نامراد

بارہ بجنے میں صرف پندرہ منٹ باقی تھے اور تاجور پریشان سی کمرے میں ٹہل رہی تھی۔ ”کیا کروں کس طرح کارڈ پکڑا کر چلا گیا، جیسے میں واقعی اس کو فون کر ہی لوں گی۔“ وہ بڑبڑائی۔
”تاجور بی بی چاہتی تو تم بھی یہی ہو۔“ دل نے جوابی حملہ کیا۔
کبھی ٹہلتی، کبھی بیڈ پر بیٹھتی، کبھی کھڑی ہوتی اور گھڑی کی سوئیوں پر نظر ڈالتی۔ وہ اس وقت عجیب سے مخمصے کا شکار تھی۔
ایک وقت اس نے کارڈ کو پھاڑنے کی کوشش بھی کی مگر مراد کے نام پر نظر پڑتے ہی اس نے ارادہ بدل دیا۔
”یار کیا کروں بات ایسی ہے کسی سے مشورہ بھی نہیں کر سکتی اور….“ وہ خود کو بہت مجبور محسوس کر رہی تھی۔
”میں پھاڑ کیوں نہیں دیتی اس کا کارڈ کیا چاہتی ہوں؟“ اس نے خود سے سوال کیا۔ ”تم اُس سے بات کرنا چاہتی ہو۔ اپنے دل سے پوچھو کیا تمہیں اچھا نہیں لگا کہ وہ ساری محفل میں صرف تم کو دیکھ رہا تھا۔ تم جہاں جہاں جاتیں اس کی نظروں کو اپنے اردگرد محسوس کرنا کتنا اچھا احساس تھا۔“ کوئی اندر سے اُس کو آئینہ دکھا رہا تھا۔
”نہیں مجھے ایسی راہ پر نہیں چلنا، جو مجھے میری اصل راہ سے بھٹکا دے۔ دل تو نہ جانے کیا کیا چاہتا ہے دل کی ہر بات تو مانی نہیں جا سکتی۔ تجھے اس سے بات کرنی ہو گی اس کی ساری امیدوں کو ختم کرنا ہو گا تاجور۔ اسے بتانا ہو گا کہ مجھ سے کوئی امید نہ رکھو۔“ انہی سوچوں کے درمیان گھڑی نے بارہ کا گھنٹہ بجایا دیوار پر لگا ہوا پرانا سا گھڑیال زور سے بجا تو اس نے چونک کر غیرارادی طور پر موبائل ہاتھ میں لے لیا اور نمبر دبائے۔
”ہیلو۔“ اس نے بہت ضبط و تحمل سے کہا۔
”ہیلو۔“ دوسری جانب سے خوشی اپنے عروج پر تھی بالکل ایسی خوشی جیسی کسی بچے کو اپنا من پسند کھلونا ملنے پر ہوتی ہے۔
”مجھے معلوم تھا کہ آپ فون ضرور کریں گی۔“ آواز میں خوشی اور گنگناہٹ سُن کر تاجور کا دل اندر سے رو پڑا۔
”آپ کو کیسے معلوم؟“ دل میں اُٹھی ہوک کو دبا کر بولی۔
”کچھ باتیں دل خود ہی جان لیتا ہے کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔“ ہنسی میں گنگناہٹ ہی کچھ اور تھی۔
”مراد صاحب میں نے اسی لیے آپ کو فون کیا ہے۔“ وہ تھوڑا ہکلائی۔
”آپ کچھ نہ کہیں تاجور مجھے معلوم ہے۔“ دل کو نہ جانے کس بات کا یقین تھا۔
”آپ کو کیا معلوم؟ کہ میں ہاں کر دوں گی آپ کی خواہش پر۔“ دل میں اُٹھتی ہوک کو دل میں دباتے ہوئے پوچھا۔
”جی میرا تو یہی خیال ہے۔“ دوسری جانب ہر انداز سے شوخی ہویدا تھی۔
”آپ بالکل غلط سمجھے مراد صاحب میں نے آپ کو فون صرف اس لیے کیا ہے کہ آپ کو بتا سکوں کہ آپ جو کچھ سوچ رہے ہیں ایسا بالکل ممکن نہیں۔ ہمارے خاندان میں ذات پات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ “
”میں جانتا ہوں لیکن تاج اب وقت بدل گیا ہے اور اس بدلتے وقت میں مجھے اور آپ کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔“ اُس نے بہت مضبوط لہجے میں اُسے سمجھایا۔
”آپ مجھے بغاوت سکھا رہے ہیں۔“ وہ تکلیف کی شدت سے کراہی (زیادہ تکلیف تو اتنے پیار سے تاج کہنے کی تھی۔)
”یہ بغاوت نہیں اپنے حق کے لیے بات کرنا ہے یہ حق آپ کو آپ کے مذہب نے بھی دیا ہے تاج پلیز اسے استعمال کریں۔ ضروری نہیں کہ ہمارے بڑے ہمیشہ صحیح ہوں۔“
”مجھے نہیں معلوم آپ کیا کہہ رہے ہیں میں جانتی ہوں تو صرف اتنا میرے ماں باپ جو فیصلہ کریں گے وہ میرے لیے بہتر ہو گا۔“
”میں مانتا ہوں تاج ماں باپ ہمیشہ بچوں کے حق میں بہتر کرتے ہیں لیکن اب ہم بچے نہیں باشعور اور بالغ ہیں۔“ مراد نے بھی آخری کوشش کر ڈالی۔
”تاجور لاجواب ہو گئی تھی لیکن لاجواب ہونے کے باوجود اس کی بات کا جواب دینا ضروری سمجھتی تھی کیوں کہ وہ اس کی ہر امید ختم کرنا چاہتی تھی۔
”ہم کتنے بھی باشعور اور بالغ ہوں تب بھی ہمیں اپنے بڑوں اور اُن کے فیصلوں کی ضرورت ہمہ وقت رہتی ہے۔“
”میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتی بس چاہتی ہوں کہ میری طرف سے آپ نے جو امیدیں پال رکھی ہیں پلیز وہ ختم کر دیں اور جہاں ماں باپ کہتے ہیں شادی کر لیں۔“ اتنی سی بات کے بعد وہ خود اندر ہی اندر ہانپ گئی۔ وہ اپنی آواز اور لہجے سے بھی اس کے دل میں اُتر چکا تھا۔
”لیکن پلیز تاجور میری بات تو سُنیں۔“ وہ بے چین ہو اٹھا اور تاجور نے لائن کاٹ دی۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!