حماقتیں — اُمِّ طیفور

(اڑھائی ماہ بعد)
”تمہارے جیسا جھوٹا اور مکار انسان میں نے زندگی میں نہیں دیکھا… میری بے وقوفی تھی جو تمہیں الگ سمجھا…”
”اچھا…! اور تم خود کیا ہو… ذرا سی شکل ہی تو اچھی ہے پھر بھی آپے سے باہر ہوئی جا رہی ہو جو اگر عقل ہوتی تو پتا نہیں کیا قیامت دھاتی…!”
”تم مردوں کی کوئی زبان نہیں ہوتی… دھوکے بازی گھٹی میں پڑی ہے، نفرت ہے مجھے تم سے اور تمہاری نام نہاد محبت سے…”
”ہاں تو مجھے تم سے محبت ہے ہی کب … وہ تو تمہاری کم عقلی اور جہالت نے کب کی بھاپ بنا کر اُڑا دی…”
”اتنے کٹھور مت بنو سفیان… ورنہ پچھتائو گے…!”
”تم اب عقل کو بھی ہاتھ مار لو بابرا… ورنہ تم پچھتائو گی…”
”ہاں…! تو اب بھی پچھتا ہی رہی ہوں…”
”ٹھیک ہے نا……!”
بیڈ روم میں توڑ پھوڑ شروع ہو چکی تھی… آوازیں کبھی چنگھاڑوں کا روپ دھارتیں اور کبھی سسکیوں میں بدل جاتیں…
شگفتہ بیگم اور بریگیڈئر صاحب نیچے سٹنگ روم میں بے حد پریشان بیٹھے تھے… اوپر بیڈروم سے آتی آوازیں ہر دوسرے دن کا معمول بنتی جا رہی تھیں… حالات صرف ڈھائی ماہ میں ہی اس نہج پر پہنچ چکے تھے… نوکر تکبابرا اور سفیان کے جھگڑے سننے کیعادی ہو چکے تھے…
”میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا … میرے گھر میں کبھی ایسے تماشے بھی لگیں گے… میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی…” شگفتہ بیگم نڈھال سی کنپٹی سہلاتے ہوئے بولیں۔
”ہم م م…!” بریگیڈئر صاحب نے عینک اُتار کر آنکھوں کو مسلا اور بولے… ”حیرت تو مجھے سفیان پر ہے کہ اتنی جلدی یہ لڑکا آپے سے باہر ہو جاتا ہے… بیوی ہے… ذرا پیار کی زبان استعمال کرے نا”۔
”تو اُس کی بیوی ہی تو اُسے آپے سے باہر ہونے پر مجبور کر رہی ہے، آپ اُس کی زبان نہیں دیکھتے جس میں وہ شوہر سے بات کرتی ہے۔”
”تو اگر تمہارا بیٹا اُسے بار بار جاہل ہونے کے طعنے دے گا… چھوٹی چھوٹی بات پر کم عقل کہے گا تو اُس سے کیسے رویے کی اُمید کرسکتا ہے۔ وہ …”
بریگیڈئر صاحب کو غصہ آنا شروع ہو گیا تھا اب… ”اسی لئے… اسی لئے میں خلاف تھی اس شادی کے …… مجھے ان حالات کا اندازہ تھا… بابرا جس ماحول سے آئی ہے اُس کے لئے سفیان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا مشکل ہو جائے گا… اوپر سے تعلیم کی کمی…”
”کیا تعلیم کی کمی بیگم…! کیا آپ کے نزدیک بی۔ اے کی کوئی اہمیت نہیں ہے…”
”بی۔اے کی ہے… بی۔ اے فیل کی نہیں …”
”آپ چاہیں تو اپنے بیٹے کو سمجھا سکتی ہیں… بابرا بہت اچھی بچی ہے… کوئی کمی نہیں اُس میں … کم عقل نہیں بھولی ہے… آج کل کی لڑکیوں والی طراری نہیں… ”
”تو اس میں میرا کیا قصور ہے اگر دو مہینے میں ہی آپ کے بیٹے کی پسند اُس کے دل سے اُتر گئی ہے تو… ! بابرا کو چاہئے خود کو سفیان کی مرضی کے مطابق ڈھالے وگرنہ مجھے یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی… کہے دے رہی ہوں میں…!”
