حماقتیں — اُمِّ طیفور

وہ اُسے پہلی ہی نظر میں اچھی لگی تھی… مگر اتنی نہیں کہ وہ اس اچھے لگنے کو محبت کا نام دیتا… وہ بناوٹ سے پاک قدرے شوخ سی تھی… جو تھی جیسی تھی ویسی ہی نظر آتی تھی… کبھی بھی ویسا بننے کی کوشش نہیں کرتی تھی جیسی وہ تھی ہی نہیں… اور اُس کی یہی بات سفیان کو سب سے زیادہ اچھی لگی تھی… وہ تتلیوں کے شہر کا رہنے والا تھا جو ہر سو منڈلاتی پھرتی تھیں… مگر اُسے کبھی بھی رنگ برنگی تتلیاں نہیں بھائی تھیں…وہ شروع سے یک رنگی تتلی پسند کرتا تھا… شفاف چکنی سطح والی یک رنگی تتلی… بھید بھائو سے دور… ایک ہی رنگ … اصل اور سُچا…!
بابرا اُسے بالکل ایسی ہی لگی تھی… اُس کی شخصیت میں بھی بھید بھائو نہیں تھے… اُس کی رنگت بھی خالص تھی… وہ رنگ نہیں بدلتی تھی…!
بلبل نانی کے ہاں بسنت کے موقع پر جاتے ہوئے اُسے ہرگز بھی اندازہ نہیں تھا کہ اُسی کے دوست کی بہن اُسے اس قدر بھائے گی کہ وہ کسی کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے اُسے بیاہ لائے گا…





وہاں رہتے ہوئے بابرا کی سادگی اور معصومیت نے پہلے اُس کے دل میں جگہ بنائی… اور پھر جب وہ سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا نیچے گرنے لگا تھا تو اُس آخری لمحے میں جو خوف اُس نے کھڑکی کے پار بابرا کی آنکھوں میں دیکھا تھا… اُس نے جیسے سفیان کا دل ہی موہ لیا تھا… وہ ایک لمحہ تھا جب بابرا اُس کے دل میں اُتر گئی تھی اور وہ گرتا ہوا سیڑھیاں اُتر گیا تھا…
اُس نے بابرا کے انڈر بی۔ اے ہونے کو بھی چنداں اہمیت نہ دی تھی۔ ممی سے ڈھیروں باتیں سننے کے باوجود اُسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا کہ اُس کی ہونے والی بیوی کے پاس ایک بھی قابل قدر ڈگری نہیں ہے… اُسے لگتا تھا کہ قابلیت ڈگریوں کی محتاج نہیں ہوتی… مگر وقت نے اُس کے تمام اندازے اُسی کے منہ پردے مارے…!
شادی ہونے تک اور اُس کے بعد بھی کتنے ہی دن وہ بابرا کی محبت میں گوڈے گوڈے ڈوبا رہا تھا… اور پھر رفتہ رفتہ یہ خمار پیاز کے چھلکے کی مانند اُترتا چلا گیا… بابرا کی سادگی… بے قوفی، اُس کا شوخ پن… شوخے پن اور اُس کی بھولپن… جہالت کے سانچے میں ڈھلتا چلا گیا… کیوںکہ سفیان کی پسند ناپسند کا سانچہ جو یک دم تبدیل ہونا شروع ہوا…
چھوٹی چھوٹی باتوں سے بات بڑی بڑی لڑائیوں تک بڑھتی چلی گئی… اُسے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں تھا کہ بابرا نے شروع شروع میں بے حد تحمل کا مظاہرہ کیا تھا… اور شاید وہ صبر کا دامن ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑتی جو وہ گھریلو ملازموں کے سامنے اُس کا بھرم رکھتا… اُنہی کے سامنے برملا بابرا کو اُن جیسا ہی کہتا…! عزت نفس مجروح ہوئی تو شخصیت بھی توڑ پھوڑ کا شکار ہوتی چلی گئی…
