من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

”مجھے لگتا ہے، وقت کلائی پر ہو تو یہ انتظار کروانے لگتا ہے۔”
”تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟” وہ چونکا۔
”انتظار موت ہے۔” اس نے گھڑی کو دیکھتے ہوئے بے حد عجیب لہجے میں کہا۔
”احمقانہ باتیں مت کرو۔” اس نے اسے ڈانٹا اور پھر گھڑی کیس سے نکال کر اس کی کلائی پر باندھ دی تھی۔
اور اب وہ گھڑی اس ڈبے میں پڑی تھی، اس کے دل کو بے اختیار کچھ ہوا۔
اسے دیکھنا تھا، وہ اگلے بھکاری کو کیا دے کر گئی تھی۔ اس بار اسے کسی ڈبے میں جھانکنا نہیں پڑا۔ وہ اسپینش ہپی جسے وہ ہر وقت نشے میں دیکھتے تھے اور جو کچھ ہوش میں ہوتا تو چند رنگین بالز کو ہوا میں اچھالتے کرتب دکھاتا رہتا یا چند گلاسز کو ہوا میں اچھالتا رہتا۔ وہ ہپی، وہ منک کوٹ پہنے ہوئے تھا جو اس نے نئے سال پر اسے تحفے میں دیا تھا۔ وہ اس لیڈیز منک کوٹ کو اپنے دبلے پتلے جسم پر چڑھائے بے حد مضحکہ خیز مگر بے حد خوش نظر آرہا تھا۔ اس کا دل بے اختیار ڈوبا۔ اس نے اس دن وہ قیمتی منک کوٹ پہلی بار پہنا تھا۔ اس خاص موقع پر اور اب وہ ایک متروکہ چیز بن چکا تھا۔
”مائی گاڈ۔” وہ اس کوٹ کو دیکھ کر بے اختیار چلائی تھی۔
”تمہیں پسند نہیں آیا کیا؟” وہ جان بوجھ کر انجان بنا۔
”اس منک کوٹ کی قیمت میں دس بہت اچھے کوٹ آجاتے۔ تم ایک بے حد فضول خرچ آدمی ہو۔” وہ واقعی ناراض تھی۔
”تو کیا اسے واپس کر کے دس اچھے اور شان دار کوٹ لادوں تمہیں؟” اس نے اسی انداز سے کہا۔
”کتنا روپیہ تم نے عورتوں میں اس طرح کے منک کوٹ بانٹنے پر ضائع کیا ہو گا۔” وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گیا۔
”کون سی عورتیں؟” اس نے بے ساختہ پوچھا۔
”اچھا اب ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” وہ مدافعانہ انداز میں بولی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس نے کوئی غلط بات کہہ دی تھی۔
وہ جواب دینے کے بجائے بے حد ناراض ہو کر اس کے اپارٹمنٹ سے باہر نکل آیا تھا۔ وہ حواس باختہ اس کے پیچھے بھاگتی ہوئی آئی۔
”مذاق کر رہی تھی۔ اچھا… اب بس ختم کرو بات کو… اوکے… آئی ایم سوری… اب کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑوں… اچھا کم از کم تم کچھ کہو تو سہی… اب ایکسکیوز کر تو رہی ہوں، اب اور کیا کروں… کیا مرجاؤں؟”
وہ اس کے پیچھے گاڑی تک آتے آتے روہانسی ہو گئی تھی۔




وہ بے اختیار رکا۔ ”میں پہلے تو شاید مان جاتا مگر یہ بے ہودہ بات جو اب تم نے کہی ہے… یہ۔۔۔۔” وہ واقعی بے حد غصے میں آگیا تھا۔
”تم مجھے تحفے مت دیا کرو۔” اس نے بے اختیار اس کی بات کاٹ کر بے حد سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”کیوں؟” اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
”کیونکہ میں تمہارے اتنے قیمتی تحفوں کے بدلے میں آ تنے قیمتی تحفے نہیں دے سکتی۔”
”تو تم سے تحفے مانگ کون رہا ہے؟”
”ہاں، کوئی نہیں مانگ رہا مگر مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگتا ہے۔”
”اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تمہارا دماغ چھوٹا ہے اور چھوٹے دماغ کے ساتھ انسان صرف چھوٹی باتیں سوچتا ہے۔”
اس نے بے اختیار اسے وہیں کھڑے کھڑے ڈانٹا اور پھر اگلے دس منٹ وہیں پارکنگ میں گاڑی کے پاس کھڑا مسلسل بولتا رہا تھا۔
