من و سلویٰ — قسط نمبر ۱

زینب کی آنکھیں بے اختیار چمکنے لگی تھیں۔ رشک، فخر، غرور، محبت، مان کیا نہیں تھا اس چمک میں۔
وہ اس وقت شیراز کے سامنے اس کے گھر میں بیٹھی تھی۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اسلام آباد سے آیا تھا اور زینب جیسے اڑتی ہوئی اس کے پاس گئی تھی وہ چائے پیتے ہوئے اسے انٹرویو کی روداد سنا رہا تھا۔ اور اس آخری سوال کی۔
”پھر کچھ اور پوچھا انہوں نے؟” زینب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں… کیسے پوچھتے؟ میرا جواب بالکل ٹھیک تھا۔”
شیراز نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے اطمینان سے جواب دیا۔ زینب اس کی بات پر مسکرائی اسے فخر تھا کہ وہ اس کا تھا۔ اور یہ فخر خواہ مخواہ تو نہیں تھا۔

”بس تم اب دعا کرنا کہ بہت اچھی پوزیشن آئے میری۔ مجھے تمہاری دعا پر بڑا یقین ہے۔” شیراز نے اس سے کہا۔
”بہت اچھی کیوں؟ میں تو دعا کروں گی، آپ کی پہلی پوزیشن آئے۔ باقی سب بہت پیچھے ہوں آپ سے۔”
زینب نے بے حد محبت سے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
شیراز بے اختیار ہنسا۔ ”چلو ٹھیک ہے، یہ دعا ہی کر لینا۔ پر ٹاپ کرنا آسان نہیں ہوتا زینی۔ وہاں سب بڑے قابل ہوتے ہیں۔”
”ہوتے ہوں گے پر مجھے کسی سے کیا۔ مجھے کون سا فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چئیر مین سے کچھ لینا ہے۔ مجھے تو اللہ سے دعا کرنی ہے۔” زینی نے سامنے پڑی تپائی پر رکھے برتن سمٹینے شروع کر دیے۔
”ہر چیز دعاؤں سے نہیں ہوتی زینی!” شیراز یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
”میرے لیے تو ہو جاتی ہے۔” زینب نے بے حد سادہ لہجے میں کہا۔ ”نہ بھی ہو مجھے تو عادت ہے دعا کرنے کی۔ میں یہ عادت نہیں چھوڑ سکتی۔”
”کون کہہ رہا ہے عادت چھوڑنے کو۔ میں تو تمہیں ویسے ہی بتا رہا ہوں۔”
”آپ بھی نماز پڑھا کریں۔” زینب نے ہمیشہ کی طرح تاکید کی۔
”مجھے کیا ضرورت ہے، تم ہو نا میری جگہ نمازیں پڑھنے کے لیے۔”شیراز نے لاپروائی سے کہا۔ وہ اس کی اس بات کو اسی طرح مذاق میں اڑایا کرتا تھا۔
”نماز دعا کے لیے پڑھتے ہیں اور جب میرے لیے دعا کرنے والی ہے تو پھر مجھے کیا ضرورت ہے نماز پڑھنے کی۔” شیراز کی یہ منطق اس نے بہت بار سنی تھی۔
”ہاں۔ میں تو کرتی ہوں۔ آپ کے لیے دعا۔ لیکن کبھی آپ خود بھی تو نماز پڑھ کر دعا کیا کریں۔”