محبتوں کے آسمان پر اُڑتی اُن کی پتنگ نفرت کی ڈور سے اُلجھ چکی تھی… اُسے سلجھانا اب صرف اور صرف سفیان کے اختیار میں تھا… مگر اُس کا اپنا آپ ہی نہ جانے کہاں کھو گیا تھا…
آج پورا ایک ماہ ہو چلا تھا بابرا کو گئے… وہ جو اُس وقت بڑے تنفر سے ٹیرس پر کھڑا نفرت آمیز نظروں سے بابرا کو دیکھتا رہا تھا جس وقت وہ لڑجھگڑ کر روتی کرلاتی اُس کے گھر کی دہلیز پار کر رہی تھی… اب کئی کئی گھنٹے ٹھیک اُسی جگہ کھڑا گیٹ کے اُس پار تکے چلے جاتا تھا…
وارڈ روب کھول کر اُس کے رنگین شوخ پرنٹ والے لباس چھوئے جاتا اور سیر نہ ہوتا… ناشتہ کرنے بیٹھتا تو اُس کا جی چاہتا بابرا کی طرح آملیٹ کو پراٹھے کے اوپر رکھے اور رول بنا کر کھائے… چائے کو پرچ میں ڈال کر شرارت سے سُڑک سُڑک کر پئے… ایک دن بے دھیانی میں اُس نے چائے ساسر میں اُنڈیلی ہی تھی … جب خود پر بریگیڈئر صاحب کی طنزیہ اور ممی کی ترس آمیز نگاہیں محسوس کر کے ناشتہ جوں کا توں چھوڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا… وہ اپنے ہر ہر روپ میں اُس کے گرد منڈلاتی رہتی اور وہ زچ ہو کر گاڑی کی چابی اُٹھاتا… باہر نکل جاتا… پھر رات گئے واپسی ہوتی… جن جن باتوں پر اُسے ٹوکا کرتا تھا… وہ ہر کام خود بھی کرنے کو بے چین سا رہتا… چاول تو کتنے دن ہوئے ہاتھ سے کھا رہا تھا… جوس پیتے ہوئے پیندے کا آخری قطرہ تک زبان پہ ٹپکا رہا تھا… گاڑی میں اُس کی پسند کے فلمی گانے لگائے رکھتا اور زبان بھی اُنہی کو گنگنائے جاتی … جذباتی ہونے کا ایک فائدہ تو ہوتا ہے کہ زندگی اُنہیں بڑی جلدی سبق سکھا دیتی ہے کیوںکہ ایسے لوگ تجربات سے نہیں جذبات سے سیکھتے ہیں…!
٭٭٭٭
”بیٹھ جائیے صاحبزادے… ! ذرا دو باتیں کرنی ہیں آپ سے … پھر سارا دن تو آپ نے سڑکیں ناپنے نکل جانا ہے… لہٰذا بیٹھیے…!” سفیان حسب معمول ہلکا پھلکا سا ناشتہ زہر مار کر کے اُٹھنے ہی والا تھا جب بریگیڈئر صاحب نے اُسے روک لیا… شگفتہ بیگم اُسی خاموشی سے چائے پیتی رہیں…
”تو کیا سوچاہے آپ نے … کب دے رہے ہیں بابرا کو طلاق…” بریگیڈئر صاحب نے نیپکن سے ہونٹوں کے کنارے صاف کرتے ہوئے ہوئے بم پھوڑا تھا… سفیان کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ”منہ بند کیجئے… دانت پر دانت جمائیے… پھر دوبارہ کھول کر جواب دیجئے…”
سفیان خجل سا ہو کر رہ گیا… ماں کی طرف دیکھا مگر اس وقت چائے پینے سے زیادہ ضروری شاید اُن کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔
”پاپا آپ کیسی بات کر رہے ہیں… طلاق کے بارے میں تو میں نے ابھی کیا، کبھی بھی نہیں سوچا…”
”تو سوچ لو برخوردار… ! نبھائی تو جا نہیں رہی… تو ابھی ہی فیصلہ لے لو… یہ قصہ ختم تو ہو…!”
