ اپنی جائز خواہشات کی قبر دل بنانے کا مطلب زندہ درگور ہونا ہے۔ مر جاو ¿ گی تم لحاظ کرتے کرتے۔“
”تو کیا ہوا ہم جیسی کتنی مر جاتی ہیں ایک اور سہی؟“ اس نے بے دردی سے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کئے۔
”بس کر دو 1965ءکی بہار بیگم یا شمیم آرا نہیں ہو تم اور نہ ہی اس سے بھی پرانے زمانے کی ہیر۔ اپنے حق کے لیے لڑنا سیکھو کیوں کہ اس کا حق تمہیں تمہارے مذہب نے دیا ہے۔“ اس نے اردگرد نظر ڈالی اور اپنی آواز کو قدرے دھیما کیا۔ ”مجھے جس مذہب کے احکامات سنائے جاتے ہیں اس میں والدین کی ہر بات پر سر جُھکانا رب کو راضی کرنے کے مترادف ہے۔“ سو میاں جی کو نا خوش کرنا رب کو ناخوش کرنا ہے۔“
”اولاد ہر ناجائز خواہش پر ماں باپ کے آگے سرجھکائے یہ کہیں کسی کتاب میں نہیں لکھا۔ شادی کے وقت اپنی اولاد کو اس کی پسند کا حق دینا یہ حکم بھی ہمارے مذہب میں موجود ہے۔ یہ تو کوئی نہیں بتاتا۔ مردوں کے اس معاشرے میں سب نے اپنی مرضی کا فیصلہ عورت پر تھوپا ہے کہ صرف عورت جکڑی رہے اور اُن کی انا کی فصیل مضبوط رہے۔“
”یار اس وقت تم مایوں کی دُلہن ہو ایسی باتیں مت کرو تمہارے جذباتی پن سے سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ چھوڑو میری کہانی وہ دیکھو اس وقت رمیز بھائی لڈی ڈال رہے ہیں۔“ اس نے دور رمیز اور اُس کے دوستوں کو مسرت نذیر کے گانوں پر لڈی ڈالتے دیکھا تو اشارہ کیا۔
”ہاں اور وہ مراد صاحب لڈی وہاں ڈال رہے ہیں اور نظریں ادھر جمی ہیں۔“ اس نے بھی مزہ لیا۔
چھوڑو یار جس راہ پر چلنا نہیں اس کی بات کرنے کا بھی کوئی فائدہ۔“ اُس نے منہ بنایا اور اُٹھ کر وہاں سے اندر کی جانب چل دی۔ جہاں عمارہ کی اماں ڈھیر سارا سامان بکھرائے بیٹھی تھیں۔ وہ خاموشی سے اُن کے پاس چلی آئی۔
”خالہ جی آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟“
”ہاں بس عمارہ کی رخصتی کا سوچ سوچ کر دل اُداس ہے۔“ خالہ جی کی آنکھوں میں آنسو جھلملائے تو اُس نے اُٹھ کر انہیں گلے لگا لیا۔ اداسی تو اس وقت اُس کے اندر بھی بہت تھی بچپن کی دوست تھی عمار اس نے اُن کے گلے لگنے کے بہانے اپنے آنسوﺅں کو بھی راستہ دے دیا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!