حماقتیں — اُمِّ طیفور

”لو بھئی لڑکیو…! اب امتحانی ہال میں ملیں گے… بلکہ ملیں گے کیا… ایک دوسرے کو پہنچانیں گے بھی نہیں… امتحانوں میں تم سب ایسی ہی کمینی ہو جاتی ہو…”
مقدس نے ناک سے پھسلتی ہوئی نظر کی عینک کو واپس ٹکایا اور بیگ بابرا کی گود میں پٹختے ہوئے بولی… بابرا کے ہاتھ میں تازہ تازہ ڈائجسٹ تھا اور دھیان بھی اُس میں گم… اُسے یہ حرکت ایک آنکھ نہ بھائی اور بیگ اُٹھا کر بتول کی گود میں پھینکا… بتول آئسکریم کو پوری چوڑی زبان نکال نکال کر چاٹ رہی تھی جو موسم کی حدت کی وجہ سے پگھل پگھل جا رہی تھی۔ قطرے ایک ایک کرکے مقدس کے بیگ پر گرنے لگے… اُس نے رہی سہی کسر بیگ سے چپکتے ہاتھ رگڑ کر پوری کر دی۔
مقدس تاب نہ لا سکی اور ایک زور دار چیخ ماری… ڈائجسٹ بابرا کے ہاتھ سے چھوٹا اور کون بتول کے ہاتھ سے پھڑک کر بیگ بوس ہو گئی… اُف…! کون ہو یا قلفی… منکے سے ٹوٹ کر گر جائے تو اس کا صدمہ کیا ہوتا ہے… یہ اُسی کو پتا ہوتا ہے جس کے ساتھ یہ قصہ ہوتا ہے… بتول نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح بیگ سے کون کے بقایا جات اُٹھالے مگر وہ جوں جوں پکڑتی گئی… آئسکریم بیگ میں جذب ہوتی چلی گئی… جھنجھلا کر بتول نے پگھلی ہوئی آئس کریم ہاتھ سے پورے بیگ پر پھیلا دی اور بیگ مقدس کو پکڑاتے ہوئے بولی۔
”لو پکڑنگ مرنگ…! گھر جا کر پلیز اس بیگ کو نچوڑنگ… کچھ نہ کچھ ضرور نکلنگ…”
”تیرا ککھ نہ رہے بتولاں…!” مقدس غصے کی حالت میں اپنے محلے کی زبان پر اُتر آتی تھی…





”میرا ایڈا قیمتی بیگ… میری سس نے مجھے پچھلے سال وڈی عید پر زبردستی مانگنے پر دیا تھا… اُسی بیگ کا تو نے بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا… انّی ککڑی نہ ہووے تھے…” (اندھی مرغی نہ ہو تو)
”ہونہہ…! ذرا شکل دیکھنگ اس بیگ کی… ایسے بیگوں میں ہی تو لال بیگ پڑ جائینگ…” بتول نے بھی جواب دے کر حساب چکایا… دونوں میدان میں اُتر آئیں سو بابرا کو رسالہ بیگ میں ٹھونس کر بیچ بچائو کے لئے درمیان میں آنا پڑا… کیوںکہ بتول اور مقدس جب میدان میں اتری تھیں تو نوبت ہاتھا پائی تک پہنچجاتی تھی… اور پھر لڑائی کا اختتام دونوں کے ہاتھوں میں آئے ایک دوسرے کے بالوں کے گچھوں کو فاتحانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے اپنے بیگز کی سائیڈ پاکٹس میں ٹھونسنے پر ہوتا تھا… جو یاد گار کے طور پر سنبھالے جاتے…