”کیا ایسا بابرا چاہتی ہے پاپا…!” سفیان نے کریدنے والے انداز میں باپ کو دیکھا۔
”وہ چاہے یا نہ چاہے…! تم تو چاہتے ہی ہو گے… ظاہر ہے ایک جاہل اور کم عقل لڑکی کا اس گھر میں گزارا نہیں… تو مزید مشکل میں پڑنے سے بہتر ہے… فارغ کرو اُسے…!”
سفیان دنگ تھا… اس قدر سفاکی… اتنی بے رحمی… وہ بھی اُس کے پاپا کی طرف سے…
”میں پاگل ہو ں جو اُسے طلاق دے دوں… کیوں دوں میں اُسے طلاق… کوئی وجہ بھی تو ہو…” سفیان کا چہرہ غصے سے سرخ ہونے لگا۔
”ایک سو ایک وجہ ہے تمہارے پاس سفیان… کہو تو میں گنوانا شروع کروں…” یہ شگفتہ بیگم تھیں… چائے کی پیالی ٹیبل پر پٹخ کر بولیں…
”تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں اُسے چھوڑ رہا ہوں… چھوٹا موٹا جھگڑا ہے… اُسے چاہئے نہ کہ اب واپس آجائے…” سفیان نے خود کو بری الذمہ کرتے ہوئے بندوق بابرا کے کندھے پر دھری…
”کیوں آئے وہ خود… تم نے ذلیل کر کے نکالا ہے تمہی لے کر آئو…” شگفتہ بیگم کی آواز اونچی ہوئی… تنفس بھی تیز ہوا… سچ تو یہ تھا وہ بھی بابرا کو بہت مس کرتی تھیں… بھلے سے پہلے اُن کی مرضی نہیں تھی مگر اب اُنہیں وہ بے حد یاد آتی تھی… خاص طورسے جس دن سے اُنہیں نئی خبر معلوم ہوئی تھی وہ بہت بے چین تھیں…
”میں نہیں جائوں گا ممی…! میں نے اُسے جانے کو تھوڑی بولا تھا… آجائے خود ہی… میں کوئی دروازے بند کر رہا ہوں…” وہ نروٹھے پن سے بولا تو شگفتہ بیگم مزید سلگ گئیں۔
”ذرا عقل کو ہاتھ مار لو اب … خود کی ضد بچوں کو مات کر رہی ہے، اور چلیں ہیں باپ بننے…!”
”ہیں…! کون … کون باپ بن رہا ہے…؟”
”تم… اور کیا تمہارے والد…؟” شگفتہ بیگم کے اس فقرے پر چائے پیتے بریگیڈئر صاحب نے بوکھلا کر بیوی کو دیکھا ۔
”میں… میں باپ بن رہا ہوں… کیسے…!”
”یہ تو مجھے نہیں پتا… کیوں اور کیسے والی سائنس اپنے باپ سے پوچھ لو… بے وقوف… جاہل… نکما… !”
شگفتہ بیگم بڑی مشکل سے مسکراہٹ دباتے ہوئے بظاہر بے حد غصے میں بیٹے سے گویا ہوئیں… سفیان فوراً سے بیشتر کھڑا ہوا…
”حد ہے ممی…! یہ بات آپ مجھے اب بتا رہی ہیں… حد ہے لاپرواہی کی… آج کل کے بزرگ بھی نا… پاپا… میں پہلی فلائٹ سے لاہور جا رہا ہوں… میرے آنے تک ذرا کچھ ویلکم ارینجمینٹس کر لیجئے گا… چلتا ہوں… اِن شاء اللہ جلدی ملتا ہوں… آپ کی بہو کے ساتھ…!”
سفیان کی تو مانو جون ہی بدل گئی… تیزی سے وہاں سے نکل گیا تھا… جوش سے تمتماتے چہرے کے ساتھ…!
