کمرے میں بیٹھے ہوئے تینوں مرد پلکیں جھپکائے بغیر سانس روکے بے حس وحرکت سامنے اسکرین پر ابھرتے بدلتے اور غائب ہوتے اس چہرے کو دیکھتے رہے۔
اسکرین پر آخری تصویر آکر ٹھہر گئی تھی۔ وہ اس لڑکی کے چہرے کا کلوز اپ تھا۔ اسکرین پر نظر آنے والی خوبصورت آنکھیں اب جیسے ان تینوں مردوں پر جمی ہوئی تھیں۔
تبریز پاشا نے سامنے پڑی میز پر رکھا شراب کا گلاس اٹھا کر بے اختیار ایک گھونٹ لیا۔ اس نے پچھلے تیس سالوں میں اس انڈسٹری میں بیس ہیروئنیں متعارف کروائی تھیں۔ ان میں سے نو نے اپنے اپنے زمانہ میں انڈسٹری پر راج کیا تھا۔ مگر ان میں سے کسی ایک کو کسی بھی حالت میں دیکھ کر اس کی ”وہ حالت” نہیں ہوئی تھی جو اس وقت ہو رہی تھی۔
اس نے اسکرین پر نظر آنے والے چہرے سے زیادہ ”خوبصورت چہرہ” اپنے پینتیس سالہ فلمی کیرئیر میں نہیں دیکھا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔ وہ پاکستان کے سب سے پرانے فلم اسٹوڈیو کا مالک تھا۔ جس کے خاندان کا آبائی پیشہ ہی فلمیں بنانا تھا۔ ہر سال پاکستان میں بننے والی سب سے مہنگی فلم بہت سالوں سے پاشا پروڈکشنز ہی بنا رہا تھا۔ اسے پاکستانی فلم انڈسٹری کا شومین کہا جاتا تھا۔
تبریز پاشا کی فلم باکس آفس پر منافع کماتی یا نہیں مگر کبھی بھی نقصان میں نہیں جاتی تھی۔ وہ اپنی لاگت پوری کر لیتی تھی اور تبریز پاشا نے جن 67 فلموں کو پروڈیوس کیا تھا ان میں سے کسی ایک نے بھی اسے ایک روپیہ کا نقصان نہیں دیا تھا۔ فلم انڈسٹری میں کوئی تبریز پاشا سے بڑھ کر اپنے ڈائریکٹر ہیرو اور ہیروئن کے نخرے نہیں اٹھاتا تھا اور تبریز پاشا سے بڑھ کر کوئی اپنے ڈائریکٹر ہیرو اور ہیروئن کو لگا میں ڈال کر نہیں رکھ سکتا تھا۔ صرف پاشا پروڈکشنز کے سیٹس پر ہیرو وقت پر پہنچتے تھے۔ صرف پاشا پروڈکشنز کے سیٹس پر بڑی سے بڑی ہیروئن بھی بلاچوں چرا ہر وہ کاسٹیوم پہن لیتی تھی جو اسے پہننے کے لیے دیا جاتا تھا چاہے وہ کتنا ہی عامیانہ اور غیر مناسب کیوں نہ ہوتا اور صرف پاشا پروڈکشنز کی فلم کو ڈائریکٹر اسی وقت میں مکمل کر کے دیتا تھا جو وقت وہ کانٹریکٹ میں لکھتاتھا۔
انور حبیب کا… گلاس اسی طرح میز پر دھرا تھا اس نے ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھا۔ وہ سرخ آنکھوں کے ساتھ اسکرین پر ایک ٹک نظریں جمائے مسلسل اس تمباکو والے پان کو چبا رہا تھا جو اس نے تیس منٹ پہلے منہ میں رکھا تھا اور زندگی میں پہلی بار وہ پان کی پیک تھوکنا بھول گیا تھا۔
