”کیوں نہیں کہوںگا،سو بار کہوںگا۔ شہزادہ آئے گا۔ ابا کی دعا ہے سندھو کے لیے۔ وہ چھے سال کی تھی جب سے یہی دعا دے رہا ہوںاُسے،کوئی توگھڑی قبولیت کی ہوگی ،جب میری کہانیاں اس کے لیے دعا بن گئی ہوں۔چری بچوں کے لیے ماں پیو جو دعا کرئیں وہ قبول ہونے کے لیے ہوتی ہیں۔”

”اوچری! سندھو کی ماں! دعا کر دعا، دعائوں سے ڈوبے بیڑے ترجاتے ہیں اور یہ تو نصیب ہے، کھلے گا ضرور کھلے گا ابھی تو بڑی عمر پڑی ہے۔میری دھی نے ادھر ساہ لینا شروع کیا ادھر تو اس کے پیچھے پڑگئی ۔ کھیلنے کودنے کی عمر سے کل ہی نکلی ہے آج تو اس کے درپے ہوگئی۔”

”رہن دے مولابخش رہن دے۔ میں کتنی عمر کی تھی جب تیرے گھر آئی تھی۔ مردوں کو اپنی بیٹیوں کا احساس ہوتا ہے ،پرائی بیٹیاں شہد کی مکھی کی طرح ہوتی ہیں جو اتار کر نگل لی جاتی ہیں۔”

”اوتو اپنی بیٹی سے خار کھانے لگی ۔ کیسی ماں ہے تو؟ ”مولابخش نے تکیہ دوبارہ سیدھا کیا اور جھلاگیا۔

”خار نہیں کھاتی مولا بخش۔ سیدھی بات بتاتی ہوں،جو بوئوگے وہی کاٹوگے۔ یہ دنیا کا دستور ہے۔”

بات کہاں سے نکلی اورکہاں تک پہنچ گئی۔

”او ماں تو یہ سوچتی ہے کہ جو سکھ مجھے نہ ملا وہ دھی کو بھی نہ ملے ، کہہ رہی ہے جو بوئے گا سو کاٹے گا۔ کسے بد دعا دے رہی ہے تو؟ سیانی بن، سٹھیا مت۔”

”سیدھی گل کر رہی ہوں مولابخش۔ دل پہ ہاتھ رکھ کر دیکھ اور سوچ حیاتی میں کتنے سکھ دیے ہیں تونے مجھے۔گنتی کرنے بیٹھے گا تو دس سے پہلے رک جائے گا۔ چارتک نہیں پہنچ پائے گا۔ ایک گنے گا، دوسرے پہ سوچے گا، تیسرے پر اٹکے گا اور چوتھے پر رک جائے گا۔ گنتی کھوٹی پڑ جائے گی۔ سر پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھے تو نام بدل دینامیرا۔”

” تیرے شکوے کبھی نہیں جائیںگے۔ تو سکھوںاورخوشیوں کو روپوں، پیسوں اور آسائشوں میں تولتی ہے۔ او سندھو کی ماں! جس دن تونے میری سچائی اور پیار کو روپے سے چھانٹ کر الگ کیا اُس دن تجھے پتا چلے گا۔گننے بیٹھے گی تو دس سے آگے بڑھ جائے گی۔ ایک سے چار آسانی سے کرلے گی، چار سے چھے تک کی تجھے وقت بتائے گا۔ اس سے آگے میری باتیں سمجھادیںگی اور دس کے بعد دل ان گنت ایسی گتھیاں کھول دے گاجو گننے میں نہ آئیںگی۔ انگلی کے پور ایک ہاتھ کے پندرہ دونوں کے تیس، ملاکر سو بھی کرے گی تو کھوٹ پڑے گی۔” مولابخش گنتی کا پکاتھا یا باتوں کا بادشاہ۔

”او رہن دے مولابخش رہن دے۔ یہ چونچلے سارے نئی جوانی کے ہیں، شادی کے سال بھر بعد پینترے بدل جاتے ہیں۔ مجھے تو سندھو کے لیے ایسا چاہیے جسے بھلے کہانیاں سنانا اور باتیں گھڑنی نہ آئیںمگر وہ سندھو کو سکھ کی چادر دے، دو وقت کی روٹی دے، سکون دے اور اچھی زندگی دے۔

او مولا بخش! بھوک محبت کو کھاجاتی ہے۔کڑا وقت نہ آئے،اس پر کبھی کڑا وقت نہ آئے ۔کبھی باتوں سے پیٹ کے دوزخ بھرے جاتے ہیں ۔”

مولابخش سوچنے لگا۔’دوزخ تو انگاروں سے بھرے جاتے ہیں۔’ پر کچھ بھی کہنے کی ہمت نہ کی۔ دل بھر آیا تھا۔ چارپائی کے کنارے سے لگ کر بیٹھ گیا ۔

”چل سندھو کی ماں سونے دے اب رات کافی ہوگئی ہے ،میرے گناہوں کی کتاب توبہت موٹی ہے، خطائیں گننے میں نہیں آتیں ،حساب چکتے کرکرکے مرجائوںگاتب تیری آنکھ کھلے گی۔”