”اب اگر تم دونوں نے اپنے توپ جیسے منہ بند نہ کیے تو میں تم دونوں کی ٹنڈ کر دوں گی… کیوںکہ اس طرح لڑ لڑ کر اور ایک دوسرے کے بال نوچ کر عنقریب تم دونوں گنجی تو ہونے ہی والی ہو…” بابرا نے ہاتھ میں تھاما رسالہ لہرا کر دونوں کو وارننگ دی تھی۔ دونوں کے ہاتھ اپنے سروں پر جا ٹھہرے… مقدس جلبلا کر بولی۔
”ناں… میرے بالوں سے ویر لینے کی ضرورت نہیں ہے… پہلے ہی میری ساس نے وارننگ دے دی ہے کہ شادی تک میرے ڈھائی بال دوگنے ہو کر پانچ میں تبدیل نہ ہوئے تو وہ پہلے سے موجود ڈھائی بال بھی اُکھاڑ پھینکے گی…” مقدس نے سہم کر اس طرح سر پر ہاتھ رکھا جیسے ساس یہ کارخیر انجام دینے ہی والی ہو۔
”لو بھلا ابھی میری ہیروئین ہیرو کے بازوئوں میں جھولنے والی تھی… تم دونوں کی بکواس کی وجہ سے میرا سارا دھیان بٹ گیا…”
بابرا کو اپنی کہانی ادھوری رہ جانے کا غم تھا۔
”اوپر سے ڈیٹ شیٹ مل گئی ہے… روز پڑھائی کا سیاپا بھی لے کر بیٹھنا پڑے گا… میرا تو کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مگر دانش آگیا تو مجھے ہرگز بھی چین لینے نہیں دے گا… پتا نہیں کس کا اثر پڑا ہے جو اتنا پڑھ لکھ گیا… ورنہ میرا بھائی بن کر دکھاتا تو آج نکموں میں نام ہوتا…” بابرا کے انداز میں فخر یوں جھلک رہا تھا کہ بتول اور مقدس بھی قائل سی سر دھننے لگیں۔
”تو پھر بابرا جانی…! میں سوچنگ کہ بھاڑ میں جائے کوچنگ … روز شام کو تمہارے گھر آئینگ اور مل کر پڑھائی کرینگ…!” بتول نے دوپٹے کا کونا دانتوں سے تقریباً نوچ ڈالا… شرم ہی بے تحاشا آئے جا رہی تھی اُسے … دانش جو بقول اُس کے … اُس کا کرش تھا اور بابرا کو اسی بات کا غش تھا۔ مقدس نے وین کے آنے کا عندیہ دیا تو تینوں نے دوڑ لگا دی… ”کھڑکی والی سیٹ” لینے پہ تینوں کا تماشا لگتا تھا اور جیت عموماً بابرا کی ہی ہوتی تھی… وین کے قریب پہنچ کر بابرا نے خوشی کے مارے جذباتی ہوتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے وین کو جپھا مارا اور راگ الاپا…
”جدوں ہولی جئی لینا میرا ناں…
میں تھا مر جانی آں اوئے…
میں تھاں مر جانی آں… ہوئے … اوئے!”
”اوئی خوچی… ! کون مر گئی… کہاں مر گئی…!”
وین ڈرائیور سمندر خان نے کھڑکی سے منہ باہر نکال کر گھبرا کر دریافت کیا تھا…
”خان لالہ… یہ اپنی بابرا مر گئی… ادھر مر گئی…” مقدس پیچھے سے اُچک کر بولی۔
”اوخانہ خراب کا بچی… ! ام نے پوچھا کہ یہ کیا بولتی…” سمندر خان نے قدرے برہم ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔
”لالہ…! یہ بولتی کہ جب آپ ہولے سے اس کا نام لیتے ہو تو یہ موقع پر ہی فوت ہو جاتی ہے… اسے دو جا ساء (سانس) نہیں آتا…” مقدس کی تشریح پر بتول کی ہنسی کا بم پھوٹا تھا جب کہ بابرا خشمگیں نگاہوں سے گھورتی ہوئی وین کے اندر گھسی…