بریگیڈئر صاحب نے ایک آسودہ سانس کھینچی اور بیگم کے چمکتے چہرے پر نگاہ ڈالتے ہوئے قدرے آگے کو جھک کر بولے…
”بیگم…! کیا واقعی ہم پر بھی اللہ کا کرم ہوا ہے… اس عمر میں!”
”حد ہو گئی بریگیڈئر صاحب…!” شگفتہ بیگم شوہر کو ہاتھوں سے پرے دھکیلتی… گلنار چہرہ لئے وہاں سے ہٹ گئیں… پیچھے بریگیڈئر صاحب کا جاندار قہقہہ سارے میں گونج اُٹھا…
٭٭٭٭





آج لاہور میں بارش کھل کر برسی تھی… ہر طرف جل تھل ہو گیا تھا… صبح تک کیسی حبس تھی… اچانک بادل گھر کر آئے اور ساری بھڑاس ساتھ لے گئے… بالکل ایسے ہی اچانک دوپہر میں سفیان آیا تھا اور بابرا کے تمام گلے شکوے سن کر اُس کے اندر کی بھڑاس کو نکلنے کا موقع دیا اور مغرب تک وہ دونوں ہنستے مسکراتے واپس ہو لئے تھے… نکھرے نکھرے اور معطر… جیسے بارش کے بعد کا سبزہ…!
سفیان نے بہتیری معافی تلافی کی تھی… بابرا کو ہاتھو جوڑ کر منایا تھا… آئندہ ایسا کبھی نہ ہونے کی قسمیں کھائی تھیں… اور پھر چھاجوں چھاج روتی بابرا کو بڑی پریت سے چپ کرایا تھا…
اوٹ میں کھڑی بتول جو بڑی للچائی ہوئی نظروں سے اس منظر کا مزہ لے رہی تھی… سر پر پڑھنے والی چپت پر یک دم بوکھلا کر مڑی تھی… پیچھے ہی دانش کھڑا تھا…
”شرم نہیں آئینگ… لڑکی کے سر پر چپیڑمارنگ…”
”تمہیں شرم آئینگ جو اس طرح چھپ چھپ کر سب دیکھنگ…!”
”ہا…ہائے! میری نقل اُتارنگ…” وہ روہانسی ہوئی۔
”نہیں…! تم جیسا بولنے کی پریکٹس کرنگ…!” دانش نے چڑایا۔
”کیوں…! کیوں کرنگ…” وہ چڑی۔
”بس… ویسے ہی…!”
”ویسے ہی کیوں… بہت بری بات ہوئینگ… جا کرآپ کی نانی کو بتائینگ… پھر آپ جھاڑیں کھائینگ…!”
وہ پیر پٹختی اُسے زور کا دھکا دیتی بلبل نانی کے پاس چلی گئی… دانش نے بھی بالکل اُسی کے انداز میں پیپر پٹخا اور اُس کے پیچھے چل دیا… ہر بار ضروری نہیں کہ عورت کے پیچھے چلنے میں مرد کی توہین ہی ہو… بعض دفعہ ایسا کرنے سے عورت کو تحفظ کا احساس بھی ہوتا ہے… کوئی ہے جو اُس کی پشت پر مضبوط قدموں سے کھڑا ہے… اُس کی مضبوطی کے لئے… بات محض سمجھ کی ہے…!
