”برائی ہے… دوسرے بھی تو دیکھتے ہیں۔”
”خواہ مخواہ … مجھے دوسروں کو چہرہ تھوڑی دکھانا ہے اپنا۔” زینب نے بے ساختہ کہا۔
”تمہیں پتا ہے جب میں انکم ٹیکس میں چلا جاؤں گا تو سب سے پہلا کام کیا کروں گا؟” شیراز نے یک دم بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”کیا؟” زینب نے بے ساختہ پوچھا۔
”تمہیں دیکھنے پر ٹیکس لگا دوں گا۔”
زینب نے بے حد برا مان کر ٹرے اٹھا کر کھڑی ہو گئی۔ شیراز بھی برق رفتاری سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”اپنے آپ پر۔” اس نے جیسے جملہ پورا کیا۔
زینب نے چند لمحے اسے ناراضی سے دیکھا پھر یک دم کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
”ہمیشہ الٹی باتیں کرتے ہیں۔”
”سیدھی باتوں کے لیے تم نے کبھی موقع ہی نہیں دیا۔” شیراز نے اسے پھر چھیڑا۔
”بس اب میں نہیں آؤں گی یہاں، خود ہی آئیں گے۔” وہ کمرے کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔
”آئیں گے کیا؟ ابھی چلتے ہیں تمہارے ساتھ” وہ اب اسے زچ کرنے کے موڈ میں تھا۔
”آپ پھر تنگ کررہے ہیں مجھے۔”
”تم پھر رونا شروع کر دو۔” اس نے بے ساختہ کہا۔
”ایسے ہی رونا کیوں شروع کر دوں۔” وہ بے اختیار کندھے اچکاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭
”پھر شیراز نے کیا کہا کون سی لڑکی کا انتخاب کرے گا وہ؟” رمشہ نے زینب کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
”میں نے پوچھا ہی نہیں۔” زینب نے بے حد اطمینان سے کہا۔
”کیوں؟”
”کیونکہ اس سوال کا جواب مجھے پہلے ہی پتا ہے۔ انہوں نے وہی کہا ہو گا جو میں جانتی ہوں۔”
”اچھا اتنا یقین ہے اس پر؟” رمشہ نے اسے چھیڑا۔
”ہاں۔ یقین ہے تو سب کچھ ہے نا۔” زینب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ رمشہ کی چھیڑ چھاڑ کی عادی تھی۔
تیسرا پیریڈ فری تھا اور وہ اس وقت کالج کے لان میں چہل قدمی کرنے میں مصروف تھیں۔ اور جب بھی وہ رمشہ کے ساتھ وہاں چل پھر رہی ہوتی آس پاس سے گزرنے والی لڑکیوں کی رشک بھری نظروں کا مرکز ہوتی۔ وہ اس کی عادی ہو چکی تھی۔ زینب ضیا بلاشبہ کالج کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ بعض دفعہ اس کے پاس سے گزرنے والی لڑکیاں اسے باقاعدہ روک کر اس بات کا اظہار کرتی تھیں، زینب ہمیشہ ایسی کسی بات پر جھینپ جاتی تھی اور رمشہ محظوظ ہوتی۔
”بات سنیں، آپ صبح اپنی نظر اتار کر آیا کریں۔”
آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ایک جونئیر کلاس کی لڑکی نے اسے روک کر بڑے جھجکتے ہوئے انداز میں اس سے کہا تھا۔
”آپ کے چہرے پر بڑا نور ہے۔ مجھے لگتا ہے بہت عبادت کرتی ہوں گی آپ۔” زینب اور رمشہ مسکراتے ہوئے اس کی بات سنتی رہیں۔