”اوئی … خوچی…! ام کو تو یہ دمے کی مریضہ لگتی ہے… خانہ خراب اماری گاڑی میں مت مرنا… ام پلیس کے چکر میں نئیں پڑنا چاہتا…” سمندر خان کو دوسری ہی فکر لاحق ہو گئی تھی۔ بابرا نے تاک کے بیگ مقدس کے سر پر دے مارا… بقیہ سارا رستہ لڑاکا عورتوں کی طرح لڑتے ہوئے کٹا تھا اور سمندر خان بیک ویو مرر سے بابرا کو تکتے ہوئے ہولتا رہا تھا … کہ کسی لمحے اس ”خوچی” کو دمے کا دورہ پڑ جائے اور وہ اُس کی وین میں ہی لڑھک جائے…
٭٭٭٭





آج تو بلبل نانی کے گھر کی رونق دیکھنے والی تھی۔ صبح صبح اچانک دانش اپنے دوست کے ساتھ آپہنچا تھا۔ بس اُس کے بعد سے بلبل نانی نچلی نہیں بیٹھی تھیں… بابرا کی الگ مت مار رکھی تھی… حلوہ پوری… آلو چنے اور قیمے والے پراٹھے بنانے کے چکر میں بابرا کو اب خود ہی چکر آرہے تھے۔ بلبل نانی دانش پر صدقے واری جا رہی تھیںجب کہ بابرا کو صدقے واری جانے کے لیے دانش کا دوست سفیان زیادہ اچھا لگا تھا… کیا ہی زیبا علی… صبیحہ خانم… یا اُس دور کی دیگر ہیروئنز کی آنکھوں کا نشیلا پن ہو گا… جو اس وقت بابرا کی آنکھوں میں تھا… خمار آلود آنکھوں کا تاثر گہرا کرنے کے لئے اُنہیں پٹپٹائے جا رہی تھی اور اتنی دفعہ آنکھیں جھپک جھپک کر سامنے بیٹھا سفیان عجیب ٹیڑھا میڑھا دکھائی دینے لگا تھا… آنکھوں کے آگے جالے سے بن اور مٹ رہے تھے۔ بابرا خوب صورت تو تھی لہٰذا سفیان کا اُسے دیکھنا کچھ ایسی اچنبھے کی بات نہ تھی… مگر وہ نظر سادہ تھی… یہ تو بابرا کو لگ رہا تھا جیسے وہ مسکین پٹ گیا۔
ناشتے کے بعد دانش، سفیان کو اوپر اُس کے کمرے میں چھوڑ کر آیا تو بلبل نانی اُسے گھیر کر بیٹھ گئیں… گھر کے ایک ایک فرد بشمول نوکر چاکر کے … بلبل نانی نے سب کو چوبیس گھنٹوں کی روٹین ازبر کرنی تھی… سب سے آخر میں بابرا کی دادی کو آڑے ہاتھوں لینا تھا (باتوں باتوں میں)… دانش اور سفیان ایم۔ بی۔ آئی۔ ٹی کر کے بزنس سنبھالے بیٹھے تھے۔ دونوں کی دوستی کالج لیول سے تھی… دونوں ذہین اور یاروں کے یار تھے… طبیعت بھی منچلی تھی… اب سے پہلے صرف دانش بسنت کے لئے خصوصی طور پر لاہور آتا تھا مگر اب کے سفیان کی طبیعت بھی للچائی تھی… اسی بسنت کے موقع پر بابرا نے ٹھان لی تھی کہ سفیان میاں کو اپنی نظروں کے وار کر کے بو کا ٹا کرنا ہے…!
دانش کسی کام سے باہر نکلا تو بابرا نے جھٹ بتول کو بلا لیا۔ بتول بی بی دوپٹہ مروڑتی مراڑتی… کچھ گرتی پڑتی سی پہنچی تھیں۔ بلبل نانی نے دیکھا تو فکر سے پوچھا۔
”ہیں نی کڑیے… تینوں کی اے… ٹھڈے کیوں کھاتی آرہی ہے!”