شگفتہ بیگم دو ٹوک انداز میں بریگیڈئر صاحب کو جتا کر ٹک ٹک کرتی وہاں سے جا چکی تھیں… پیچھے وہ اکیلے سر پکڑ کر بیٹھے اس مسئلے کا حل سوچ رہے تھے…
٭٭٭٭





سب کچھ بہترین ہو گیا تھا… شادی کی ہر تقریب شاندار اور بھرپور رہی تھی… سفیان اور بابرا بے حد خوش تھے… بریگیڈئر صاحب کو تو بابرا پہلی نظر میں بھائی تھی… اپنی چلبلی طبیعت کی وجہ سے… مگر شگفتہ بیگم کو چند باتیں ضرور کھٹکتی تھیں… پھر وہ بھی بہ ظاہر مطمئن دکھائی دیتی تھیں… گھر میں رونق سی لگی رہتی تھی… بابرا کی ہنسوڑ طبیعت رفتہ رفتہ گھر کے تمام افراد کو گرفت میں لیتی جا رہی تھی… نوکر چاکر بھی اُس کے گن گانے لگے تھے… دن چڑھتے ہی اُس کی آواز سے گھر کی فضا گنگنانا شروع ہوتی تو رات سونے تک وہ اپنی باتوں سے سب کس دل بہلائے رکھتی… سیدھا سادا پنجابی ٹچ والا لہجہ کم از بریگیڈئر صاحب کو بے حد بھاتا تھا… اُنہیں بناوٹ سے چڑ تھی اور بابرا میں بناوٹ ہرگز نہ تھی… سفیان بابرا کو ہر دوسرے دن میکے کا چکر بھی لگوا لاتا تھا… جہاں بلبل نانی بھی مستقل قیام پذیر تھیں… دانیال اور نگین نے ضد کر کے انہیں روک لیا تھا… پیچھے رہتیں بھی کس کے پاس…؟ تھوڑے پھیکے تھوڑے سوکھے منہ سے سنجیدہ خاتون نے بھی رکنے پر اصرار کیا تو بلبل نانی جیسے لم لیٹ ہی ہو گئیں… اب سارا دن دونوں بہنیں کسی نہ کسی بات پر چونچیں لڑاتیں یا پھر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے خیال سے محلے والوں کی خبر گیری کرتی رہتیں…!
سفیان اور بابرا ملنے آجاتے تو دونوں نانی، دادی بچھ بچھ جاتیں۔دونوں کو زبردستی اپنی اپنی پسند کا اتنا زیادہ ٹھنساتیں کہ واپسی پر اکثر سفیان کا پیٹ خراب ہو جاتا…
بابرا سفیان کے ساتھ بے حد خوش تھی… ساس سسر بھی اچھے تھے… شروع میں سفیان بھی بابرا کی ہمراہی میں شاد تھا مگر اب …!
