وہ منٹھار کو دیکھ آیا ، سمجھو گھڑے کے اوپر پانی پھرگیا۔ پانی گھڑے کے اندر ہی رہے تو اچھا، باہر آنے لگے اور چھلک جائے تو سمجھو گھڑا خالی ۔ منٹھار زمین دار ایسا ہی ایک ”نام” تھا۔ چار ایکڑ زمین ،دو بھینس اورچار چھے بکرے رکھ کر ایسے اکڑ کر چلتا تھاکہ مانو دنیا فتح کر لی ۔

کالی گھنی مونچھیں ،سر پہ میلے رنگ کاپٹکا،ہاتھ میں چرواہے کی طرح گھومتی لاٹھی، جسے ٹیک کر بڈھے کمر سیدھی کرتے اور جوان اُسے گھماگھما کر چلتے تھے ،جیسے دھرتی پر گول چاند گھمارہے ہوں۔ منٹھار کی اکڑ تو سارنگ کے چار سوالوں سے ختم ہوگئی۔ وہ کوئی جواب نہ دے پایا۔

سبھاگی نے انکار سنا تو اس کا منہ سوج گیا۔

چاچا کو سارنگ کی بات سمجھ آجاتی تھی، چُپ کر گیا ،بس ایک چھوٹا سا وہم دل میں آیا۔ دھی کا پہلا رشتہ گیا سمجھو نصیب کو ٹھکرایا۔ کہتے ہیں وہم ہی ہوتے ہیںجو کبھی کبھار حقیقت کا روپ دھارلیتے ہیں۔ اگر وہم پر گمان ہونے لگے اور گمان پختہ ہو تو کوئی صورت اختیار کرکے سامنے ضرور آتا ہے۔

ڈر یہی تھا وہم کہیں گمان میں نہ ڈھل جائے۔

”سندھو کے ابا تونے کیا سوچ کر انکار کیا؟”

سارا گھر مصلحتاً چپ تھا کہ سارنگ نے انکار کیا ہے تو ٹھیک ہی کیا ہوگا؟ مگر سبھاگی بے چین تھی۔ ماں تھی اسے حق تھا بے چین ہونے کا اور اگر بے چین ہونے کا حق تھا تو سوال کرنے کا بھی پورا حق تھا جسے وہ استعمال کررہی تھیں۔

”جو سارنگ کے چار سوالوں کے جواب تک نہ دے سکا۔ایسے للو پنجو کو میں بیٹی کیسے دے دیتا؟”

”یہ کوئی بڑی بات نہیں سندھیا کے ابا کہ وہ سوالوں کے جواب نہیں دے سکا۔ انکار کی کوئی بڑی وجہ بتا۔”

”قابل نہ لگا وہ سندھیا کے بس۔” اجرک تہ کرکے الماری میں رکھتے ہوئے آئینے میں اک نگاہ خود پر ڈالی۔ کبھی کبھار انسا ن خود کو دیکھنا نہیں چاہتا،کیوں؟ کیوں کہ نا چاہتے ہوئے بھی کچھ سوال اس کے اندر سے بار بار سر اٹھاتے ہیں اپنے سوالوں سے نظر چرا لی مگر سبھاگی کے سب سوال اس کے آگے سینہ تان کر کھڑے تھے۔

”قابل نہ لگا؟ کس قابل نہ لگا؟ڈاکٹر نہیں تھا کیا سارنگ کی طرح؟ بالکل نہیں ہوگا مگر یہ سوچ تیری دھی کوکوئی ڈاکٹر نہیں بیاہنے آئے گا مولابخش، تیری دھی کے لیے اسی طرح کے رشتے آسکتے ہیں۔”

جانے درپردہ کس چیز کا غبار تھاجو نکل رہا تھا۔

”میری سندھو کو کیا ہوا ہے سبھاگی؟ کس چیز کی کمی ہے اس میں بھلا؟” مولابخش کا دل بھر آیا۔

آنکھیں بھرآئیں تو آنسو بہ کر نکل آتے ہیں۔ دل بھرجائے تو بھلا کون دیکھے۔

”تیری بیٹی میں کمی ہے مولابخش۔ کمی تو ہے نا۔دیکھ ایک طرف چچی کا جوان جہان بیٹا، دوسری طرف گھر کا بچہ ہے، گھر میں دو دو رشتے ہوتے ہوئے بھی ہم فکر مند ہیں اور تیری بیٹی کی کسی کو پروا نہیں۔” سبھاگی کروٹ بدل کر سیدھی ہوئی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کی۔ اس انداز نے مولا بخش کو سوچ میں ڈال دیا۔

”دیکھ سبھاگی! بھرائی کا تو تجھے پتا ہے اپنے خیالوں میں رہنے والی ہے، اس سے کیسی امید اور سارنگ تو سندھیاسے چار سال بڑا ہے ، بھائیوں کی سی نظر رکھتا ہے۔پتا ہے اس دن مجھے کیا کہہ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ اب میں جو آگیا ہوںآپ کا بیٹا، سندھیا کے لیے میں خود اچھا سا رشتہ دیکھوںگا۔

”کیا دیکھے گا؟ ڈاکٹر لائے گا کیا اس کے لیے؟”

”اوتجھے ڈاکٹر ڈاکٹر کی رٹ کیوں لگی ہے، دماغ ٹھیک ہے تیرا؟ ڈاکٹرنیوں کو ڈاکٹر سوجھیںمیری بیٹی مانا کہ کم نہیں، پری ہے پری ۔”

”اب یہ مت کہنا شہزادہ آئے گا اس کے لیے۔”سبھاگی نے بیچ بات میں ٹوک دیا۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۷

Read Next

شریکِ حیات – قسط ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!