”کسی سمجھ دار مرد کو کسی بے وقوف عورت سے محبت نہیں کرنی چاہیے۔” اس نے بالآخر بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
”چلو، پھر تو سارا جھگڑا ہی ختم ہوا کیونکہ نہ میں بے وقوف عورت ہوں، نہ تم سمجھ دار مرد ہو۔ آؤ واپس چلیں۔”
وہ اس کا بازو پکڑ کر کھینچتے ہوئے بے ساختہ بڑے اطمینان سے بولی تھی۔ وہ چند لمحے ہونٹ بھینچ کر اسے دیکھتا رہا پھر یک دم ہنس پڑا۔
”یہ احساس تک نہیں تم کو کہ اتنی سردی میں یہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ دیکھو، میرے ہاتھ تک نیلے ہو گئے ہیں۔”
اپارٹمنٹ تک واپسی کے پانچ منٹ میں وہ بولتی رہی تھی اور وہ سنتا رہا تھا۔
ہپی کے ہاتھ سے بے اختیار ایک بال گر کر اس کے پیروں کے پاس آئی۔ اس نے کھڑے کھڑے جوتے کی نوک سے بال اس کی طرف لڑھکائی اور اگلے بھکاری کی طرف بڑھ گیا۔
اگلے بھکاری نے اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر فلوٹ بجاتے ہوئے سر کو بے اختیار خم کر کے ہمیشہ کی طرح اس کا استقبال کیا۔ اس نے آج پہلی بار اس کے اس استقبالی انداز کو نہیں دیکھا۔ اس کی نظریں اس کے ڈبے کے پاس پڑے سرخ برانڈڈ اٹالین جوتوں کے اس جوڑے کو دیکھ رہی تھیں جو اس نے کل ایک بہت مہنگے اسٹور سے کوئی پچاس جوتے ٹرائی کرنے کے بعد اسے خرید کر دیے تھے۔
اس کی ریڑھ کی ہڈی سے ایک لہر گزری تھی، وہ کیا پاگل ہو گئی تھی کہ اس سردی میں وہ جوتے وہاں اتار کر وہاں سے ننگے پاؤں اپنے اپارٹمنٹ کی بلڈنگ تک گئی تھی۔ برف اور سرد کھردری سڑک نے اس کے پیروں کا کیا حال کیا ہو گا۔ کوئی اسے اپنے پیٹ میں گھونسے مارتا محسوس ہوا۔
اسے اپنے سرخ کپڑوں کے ساتھ میچ کرتا سرخ جوتوں کا ایک جوڑا چاہیے تھا۔ چار مختلف اسٹورز سے پھرتے پھراتے وہ بالآخر پانچویں اسٹور میں آئے تھے اور تب تک وہ کچھ جھنجلا چکا تھا جبکہ وہ ابھی اسی طرح چہکتے ہوئے خوش باش مختلف جوتوں کو پہن پہن کر دیکھ رہی تھی۔
”تمہیں آخر کس قسم کا جوتاچاہیے؟” اس نے پندرھواں جوڑا ٹرائی کرنے کے بعد ریجکٹ کر دیا تو اس نے بالآخر تنگ آکر پوچھا۔
اس نے جواب میں بے حد سنجیدگی سے اسے جوتے کی شکل، معیار، اسٹائل اور رنگ کے بارے میں جو تین منٹ کا لیکچر اسے دیا تھا، اس سے وہ صرف یہ اخذ کر سکتا تھا کہ اسے Stiletto ہیلز والا ایک سرخ جوتا چاہیے۔
”تم کسی اور رنگ کا جوتا کیوں نہیں خرید لیتیں؟”
ساتویں اسٹور کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے حفظ ماتقدم کے طور پر اس نے کہا۔
اس نے جواباً اسے اتنی ملامت بھری نظروں سے دیکھا تھا کہ وہ بے اختیار شرمندہ ہو گیا۔
”میرے کپڑے سرخ رنگ کے ہیں۔” اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اس طرح کہا جیسے کوئی بڑا کسی بچے کو سمجھاتا ہے۔ ”اس لیے کامن سینس تو یہی کہتی ہے کہ مجھے سرخ جوتے ہی خریدنے چاہیں۔” اس نے مزید اضافہ کیا۔ اس نے دوبارہ کچھ بولنے کی زحمت نہیں کی تھی۔
”کہیں نہ کہیں ایک سرخ جوتوں کا جوڑا ہو گا جو اس کے نام کا ہو گا اور مجھے کیا کرنا ہے، مجھے صرف اس کو escortہی تو کرنا ہے۔” اس نے جیسے خود سے طے کیا تھا۔
اور بالآخر جب اسے یقین ہونے لگا کہ شہر میں سرخ جوتوں کا ایسا کوئی جوڑا نہیں ہے جو اس کے نام کا ہے تو اس نے جوتے پہن کر اسے دکھاتے ہوئے پوچھا ”میرا خیال ہے، یہ ٹھیک ہے۔ تمہیں کیسے لگ رہے ہیں؟”
