من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

”کیا فرق پڑتا ہے؟ تم بہن ہو میری۔” ربیعہ اسے قائل کرنے کی کوشش کرتی۔ ”اپنا حصہ منگیتر کو کھلا آتی ہو توکوئی ہرج نہیں، اگر میرے حصے میں سے کچھ لے لو۔ تمہارا بھی تو دل چاہتا ہو گا تم کبھی یہ خود کھاؤ۔”
”جب شیراز ہر بار میرے حصے کی کوئی چیز کھاتے ہیں تو مجھے بغیر کھائے بھی اس چیز کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ اور اس ذائقے سے زیادہ اچھا ہوتا ہے جو میں اسے خود کھا کر محسوس کرتی، مجھے تو کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ میں یہ پراٹھا ان کو کھلا آتی ہوں، خود نہیں کھاتی۔” اس کے پاس سیدھا جواب ہوتا تھا۔
”اللہ کا شکر ہے، عمران کویت میں بیٹھا ہوا ہے،ورنہ تمہاری حرکتیں دیکھ کر اگر وہ بھی مجھ سے فرمائش شروع کر دیتا کہ میں بھی اسے اس طرح اپنے حصے کے قیمے والے پراٹھے بنا بنا کر کھلاؤں تو میں کیا کرتی۔ میں تو تمہاری طرح قیمہ کھائے بغیر نہیں رہ سکتی۔”
ربیعہ مذاق اڑانے والے انداز میں اپنے ہونے والے منگیتر کا حوالہ دے کر کہتی۔ اس کی بات بھی اپنے خالہ زاد کے ساتھ طے تھی لیکن زینب کے برعکس وہ اس طرح عمران پر فدا نہیں تھی۔ نہ ہی زینب کی طرح عمران کا نام ہر وقت اس کی زبان پر ہوتا تھا۔ وہ فطرتاً لاپروا تھی۔ زینب فطرتاً بے حد حساس۔
”میری سمجھ میں تو ایک بات نہیں آتی۔ شیراز بھائی نے کبھی یہ نہیں کیا کہ پراٹھے کے دو حصے کر کے آدھا تمہیں دے دیں۔ سارا خود کھا جاتے ہیں۔”
ربیعہ قدرے مذاق اڑانے والے انداز میں بولی۔
”ہمیشہ وہ مجھے کھانے کا کہتے ہیں، میں خود نہیں کھاتی۔ ایک چھوٹا سا تو پراٹھا ہوتا ہے۔ میں بھی کھانے بیٹھ جاؤں گی تو وہ کیا کھائیں گے۔” زینب نے بے حدبرا مان کر کہا۔
”اور پھر تمہیں کیا تکلیف ہے؟ تم خوا مخواہ ۔۔۔”
ربیعہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تمہیں یاد ہے جب شیراز بھائی چھوٹے ہوتے تھے، تب بھی تمہاری چیزیں لے کر کھا جایا کرتے تھے۔”
”میں خود دیتی تھی انہیں۔” زینب نے اور برامانا ۔
”ان کے مانگنے پر۔” ربیعہ کو اسے تنگ کرنے میں مزہ آرہا تھا۔
”جی نہیں، مانگنے سے بھی پہلے۔” زینب نے بے ساختہ کہا۔
”اسی وجہ سے تو عادتیں بگڑ گئی ہیں ان کی۔” ربیعہ نے اسے مزید چھیڑا۔




”تم اپنے ٹیسٹ کی تیاری کرو اور فضول باتیں مت کرو۔”
زینب نے پراٹھا توے سے اتارتے ہوئے اس بار قدرے زیادہ ناراضی سے کہا۔ وہ اب ٹرے نکال رہی تھی۔
”تم خود تو کم از کم ناشتہ کر کے جاؤ۔” ربیعہ کو یک دم خیال آیا۔
”نہیں میں آکر کروں گی۔ آج تو گھر پر ہی ہوں۔”
”اور آؤ گی کب؟”
”میں ابھی آجاتی ہوں۔ زیادہ دیر نہیں لگے گی مجھے۔”
”شیراز بھائی جانے سے پہلے یہاں سے ہو کر جائیں گے نا؟” ربیعہ نے باورچی خانہ سے باہر اس کے پیچھے آتے ہوئے کہا۔
”پتا نہیں، پوچھوں گی۔ امی تو گھر پر ہیں نہیں۔ وہ ہوتیں تو پھر ضرور آتے۔”