”اب یا تو میں اپنے گھر کے مسئلے حل کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کر لوں یا پھر پانچ وقت کی نماز پڑھ لوں۔ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ نہیں کر سکتا میں۔”
”آپ کو پتاہے نماز فرض ہے۔ اور جو نہ پڑھے بہت گناہ ہوتا ہے اسے۔” یہ زینب کی سب سے بڑی دھمکی تھی۔
”اچھا؟ مجھے تو پتا ہی نہیں تھا۔ ساری اسلامی معلومات تو صرف زینب ضیا کے پاس ہی ہوتی ہیں۔ اب میرے جیسے کم پڑھے لکھے آدمی کو کیا پتا کہ نماز فرض ہے اور نہ پڑھنے سے گناہ ہوتا ہے۔”
اس نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”مذاق نہ اڑائیے شیراز” زینب نے تھوڑا سا برا مانتے ہوئے کہا۔
”نماز پڑھنا اتنا ضروری تھا تو پھر اللہ کو چاہیے تھا، وہ میری زندگی کو کچھ آسان بناتا۔ اسے چھوٹی بڑی ضرورتوں اور حسرتوں کا مجموعہ نہ بناتا۔ صبح آٹھ بجے سے رات دس بجے تک ٹیوشنز پڑھاتا ہوں میں تین سے چار گھنٹے ہر روز بسوں اور ویگنوں کے دھکے کھاتا سفر کرتا ہوں۔ کسی ایک جگہ دو منٹ دیر سے پہنچو تو بے بھاؤ کی سنتا ہوں۔
کئی بار کھانا کھانا مجھے یاد ہی نہیں رہتا۔ اور کئی بار کسی بس یا ویگن میں کھڑے کھڑے کھانا کھاتا ہوں۔ اور تم مجھے بتا رہی ہو کہ پانچ وقت کی نماز پڑھنا کتنا ضروری ہے۔” وہ بات کرتے کرتے تلخ ہو گیا تھا۔
”اب یا تو میں نماز پڑھ لوں یا پھر کام کر لوں۔ تم اس لیے عبادت کرتی ہو کیونکہ میری طرح تمہارے سر پر ذمہ داریوں اور مسائل کے پہاڑ لدے ہوئے نہیں ہیں۔ گھر ضیا چچا کی کمائی سے چل رہا ہے۔ تمہارے سر پر تین تین بہنوں کو بیاہنے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ پڑھنے کے لیے کالج گئیں اور پھر آکر گھر بیٹھ گئیں۔ کیا پتہ کہ مرد کو باہر چار پیسے کما کر لانے کے لیے چار سو گالیاں سننی پڑتی ہیں۔ پھر بھی جو کما کر لاتا ہوں، اس سے پورا نہیں پڑتا۔ ہر مہینے کسی نہ کسی چیز کے لیے کسی نہ کسی سے ادھار لینا پڑتا ہے۔ نمازیں پڑھو، عبادت کرو اور گھر میں بھوکے بیٹھے رہو۔”
زینب کو اندازہ نہیں تھا۔ وہ اتنے اچھے موڈ میں ہوتے ہوئے اس طرح اچانک غصے میں آجائے گا۔ جو کچھ وہ کہہ رہا تھا، وہ اس نے پہلے بھی ہزاروں بار اس کے منہ سے سنا تھا۔ وہ اپنے گھر کے مسائل کی وجہ سے بہت پریشان رہتا تھا۔ اور اکثر بات کرتے کرتے تلخ ہوجاتا تھا۔ مگر زینب کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس وقت اتنے خوشگوار موڈ میں بات کرتے کرتے یوں ناراض ہو جائے گا۔
پچھلی رات کو اسلام آباد سے آیا تھا، صبح ان کی ملاقات نہیں ہو سکی۔ کیونکہ وہ کالج چلی گئی تھی اور اب سہ پہر کے وقت جب وہ اس کے لیے کٹلٹس بنا کر اس کے گھر لائی تھی تو وہ اس سے بڑی خوش مزاجی سے ملا تھا چائے پیتے اور اس کے ہاتھ کے بنے ہوئے کٹلٹس کھاتے ہوئے وہ اسے اپنے انٹرویو کی تفصیل سناتا رہا اور وہ بے حد خوشی کے عالم میں سنتی رہی۔ اور اب یک دم اس کی ایک بات پر وہ اس طرح برہم ہو گیا تھا۔ زینب کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے۔ شیراز کو غصے میں دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں اسی طرح پھول جاتے تھے۔
شیراز کے خاموش ہونے پر اس نے مزید کچھ کہنے کے بجائے باقی برتنوں کو بھی ٹرے میں رکھنا شروع کر دیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ رہے تھے۔ جنہیں وہ نظریں جھکا کر شیراز سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے شیراز کو بہت افسوس ہوا۔ پلیٹ ٹرے میں رکھتے ہوئے اس نے زینب کے ہاتھ کو نرمی سے پکڑ لیا۔
”ناراض ہو گئی ہو؟”
آنکھوں میں امڈتی نمی کو آنکھوں سے باہر لے آنے کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ زینب نے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے اسی طرح نظریں جھکائے نفی میں سر ہلایا۔ مگر اس کے گالوں پر اب آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا۔