٭٭٭٭
ایک دفعہ پھر بلبل نانی نے رخت سفر باندھا تھا… دانش کسی طور اُنہیں یہاں اکیلا چھوڑنے پر رضامند نہیں تھا… اور وہ کراچی جانے پر راضی نہیں تھیں… دانیال اور نگین نے فون پر منتیں کر کے منایا… پھر وہ مان کر نہ دیں…
بس پھر خدا جانے دانش نے بند کمرے میں کیا کہا… کیسے منایا کہ بلبل نانی نے تھوڑی دیر میں ہی کمروں کے دروازوں پر تالے ڈالے اور بیگ تیار کر کے دانش کے ساتھ کراچی چلی آئیں… آتے وقت صحن میں کھڑی بتول کا رو رو کر برا حشر تھا… بلبل نانی نے بہت تسلی دلاسے دیئے مگر وہ چپ ہو کر نہ دی… تنگ آکر کر اُسے اُس کے حال پر چھوڑا…”کچھ ہی دن کی توبات تھی… اس کا رونا بھی ہنسی میں بدل جائے گا…” بلبل نانی نے جی میں سوچا تھا…
کراچی میں سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تھا… دانیال اور نگین کی بے لوث محبت اور سنجیدہ خاتون کا بے لوث ”بیر”…! کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ کچھ لوگ بدلنے کے لئے ہوتے بھی نہیں… ذرا سی تبدیلی اُنہیں توڑ دیتی ہے اور بلبل نانی ہرگز نہیں چاہتی تھیں کہ اُن کی یہ ضدی اور ہٹ دھرم بہن کسی جذباتی ٹھیس کی بنا پر ٹوٹ جائے… اور ویسے بھی بلبل نانی کو فرق ہی کیا پڑتا تھا اُنہوں نے جب جو کرنا ہوتا تھا… وہ کر ڈالتی تھیں…!
٭٭٭٭





رمضان کا مہینہ کیا شروع ہوا… مانو بلبل نانی کی جان شکنجے میں آن پھنسی … روزے کی چور تھیں… خاص طور پر جوں جوں رمضان شدید گرمیوں میں آتا گیا… بلبل نانی کا کلیجہ بھی منہ کو آتا گیا۔ لاہور میں تھیں تو روز بی پی لو ہو جاتا… مگر سحری کھا کر…! بابرا بے چاری فکرمندی سے دودھ سوڈا پلا کر لٹا دیتی اور اکیلی روزہ رکھتی۔ یہ اور بات کہ سارا دن بلبل نانی کے وظائف و تسبیحات زور و شور سے جاری رہتے … مگر اب گڑ بڑ ہو گئی تھی… اب وہ کراچی میں تھیں۔ سنجیدہ خاتون کی بچوں سمیت گھر کے ملازمین کو بھی سختی سے روزہ رکھنے کی ہدایت تھی… ملازمین سے سخت کام لینے سے اجتناب کیا جاتا… گھر کی تفصیلی صفائی ستھرائی کا کام تھوڑا تھوڑا سارے ماہ میں افطار کے بعد جاری رہتا …!
اب ایسے میں بلبل نانی روزہ چھوڑیں تو کیسے…؟ پہلے سوچا کہ سحری کھا لیں چپ چاپ… اُس کے بعد سارا دن کچھ نہ کچھ ٹونگا جا سکتا ہے… سو بڑے اہتمام سے پہلا روزہ رکھا… مقدور بھر سحری کے فوائد بھی بیان کئے… دو عدد پراٹھے ڈکارنے کے بعد…! سب کو زبردستی دو دو چمچ دہی بھی کھلایا کہ اس کے کھانے سے روزہ نہیں لگے گا…! سحری تو نپٹ گئی… نماز پڑھ کر سوئیں تو گیارہ بجے سے پہلے نہ اُٹھیں اور اُٹھ کر سیدھا کچن کا رُخ کیا… گلا خشک سا محسوس ہو رہا تھا… ادھر اُدھر دیکھتی جب احتیاط سے کچن میں پیر دھرا تو سامنے ہی سنجیدہ خاتون براجمان تھیں… ملازمہ کے ساتھ مل کر مسالہ جات چھانٹ رہی تھیں… بلبل نانی دل مسوس کر رہ گئیں… کچن میں آنے کا جواز تو دینا تھا سو چار و ناچار سنجیدہ خاتون کا ہاتھ بٹانے بیٹھ گئیں… اسی طرح وقفے وقفے سے سارا دن بلبل نانی کمرے سے کچن تک کے پھیروں میں ہلکان ہوتی رہیں اور نامراد لوٹتیں رہیں… یوں بالآخر بلبل نانی کا روزہ ہو گیا… افطاری کے وقت ریڈی اسٹیڈی گو کے انداز میں کھجور ہاتھ میں لئے اذان کا انتظار کرتی بلبل نانی سب کو لطف اندوز کر رہی تھیں۔ باقی سب نے توافطار کی دعا پڑھ کر روزہ افطار کیا مگر بلبل نانی نے پہلے کجھور منہ میں دھری اور پھر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے تھے اور دعا بھی مانگی تو یہ…
”یا اللہ…! کل ایہو جیئا دن نہ وکھانا…!