”خیر، آتے تو وہ صرف تمہارے لیے ہیں یہاں، ورنہ چچا، خالہ یا ان کے دوسرے بچوں میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
ربیعہ کی بات پر اس نے یکدم پلٹ کر اس کو گھورا۔
”اچھا… اچھا… یہ بس آخری بات تھی۔” ربیعہ نے جلدی سے کہا۔
”سلمان کو ناشتہ دے دینا۔” زینب کو یکدم کالج کے لیے تیار ہوتے ہوئے سلمان کا خیال آیا۔
”شکر ہے، لوگوں کو ”بھائی” کا بھی خیال آیا۔”
ربیعہ نے مدّھم آواز میں کہا۔ زینی نے یوں ظاہر کیا جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو۔ وہ صحن کا دروازہ پار کر گئی تھی۔
٭٭٭
”لمبی عمر ہے زینی کی ماشاء اللہ۔ ابھی نام لے رہے تھے تمہارا اور تم آگئیں۔”
نسیم نے زینی کو بیرونی دروازے سے اندر صحن میں آتے دیکھتے ہی بے ساختہ کہا۔ وہ صحن میں ہی بیٹھی کپڑے دھو رہی تھیں۔ دروازہ نزہت نے کھولا تھا۔
”میرا نام کیسے لے لیا خالہ آپ نے؟” زینی نے بے اختیار مسکرا کر کہا۔
”ارے تمہارا نام تو دن رات لیا جاتا ہے اس گھر میں۔ میری اکلوتی بہو کا نام نہیں لیا جائے گا تو اور کس کا لیا جائے گا۔” نسیم نے بے حد پیار سے اپنی بھانجی کے مسکراتے ہوئے چہرے کی دل ہی دل میں بلائیں لیں۔
”ہاں بھئی، امی کو تو بس اکلوتا بیٹا اور اکلوتی بہو ہی یاد رہتی ہے۔ ہمارا تو کسی گنتی میں شمار نہیں ہے۔”
شیراز کی چھوٹی بہن نزہت نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔ وہ اور زینب تقریباً ہم عمر تھیں، اس لیے شیراز کی باقی دونوں بہنوں کی نسبت ان دونوں کے درمیان آپس میں زیادہ بے تکلفی تھی۔
”ہاں بھئی! یہ تو ہے۔ خالہ کو ذکر تو بس ہمارا ہی کرنا چاہیے۔ آخر ہم ہی نے تورہنا ہے خالہ کے پاس۔ تم سب نے تو چلے جانا ہے یہاں سے۔”
زینی نے بھی اسی انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تک ٹرے ہاتھ میں لیے نل کے پاس بیٹھی کپڑے دھوتی نسیم کے پاس کھڑی تھی۔
”اتنا نہیں ہوتا کہ ایک بار اس کو بیٹھنے کا کہہ دے۔ وہ بے چاری برتن اٹھائے کھڑی ہے۔ نہ برتن ہاتھ سے لے رہی ہے، نہ اس کو بیٹھنے کا کہہ رہی ہے۔ مجال ہے تجھے کبھی عقل آجائے۔” نسیم نے کچھ ناراض ہوتے ہوئے بیٹی سے کہا۔
”نہیں نہیں خالہ! میں خود باورچی خانے میں رکھ آتی ہوں۔ سامنے آپ نظر آئیں تو آپ کے پاس آکر کھڑی ہو گئی۔ اس میں نزہت کا کیا قصور۔” زینی نے جلدی سے کہا۔
”کیا لے کر آئی ہو؟” نزہت نے پوچھا۔
”شیراز کے لیے ناشتہ لے کر آئی ہوں۔”
”پھر تو اندر کمرے میں ہی لے جا بیٹا! بس نزہت بنانے ہی والی تھی اس کا ناشتہ۔” نسیم نے کہا۔
”وہ جاگے ہوئے ہیں؟” زینی چونکی۔
”ہاں… ہاں… تیاری کررہا ہے جانے کی۔ ابھی ضیا بھی مل کر گیا ہے اس سے۔”
”اچھا پھر میں لے ہی جاتی ہوں۔ قیمے کا پراٹھا ہے۔ ابھی گرم ہی ہے بہتر ہے فوراً کھالیں۔” زینی نے اندر کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