بتول کو راستے میں پڑی تپائی سے بھی جب ٹھوکر لگی تو بلبل نانی کی تشویش بجا ثابت ہوئی۔ بتول نے منہ ٹیڑھا کیا اور ابرو اچکا کر جواب دیا۔
”میں ٹھیک ہوئنگ بلبل نانی! آج کل کیٹ واک کی پریکٹس کرینگ…”
”پتر میں نے بلیوں کو نشئیوں کی طرح چلتے تو کبھی نہیں دیکھا۔ ہاں…! لت ٹٹ جائے تو اور بات ہے…”
بلبل نانی کی بات پر بابرا کھکھلا کر ہنسی تھی… بتول نے جھنجھلا کر دوپٹے کا کونا مروڑنا چھوڑا اور پیر پٹختی اوپر کے کمرے کو جاتی سیڑھیوں پر جا بیٹھی۔ کچھ ہی دیر میں سب بھول بھال کر بابرا کے ساتھ گپیں ہانک رہی تھی۔ کہیں کہیں بلبل نانی بھی لقمے دے رہی تھیں۔ بلند آوازیں آہستہ آہستہ سرگوشیوں میں ڈھل گئیں۔
”اے بابرا…! تمہارا بھائی آئینگ… صبح صبح میں آواز سُننگ!” بتول نے ایک بار پھر دوپٹے کا کونا پکڑ لیا تھا…
”پہلے ذرا تم یہ دوپٹا چھوڑو… ورنہ یہ دوپٹا دنیا چھوڑ جائے گا…!” بابرا نے رکھ کر بتول کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”اری پگلی…! یہ اسٹائل ہوئینگ… آج کل 1970ء والی ادائیں پھر پلٹنگ…”
”تم جس کو یہ ادائیں دکھانے کی خواہش مند ہوں ناں… اُس نے یہ بے ہودہ اسٹائل دیکھ کر تمہیں کھڈے لائن لگا دینا ہے…”
بابرا کی بات پر بتول سٹپٹا گئی اور جھٹ بات بدل کر بولی۔
”اچھا بولو… تم مجھے کیوں کالنگ… جلدی بولنگ… گھر جا کر پڑھائی بھی کرینگ…”
”آہو…! وڈی آئی تو پڑھاکو… لکھ لے بتول… اس دفعہ بھی ہم دونوں کی کلی اُڑ گئی سمجھ… اب تو بس دعا کر، کوئی اچھا گھبرو سا منڈا ہمیں پسند کر لے اور ہماری گڈی لائین سے لگے…” بابرا نے موٹی سی آہ بھری تھی۔
”حق ہاں…! کوئی منڈآ ہوئینگ تو پسند کرینگ ناں…”
”دے تالی…” بابرا نے جوش سے اپنا ہاتھ بتول کے ہاتھ کے آگے پھیلایا… بتول نے رکھ کر ہاتھ جما دیا… بے چاری سی کر کے ہاتھ ملتی رہ گئی پھر دوبارہ گویا ہوئی۔
”بتول ل ل … ” بتول کے ل کو لمبا سا کھینچا۔





”دانش کے ساتھ میرا پرنس بھی آیا ہے… اُس کا دوست … قسمے رج کے سوہنا اور پڑھا لکھا بھی… کچھ کچھ اکڑا ہوا بھی ہے… تو بس دعا کر کہ میں اُسے پسند آجائوں… مجھے اچھے اچھے مشورے دے جانی…!” اس نے بتول کو لاڈ سے کندھا مار کر کہا جو اتنا زور کا لگا کہ بے چاری تڑپ سی گئی۔
”سب سے پہلے تو اپنا وزن کم کرینگ… دن بدن سنڈی بنتی جائینگ… لے کر میرا کندھا توڑنگ…”
”اچھا… اچھا سوری… چل اب بتاناں کیاں کروں…”
”اُس کی چائے میں مرچیں گھولنگ اور پلا دیئنگ…”
”گھسا پٹا آئیڈیا ہے بتول… کچھ اور بول!”
”نیا آئیڈیا یہ ہوئینگ کہ مرچ کی جگہ زہر گھولنگ… اور اُس کے سامنے بیٹھ کر خود ہی پی جائینگ…”
”ذلیل عورت! مجھے ہی مروانے کے چکر میں ہے… تاکہ میری جگہ تو لے سکے…”
”نا…نا! میری نظر کہیں جاور ہوئینگ…!”
”تو ایک دفعہ میری ادھر ٹانگ پھنسوا دے… تیرا میں خود بندوبست کر لوں گی…” اب کے بابرا کے انداز میں التجا تھی۔
”پھر ایسا کرینگ کہ اُس کے سامنے چوٹ لگنے کا ڈرامہ کرینک… وہ گھبرا کے تجھے سنبھالنگ اور پھر تجھ پر لٹو ہوئینگ… کہانی کا دی اینڈنگ!” بتول نے سرعت سے ہاتھ جھاڑے۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے… میں بھی ایسا ہی سوچ رہی تھی… مگر میں چوٹ کیسے لگوائوں… زیادہ لگ لگا گئی تو لولی لنگڑی سے تو کوئی ریڑھی والا بھی شادی نہیں کرے گا… ” بابرا نے فکرمندی سے کہا اور پھر چونک کر سیڑھیوں کو دیکھا اور بولی۔
”کیا خیال ہے بتول… ان سیڑھیوں سے گرنے کا ڈرامہ ٹھیک رہے گا… جس وقت وہ سیڑھیاں اُترے گا میں نچلی چار سیڑھیوں سے پھسل پڑوں گی… وہ چھلانگیں مارتا مجھے تک پہنچے گا اور مجھے بازوئوں میں اُٹھائے گا… اور”
”اور دوبارہ سے گرا دیئنگ… وزن سے اُسی کی کمر میں چُک پڑنگ…”
”ہمیشہ بکواس ہی کرنا تم بتول … ساڑہی پھونکتی رہتی ہو، اب میرا وزن اتنا بھی نہیں کہ اُٹھائی نہ جائوں…”
”نیئں نیئں چار بندے آرام سے اُٹھائنگ…” بتول نے دوبار منہ چڑایا تھا اور بابرا چڑ بھی گئی تھی…
”تم بھاڑ میں جائو بتولاں… بس دو دن کی بات ہے اور اس شہزادے کے خوابوں پہ میرا بسیرا ہو گا… دیکھ لینا…!”