وہ پاکستان فلم انڈسٹری کا سب سے ”بُرا” اور ”کامیاب” ڈائریکٹر تھا کیونکہ اس کا ہاتھ اس عوام کی نبض پر تھا جو سینما جاتی تھی اور یہ صرف انور حبیب جانتا تھا کہ وہ ”کب، کیا، کس طرح” دیکھیں گے اور وہ انہیں ”جب، جو، جس طرح” دکھاتا تھا ”عوام” دیکھتے تھے۔ اور اسی ”عوام” کی پسندیدگی نے انور حبیب کو پاکستان فلم انڈسٹری کا پہلا ”لکھ پتی” ڈائریکٹر بنایا تھا۔ اس نے اپنے پندرہ سالہ کیرئیر میں 155فلمیں ڈائریکٹ کی تھیں۔ پہلی فلم ڈائریکٹ کرنے کے لیے اس نے چھ سال انڈسٹری کے ہر چھوٹے بڑے پروڈیوسر کی منتیں کی تھیں اور پھر ایک پروڈیوسر کی فلم کو بلا معاوضہ ڈائریکٹ کیا تھا۔ جو اپنی پچاس لاکھ کی بلیک منی کو وائٹ کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس کی پہلی فلم تھی۔
اپنی 155ویں فلم ڈائریکٹ کرنے کے لیے اس نے ایک پروڈیوسر کو منہ مانگی قیمت لے لینے کے باوجود بھی تین سال تک خوار کیا تھا۔ اس کے باوجود وہ پروڈیوسر خوش تھا کیونکہ اس کی فلم نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا تھا۔ انور حبیب کی فلمیں جمالیاتی اعتبار سے فلم انڈسٹری کی تاریخ کی بدترین اور بزنس کے اعتبار سے کامیاب ترین فلموں میں شمار ہوتی تھیں اور انور حبیب کو ان دونوں باتوں پر فخر تھا۔ وہ اسکرین پر بے حد کم صورت اور بھدی سے بھدی ہیروئن کو بھی قیامت خیز انداز میں پیش کرتا تھا۔ مگر تین منٹ میں اس اسکرین پر اس نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ کا خوبصورت ترین جسم دیکھا تھا، اس بات میں اسے ایک لخطہ کے لیے بھی شبہ نہیں تھا۔
سفیر خان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں اٹکے سگریٹ کو بے اختیار ہاتھ سے جھٹکا۔ وہ اس کی انگلیوں کو جلانے لگا تھا۔ زندگی میں پہلی بار چین اسموکر ہونے کے باوجود اس نے… اسگریٹ سلگا کر ایک بھی کش لیے بغیر اسے راکھ کر دیا تھا۔ اسکرین پر نظریں جمائے نیم تاریکی میں فرش پر پڑے سگریٹ کے سلگتے ٹکڑے کو جوتے سے ٹٹول کر اس نے بغیر دیکھے مسلا۔
اپنے دس سالہ فلمی کیرئیر میں انڈسٹری کی ہر چھوٹی سے بڑی اداکارہ کے ساتھ انوالو ہونے کے باوجود وہ دعوے سے کہہ سکتا تھا کہ اس نے اسکرین پر نظر آنے والی عورت سے زیادہ خوبصورت اور دلکش عورت اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
سفیر خان پچھلے دس سالوں سے فلم انڈسٹری کا بوجھ تن تنہا اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھا۔ وہ ایک سپر اسٹار کا بیٹا تھا اور اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا۔ وہ چوبیس سال کی عمر میں اپنے باپ کی تیار کردہ پہلی فلم میں ہیرو کے طور پر آیا تھا اور وہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی، یہ سلسلہ وہیں ختم نہیں ہوا۔ اگلا پورا سال وہ ایک کے بعد ایک فلاپ فلم دیتا رہا اور اس سے پہلے کہ وہ مایوس اور دل برداشتہ ہو کر فلم انڈسٹری چھوڑ دیتا۔ انور حبیب نے اسے تبریز پاشا کی ایک فلم میں ڈائریکٹ کیا تھا اور وہ ایک بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ اس فلم نے نہ صرف سفیر خان کی فلموں کی ناکامی کے سلسلے کو ختم کر دیا تھا بلکہ اس کے اس امیج کو بھی ہمیشہ کے لیے بدل دیا تھا جو وہ لے کر فلم انڈسٹری میں آیا تھا۔ پچھلے دس سال میں اس نے ساڑھے تین سو فلموں میں کام کیا تھا۔