”Just Perfect”
وہ بے اختیار والٹ نکالتے ہوئے اٹھ کھڑ اہوا۔ وہ اس کے انداز پر بے اختیار ہنسی۔
”کم از کم دیکھ تو لو کہ میں نے کیا خریدا ہے اور یہ میرے پیروں میں کیسے لگ رہے ہیں۔”
”یہ جیسے بھی لگ رہے ہیں، مجھے صرف یہ خوشی ہے کہ تم نے بالآخر جوتے پسند کر لیے ہیں۔” اس نے کریڈٹ کارڈ نکالتے ہوئے ایک سرسری نظر اس کے پیروں پر ڈالی۔ وہ جوتے اس کے پیروں میں اچھے لگ رہے تھے مگر اسے وہ پچھلے پچاس جوڑے بھی برے نہیں لگے تھے جو اس نے پچھلے پانچ گھنٹوں میں مختلف اسٹورز میں پہن کر اسے دکھائے تھے۔
اور اب پانچ گھنٹے کی جدوجہد کے بعد ڈھائی سوڈالرز کے وہ برانڈڈ جوتے اس ناہموار فٹ پاتھ پر فلوٹ بجاتے اس آدمی کے سامنے پڑے تھے جو شاید اسی کی طرح اس ہڈیوں تک اترتی سردی میں اسے جوتے پاؤں سے اتارتے دیکھ کر حیران ہوا ہو گا اور پھر اس نے وہی سوچا ہو گا جو اسے سوچنا چاہیے تھا کہ وہ شاید نشے کی حالت میں ہے۔
اس کا منک کوٹ، جوتے، گھڑی، موبائل اس فٹ پاتھ پر پڑے تھے تو اب اس کے پاس اتار پھینکنے کے لیے اور کیا رہ گیا تھا۔ وہ جانتا تھا، کہ اس کے جسم پر صرف دو چیزیں باقی تھیں۔ اس کا سرخ لباس اور ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی (اس کے جسم پر اس دن سجایا ہوا واحد زیور)
وہ لباس اس کا اپنا تھا۔ اس کا دلوایا ہوا ہوتا تو وہ اسے بھی اتار کر اسی فٹ پاتھ پر پھینک چکی ہوتی۔ وہ کسی دوسری عورت کو جانتا تھا یا نہیں مگر اس کو جانتا تھا۔ وہ اس فٹ پاتھ پر اس کی دی ہوئی چیزیں پھینک رہی تھی۔
فٹ پاتھ پر بیٹھے اسکیچ بناتی اس ادھیڑ عمر عورت کے پاس اس کی انگوٹھی ہونا چاہیے تھی۔ وہ آگے بڑھ کر اس قطار میں بیٹھے پانچویں بھکاری کے سامنے آکھڑا ہو گیا۔ وہ عورت مخبوط الحواس تھی یا کم از کم ان دونوں کو یہی لگتا تھا۔ پچھلے چار بھکاریوں کے برعکس وہ کبھی سراٹھا کر پاس سے گزرنے والے یا پاس آکر کھڑے ہونے والے لوگوں کو نہیں دیکھتی تھی۔
وہ ہر بار ایک ہی مرد کا چہرہ اسکیچ کرتی تھی۔ ایک نوجوان… خوبصورت مرد کا… مگر ہر بار وہ چہرہ کسی دوسرے اینگل سے اسکیچ کر رہی ہوتی۔ وہ اپنے کام میں بلاشبہ طاق تھی۔ وہ دونوں آ کثر اس کے پاس کھڑے اس کو اسکیچ بناتے دیکھتے رہتے۔ وہ دونوں اب اس اسکیچ کیے جانے والے چہرے سے بے حد شناسا ہو گئے تھے۔
”کون ہو سکتا ہے یہ مرد؟” اس نے ایک دن وہاں کھڑے کھڑے اس سے پوچھا۔ ”شاید اس عورت کا بیٹا۔” اس نے خود ہی اندازہ لگایا۔
”نہیں، بیٹا نہیں ہے۔” اس نے بے ساختہ کہا۔
اس نے اس کے جواب پر چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اسکیچ پر نظریں جمائے اپنے اوور کوٹ میں دونوں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔
”توپھر کون ہے؟” اس نے حیرانی سے پوچھا۔ اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ اس کی نظروں اور چہرے پر بے حد عجیب سا تاثر تھا۔
”چھوڑو، جانے دو۔” اس نے جواب دینے کے بجائے قدم آگے بڑھا دیے تھے۔ اس نے جواب کے لیے اصرار نہیں کیا۔ اسے جواب مل گیا تھا۔
وہ عورت اب بھی وہی چہرہ بنا رہی تھی اور اسکیچ کرتے اس کے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی میں پلاٹینم کی وہ انگوٹھی تھی جو اس نے سات دن سترہ گھنٹے پہلے رات کے تین بجے اسے دی تھی۔




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!