شیراز اپنے بیگ میں کچھ کتابیں رکھ رہا تھا اور وہ پہلے ہی باہر صحن میں زینی کی آواز سن چکا تھا۔
”تو زینب بی بی کو ہمارا خیال آگیا۔” اس نے زینب کے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔ زینی مسکرا دی۔ وہ یہ جملہ سننے کی عادی تھی۔
”سلام نہیں کیا، حال نہیں پوچھا۔ سیدھا گِلہ۔”
اس نے ٹرے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ شیراز جواب سننے کا عادی تھا۔ وہ مسکرا کر بیگ رکھتے ہوئے کرسی کھینچ کر اس تپائی کے سامنے بیٹھ گیا۔
”چلو قسمت میں اور کچھ نہ سہی، زینی کے ہاتھ کا پراٹھا تو ہے ہی۔” اس نے لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”کب جا رہے ہیں؟” زینی نے دوسری کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”تمہیں پتا تو ہے۔” شیراز نے اسے دیکھا۔
”ہاں… اور کب واپس آئیں گے؟”
”وہ بھی تمہیں پتا ہے زینی!” شیراز نے لاپروائی سے کہا۔ ”آجاؤں گا دو دن میں۔”
اس نے اگلا لقمہ توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر ٹھٹک گیا۔ زینی نے اپنی قمیص کی آستین کلائی سے کچھ اوپر کرتے ہوئے بائیں ہاتھ میں پہنی ہوئی سونے کی دو چوڑیاں اتار کر اس کے سامنے تپائی پر رکھ دی تھیں۔
”یہ کیا ہے؟” شیراز نے بے حد ہکا بکا ہو کر اس سے پوچھا۔
”یہ سونے کی چوڑیاں ہیں۔ میں نے شادی کے لیے بنوائی تھیں ٹیوشن کے پیسوں سے۔ آپ کو دس ہزار روپوں کی ضرورت تھی۔ اتنے تو مل ہی جائیں گے۔” اس نے سادہ لہجہ میں کہا۔
شیراز نے ابھی کل ہی اس سے کچھ رقم مانگی تھی مگر زینی کے پاس اتنی رقم نہیں تھی۔ اس سے پہلے بھی شیراز اکثر اس سے رقم لیتا رہتا۔ کبھی وہ اسے لوٹا دیتا اور کبھی زینی اس سے واپس نہیں لیتی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ شیراز کو دس ہزار روپے کی ضرورت پڑی تھی۔ وہ اسے چند دن دیتا تو شاید وہ اسے کہیں نہ کہیں سے رقم مہیا کر دیتی۔ مگر ایک ہی دن میں دس ہزار… اور اس پر شیراز کی یہ خواہش بھی تھی کہ وہ ضیا سے یا گھر میں کسی دوسرے سے اس کا ذکر نہ کرے۔
”مگر شیراز! میرے پاس تو اتنے روپے نہیں ہیں۔ ابو کے کچھ روپے پڑے تھے مگر چند دن پہلے ہی انہوں نے مجھ سے لے کر اپنے کسی دوست کو قرض کے طور پر دیے ہیں۔ میرے پاس پندرہ سو روپے ہیں۔ وہ آپ لے لیں۔” زینی نے بے حد پریشان ہو کر کہا۔
”نہیں، پندرہ سوسے میرا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اس ماہ ٹیوشنز نہیں کیں میں نے۔ انٹرویو کی تیاری کرتا رہا۔ اوپر سے ابو بھی معطل ہو گئے۔ پچھلے ماہ کے بلز ابھی تک ادا نہیں کیے۔ اس ماہ بھی نہیں ہوں گے تو بجلی اور سوئی گیس دونوں کٹ جائیں گے۔ میں چاہتا تھا ایک سوٹ اور جوتا لے لوں انٹرویو کے لیے پھر اسلام آباد آنے جانے اور وہاں رہنے کے لیے پیسے چاہیں۔”
وہ بے حد پریشان نظر آرہا تھا اور زینی اس کو پریشان دیکھ کر اس سے زیادہ پریشان تھی۔




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!