تبریز پاشا، انور حبیب اور سفیر خان پاکستانی فلم انڈسٹری کے تین اہم ترین برج تھے۔ ان میں سے جو بھی جب چاہتا انڈسٹری کے کسی بھی بڑے چھوٹے ایکٹر یا ایکٹریس کا کیرئیر چٹکی بجاتے میں ختم کر دیتا۔
پاشا پروڈکشنز کی کسی فلم میں کام کیے بغیر انڈسٹری کی کوئی ایکٹریس سپر اسٹار نہیں بن سکتی تھی۔ انور حبیب کی فلم میں صرف وہ ایکٹریس ہوتی تھی جسے وہ چاہتا تھا اور سفیر خان جس ایکٹریس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیتا۔ وہ مین لیڈ سے سیکنڈ لیڈ پر آتی پھر ایک دو سالوں میں انڈسٹری سے گم نامی کے اندھیروں میں غائب ہو جاتی۔
وہ تینوں اس انڈسٹری کے بے تاج بادشاہ تھے۔ اور وہ تینوں یہ بات بخوبی جانتے بھی تھے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی تین مردوں کا کوئی Trioاتنا طاقتور نہیں ہوا تھا۔ اور ان کی اس طاقت نے انہیں بلیک میلر بنا دیا تھا۔ وہ تینوں انڈسٹری میں اگر کسی سے دبتے یا کسی کا لحاظ کرتے تھے تو وہ ایک دوسرے کا ہی لحاظ تھا۔ اور یہ لحاظ سے زیادہ ضرورت کا عنصر تھا جو ان تینوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مجبور کرتا تھا۔
تبریز پاشا کو اپنی فلم کی کامیابی کے لیے سفیر خان کے نام اور انور حبیب کے کام کی ضرورت تھی۔ سفیر خان جانتا تھا کہ وہ پاشا پروڈکشنز کی فلم میں کام نہیں کرے گا تو تبریز پاشا ”پاشا پروڈکشنز” کی فلموں سے اس کے مدمقابل کوئی اور حریف لاکھڑا کرے گا اور انور حبیب جانتا تھا کہ ”پاشا پروڈکشنز” جتنا پیسہ اور سہولیات فلم انڈسٹری کا دوسرا کوئی ادارہ نہیں دے سکتا اور سفیر خان کا متبادل کم از کم اگلے دس سال میں اُسے نظر نہیں آرہا تھا۔ فلمیں دیکھنے والے سفیر خان پر جان دیتے تھے۔
اس کمرے میں سفیر خان اپنی 351ویں فلم انور حبیب اپنی 156ویں فلم اور تبریز اپنی 67ویں فلم کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ اور اسکرین پر نظر آنے والی وہ لڑکی اپنی پہلی فلم کے آڈیشن کے لیے منتخب ہونے والی تھی۔
”پھر…؟” تبریز پاشا نے کمرے کی لائٹ آن کرتے ہوئے انور حبیب اور سفیر خان کی طرف باری باری دیکھا۔ کمرے میں پھیلنے والی روشنی نے اسکرین پر نظر آنے والے چہرے کو کچھ دھندلا کر اس کی تباہ کاریوں کو قدرے کم کر دیا تھا۔
”اسے آڈیشن کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ یہ انڈسٹری میں آئے گی تو انڈسٹری کے بڑے بڑے برج الٹا کر رکھ دے گی۔”
انور حبیب نے پہلی بار پان کی پیک تھوکتے ہوئے کہا۔ اس کا اشارہ انڈسٹری کی ہیروئنز کی طرف تھا۔
تبریز پاشا اور سفیر خان نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