”پاگل ہو تم۔ میں نے تمہیں تو کچھ بھی نہیں کہا۔” شیراز نے کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔ ”میں تو ایسے ہی ایک بات کر رہا تھا۔”
شیراز نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا، زینب نے چادر کے کونے سے اپنی آنکھوں اور گالوں کو پونچھنے کی کوشش کی۔ ایک لمحہ کے لیے اس کی آنکھیں اور گال خشک ہوئے، اگلے ہی لمحے وہاں پھر پانی تھا۔ شیراز اکثر اس سے مذاق میں کہا کرتا تھا۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا زینی! تمہاری آنکھوں میں اتنا پانی کہاں سے آجاتا ہے۔ اتنی جلدی تو برسات کی بارش نہیں ہوتی جتنی جلدی تم رونے لگتی ہو۔”
وہ ٹھیک کہتا تھا وہ واقعی چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے لگتی تھی۔ ٹی وی میں کسی ڈرامہ کے کسی ٹریجک سین کو دیکھ کر، کوئی اداس گانا سنتے ہوئے، کسی کے بلند آواز میں ناراضی سے کچھ کہہ دینے پر، اپنی کسی چیز کے نہ ملنے یاگم ہو جانے پر، کوئی چھوٹی موٹی غلطی کر دینے پر، کوئی ہلکی سی چوٹ لگ جانے پر۔ کسی کی زندگی کا کوئی مسئلہ یا پریشانی سن کر، زینب کے لیے آنسو بہانا جیسے ہر مسئلے کا حل تھا۔
وہ طبعاً حساس اور رحم دل تھی۔ یہ خصوصیات اس کے باقی گھر والوں میں بھی تھیں۔ مگر زینب میں تو ان خصوصیات کا واحد مسئلہ روپڑنا تھا۔ اس کے اپنے گھر والے اور خاندان کے لوگ اس کی اس کمزوری کو اچھی طرح جانتے تھے۔ مگر اس کا مذاق صرف شیراز ہی اڑایا کرتا تھا۔ مگر اس چیز نے بھی زینب کی اس کمزوری یا عادت پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔
”اچھا… تم سے معافی مانگوں؟” شیراز نے بالآخر کہا۔
”اس طرح کی باتیں مت کیا کریں۔” زینب اس کے جملے پر برا مان گئی۔ وہ اب اپنی سرخ ہوتی ہوئی ناک کی نوک کو چادر سے رگڑ رہی تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے نہیں کرتا۔ بس تم رونا بند کرو۔ ورنہ میں ر ات کو سو نہیں سکوں گا۔”
شیراز نے اس کے دوسرے ہاتھ کو بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
”میں بہت برا ہوں۔ بہت رلاتاہوں نا تمہیں؟” اس نے بے حد سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔
زینب نے یک دم نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ ”آپ پھر اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔”
اس کی آنکھوں میں نیا سیلابی ریلا آیا۔
”اچھا… اچھا… میں نہیں کرتا۔ تم اپنے آنسو تو پونچھو۔” شیراز گھبرایا۔
”آپ ہاتھ چھوڑیں گے تو پونچھوں گی نا۔” زینب نے بے چارگی کے ساتھ کہا۔ شیراز نے اس کا ایک ہاتھ چھوڑ دیا۔
”دوسرا بھی چھوڑیں۔ خالہ اندر آئیں گی تو کیا سمجھیں گی۔” زینب نے کہا۔ وہ اب اس کے ہاتھ کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے خجل ہو رہی تھی۔
”یہی سمجھیں گی کہ ان کی بھانجی اسی لیے دن میں بار بار یہاں کے چکر لگاتی ہے۔”
زینب نے بے حد ناراض ہو کر ہاتھ اس سے بے اختیار چھڑایا۔
”ٹھیک ہے۔ اب میں نہیں آؤں گی۔” وہ چادر سے آنسو پوچھتے ہوئے بولی۔
”یعنی میں آجایا کروں؟” شیراز نے اسے چھیڑا۔
”آپ کی مرضی، آپ کے چچا کا گھر ہے۔” وہ اسی انداز میں بولی۔
”چچا کا تو مجھے پتا نہیں، مگر میرا ہونے والا سسرال ضرور ہے۔ ویسے بیوی کو تمہارے جتنا خوبصورت نہیں ہونا چاہیے۔” اس نے یک دم بات بدلتے ہوئے گہر اسانس لیا۔
زینب نے اسے گھورا۔ ”کیوں؟”
”ورنہ شوہر تو ہر وقت بیوی کا چہرہ ہی دیکھتا رہے گا۔”
”تو کیا برائی ہے چہرہ دیکھنے میں؟”




Loading

Read Previous

راندۂ درگاہ — قرۃ العین مقصود

Read Next

ہمیں اُن سے عقیدت ہے

One Comment

  • Nice

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!