ایک دن سفیان کے کزن نے دونوں کی دعوت کر رکھی تھی۔ کزن سے سفیان کی دوستی بھی خوب تھی… واصف اور اُس کی بیوی نے اس نئے جوڑ ے کو ایک اچھے اور اسٹینڈرڈ ہوٹل میں انوائٹ کر رکھا تھا… گھر سے نکلتے وقت ہی دونوں کی کھٹ پٹ ہو گئی… سفیان کے اصرار پر بابرا نے ساڑھی باندھی… زندگی میں پہلی دفعہ… تیار ہو کر باہر آئی تو ساڑھی کم دھوتی زیادہ لگی… شگفتہ بیگم کا ٹخنوں سے اونچی ساڑھی دیکھنے کا پہلا اتفاق تھا… ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئیں… ساتھ مل کر نوکروں نے بھی کھی کھی کی… سفیان کو سخت شرمندگی محسوس ہوئی… بازو سے تقریباً گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے گیا اور کپڑے تبدیل کرنے کو کہا … یہ پہلا موقع تھا جب سفیان کے منہ سے بابرا کے لئے جاہل نکلا تھا… بابرا صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گئی… اُس نے دانستہ بدمزگی کو رفع کیا تھا… ہوٹل پہنچ کر واصف اور اُس کی بیوی نے والہانہ استقبال کیا… چوڑی پاجامے اور فراک میں بھی بابرا کیچھب نرالی تھی… اور اس کا اظہار واصف کی بیوی نے بارہا کیا… کھانا شروع ہوا … بابرا نے پلیٹ میں چاول نکالے اور عادت کے مطابق ہاتھ سے کھانا شروع کئے… واصف اور اُس کی بیوی نے ذرا کی ذرا حیرت سے دیکھا مگر پھر نارمل ہو گئے… مگر سفیان ہرگز نارمل نہ ہو سکا… ٹیبل کے نیچے سے پائوں کے ساتھ ٹھوکا دیا اور اوپر سے آنکھیں نکالیں… بابرا عقل مندی سے اشارہ بھانپتے ہوئے فوراً چمچے سے کھانا شروع ہوئی مگر سفیان کا سارا موڈ چوپٹ ہو چکا تھا… جلدی جلدی کھانا نبٹا کر سفیان نے بہانہ بنایا اور اُٹھنے کی … گھر آکر بھی اُس کا موڈ بہت دیر تک آف رہا…!
یہ ابتدا تھی… اس کے بعد بابرا کی ذات میں موجود چھوٹی چھوٹی کمیاں کجیاں… بڑے بڑے اعتراضات کی صورت سفیان کے منہ سے برآمد ہونے لگیں… بابرا نے بڑے تحمل اور ٹھہرائو کے ساتھ برداشت کیا… مگر کب تک… اُس کی کم تعلیم کو سفیان نے اُس کی جہالت قرار دیا… وہ سہہ گئی… اُس کی فلمیں ڈرامے دیکھنے پر سفیان نے اعتراض کیا… اُس نے چھوڑ دیئے… مگر رفتہ رفتہ سفیان کی زبان اُس کے لئے جیسے ایک ہی لفظ کی عادی ہوتی جا رہی تھی… ”جاہل”!
اور پھر اُس کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو ہی گیا… دونوں کے درمیان صرف ڈھائی ماہ میں توتکار شروع ہو چکی تھی تو اس میں زیادہ قصور سفیان کا تھا…!
آوازیں بیڈ روم سے نکل کر گھر کے دیگر افراد کے کانوں میں پڑیں تو جیسے لحاظ کا آخری پردہ بھی چاک ہوا… بریگیڈئر صاحب حیران تو شگفتہ بیگم ششدر… دونوں بیٹے کو لے کر بیٹھ گئے… اور بیٹا جی تھے کہ ہتھے سے اکھڑ اکھڑ جاتے… اُس کے اعتراضات سن کر تو شگفتہ بیگم کو یوں لگا جیسے سفیان میں کسی ”بری ساس” کی روح آن سمائی ہے…
”اُسے کھانے پینے کی تمیز نہیں…”
”پہننے اوڑھنے کا سلیقہ نہیں…”
”جوس پیتی ہے تو پیندے کے آخری قطرے تک کو ”شُڑ شُڑ” کی آواز کے ساتھ حلق میں اُتارتی ہے… اور اسٹرا تک تو چوس لیتی ہے…”
”چاول ہاتھ سے کھاتی ہے…”
”بات بات پر پنجابی بولتی ہے… ہر فقرے میں چار لفظ ضرور پنجابی کے ہوتے ہیں… غرض کہ اتنی لمبی لسٹ تو شگفتہ بیگم کی بھی نہیں تھی جتنی اُن کے بیٹے کی… بریگیڈئر صاحب شکستہ دل سے بیٹھ رہے … اُن کے گھر کی رونق کو نظر لگ چکی تھی… وہ بابرا کے میکے والوں کو کیا جواب دیں گے کہ بیٹے کو اُن کی بیٹی میں صرف ڈھائی ماہ کے قلیل عرصے میں کیڑے دکھائی دینے شروع ہو گئے ہیں… نوکر بھی گھر کی فضا میں رچی بسی اُداسی محسوس کر رہے تھے… بابرا تو مینا تھی جو سارا دن چہچہاتی رہتی تھی… اور پھر ایک دن بھرپور معرکے کے بعد بابرا خاموشی سے چار جوڑے بیگ میں ڈال کر سفیان کی زندگی سے نکل آئی…
٭٭٭٭
”آئے ہائے…! بیٹرہ گرک(غرق) جائے اس سفیان کے بچے کا… اتنا تھرڈلا نکلا… چار دن میں زنانیوں کی طرح طعنے مینے مارنے پر آگیا…”
بلبل نانی ہاتھ مسل مسل کے سفیان کو کوس رہی تھی… سنجیدہ خاتون کے کمرے میں اس وقت سبھی اکٹھے تھے… پریشان اور بے چین…!