انور حبیب نہیں جانتا تھا۔ وہ کمرے میں بیٹھے انڈسٹری کے تینوں بے تاج بادشاہوں کی قسمت کا حال بتا رہا تھا۔ اسکرین پر نظر آنے والی لڑکی واقعی تینوں بڑے برجوں کو الٹانے آئی تھی۔
٭٭٭
سلطان کو چند لمحوں کے لیے اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ منہ کھولے وہ بے یقینی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کی پنڈلی کے گرد سینڈل کے ان اسٹریپس کو لپیٹنا بھول گیا جنہیں چند لمحوں پہلے وہ بڑے انہماک شوق اور محبت کے ساتھ لپیٹ رہا تھا۔
وہ خاموش نہیں ہوئی تھی۔ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اب بڑی سہولت کے ساتھ جھک کر ان اسٹریپ کو خود لپیٹنا شروع کر دیا تھا۔ سلطان اس کے پیروں کے پاس کارپٹ پر کسی پتھر کے مجسمے کی طرح بیٹھا اسی ہکا بکا انداز میں پری زاد کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ وہ پچھلے آٹھ سالوں سے دن رات اس کے ساتھ تھا اور پچھلے آٹھ سالوں میں اس نے سینکڑوں بار اسے اسی طرح چونکا دیا تھا۔ آٹھ سال کے طویل عرصے کے بعد اب سلطان کو یقین تھا کہ وہ اسے مزید حیران اور پریشان نہیں کر سکتی کیونکہ وہ پری زاد کو اندر باہر سے جان گیا تھا۔
لیکن اس وقت اس کے سامنے بیٹھے وہ اپنے آپ کو احمق سمجھ رہا تھا۔ پری زاد کے بارے میں انڈسٹری جو کہتی تھی، ٹھیک کہتی تھی۔
صرف پانچ منٹ پہلے ہی تو اس کے سرخ کیوٹکس سے رنگے ہوئے لمبے ناخنوں کو دیکھتے ہوئے وہ اس کے پیروں پر قربان ہو جانا چاہتا تھا۔ وہ ہر بار اسی شوق اور لگن کے ساتھ پری زاد کے پیروں میں جوتے پہناتا تھا۔ اور اس پر رشک کرتا تھا وہ کسی بیلے ڈانسر کے پیروں کی طرح نازک، خم دار اور دودھیا تھے۔ سلطان نے شراب کے نشے میں بہت سے مردوں کو اس کے پیروں کو چومتے دیکھا تھا اور اسے فخر تھا کہ وہ روز ان پیروں میں جوتے پہنایا کرتا تھا۔
وہ اب اسٹریپس بند کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہو گئی تھی۔ اپنی سرخ ساڑھی کو سنبھالتے ہوئے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی سلطان اب بھی اسی طرح کارپٹ پر بیٹھا سانس روکے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ آئینے میں خود پر تنقیدی نظریں ڈالتے ہوئے اپنی ساڑھی ٹھیک کر رہی تھی۔
کمرے میں پڑا انٹرکام بجنے لگا تھا۔ سلطان چونک گیا پھر اٹھ کرانٹرکام کی طرف گیا۔ وہ اسی طرح آئینے میں اپنی ساڑھی کو ٹھیک کرتے ہوئے بولتی رہی۔
چوکیدار نے انٹرکام پرسلطان کو ”کسی” کی آمد کی اطلاع دی۔ سلطان انٹرکام کا ریسیور ہاتھ میں لیے پری زاد کو اس آمد کی اطلاع نہیں دے سکا۔ وہ آئینے سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے بولنے سے پہلے ہی اس سے کہہ رہی تھی۔
”اسے اندر آنے دو۔ میں نے تم سے کہا تھا نا وہ وقت سے پہلے یہاں پہنچ جائے گا۔”
سلطان جان نہیں سکا اس کے لہجے میں کیا تھا۔ اس نے انٹرکام پر چوکیدار کو ہدایت دی پھر ریسیور رکھ دیا۔