”آپ بس اپنی نظر اتار کر آیا کریں۔”
وہ کچھ دیر ان کے پاس رک کر باتیں کرتی رہی ایک بار پھر اسے ہدایت کر کے گئی۔
”اب شیراز کو ایسی بیوی کہاں سے ملے گی۔ جس پر مرد تو ایک طرف عورتیں بھی عاشق ہوتی پھریں۔ خوش قسمت توا صل میں تمہارا منگیتر ہے زینب ۔”
رمشہ نے اس لڑکی کے جاتے ہی دوبارہ چہل قدمی شروع کرتے ہوئے کہا۔ زیب ہنس پڑی۔
کالج کے گراؤنڈ میں دور ایک حصے میں ایک کوکنگ کمپیٹیشن کا افتتاح ہو رہا تھا۔ کسی سرکاری افسر کی بیوی مہمان خصوص کے طور پر مدعو تھی۔ رمشہ اور زینب کچھ دور کھڑی اس سرکاری افسر کی بیوی کو کالج کی پرنسپل اور پروفیسرز کے جمگھٹے میں پنڈال کی طرف جاتا دیکھتی رہیں۔
”کبھی تم بھی اسی طرح کالجوں میں جا کر ربنز کاٹا کرو گی۔ ایک بیگم صاحبہ بن کر۔”
رمشہ نے پھر اسے چھیڑا، اسے زینب کو چھیڑنا اچھا لگتا تھا۔ وہ اس کے چہرے کی سرخ ہوتی رنگت اور اس کی ہنسی سے بہت محظوظ ہوتی تھی۔ حسب عادت وہ اس بار بھی رمشہ کی بات پر ہنس پڑی تھی۔
”اور پھر تم جب ایک افسر کی بیگم بن کر جاؤ تو اپنی اس دوست کو یاد رکھنا۔ یہ نہ ہو تم کہیں مجھے دیکھو اور پہچانو ہی نہ۔” رمشہ نے مصنوعی افسردگی کے ساتھ کہا۔
”اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم مجھے نہ پہچانو۔” زینب نے بے ساختہ کہا۔
”تم اتنی موٹی مت ہونا نا۔ اسی طرح رہنا سلم، اسمارٹ۔”
زینب ایک بار پھر ہنسی۔
”البتہ ذرا ماڈرن ہو جانا۔ بال وال کٹوا لینا۔ ذرا اسٹائلش قسم کے کپڑے پہننا اور زیادہ میک اپ اور جیولری۔ افسروں کی بیویوں کا حلیہ ذرا اور طرح کا ہوتا ہے۔”
رمشہ نے چلتے چلتے رک کر ذرا تنقیدی نظروں سے اسے دیکھا۔
”شیراز تو کبھی مجھے اس کی اجازت نہیں دیں گے۔” زینب نے دو ٹوک انداز میں نفی میں سر ہلا دیا۔
”کیوں؟”
”بس مجھے پتا ہے۔ انہیں میں اسی حلیے میں اچھی لگتی ہوں۔ اور بال کٹوانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہیں میرے لمبے بال پسند ہیں۔”
”اور اگر شیراز نے ہی کل کو تم سے کہا کہ تم اپنا حلیہ تبدیل کر لو۔ اسے ماڈرن قسم کی پارٹیز میں ساتھ جانے والی بیوی چاہیے۔” رمشہ یک دم سنجیدہ ہو گئی۔
”وہ کہہ ہی نہیں سکتے۔ تمہیں پتا نہیں ہے ان کا۔ ماڈرن لڑکیاں انہیں اچھی نہیں لگتیں۔ انہیں تو بہت غصہ آتا ہے اگر ان کی بہنیں بھی کبھی پوچھے بغیر اکیلی ادھر ادھر چلی جائیں۔”
”بندے کا کچھ پتا نہیں ہوتا زینب… اب وہ سول سروس میں جائے گا۔ دوسروں کی الٹرا ماڈرن بیویاں دیکھے گا تو تم کو چادر میں لپیٹ کر تو ساتھ نہیں لے کر جایا کرے گا۔”
”کل کی کل دیکھی جائے گی۔ ابھی تو بس تم دعا کرو، وہ بہت اچھی طرح پاس ہوجائیں۔”