چھٹی کا دن تھا… سبھی لان میں بیٹھے شام کی چائے کا لطف اُٹھا رہے تھے… بلبل نانی مسلسل سنجیدہ خاتون کو بات بات پر چھیڑے جا رہی تھیں… موضوع گفت گو دانش کی شادی تھا… اُسی وقت بابرا بیگ گھیسٹتی نڈھال سی گیٹ سے اندر داخل ہوئی… سب سے پہلے دانیال حواس باختہ سا اُٹھ کر بیٹی کی سمت بھاگا تھا… پھر تو جیسے سبھی نے ہاتھ پائوں چھوڑ دیئے… بابرا یوں بلک بلک روئی کہ سنبھالی نہ گئی… رو رو کر جب نیم غنودہ سی ہوئی تو ماں نے کمرے میں سلا دیا… باقی سب سنجیدہ خاتون کے کمرے میں بیٹھے اس مسئلے پر سوچ بچار کر رہے تھے… بابرا نے رونے کے دوران ٹوٹی پھوٹی ساری داستان کہہ سنائی تھی… کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ سفیان اس قدر تنگ نظر نکلے گا…





ایک ہفتے سے اوپر ہو چلا تھا… نہ سفیان نے خبر لی تھی اور نہ بابرا کو خود کوئی خبر تھی… صرف ایک دفعہ شگفتہ بیگم نے فون کیا تھا اور وہ بھی تلخی پر ختم ہوا… بلبل نانی کا کملائی ہوئی بابرا کو دیکھ دیکھ دل کٹا جا رہا تھا… اُن کے ہاتھوں کی پلی تھی… نگین سے بھی زیادہ عزیز تھی… مگر اس وقت تو اُنہیں بھی لاچاری تھی…
اُس دن بڑی مشکل سے بلبل نانی بابرا کو سویرے سویرے جگا کر لان میں لائی تھیں… کچھ دیر اُسے لئے ٹہلتی رہیں اور پھر ناشتہ کروانے اندر لے آئیں… ڈائننگ ٹیبل پر سبھی موجود تھے… اُسے دیکھ کر سبھی کے چہرے پر رونق سی آگئی… دانش نے خود اُٹھ کر اُسے بڑی محبت سے اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا… اُس کی بول چال بھی سفیان سے مکمل طور پر بند تھی… اب وہ دوست نہیں بہنوئی تھا اور بہنوئی کا رشتہ بہن سے منسلک ہے… بہن دُکھی تھی تو خود بخود ایک سرد مہری دانش کے روپے میں بھی اُتر آئی تھی…
نگین نے جھٹ پر اٹھا بابرا کی پلیٹ میں رکھا… سنجیدہ خاتون نے دودھ کا گلاس اور آملیٹ اُس کے آگے کیا مگر وہ ٹھس سی بیٹھی رہی… دانیال گہری سنجیدگی سے اُسے دیکھ رہے تھے… وہ کچھ بھی کھانے کے موڈ میں نہیں تھی حالاںکہ وہ دیکھ ناشتے کی طرف ہی رہی تھی…
”بابرا… بیٹا آپ کچھ تو کھائو نا… خالی پیٹ تو عقل بھی کام نہیں کرتی…” دانیال نے بیٹی کو پچکار کر کہا اور یہ کہنا غضب ہو گیا… وہ اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوئی کہ سب کے حواس مختل ہو گئے… روتے روتے ایک ہی بات کی گردان کئے جا رہی تھی…
”مجھے کھانا نہیں آتا… مجھے کھانے کی تمیز نہیں ہے… اور آپ کس عقل کی بات کر رہے ہیں پاپا… جو مجھ میں سرے سے ہے ہی نہیں…!”سب نے اُسے بہتیرا بہلانے کی کوشش کی مگر بے سود!