(یااللہ…! کل ایسا دن نہ دکھانا…!)
مگر پھر تو جیسے یہ سلسلہ چل نکلا… بلبل نانی روزانہ سحری کھاتے وقت آس رکھتیں کہ آج تو ضرور اُن کا دائو لگے گا اور وہ کچن میں جا کر منہ ماری کر لیں گی… بھلا ہو سنجیدہ خاتون کا جو اُنہی کی بہن تھیں… مسلسل ٹوہ میں رہتیں… جیسے ہی بلبل نانی کچن یا ڈائننگ ٹیبل پہ دھری فروٹ باسکٹ کے آس پاس منڈلاتی نظر آئیں وہ کسی نہ کسی کونے کھدرے سے برآمد ہوتیں اور سب کچھ تحویل میں لے لیتی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو بلبل نانی نے زندگی میں پہلی دفعہ سنجیدہ خاتون کے صدق گرمیوں کے روزے رکھ ہی لئے… اور اب آخری عشرہ چل رہا تھا… تیسواں روزہ رکھتے ہوئے بلبل نانی کو ایسے ہول اُٹھ رہے تھے کہ کیا ہی بکرے کو قصائی دیکھ کر اُٹھتے ہوں گے… اُنہوں نے ٹھان لی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے وہ آخری روزہ نہیں رکھنے والیں… ویسے بھی اُنہیں پکا یقین تھا کہ چاند بے چارہ ہمیشہ اُنتیسویں روزے منہ دکھائی ضرور کراتا ہے… یہ تو رویت ہلال کمیٹی والوں کی آنکھوں میں عین وقت پر موتیا اُتر آتا تھا وگرنہ چاند ہمیشہ تیسویں سے کتراتا تھا… یہ بلبل نانی کی مصدقہ مفروضہ تھا…!
اور بلبل نانی نے وہی کیا جو ارادہ تھا… سحری میں اُٹھ کر نہ دیں… نگین بھی دروازہ توڑ توڑ کر پلٹ گئی… دانش بھی اپنی سی کوشش کر گیا مگر بلبل نانی نے آج سنجیدہ خاتون کو ہرانے کی قسم کھا رکھی تھی…
”آٹھ پہر کا بھوکا تو نہیں رہنے دے گی یہ کپتی…! جب بھوک کے مارے ڈولوں گی تو آپو آپ ہی میرے آگے کچھ کھانے کو لا کر دھرے گی” بلبل نانی پلان بناتیں مطمئن سی دوبارہ سو گئی تھیں…
اور جس وقت نیا لان کا جوڑا زیب تن کیے، خوشبو لگائے وہ دن کے گیارہ بجے خراماں خراماں چلتی کمرے سے باہر تشریف لائیں تو سنجیدہ خاتون پالتو بلی گود میں لئے اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھی… اُنہیں دیکھ کر خاصی سنجیدگی سے گویا ہوئیں۔
”کچن کا منہ نہ کرنا بلبل…! دروازہ لاک کر کے آرہی ہوں میں… فریج بھی لاک ہے… لہٰذا آج آٹھ پہرے روزے کا مزہ چکھو…!”
بلبل نانی کے چمکتے چہرے کے زاویے یوں بگڑے جیسے شادی کی رات سجی سنواری دلہن… منہ دھو کر جب واش روم سے برآمد ہوتی ہے تو اُس کو دیکھ دلہا کے کر بگڑتے ہیں…!
بلبل نانی ٹھس سی وہیں کائوچ پر براجمان ہو گئیں… دل ہی دل میں یاد آرہی تھی… سنجیدہ خاتون کو موٹی موٹی گالیوں سے نوازے جا رہی تھیں…!
