”تم خوامخواہ پریشان مت ہو، کچھ نہیں ہو گا تمہاری بہن اور اس کے گھر کو۔” زینب رمشہ کے گھر پر تھی اور رمشہ اسے تسلیاں دے رہی تھی۔ وہ اس کا دل بہلانے کے لیے اسے آج کالج سے گھر لے آئی تھی۔ زینب جب کسی بات پر بہت پریشان ہوتی تھی تو رمشہ اسے اسی طرح اپنے گھر لے آیا کرتی تھی۔
”تم آپا کے سسرال والوں کو نہیں جانتیں۔” زینب کے اضطراب میں کمی نہیں ہو رہی تھی۔
”اچھا زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے وہ لوگ؟ طلاق دے دیں گے نا۔ دینے دو۔ بندہ مر نہیں جاتا طلاق سے۔” رمشہ نے بالآخر جیسے تنگ آکر کہا۔
”ہمارے جیسے گھرانوں میں مر ہی جاتا ہے۔” زینب نے ناراض ہو کر کہا۔
”روز روز کے مرنے سے ایک دن کا مر جانا بہتر ہے۔” رمشہ نے اسی انداز میں کہا۔
”تم یہ سب نہیں سمجھ سکتیں رمشہ! کیونکہ یہ تمہاری زندگی کے مسئلے نہیں ہیں۔ اور ہماری… ہماری ساری زندگی ان ہی مسئلوں کے ساتھ گزرتی ہے۔” زینب نے بے حد مایوسی سے کہا۔
”خیر۔ تم تو یہ مت کہو۔” رمشہ نے بات کاٹی۔ ”کم از کم تمہیں ایسے کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا ہو گا شیراز جیسا جان چھڑکنے والا میاں ہو گا تمہارا۔ افسر کی بیوی بن کر شان دار سے بنگلے میں رہو گی تم۔ سرکاری گاڑی میں گھوما کرو گی۔”
وہ اب اسے چئیر اپ کرنے کے لیے موضوع بدل رہی تھی۔ مگر رمشہ نے نوٹ کیا کہ ہمیشہ کی طرح آج شیراز کے ذکر پر زینب کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ اب بھی اسی طرح افسردہ اور رنجیدہ تھی۔
”شیراز کا کیا حال ہے؟” رمشہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ٹھیک ہے وہ۔” اس نے اسی طرح سرجھکائے رمشہ سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”تمہارا اور اس کا کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟” رمشہ کو شک ہوا۔
”تمہیں پتا ہے، میں ان سے جھگڑا نہیں کر سکتی۔” زینب نے بے چارگی سے کہا۔
”ہاں… جانتی ہوں۔ مگر وہ تو ناراض ہوتا رہتاہے۔”
”پھر ناراض ہو گیا ہے کیا؟” رمشہ اس کے ذریعے شیراز کے مزاج کو بہت اچھے طریقے سے سمجھنے لگی تھی۔
”نہیں۔ ناراض نہیں ہوئے۔ لیکن بعض دفعہ وہ بہت عجیب باتیں کرتے ہیں۔” زینب نے بے چین ہو کر کہا۔
”کیسی باتیں؟”
”ابو کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ کہتے ہیں، وہ بے وقوف ہیں جو رشوت نہیں لیتے۔ سارے مسئلے اسی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ ”
وہ آہستہ آہستہ رمشہ کو ساری باتیں بتاتی گئی۔ رمشہ بے حد سنجیدگی سے اس کی بات سنتی رہی۔
”میں نے تو کبھی یہ خواہش نہیں کی ہے کہ میں بڑے گھر میں رہوں یا میرے پاس گاڑی ہو یا بہت سارا پیسہ ہو، میں تو اپنے گھر میں بہت خوش ہوں۔” وہ بے حد رنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ ”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو کون سی کمی ہے اور اگر یہ سب کچھ آجائے گا تو کیا فرق پڑ جائے گا۔”
”تمہارا منگیتر واقعی بعض دفعہ بے وقوفی کی باتیں کرتا ہے، تم ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے انہیں نکال دیا کرو۔” رمشہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”جس بات سے مجھے تکلیف ہو، میں وہ ذہن سے نہیں نکال سکتی۔”
زینب نے مدھم آواز میں کہا۔ وہ رمشہ کے کارپٹ پر بیٹی انگلی سے کارپٹ پر لکیریں کھینچ رہی تھی۔
”مجھے اچھا نہیں لگتا اگر کوئی ابو کو برا کہے اور شیراز بعض دفعہ ابو کا بہت مذاق اڑاتے ہیں۔”
اس کی آواز میں چبھن تھی۔ ”سارے مرد ایسا ہی کرتے ہیں، داماد اور سسرکا رشتہ اسی طرح کا ہوتا ہے۔ تم اتنا مت سوچا کرو۔”
رمشہ نے بات مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی۔ زینب نے جواب نہیں دیا، وہ اسی طرح کارپٹ پر لکیریں کھینچتی رہی۔
”اب رونا مت زینی۔” رمشہ نے جیسے اس کے اگلے قدم کو بھانپتے ہوئے کہا۔
”تم زہرہ سے زیادہ شیراز کی باتوں کی وجہ سے پریشان ہو؟”