زینب نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”فکر مت کرو۔ بہت اچھی پوزیشن میں پاس ہوگا۔ وہ پہلے ہر امتحان میں ٹاپ کرتا آرہا ہے تو اس امتحان میں کیوں نہیں کرے گا۔” رمشہ نے مسکراتے ہوئے اسے تسلی دی۔
”اور تمہارے جیسی نیک بیوی جس کے مقدر میں لکھی ہو۔ اس کو تو ویسے ہی دعاؤں کی ضرورت نہیں رہتی۔ تم سے اچھی اور بہتر دعا اس کے لیے اور کون کر سکتا ہے؟” رمشہ نے کہا۔
”پھر بھی رمشہ… تم بس دعا کرنا۔”
”اچھا یار! کروں گی۔ تمہارے میاں کے لیے اب اتنا تو کروں گی ہی میں۔ اب کینٹین چلو، کچھ کھاتے ہیں۔” رمشہ نے اس کابازو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
”چلتے ہیں۔” زینب نے اپنے بیگ کی زپ کھولتے ہوئے اندر سے چند نوٹ نکالتے ہوئے کہا۔
”ارے ہاں۔ اس لڑکے نے دوبارہ تو تنگ نہیں کیا؟” رمشہ کو یک دم جیسے یاد آیا۔
پچھلے ایک مہینہ سے کالج سے واپسی پر کوئی لڑکا زینب کا گھر تک پیچھا کرتا تھا اور زینب اس کی وجہ سے بے حد پریشان تھی مگر اب تقریباً دو ہفتے سے یک دم وہ لڑکا غائب ہو گیا تھا۔
”نہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔ ابھی تک دوبارہ نظر تو نہیں آیا۔” زینب نے بے ساختہ کہا۔
”اچھا ہے کم بخت دفع ہو گیا۔ میں نے تو تم سے پہلے دن ہی کہا تھا کہ اسے کھینچ کر ایک تھپڑ مارو، دوبارہ شکل نہیں دکھائے گا وہ۔”
”مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے۔” زینب نے اعتراف کیا۔
”ہمت نہیں ہے میری جان، تو ہمت پیدا کرو۔” رمشہ نے جیسے اسے پچکارا۔
”میں نہیں کر سکتی رمشہ! وہ میرا محلہ ہے، وہ گھر تک آتا ہے میرے۔ میں وہاں کوئی ہنگامہ نہیں کر سکتی۔ شیراز یا ابو کو پتا چل گیاتو وہ کیا سوچیں گے میرے بارے میں؟”
”میں تمہاری جگہ ہوتی تو اپنے باپ اور منگیتر دونوں کو خود بتاتی۔ بلکہ اس سے پہلے وہ کرتی جو تمہیں بتا رہی ہوں۔”
رمشہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ زینب جانتی تھی، وہ واقعی ایسا ہی کرتی۔ وہ اپرکلاس سے تعلق رکھتی تھی۔ اور بے حد بے خوف اور نڈر قسم کی لڑکی تھی۔
”میں ابو کو پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ پہلے ہی بہت مسئلے ہیں ان کے لیے۔” زینب نے کہا۔
”تو شیراز کو بتا دو… وہ جا کر دو دو ہاتھ کر لے اس سے۔”
”شیراز کو تو میں کبھی بھی نہ بتاؤں۔ وہ تو مجھ پر بہت خفا ہوں گے۔” زینب نے بے ساختہ کہا۔
”کیوں تم پر کیوں خفا ہو گا؟”
”بس ہوں گے۔ مجھے پتا ہے۔ چھوڑو ان باتوں کو۔ ابھی تو وہ آبھی نہیں رہا پیچھے۔ مجھے لگتا ہے جان چھوٹ گئی ہے اس سے۔”
اس سے پہلے کہ رمشہ کچھ اور کہتی زینب نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
٭٭٭
One Comment
Nice