بابرا کا انداز چیلنج کرتا ہوا تھا… بتول نے منہ بنا کر کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”میں دعا کرنگ بابرا…! تم دوا کرنگ… پھر یہ شہزادہ ہم دونوں کے لئے بدعا کرنگ کہ کس عذاب میں پھسنگ!” بتول نے تاسف سے سر مارتے ہوئے کہا تو بے ساختہ بابرا کی ہنسی نکل گئی… چند لمحوں بعد دونوں ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنسی ہنس کر دوہری ہوتی سیڑھیوں پہ ہی ڈھیر ہو چکی تھیں… اس بات سے بے خبر کہ اوپر سے دو گہری اور گھمبیر نظریں اُنہیں تاڑنے میں مصروف تھیں۔
٭٭٭٭
امتحانات کی تیاری پورے زور و شور سے جاری تھی… ٹی وی کے آگے بیٹھ کر رسالے پڑھ کر… فلمیں دیکھ کر اور گانے گا کر… مارننگ شوز دیکھ کر انگلش کا مضمون پڑھا جاتا تھا… رسالے مطالعہ پاکستان کی کتاب میں رکھ کر پڑھے جاتے… فلمیں اور گانے گنگناتے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی کتاب شوقیہ ہاتھ میں ضرور ہوتی …
ساتھ ہی ساتھ سفیان کی خدمت گزاریاں اور دور دور سے ”تاڑیاں” بھی جاری تھیںبلکہ دل تو لگتا ہی بس ایک اسی کام میں تھا… پڑھنا وڑھنا تو بس اُسی کو امپریس کرنے کے لئے تھا… ایک دفعہ یہ اُلّو پٹ جاتا تو ساری کتابوں کو اُٹھا کر سٹور کے آخری ٹرنک میں دے مارنا تھا۔ مگر مسئلہ تو یہ تھا کہ آج کل دانش اور سفیان کا سارا سارا دن گھر سے باہر گزرتا تھا… کبھی بسنت کی تیاریاں تو کبھی دوستی یاریاں…! گھر ٹکتا تو بابرا پر نظر ٹکتی اور دونوں کے مستقبل پر ستارے ٹکتے…!
ہر حربہ تقریباً ناکام ہو چلا تھا… چائے میںمرچ ڈال کر دی تو غلطی سے دانش پی گیا… کھانس کھانس کر جب چہرہ لال ہو گیا تو نہایت غصے سے بابرا کو دیکھا… بابرا نے جھٹ سے انگلی اٹھا کر سے بتول کی طرف اشارہ کر دیا… بتول میڈم نے شرما کر… ذرا مسکرا کر … دانتوں میں دوپٹے کو کونا دبا کر تصدیق کی مہر ثبت کی… جواباً دانش پیالی پٹخ کر، بتول کو گھورتا ہوا باہر نکل گیا تھا جبکہ سفیان کا ہنس ہنس کر برا حشر تھا۔ بابرا محض سرکھجا کر رہ گئی تھی… اگلی کوشش سیڑھیوں سے لڑھکنے کی تھی… کوشش کامیاب بھی ٹھہری… سفیان سیڑھیاں پھلانگتا ہوا سنبھالنے بھی آیا مگر بابرا کو نہیں بلبل نانی کو… جو بتول کے آخری چار سیڑھیوں پر ڈالے گئے تیل کے باعث پھسل گئیں۔ بابرا تو جھٹ کان دباتی کمرے میں جا گھسی… سامنے بتول تھی لہٰذا اُس اُس ذات کی گالی اکیلی کو ہی سننی پڑی کہ آئندہ کے لیے اُس کی سات پشتوں نے توبہ کر لی تھی کہ کسی کو بھی … لڑکا ”پھنسانے” کے مشورے نہیں دے گی۔ وہ تو شکر ہوا بلبل نانی کی ہڈی پسلی بچ گئی تھی وگرنہ بابرا کو نانی یاد رہ جاتی…!