”جانی سنجیدہ… جناں تو مینوں رنجیدہ کیتا اے… تینوں اللہ پُچھے…!”
بلبل نانی بے بسی کی تصویر بنی وہیں کائوچ پر نیم دراز ہو گئی تھیں۔ سنجیدہ خاتون نے ناگواری سے ایک نظر اُنہیں دیکھا اور پھر فاتحانہ انداز سے گردن اکڑا کر بند کچن پر ایک نظر ڈالی اور مسکرا دیں…
اُنہیں یہ نہیں پتا تھا کہ اب سے کچھ ہی دیر بعد قدرت اُنہیں ایک اور بازی پر اگلی مات دینے والی ہے… وہی بازی جس کے مہرے بلبل نانی ہی کے ہاتھ میں ہیں…!
٭٭٭٭
وسیع و عریض لائونج میں اس وقت پن ڈراپ سائلنس تھا… چپ … گہری چپ … سب سانسیں روکے بیٹھے تھے… مگر چہرے کے تاثرات سبھی کے الگ الگ تھے… دانیال بہ مشکل ہنسی دبائے بیٹھے تھے اور اس کوشش میں لال و لال ہو رہے تھے… نگین ہمیشہ کی طرح نیم ہونق… آنکھیں پٹپٹا کر سب کو دیکھ رہی تھی… بلبل نانی شرارتی مسکان لئے… (بقول سنجیدہ خاتون… شاطرانہ) اور دانش مجرمانہ تاثرات اور چور نگاہوں سے سب کو تکتا ہوا… اور سب سے آخر میں سنجیدہ خاتون… ”کاٹو تو لہو نہیں” … ”سکتے کی سی کیفیت”… اور ”پتھر ہو جانا…” جیسے اُردو محاوروں کی عملی تفسیر…!
آج سب کے موڈ اچھے دیکھ کر دانش میاں کو اپنی بلی بھی تھیلے سے باہر نکالنی یاد آگئی… اُس نے سب کے بیچ بیٹھ کر بتول فاطمہ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تھا… اُسی ”آئینگ” اور ”جائینگ” والی بتول فاطمہ سے…!
اور اس اظہار کے بعد نہ تو کوئی بھونچال آیا تھا… نہ چیخ و پکار مچی تھی اور نہ کسی نے اُس کے پیروں میں دوپٹہ ڈال کر دودھ نہ بخشنے کی دہائی دے کر اُسے اس خواہش سے دستبردار ہونے کو کہا… ایک چپ … گھمبیر خاموشی اور بس…! ہاں یہ ضرور تھا کہ سب کے تاثرات قدرے تسلی بخش تھے… سوائے سنجیدہ خاتون کے۔ یہ تو طے تھا کہ دانش کو شادی بتول فاطمہ سے ہی کرنی تھی… ہاں اُسے خوشی ہوتی اگر سنجیدہ دادی پورے دل سے راضی ہو جاتیں۔ دانیال اور نگین کی تو اُسے چنداں فکر نہ تھی…
وہ دھیرے سے اپنی جگہ سے اُٹھا … نپے تلے قدم اُٹھاتا سنجیدہ دادی کے پاس آیا اور اُن کے قدموں میں بیٹھ گیا… مگر اس سے پہلے کہ وہ سنجیدہ دادی کو منانے کے لیے منہ سے کچھ الفاظ نکال پاتا… اُنہوں نے نرمی سے اُس کے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے ہٹائے اور سپاٹ سے لہجے میں بولیں… ”مجھے کوئی اعتراض نہیں…!” اور خود اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھیں…
”لو جی گل ہی مک گئی…!” بلبل نانی نے ہاتھ جھاڑے…
دانش بھی کچھ حیران اور بہت سا خوش ماں باپ کے چہرے تک رہا تھا… اتنی جلدی اور آرام سے مان جانے کی اُمید تو کسی کو بھی نہیںتھی…!