”مرنے کی بات نہ کر مولابخش۔” سبھاگی کیسے تڑپی تھی۔ زندگی ایک ساتھ گزاری تھی۔

جیسے تیسے وقت کٹا لیکن یہ وقت ہی تو تھا، جو رشتے کو بڑا آگے تک لے آیاتھا۔

”لے مولابخش! گل سن۔” اُس کے سرہانے بیٹھی آتھی، تکیے کے پاس، سر کے بالوں کو سہلانے لگی۔ ”کتنے دنوں سے تونے تیل نہیں لگایا۔چل میں لگاتی ہوں،مالش کردیتی ہوں ۔ ”

”رہن دے سندھو کی ماں۔ رہن دے۔بڑے دنوں بعد خیال آیا ہے تجھے میرا، تھکاہارا توروز ہی آتا ہوں۔ تجھے نظر نہیں آتا؟لکھ کر رکھ لے پیسا رتبے میں شوہر سے بڑا ہے ۔ بیٹھی یاد کرتی رہنا ۔ ”

”پیسا اگر تجھ سے بڑا ہوتا مولابخش، تو کب کی تجھے چھوڑ کر جاچکی ہوتی۔ وقت ساتھ کاٹ رہی ہوں۔ ایک عرصہ ہوا،آج سے نہیں کئی سالوں سے۔ابا نے کہا تھا مرکے نکلنا اس گھر سے۔پر تجھے کہتی ہوں مولابخش۔ تو کبھی سندھیا سے یہ نہ کہنا کہ اس گھر سے مرکے نکلنا۔ باپ اسی دن دھی کو اپنے  ہاتھوں سے دفنادیتا ہے جس دن کہتا ہے مر کے شوہر کے گھر سے نکلنا۔ پھر وہ کبھی اپنے دکھ میں باپ کو شریک نہیں کرتی، اکیلے بستی ہے۔”

”بس کردے سندھیا کی ماں بس۔ ”آنکھیں اب بھی گیلی تھیں سیدھا ہوکر لیٹ گیا۔

سندھیا کی ماں کا ہاتھ پکڑ اپنے دل پر رکھ لیا۔

”تجھے کچھ اور دیا نہ دیا پر محبت تو دی ہے نا۔او تجھے معلوم ہے سندھو کی ماں۔ کچھ شوہر تو ایسے خود غرض ہوتے ہیں ،جو بیوی کوپیسا تو بہت دیتے ہیں ،سونے میں سجادیتے ہیں، مگر وفا نہیں دیتے ،اپنا وقت نہیں دیتے، وقت باہر دے آتے ہیں۔ کبھی تجھے پتا چلے گا، مولابخش تو ہمیشہ تیرا تھاہمیشہ!تجھے اور کچھ نہ دیا ہو، محبت دی۔تیرے ساتھ روکھی سوکھی کھائی۔ دکھ میں تیرے ساتھ رویا۔ خوشی میں ہنسا۔ تجھے دل کا تاج بناکر رکھا۔جن کی زندگیوں میں محبت نہیں ہوتی ان سے پوچھ کیسی بنجر زندگی جیتے ہیں وہ۔” آواز میں ڈھیر سارا دُکھ تھا سبھاگی تڑپ اٹھی۔

”تو ماں ہے سکھ کی دعا کر ،دھی کی راحت کی۔ میں دعا کرتا ہوں اسے وفا ملے۔ محبت ملے۔ پیار وہ دیوارہے جو سایہ دیتی ہے،چھپالیتی ہے ہر دُکھ۔ زندگی بہت مشکل ہے تو قدر کر۔جب نہ ہو تو پتا چل جاتا ہے۔ ساہ نہیں لیا جاتا۔”

”تو کیا سمجھتا ہے میں نے تجھے زندگی نہیں دی ۔”تڑپ کر بولی۔

”تیری پروا نہیں مجھے۔ میرے پاس بڑے بڑے لفظ نہیں سندھو کے ابا۔” وہ بلبلائی۔

”او چھڈ سندھیا کی ماں۔ دل چھلنی کردیتی ہے تو جب بھی بولتی ہے ککھ نہیں چھوڑتی۔”

”تجھ سے اب نہ کہوں تو کس سے کہوں سندھو کے ابا۔” وہ لاڈ سے بولی۔

”سندھو کے ابا!” وہ جب اتنے لاڈ سے کہتی تو مقروض بنالیتی اپنا۔

وہ ”سندھو کی اماں!” کہتا اور بات وہیں بیٹھ جاتی پاؤں پسار کر ۔

ہزاروں گلے شکوئوں کے باوجود یہ وہ رشتہ تھاجو پختہ تھابلکہ بہت پکا تھا۔

کہنے لگا۔ ”فکر نہ کر سب اچھا ہوگا۔” کہنا آسان تھا پر ڈھارس بڑی تھی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Read Next

شریکِ حیات – قسط ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!