سارے حربے ناکام ٹھہرنے کے بعد بابرا نے جی کڑا کے پڑھنے کی طرف دھیان دیا… سوچا شاید اس طرح سے ہی سفیان کی نظروں میں سما جائے… بتول بھی اُس کے آسرے اور اپنے سہارے کے لئے کتابوں کا ڈھیر لئے چلی آتی اور شام گئے واپسی کرتی… بلبل نانی دونوں کو کھانے پینے کا سامان مہیا کئے رکھتیں… اسی طرح ہنستے مسکراتے… گاتے گنگناتے دونوں نے بی۔ اے کے پیپرز دے دیئے تھے… جس دن آخری پیپر تھا، اُس دن واپسی پہ دونوں خوب لدی پھندی گھر پہنچی تھیں… کھانے پینے کا سامان، بیکری آئیٹمز اور پھل، مٹھائی۔ سب کچھ لا کر چائے کے ساتھ میز پر سجایا اور بڑے چائو سے سفیان اور دانش کو بلایا مگر اُن دونوں کو تو محض چائے پر ٹرخایا اور خود ڈٹ کر کھایا… بلبل نانی کو دیکھ دیکھ تائو آیا اور پھر کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر رکھ کر بابرا کی کمر پر ہاتھ جمایا… سفیان نے بڑی مشکل سے ہنسی کو چھپایا، بابرا کو اپنی بے بسی پہ خوب رونا آیا… بڑی دقتوں سے خود کو سنبھالا اور دو سموسوں کو ہاتھ میں اُٹھایا… غصے سے ٹھڈا مار کر کرسی کو سفیان کے پیروں پہ گرایا… اُس کی آئوچ سن کر بمشکل ہنسی کو دبایا اور واک آئوٹ کر گئی… اب پیچھے بساط بتول بی بی کے ہاتھ میں تھی لہٰذا بڑے اہتمام سے دانش اور سفیان کو سرونگ کر کر بھرپور امپریشن جمایا اور یوں بالآخر بلبل نانی کے غصے کا پارہ نیچے آہی گیا…
٭٭٭٭





چھت پر خوب ہنگامہ بپا تھا… دانش نے پورے محلے کے لڑکے، بچے چھت پر ہی اکٹھے کر لئے تھے۔ پورا چھت پتنگوں اور ڈور کے پنّوں، چرخیوں سے اَٹا پڑا تھا… ایک طرف باربی کیو کی تیاری جاری تھی… کوئلوں پہ بھنتے تکے، اور کباب نیچے صحن میں منڈلاتی بابرا، بتول اور بلبل نانی کو پاگل کئے کی خوشبو دے رہے تھے… بابرا اور بتول نے بہتیرے پر تولے تھے چھت پر جانے کے لئے مگر دانش گھورنے پر دونوں چپک کر بیٹھ گئیں… سفیان کے کمرے سے باہر چھت کا منظر دکھائی پڑتا تھا بس وہیں دونوں کھڑکی سے اُڑتی پتنگوں کو حسرت سے دیکھ رہی تھیں مگر بلبل نانی کو کون روک سکتا تھا… بار بار چھت پر پہنچ جاتی تھیں اور ایک دو سیخیں اٹھا لائیں اور ڈکار لئے بغیر ہی ہضم کر جاتیں… دانش جزبز ہو کر رہ جاتا۔ سفیان کے ہونٹوں پر بھی دبی دبی سی مسکراہٹ تھی… اُسے خبر تھی کہ بابرا اور بتول کمرے کی کھڑکی سے منہ چپکائے ادھر ہی نظریں ٹکائے ہوئے ہیں۔