”نہیں، پتا نہیں، اب مجھے گھر بھجوا دو۔ دیر ہو رہی ہے۔”
زینب کو یک دم خیال آیا اور ساتھ ہی گلی میں تنگ کرنے والے اس لڑکے کا۔ اس کے سر میں یک دم درد ہونے لگا۔ چند لمحوں کے لیے اسے زندگی واقعی عذاب لگنے لگی تھی۔
”میں ابھی کچھ دن کالج نہیں آؤں گی رمشہ۔” زینب نے کھڑے ہوتے ہوئے بیڈ پر رکھی اپنی چادر اٹھائی۔
”کیوں…؟” رمشہ نے انٹر کام اٹھاتے ہوئے حیرانی سے پوچھا وہ ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کے لیے کہہ رہی تھی۔
”مجھے اس لڑکے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ وہ اب بہت زیادہ بے ہودہ باتیں کرنے لگا ہے۔ کچھ دن کالج نہیں جاؤں گی تو شاید وہ میرے پیچھے آنا چھوڑ دے۔” زینب نے بے حد تھکے ہوئے انداز میں چادر اوڑھتے ہوئے کہا۔
”تم انکل کو کیوں نہیں بتاتیں۔ بلکہ ایسا کرو سلمان کو بتا دو۔” رمشہ نے قدرے خفگی سے کہا۔
”سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ میٹرک میں پڑھتا ہے۔ کیا کہوں اس سے کہ میرے پیچھے کوئی لڑکا آنے لگا ہے۔ تم جا کر لڑو اس سے۔ اور پھر وہ خود اس وقت اسکول میں ہوتا ہے، میرے لیے اسکول جانا چھوڑ دے گا؟ اور ابو، وہ شام کو گھر آتے ہیں۔ وہ کتنے دن میرے لیے آفس سے آکر گلی میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس لڑکے کومنع کریں گے تو وہ کوئی زیادہ بدتمیزی بھی تو کر سکتا ہے۔”
”زینب! اتنا ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ سمجھیں۔ دو تھپڑ کھینچ کر مارو۔ اسے چار گالیاں دو۔ پھر دیکھو، کیسے دم دبا کر بھاگتا ہے وہ۔ میں آج اپنے ڈرائیور کو بھیجوں گی تمہارے ساتھ۔ کہوں گی اس سے کہ راستے میں کوئی نظر آئے تو ادھر ہی ٹھکائی کرے اس کی۔ پھر دیکھتی ہوں، کون تنگ کرتا ہے تمہیں دوبارہ۔”
”خدا کے لیے رمشہ، تمہارا ڈرائیور میرے لیے اس لڑکے کو گلی میں پیٹے گا تو پورا محلہ باہر نکل آئے گا۔ لوگ کیا سمجھیں گے، وہ کوئی ڈیفنس نہیں ہے رمشہ! محلہ ہے۔ تم ڈرائیور رہنے دو۔ میں پیدل ہی چلی جاتی ہوں۔” زینب اس کے ارادے کو جان کر یک دم خوف زدہ ہو گئی تھی۔
”تم بھی جو ہو نا بس… اچھا ٹھیک ہے، نہیں کرے گا کچھ بھی میر اڈرائیور، بس تمہارے گھر کے دروازے تک چھوڑ آئے گا۔” رمشہ نے ہلکی سے خفگی سے ساتھ کہا۔
وہ زینب کو لے کر باہر پورچ میں آگئی۔ اس سے پہلے کہ زینب گاڑی میں بیٹھتی، گیٹ سے ایک اور گاڑی اندر آنے لگی۔
”یہ فاران بھائی کہاں سے آگئے اس وقت؟” رمشہ نے گاڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”فاران بھائی؟ ” زینب نے پوچھا۔
”ہاں کزن ہیں میرے۔ بڑے تایا کے بیٹے” رمشہ نے بتایا۔ فاران کی گاڑی تب تک پورچ میں آکر کھڑی ہو گئی تھی۔
”ہیلو فاران بھائی۔” رمشہ نے فاران کے گاڑی سے نکلتے ہی کہا۔
”اوہ ہیلو… یہ میرے استقبال کے لیے آئی ہو باہر؟” فاران نے بے حد خوش مزاجی سے رمشہ سے کہتے ہوئے سرسری نظروں سے زینب کو دیکھا۔ اور پھر وہ نظریں نہیں ہٹا سکا۔
”جی نہیں۔ میں اپنی دوست کو گاڑی تک چھوڑنے آئی ہوں۔ زینی! یہ فاران بھائی اور فاران بھائی! یہ میری بیسٹ فرینڈ زینی۔” رمشہ نے دونوں کا تعارف کروایا۔
”السلام علیکم! ” زینب نے ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ رسماً کہا۔ رمشہ کے گھر اکثر اوقات اس کی ملاقات اس کے کسی نہ کسی کزن سے ہوتی رہتی تھی۔
”اچھا زینب! میں کچھ دنوں تک چکر لگاؤں گی۔ تمہاری طرف۔ نوٹس میں تمہیں بھجواتی رہوں گی۔ ڈرائیور کے ہاتھ۔” رمشہ نے اسے گاڑی میں بٹھاتے ہوئے کہا۔
ڈرائیور کے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہی رمشہ نے بے حد ناراضی سے فاران کی طرف دیکھا۔
”حد ہے فاران بھائی۔ اس طرح گھور رہے تھے اسے۔ کیا سمجھ رہی ہو گی وہ؟”
”اب مجھے کیا پتا تھا رمشہ کہ تمہاری بیسٹ فرینڈ اتنی خوبصورت ہے۔ کون ہے یہ؟”
فاران کی نظریں ابھی بھی گیٹ سے باہر نکلتی گاڑی پر جمی ہوئی تھیں، رمشہ نے حیرانی سے اس کو دیکھا تھا۔
****
One Comment
Nice