”یہ مت کریں۔” وہ ریسیو رکھتے ہی پری زاد کی طرف آیاتھا۔ پری زاد نے اسے مسکرا کر دیکھا۔
وہ ”دوپہر” سے اس ”ملاقات” کی تیاری کر رہی تھی۔ سلطان اس کی بے چینی کو سمجھتا تھا اور جانتا تھا۔ پری زاد ”کب” سے اس ملاقات کی تیاری کر رہی تھی۔ یہ پری زاد کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا۔
”یہ مت کریں۔” سلطان ایک بار پھر گڑگڑایا۔
”کیوں؟” وہ مسکرائی۔ ”تمہیں مجھ پرترس آرہا ہے یا اس پر؟”
”نو سال لگائے ہیں یہ فلمی کیرئیر بنانے میں آپ نے۔ آپ اس طرح کی کوئی چیز سوچ بھی کیسے سکتی ہیں؟”
وہ اب اسے پتہ نہیں کیا کیا یاد دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”میں کیسی لگ رہی ہوں سلطان؟”
اس نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے یک دم، مڑ کر مسکراتے ہوئے سلطان سے پوچھا۔ وہ آٹھ سال سے اس کے ساتھ تھا۔ ان آٹھ سالوں میں اسے ایک موقع بھی یاد نہیں آیا جب پری زاد نے اس سے یہ سوال کیا ہو … پری زاد کیسی لگتی تھی، پری زاد یہ جانتی تھی۔
اس نے پری زاد سے پہلے انڈسٹری کی دو بڑی ہیروئنز کے ساتھ تیرہ سال کا م کیا تھا۔ وہ دونوں بھی انڈسٹری کی خوبصورت ترین عورتوں میں شمار ہوتی تھیں۔ مگر وہ دن میں کئی کئی بار سلطان سے یہ سوال کرتی تھیں اپنی مرضی کا جواب سننے کے باوجود وہ مطمئن نہیں ہوتی تھیں وہ کہیں جانے کے لیے پندرہ بار اپنی وارڈ روب سے کپڑے نکالتیں، ہر بار غیر مطمئن ہوتے ہوئے انہیں واپس رکھ دیتیں۔ دس دس جوتے پاؤں میں بدلنے کے باوجود اپنے پاؤں کو دیکھ کر خوش نہیں ہوتی تھیں۔ پندرہ پندرہ بار اپنی جیولری بدلتیں اور پچاسیوں بار اپنا میک اپ ٹھیک کرتیں پھر بھی انہیں اپنے چہرے اور جسم پر موجود دوسرے لوازمات میں کوئی نہ کوئی چیز ٹھیک نہیں لگتی کوئی نہ کوئی چیز پریشان کرتی رہتی۔ چہرے کے کسی نہ کسی حصے پر کمپیکٹ پاؤڈر سے پفنگ کی ضرورت پڑتی تھی۔ آنکھوں کا آئی لائنر کہیں نہ کہیں سے نامناسب لگتا ہی رہتا۔
پری زاد وارڈ روب کھول کر ہاتھ میں آنے والا پہلا لباس پہن لیتی۔ بعض دفعہ یہ کام بھی سلطان ہی انجام دیتا وہ اپنی مرضی سے اس کے لیے کپڑے نکال دیتا اور وہ دوسری نظر ڈالے بغیر اس لباس کو پہن لیتی۔ سلطان ہی اس کے لیے میچنگ جیولری اور جوتے نکالتا تھا۔ اور پری زاد کو بھی ان پر کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ سلطان نے ایک بار اس سے یہ کہہ ہی دیا تھا۔
”جس مرد سے شادی کا ارادہ ہو گا اس کے لیے تیار ہوتے ہوئے گھنٹے لگاؤں گی۔ درجنوں ملبوسات کو رد کر کے کسی ایک لباس کا انتخاب کروں گی۔ جوتے بدل بدل کر دیکھوں گی اور صرف وہ زیور پہنوں گی جو اس نے مجھے دیا ہو گا۔” اس نے ہنس کر کہا تھا۔
”جن کے لیے اب تیار ہوتی ہوں، یہ تو کیڑے مکوڑے ہیں۔” اس نے اسی سانس میں کہا تھا۔
”لیکن تم فکر مت کرو، پری زاد کسی سے شادی نہیں کرے گی۔”