سفیان کو بھی شوخی سوجھی اور پتنگ کو ڈھیل دیتا دیتا کھڑکی کے کچھ قریب ہو گیا… کھسکتے کھسکتے جب نیچے کو جاتی سیڑھیوں کے پاس پہنچا تو بابرا نے گھبرا کر کھڑکی کا شیشہ بجایا… ایک دفعہ، دوسری دفعہ اور پھر تیسری دفعہ بجانے پر سفیان پورے کا پورا گھوم کر کھڑکی کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو ا ہی تھا کہ پچھلا پیر پھسل گیا اور لمحے کی چوک ہوئی تھی بس… دوسرے پل وہ لڑھکتا ہوا نیچے جا گرا تھا۔ سارے گھر میں شور سا مچ گیا… بابرا چیخ مارتی سب سے پہلے دو دو سیڑھیاں پھلانگتی سفیان تک پہنچی تھی… سفیان کے سر سے بہتا خون دیکھ کر اسے غش سا آگیا… بتول نے جھٹ بابرا کے دوپٹے کو پلو سے پھاڑا اور بابرا کو پکڑایا جسے اُس نے سفیان کے سر سے بہتے خون پہ دھرا ساتھ ہی ٹپ ٹپ آنسو بہائے۔ یہ لڑکیاں تب تک روئی جاتی رہیں جب تک دانش، سفیان کو ڈاکٹر کے پاس نہیں لے گیا تھا۔
٭٭٭٭
شکر ہوا تھا کہ بچت ہو گئی تھی… سر پھٹا تھا اور چار ٹانکے آئے تھے۔ ہڈی پسلی تو بچ گئی تھی مگر گرنے کی وجہ سے سوجن ضرور ہو گئی تھی۔ بلبل نانی نے صدقہ دیا تھا… پہلے پانچ سو کا نوٹ نکالا… سوچا کہ ڈھائی سو صدقہ کرتی ہوں باقی پیسے پھل فروٹ میں کام آجائیں گے… ڈھائی سو، سو میں بدلے اور سو بھی فقیر کو پکڑاتے پکڑاتے پچاس میں تبدل ہو گئے۔
بابرا کی بنائی گئی یخنیوں اور جوسز نے بلبل نانی کا بلڈ پریشر کم کئے رکھا… یہ اور بات ہے کہ جب بھی بابرا تازہ جوس یا گرم گرم یخنی بنا کر کچن سے نکلنے لگتی تو بلبل نانی جھٹ سے کوئی پیالی یا گلاس پکڑ کر آدھا اُس میں اُنڈیلتیں اور فٹا فٹ پینے لگتیں… بابر کوفت زدہ ہو کر بقیہ یخنی یا جوس لے کر سفیان کو دینے چل پڑتی … اتفاقاً بتول پاس ہوتی تو لازمی لقمہ دیتی… ”پانی ملا دے…پانی!”
وہ جواباً جذباتی انداز میں کہتی ”اری پگلی…! محبت کا خالص پن ملاوٹ کے اوچھے ہتھکنڈوں سے ختم تھوڑی نہ کیا جا سکتا ہے” ایسے میں صبیحہ خانم کی جڑواں دکھائی دیتی۔
ویسے بھی سفیان میاں پٹ گئے تھے… کاجل لگی آنکھوں کی خماری، چال کا بانکپن اور خدمت گزاری دل لے اُڑی تھی… اب تو یخنی کی نمکینی اور جوسز کی مٹھاس سب بابرا کے دیوار میں تھی… اور پھر جس دن دانش اور سفیان کی واپسی تھی… بلبل نانی کو کمرے میں بلا کر سفیان نے اپنے والدین کو بھیجنے کی اجازت چاہی تھی… پہلے تو بلبل نانی کو وہم سا ہوا کہ شاید اُنہوں نے غلط سنا ہو… مگر اُنھوں نے غلط ہرگز نہیں سنا تھا… سفیان کے چہرے کی چمک اُس کے دل کی مرضی کا پتا دے رہی تھی۔ بلبل نانی دیدے پھاڑے… اُسے تکتی محض بڑ بڑا کر رہ گئیں۔
”کھوتے دئیا پترا…! سر پھڑ کے روئیں گا…!”
(کھوتے کے بچے… سر پکڑ کر رو گے)
کیوںکہ بابرا کے اصلی جوہر تووہ گوہر تھے جو وقت کے ساتھ ہی سیپ سے باہر آتے اور وہ برا وقت سفیان پر پڑنے والا تھا…
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

تھکن — سمیرا غزل

Read Next

آؤ کتابیں کھولیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!