کچھ ہی دیر میں لائونج میں دانش کی شادی کو لے کر نت نئے پروگرامز ڈسکس ہونے لگے تھے… بابرا کو بھی فون کر دیا گیا تھا… وہ ابھی کچھ ہی دیر میں پہنچنے والی تھی… بتول کا رشتہ لے کر جانے میں سب سے پیش پیش اُسی کو تو رہنا تھا…!
٭٭٭٭
سنجیدہ خاتون اپنے جہازی سائز بیڈ پر بیٹھیں تھیں… اُن کے کمرے کی دیوار گیر الماری کے پٹ کھلے تھے… ابھی چند منٹوں پہلے ہی اُنہوں نے سا ی الماری کھنگالی تھی… اب وہ تھکن زدہ چہرے کے ساتھ ہاتھ میں کچھ کاغذات لئے بیٹھی تھیں… اُن کاغذات کی رنگ اُن کے پرانے ہونے کا پتا دیتے تھے… یہ اُن کی ڈگریاں تھیں…
بی۔اے کی … اور ایم۔ اے کی… ساری زندگی سنبھالے رکھا تھا۔ تمغوں کی صورت … تمغے ہی تو تھے جو اور کسی کے پاس نہ تھے… اپنی ہم عصر خواتین میں سب سے پڑھی لکھی اور انٹیلکچوئل خاتون مانی جاتی تھیں… لیکن کیا واقعی ان ڈگریوں نے اُنہیں کوئی فائدہ دیا تھا۔ سوائے اس کے … کہ یہ اُن کی تھیں اور اُن کے پاس محفوظ تھیں… ان ڈگریوں کے نہ ہونے نے بلبل کو کوئی نقصان پہنچایا تھا…؟ اس کا جواب بھی اُن کے اندر سے نفی میں ہی آیا تھا…!
بلکہ بلبل تو فائدے میں رہی… نہ پڑھی نہ لکھی اور شوہر ملا ڈاکٹریٹ، بابرا انڈربی۔ اے اور شوہر ملا ایم بی آئی ٹی…!
اور بتول فاطمہ… وہ کیا تھی… وہ بھی تو انڈر بی اے تھی اور دانش… اُف!
سنجیدہ خاتون نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا… کیا ان تمام پڑھے لکھے مردوں کو کم پڑھی لکھی لڑکیاں ہی بھاتی ہیں… یا شاید اُن کی زندگی میں آنے والے تمام مردوں کو ”جاہل لڑکیاں” ہی بھائی تھیں… تو پھر اُن کا لکھنا پڑھنا اُن کے کس کام آرہا تھا… معین ہمدانی تو محض بی۔ اے پاس تھے…
اس سے اچھا تو وہ بھی میٹرک کر لیتیں… شاید اس طرح صلاح الدین…!
اُنہوں نے خود کو ملامت کی… اب ایسی باتیں سوچنے کا کون سا زمانہ تھا… اُنہوں نے ایک نظر حسرت سے اپنی ڈگریوں کو دیکھا اور لمبا سانس کھینچ کر پرزے پرزے کر کے اُچھال دیا… ”ہونہہ! مرد کبھی نہیں بدلتے… چول!”
بالکل بلبل کے انداز میں سوچ کر وہ خود ہی ہنس دی۔ باہر سے سب کے ہنسنے کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں… سب سے اونچی آواز بلبل نانی کی تھیں… جن کو دانش اسی کام کے لئے تو بہ طور خاص یہاں لایا تھا… اور بلبل نانی نے کر دکھایا تھا کیوںکہ وہ بلبل تھیں… ہاری بازی پلٹ دیتی تھیں…! سنجیدہ خاتون نے ایک لمبا سانس پھیپھڑوں میں بھرا ایک آخری نظر پرزے پرزے ڈگریوں پر ڈالی اور چہرے پر جان دار مسکراہٹ سجائے باہر کوچل دیں… سب میں شامل ہونے!
ختم شد!




Loading

Read Previous

تھکن — سمیرا غزل

Read Next

آؤ کتابیں کھولیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!