اس نے ایک بار پھر ہنس کرسلطان سے کہاتھا۔ سلطان نے اسے مذاق سمجھا تھا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا پری زاد مذاق بہت کم کیا کرتی تھی۔
آج پری زاد کو تیاری کرتے ہوئے دیکھ کر سلطان کو ایک لمحے کے لیے کچھ شائبہ ہوا اس کی وہی بات یادآئی وہ وارڈ روب کھولے کھڑی کپڑوں پر نظر ڈال رہی تھی۔ اور کسی لباس سے مطمئن نظر نہیں آرہی تھی۔ پھر یک دم مڑ کر اس نے سلطان سے کہا۔
”آؤ سلطان! ساڑھی خریدنے چلیں۔” وہ اسے لے کر ایک بڑے ڈیزائنر کے بوتیک پر آگئی۔ وہاں اس نے پہلی ہی نظر میں پسند آنے والی وہ سرخ سلک کی ساڑھی خریدی جس کے ساتھ بیک لیس بے حد مختصر سا سرخ رنگ کا بلاؤز تھا۔ سلطان کو حیرت ہوئی جب پری زاد نے اس ساڑھی کے ساتھ میچنگ میں ملنے والی سرخ سینڈلز کے بجائے اسی بوتیک میں پڑے ایک اور لباس کے ساتھ رکھی لمبے اسٹریپس کی سینڈل لی۔ ساڑھی نے اس کے پاؤں کو چھپا لینا تھا پھر وہ ان جوتوں کو کیوں خرید رہی تھی۔ سلطان کی سمجھ سے باہر تھا۔
پینتیس ہزار کی ساڑھی اور پانچ ہزار کے جوتے کی ادائیگی پری زاد نے اس کریڈٹ کارڈ سے کی تھی جس کے بلز چیمبر آف کامرس کے صدر کو بھیجے جاتے تھے۔
اور اب وہ اسی ساڑھی میں ملبوس وہی جوتے پہنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ڈی بئیرز کے وہ ڈائمنڈ سٹڈز اور نیکلس پہن رہی تھی۔ جو اسے پچھلے ہفتے رحیم یار خان میں متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے ایک فرد نے اپنے محل میں تین روزہ قیام کے بعد روانہ ہوتے وقت دیے تھے۔
اپنے Streaked بالوں کو سر کی پشت پر ایک بہت سادہ لیکن بہت خوبصورت تراشیدہ انداز کے جوڑے میں لپیٹے پانچ فٹ سات انچ کی وہ قیامت کسی اور کے لیے قیامت اٹھانے کی تیاری کر رہی تھی۔
سلطان نے اس کے ”میں کیسی لگ رہی ہوں؟” کا جواب نہیں دیا تھا۔ پری زاد نے جواب کا انتظار نہیں کیا تھا۔ وہ اسی طرح پلٹ کر پھر آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے نیکلس پہننے لگی تھی۔ وہ واضح طور پر سلطان کی درخواست کا مذاق اڑا رہی تھی۔
نیکلس کو گردن کی پشت کی طرف لے جاتے ہوئے اس نے منہ سے ایک لفظ نکالے بغیر نیکلس کے دونوں حصوں کو ہاتھوں سے پکڑے دائیں ہاتھ کی انگلی کو دو تین بار گردن کی پشت پر ہلکے سے مارا۔ یہ سلطان کے لیے مدد کا اشارہ تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر پری زاد کے ہاتھوں سے نیکلس پکڑتے ہوئے اسے اس کی راج ہنس جیسی گردن کی پشت پر بند کر دیا۔ اس کے اتنے قریب کھڑے سلطان نے اس کے جسم سے اٹھتی ایسٹی لاڈر کی مہک کو محسوس کیا۔ چھ انچ اونچی ہیل پہنے وہ اس وقت اس سے آدھ فٹ اونچی تھی۔ سلطان کو اسے گردن اوپر کر کے دیکھنا پڑ رہا تھا۔ وہ بیک لیس اور سلیو لیس بلاؤز میں سے نظر آتے اس کے بے داغ دودھیا جسم کو دیکھ رہا تھا۔ اس کو اگر چھونے کو دل چاہتا تھا تو یہ باعث حیرت نہیں تھا۔ فلم انڈسٹری میں نو سال سے راج کرنے اور دن رات کام کرنے کے باوجود پری زاد آج بھی ہوش ربا تھی۔ وہ اس حسن کے ساتھ انڈسٹری میں اگلے دس سال بھی اسی طرح راج کر سکتی تھی۔ا سے دور دور تک کوئی خطرہ نہیں تھا۔ وہ خطرے کو خطرہ بننے سے پہلے ہی ختم کر دیا کرتی تھی۔