بلبل نانی اُس کی حالت دیکھ کر خود بھی رو پڑیں… سنجیدہ خاتون نے ایک کاٹ دار نظر اُن پر پھینکی اور بولیں۔
”اب کاہے کو ٹسوے بہا رہی ہو بلبل…! تمہار ابویا ہے جو آج سب کاٹ رہے ہیں… تمہاری دی ہوئی تربیت ہے جس کا طعنہ آج ہمیں سننا پڑ رہا ہے…”
بلبل نانی کے آنسو وہیں ساکت ہو گئے… سبھی ایک دوسرے سے نظر چرانے لگے… دانیال نے ناگواری سے ماں کی سمت دیکھا تو سنجیدہ خاتون نے انگلی کا رُخ اُس کی سمت کیا اور مزید تلخی سے گویا ہوئیں ”مت دیکھو… مت دیکھو مجھے اس طرح… بولا تھا میں نے … اپنی بچی کو مت حوالے کرو اس بلبل کے… جیسی خود ہے ویسی ہی اسے بھی بنا دے گی… نہ ڈھنگ کی تعلیم دلوا سکی اور نہ تربیت کر سکی… آج اگر بابرا دانش کے ساتھ پلی بڑھی ہوتی تو کیا یہ دن دیکھنا پڑتا… یہ سب بلبل کی ناقص تربیت کا نتیجہ ہے…”
سنجیدہ خاتون تنفر سے کہتی… کٹیلی نظروں سے بلبل نانی کو گھورتی ہوئیں برہمی کے اظہار کے طور پر واک آئوٹ کر گئیں… پیچھے پتھر بنی بلبل نانی اور شرمندہ شرمندہ سے باقی افراد بس ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہ گئے…
٭٭٭٭
کار پورچ میں سامان بندھا پڑا تھا… بلبل نانی واپس لاہور جا رہی تھیں… اُن کے رکنے کا کوئی جواز رہ نہیں گیا تھا… دل جیسے مردہ سا ہو گیا تھا… سنجیدہ خاتون کی اتنی کڑوی کسیلی باتوں کے بعد تو اُنہوں نے رات ہی بڑی مشکل سے کاٹی تھی… شام ہونے تک سامان تو وہ باندھ ہی چکی تھیں… نگین اور دانیال نے بہت معافی تلافی کی تھی… دانش نے منایا… مگر وہ رکنے پر تیار نہ ہوئیں… اور پھر رات کھانے کے بعد بابرا نے بھی اپنا سامان خاموشی سے پیک کر لیا تھا… وہ بلبل نانی کے ساتھ لاہور جانا چاہتی تھی… سنجیدہ خاتون کا معلوم ہوا تو اُن کا دل بلبل نانی کی طرف سے مزید برا ہوا… ”یقینا بلبل نے ہی بابرا کو کہا ہو گا ساتھ چلنے کو … ظاہر ہے وہاں لے جا کر مزید دماغ خراب کرے گی نا…”
سنجیدہ خاتون کڑھ کڑھ کر سوچتی رہیں… دانش کو بلا کر چپکے سے منع کیا ”بابرا کو بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں… سسرال والی ہے… معاملات سیدھے ہونے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے… کل کو وہ لینے چلے آئے اور بابرا یہاں موجود نہ ہوئی تو مزید خرابی کا امکان ہے…” مگر دانش نے اُن کا ہر امکان مسترد کر دیا… وہ چاہتا تھا کہ بابرا کچھ دن کے لئے یہاں سے موو کرے… اُس کی ذہنی حالت میں جو ابتری آچکی تھی… وہ بہتر ہو سکتی تھی… ویسے بھی دانش کا اپنا ارادہ کچھ دن کے لئے لاہور، بلبل نانی کے پاس ہی رہنے کا تھا۔ سنجیدہ دادی کی وجہ سے جو تکلیف بلبل نانی کو پہنچی تھی اُس کی وجہ سے وہ خاصی دل برداشتہ تھیں… بابرا خود بھی اذیت ناک فیز سے گزر رہی تھی… سو دانش کو یہی بہتر لگا کہ وہ چند دن دونوں کے ساتھ رہے…
کچھ فیصلے فوری کرنے کے لئے نہیں ہوتے… اُنہیں دانستہ پینڈنگ میں ڈال دینا چاہئے۔ وقت، حالات کا رخ دیکھتے ہوئے خود ہی تمام الجھنیں سلجھا دیتا ہے…!
