نامراد

شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے ہلکی سی لپ اسٹک لگائی مگر محسوس ہوا کچھ کمی سی ہے۔ اس نے ایک کوٹ اور لگایا اور آنکھوں میں کاجل ڈالا۔ کانوں میں بیلے کے پھولوں سے بنے بالے پہن کر اس نے ایک نظر اپنا تنقیدی جائزہ دوبارہ لیا مگر اب بھی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ کمی باقی ہے۔ ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ اتنی تیاری کے بعد بھی وہ مطمئن نہ ہوئی ہو۔ اس کے خیالوں میں دو گہری گہری نگاہیں آگئیں تو دل کو پتا چلا کہ آج کیا نئی بات ہے وہ مطمئن کیوں نہیں ہو پا رہی۔ اس نے سیاہ اور سُرخ امتزاج کی خوب صورت سی پشواز اور ساتھ ہی سُرخ رنگ کا پائجامہ اور دوپٹہ لیا ہوا تھا۔ حسبِ عادت دوپٹہ سر پر تھا مگر سیاہ موٹی سی چوٹی اس سے جھلک رہی تھی اور تھوڑے سے بال چہرے کے گرد ہالہ کئے ہوئے تھے۔ دلہن بنی عمارہ نے ہال پہنچنے پر زبردستی تھوڑا سا میک اپ اور گہرا کروا دیا جس سے اس کا حسن دوآتشہ ہو گیا۔ بارات کے ساتھ اندر داخل ہوتے مراد کا دروازے پر مہمانوں کا استقبال کرتی تاجور سے نظر ہٹانا تقریباً ناممکن سا ہو گیا۔ وہ یک ٹک اُسے دیکھے گیا تو خجل سی ہو کر تاجور اندر کی جانب پلٹ گئی۔ کیا مصیبت ہے؟ مرد کی نظر پر لگام ڈالنا بے لگام گھوڑے پر لگام ڈالنے سے زیادہ مشکل ہے۔ عورت کی زبان کا دم اور مرد کی نظر کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔ اس ایک لمحے میں اُسے اماں کی کہی گئی نہ جانے کتنی مثالیں یاد آگئیں۔ ”کس طرح سمجھاﺅں اس شخص کو۔“ وہ دل ہی دل میں گوس رہی تھی۔
بہ ظاہر وہ غصے میں تھی مگر مراد کی سراہتی نظروں سے دل پر پھوار بھی برس رہی تھی۔ عورت مرد کی سچی محبت اور سراہتی نظر کو فوراً پہچان لیتی ہے لیکن معلوم تھا سب بے سود ہے کچھ ممکن نہ تھا۔ وہ بھرے دل سے اندر چلی آئی۔ خالہ بھی اسے آوازیں دیتی اندر چلی آئیں۔
”اے تاجور تو یہاں سب سے چھُپ کر کیوں بیٹھی ہے جا باہر دیکھ سب مہمان آچکے ہیں۔“ خالہ چُھپ کر تو نہیں بیٹھی بس یوں ہی۔“ آنکھیں نہ جانے کیوں بھر آئیں وہ دوبارہ اُن نظروں کا سامنا نہیں کرنا چاہ رہی تھی جس کی خاطر اُس نے آج دل لگا کر خود کو سجایا تھا۔
”ارے کل تو مجھے چُپ کروا رہی تھی آج خود رونے بیٹھ گئی۔“ انہوں نے اسے خود سے لپٹا لیا۔ عمارہ اور تاجور کی بچپن کی دوستی تھی دونوں ایک دوسرے سے کتنا پیار کرتی ہیں یہ وہ بہ خوبی جانتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ عمارہ کے جانے کا جتنا دکھ اُن کو ہے تاجور کو بھی کم نہیں۔
”چل چھوڑ سب بس یہ بتا میاں صاحب کب تک آرہے ہیں نکاح پڑھانے کافی دیر ہو گئی ہے۔“ اُن کے انداز میں پریشانی تھی۔
”جی خالہ میاں صاحب بس تھوڑی دیر میں پہنچ رہے ہیں کچھ مرید بیٹھے تھے اُن کے پاس۔ کہہ رہے تھے تم چلو میں پہنچ رہا ہوں۔ اماں کی طبیعت خراب تھی وہ نہیں آسکیں گی۔“
”ہاں اُن کا فون آگیا تھا بہت دعائیں دے رہی تھیں عمارہ کو۔“ وہ مسکرائیں۔
”السلام علیکم خالہ۔“ مراد نے اندر آکر سلام کیا۔
”وعلیکم السلام! مراد بیٹا آﺅ آﺅ۔“ تاجور نے مراد کو دیکھ کر خالہ کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کی جس سے مراد کے لبوں پر مسکراہٹ سی رینگ اُٹھی۔ جس چہرے کی تلاش میں وہ کتنے سالوں بھٹکا اس کے ساتھ چُھپن چھپائی کا یہ کھیل عجب لطف دے رہا تھا۔ عجب سی کسک، عجب سی مٹھاس وہ خود اپنی اس حالت کو نہیں سمجھ پایا۔ کتنے سالوں باہر پڑھنے کے بعد ہزاروں چہروں میں ایسا چہرہ جس میں کوئی بہت الگ سی بات تھی جس کو وہ اب تک نہ کھوج پایا۔
”خالہ نکاح کی سب تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ انکل پوچھ رہے ہیں میاں صاحب ابھی تک نہیں پہنچے۔“ باتیں خالہ سے لیکن نگاہیں پیچھے چھپی تاجور کو ڈھونڈ رہی تھیں، جو خالہ کی چوڑی چکلی پشت کا فائدہ اٹھا کر چھپنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”ہاں بس تاجور کے والد پہنچنے ہی والے ہیں نکاح وہ پڑھائیں گے تم چلو میں آتی ہوں۔“
”تاجور بیٹا میاں صاحب کو دوبارہ فون ملاﺅ۔ اب تک پہنچے کیوں نہیں۔“
”جی خالہ جی۔“ اس نے ہاتھ میں دبا فون ملانے کی کوشش کی اور گھبراہٹ میں غلط نمبر ملا بیٹھی، احساس ہوا تو فون کاٹا۔
مراد اس کی بوکھلاہٹیں انجوائے کر رہا تھا، اسی لیے مُسکراتے ہوئے پلٹ گیا۔ پھر پوری برات میں تاجور اس کی نظروں کا مرکز بنی رہی تاجور کی اپنے دل کی ہر دھڑکن ان نظروں کے پیغام پر لبیک کہنے کو تیار تھی مگر دل پر ضبط کے پہرے بٹھائے وہ اس سے چھپتی پھر رہی تھی۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

ورثہ

Read Next

پتھر کے صنم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!