سلطان کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں دبا لیا، وہ اس کے آٹھ سال کی محنت کو مٹی میں ملانے جا رہی تھی۔
”میں یہ سب نہیں ہونے دوں گا۔” سلطان نے بے ساختہ اس کے عقب میں کھڑے ہو کر کہا۔ اپنے جسم پر ہیوگوباس کا اسپرے کرتے پری زاد کا ہاتھ ایک لمحہ کے لیے رکا پھر ڈریسنگ ٹیبل پر بوتل رکھتے ہوئے وہ پلٹ کر سلطان کے مقابل آگئی۔
”تم نہیں کرو گے تو کوئی اور کرے گا۔ پری زاد کو جو کروانا ہے، وہ کروالے گی۔”اس کا لہجہ سرد اور چٹخا دینے والا تھا۔ سلطان کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔ وہ اس کے سامنے سے ہٹ کربیڈ کی طرف آئی۔ اور وہاں پڑا چھوٹا ساپرس اٹھالیا۔ سلطان کی طرف دیکھے بغیر وہ بیڈ روم کے بند دروازے کی طرف جانے لگی۔ سلطان لپک کر اس کے سامنے آیا۔ اس نے پری زاد کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔ ایک آخری کوشش۔
”مت کریں پری جی! مت کریں، میں آپ کو تباہ ہونے نہیں دوں گا۔” اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔
”تمہیں لگتا ہے میں تباہ ہونے جا رہی ہوں؟ غلط فہمی ہے تمہاری۔ اس وقت آٹھ بج رہے ہیں۔ میں رات کے دو بجے اسی بیڈ روم میں یہیں تمہارے ساتھ بیٹھ کر چائے پیوں گی۔ اگر تم ویسا کرو گے جیسا میں کہہ رہی ہوں تو اور اگر تم یہ نہیں کرو گے تو جب میں رات کے دو بجے یہاں آؤں گی تو مجھے تمہاری شکل نظر نہیں آنی چاہیے۔ نہ آج نہ دوبارہ کبھی۔”
وہ بے حد پرسکون انداز میں ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ پری زاد نے اسے دھمکایا پھر بڑے پیار سے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے سلطان کا گال تھپتھپایا، وہ دنیا میں کسی مرد کسی عورت پر اعتماد نہیں کرتی تھی۔ صرف سلطان پر کرتی تھی کیونکہ اس کا تعلق ان دونوں اصناف سے نہیں تھا۔
دروازہ کھول کر ”قیامت” کمرے سے چلی گئی اس نے مڑ کر ایک بار بھی سلطان سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ اس نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ وہ جانتی تھی وہ کیا کرے گا۔ سلطان بھیگی ہوئی آنکھوں اور گالوں کے ساتھ بند دروازے کو دیکھتا رہا۔ چند منٹوں بعد اس نے کسی گاڑی کے اسٹارٹ ہو کر جانے کی آواز سنی۔ وہ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ بیڈ کے پاس آیا۔ سائیڈ ٹیبل سے موبائل فون اٹھا کر وہ اس نمبر پر کال کرنے لگا۔ آج کی رات پاکستان فلم انڈسٹری پر بہت بھاری ہونے والی تھی۔
One Comment
Nice