٭٭٭٭
بلبل نانی اور بابرا کو لاہور آئے ڈیڑھ ہفتے سے اوپر ہو چلا تھا… بلبل نانی بھرپور توجہ سے بابرا میں اتنا چینج تو لے آئی تھیں کہ وہ کھانا پینے بھی لگی تھی اور بلبل نانی سے اپنے دل کے تمام دکھ بھی کہنے لگی تھی… وہ اُس کا سر سہلاتے ہوئے سنے جاتیں… سنے جاتیں… کم از کم بابرا کے دل کی بھڑاس ضرور نکل رہی تھی … بتول بھی سارا سارا دن یہیں پائی جاتی… دونوں ڈھیروں باتیں کرتیں… اور جو کبھی قہقہے لگاتیں تو بلبل نانی کو یوں لگتا جیسے پرانے دن پلٹ آئے ہوں… وہ منہ پھیر کر دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھ لیتیں۔ دانش بھی ہر دم بہن کے ساتھ جڑا رہتا… دل جوئی کرنے میں اُس نے بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی… نگین اور دانیال مسلسل رابطے میں تھے … اُنہی سے پتا چلا تھا کہ شگفتہ بیگم اور بریگیڈئر صاحب دوبار ہو کر جا چکے ہیں… وہ سفیان کے رویے کو لے کر بے حد شرمندہ بھی ہیں… سفیان البتہ دونوں دفعہ اُن کے ساتھ نہیں تھا… دانیال نے فی الحال اُنہیں ٹالا تھا اور درخواست کی تھی کہ بابرا کو کچھ وقت دیا جائے… وہ ان ڈھائی ماہ میں جس عدم اعتمادی کا شکار ہوئی ہے… اُسے نارمل ہونے کے لئے تھوڑا وقت لگے گا…!
تھوڑی سی دوری کبھی کبھار ڈھیروں فاصلے یک دم پاٹ کر بہت ہی قربت کا سبب بن جاتی ہے… ایسی قربت جو پھر کبھی بھی فرقت میں تبدیل نہیں ہوتی…!
٭٭٭٭
آج رات وہ پھر بڑی دیر سے گھر لوٹا تھا… لائونج میں قدم رکھتے ہی اُس نے ایک لمبا سانس خارج کیا … شکر تھا کہ ممی پاپا دونوں ہی وہاں موجود نہیں تھے… یقینا سونے جا چکے تھے۔ اُس نے دھیرے سے لابی کی لائیٹ بجھائی اور کچن کا رُخ کیا… مگر راستے میں ہی رک گیا… ایک نظر اِرد گرد ڈالی اور سر جھٹک کر سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا… اُس کے کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی لائونج کے تاریک گوشے میں رکھی بریگیڈئر صاحب کی راکنگ چیئر ہولے ہولے جھولنے لگی… اُن کی پرتاسف اور پر سوچ نگاہیں، وہاں سے نظر آتے سفیان کے کمرے کے بند دروازے پر تھیں… نہ جانے آج کتنے دن ہو چلے تھے وہ روز رات کو دیر سے آتا اور بھوکا سو جاتا تھا… بریگیڈئر صاحب دھیمے سے اُٹھے اور تھکے تھکے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف چل دیئے… اتنا بے بس انہوں نے خود کو زندگی میںکبھی محسوس نہیں کیا تھا۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

تھکن — سمیرا غزل

Read Next

آؤ کتابیں کھولیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!