آج بھی صبح سانولی تھی۔ موسم ابر آلود تھا۔ سفید آسمان پر بادل ،پھولوں پر تتلی کی طرح منڈلا رہے تھے اور لگ رہا تھا جیسے ہاری کی دعا قبول ہوئی ہو۔
کوٹھی کے دروازے پر ڈسپنسری کی سیاہ تختی لگی تھی جس پر بڑی بے ترتیب لکھائی میں اس نے لکھا تھاکہ”میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا” اوریہ اس کا فیصلہ تھا ۔
مولابخش نے وہ تختی وہاں سے اتار کر ایسے سنبھالی ہوئی تھی جیسے مائیں،بیٹیوں کے جوان ہونے تک اپنے سونے کا ہار اور کڑے سنبھال کر رکھتی ہیں۔
اس نے بھی سارنگ کے ساتھ یہ خواب دیکھنا شروع کردیا تھا کہ سارنگ نے بڑا ہو کر ڈاکٹر بنناہے۔
٭…٭…٭