حماقتیں — اُمِّ طیفور

کراچی ائیر پورٹ پر قدم رکھتے ہی بلبل نانی کا بلڈ پریشر لو ہو گیا… بابرا نے پریشانی سے اُن کی ہتھیلیاں مسلیں… دانش بھی نانی کو ٹھنڈے پسینے آتے دیکھ کر پریشان ہو اتھا… ایک دو نمکین بسکٹ کھلا کر طبیعت ذرا بحال کی… تو گھر کی طرف سفر شروع ہوا… سنجیدہ خاتون کے گھر کی طرف…!
پوری زندگی میں یہ پہلی دفعہ تھا جو سنجیدہ خاتون کے گھر کی دہلیز بلبل نانی پار کرنے جا رہی تھیں۔… سنجیدہ خاتون کو تو خیر مارے باندھے آنا ہی پڑا تھا مگر بلبل نانی معین ہمدانی کی وفات پر بھی کراچی نہ آسکی تھیں…عین وقت پر اسٹیشن پہنچنے کی جلدی میں جس وقت چھوٹے گیٹ کو تالا لگا کر مڑیں تو وہیں پائوں رپٹ گیا… اوندھے منہ بے چاری آگے کو جا پڑیں… چھوٹی موٹی چوٹیں تو الگ تھیں… اصل چوٹ گھٹنے پر آئی… اُٹھنے میں کوشش کی تو چیخیں نکل گئیں… سارا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا… بیگ، اٹیچی کیس واپس اندر رکھے گئے… بڑی منتوں سے بابرا کو بتول کے ابا جی کے ساتھ کراچی بھیجا… آخر اُس کے دادا تھے… نہ جاتی تو نانی سو جوتیاں کھاتی…!





اُس کی غیر موجودگی میں بتول اور اُس کی ماں نے بلبل نانی کی بڑی خدمت کی… بس وہ دن اور آج کا دن … جو بلبل نانی کو بحالت مجبوری کراچی آنا ہی پڑا… اور کوئی چارہ بھی نہ تھا… سنجیدہ خاتون کسی صورت بابرا کی رخصتی نانی کے گھر سے کرنے کو تیار نہ تھیں اور اس دفعہ تو دانیال اور نگین بھی اُن کے ہم خیال تھے۔ بلبل نانی ضد نہیں باندھ سکیں… یہ بھی ممکن نہ تھا کہ جس نواسی کو ساری عمر پالا تھا… اُسی کی شادی میں لڑ جھگڑ کر شامل نہ ہوتیں…
سو اس وقت دانش کی گاڑی میں اگلی سیٹ پر بیٹھی ”جل تو جلال تو” کا ورد کرتیں… اگلا لائحہ عمل ترتیب دے رہی تھیں… اور ایسے پلان ترتیب دینا بھلا بلبل نانی کے لئے کون سا بڑا مسئلہ تھا… گاڑی کے پورچ میں آکر رکنے تک وہ بالکل مطمئن اور شاد تھیں کیوں کہ وہ بلبل تھیں اور بلبل کو ”چھا جانا” آتا تھا…!
نگین اور دانیال استقبال کے لئے پورچ میں ہی موجود تھے… نگین ماں کے گلے لگ کر دھاڑیں مار کر روئی… دانیال اچھے سے مل ملا کر، بیٹی کو ڈھیر سارا پیار کر کے وہیں سے کچھ ضروری کام نبٹانے کی غرض سے آفس روانہ ہو گیا… جب کہ سنجیدہ خاتون اپنی مخصوص راکنگ چیئر پر دھیمے دھیمے جھولتی… گود میں دبکی پالتو بلی کو سہلاتی… فرنچ ونڈو کے سرکے ہوئے پردے سے باہر کا منظر دیکھ دیکھ کر جھنجلائے جا رہی تھیں… اُنہوں نے سوچ لیا تھا کہ جیسے ہی بلبل اُن کو سلام کرے گی تو وہ نخوت سے جواب دے کر کمرے کا رُخ کریں گی… اُسے ہرگز بھی منہ نہیں لگائیں گی…
بلبل نانی چہکتی مہکتی اندر داخل ہوئیں… سنجیدہ خاتون کے ڈھیلے ڈالے اعصاب یک دم تن سے گئے… اُنہوں نے منہ ہی منہ میں وہ چند لفظ بدبدانا شروع کئے جو بلبل نانی سے کہنے تھے… وہ کھڑی ہوئیں، بلبل نانی اُنہیں کو دیکھ کر ٹھٹکیں… دو قدم آگے بڑھیں… سنجیدہ خاتون نے جبڑے سے جبڑا الگ کیا مگر جبڑوں کے پیچھے قید لفظوں کے باہر آنے سے پہلے ہی کوئی چیز اُن کے جسم سے ”ٹھاہ” کر کے ٹکرائی تھی… یہ بلبل نانی تھیں جو وارفتگی کے عالم میں سنجیدہ خاتون کے گلے لگیں… چٹاچٹ اُنہیں چومے جا رہی تھیں… بلائیں لئے جا رہی تھیں… ارد گرد کھڑے نوکر چاکر سبھی یہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے… مروتاً سنجیدہ خاتون کو بھی بانہیں بلبل نانی کے گرد باندھنی پڑیں… اُن کی توقع کے بالکل برعکس تھا یہ سب … کہاں وہ سوچے بیٹھی تھیں کہ اگر بلبل نے ذرا جو اُنہیں نخرہ دکھایا تو وہ جوتے کی نوک سے اُن کی حیثیت مسلتی کمرے کا رُخ کریں گی… مگر بلبل تو جیسے بچھے چلے جا رہی تھیں… بار بار ہاتھ منہ چومے جا رہی تھیں… اور یہ صورتِ حال برداشت کرنا بلاشبہ سنجیدہ کی برداشت سے باہر کا معاملہ تھا… مگر اس وقت وہ بلبل نانی کے التفات کے جواب میں بے رخی نہیں برت سکتی تھیں کہ دروازوں، کھڑکیوں کی اوٹ سے جھانکتے نوکروں کے چہرے وہ دیکھ چکی تھیں… وہ کیوں بری بنتیں…! ہاں…! بابرا کو دیکھ دیکھ کر اُن کی آنکھیں سیر نہیں ہو رہی تھیں مگر وجہ اُس کی من موہنی صورت تھی… وگرنہ اُس کے لباس کے کھلتے شوخ رنگوں نے اُن کے نظروں کو چبھن میں مبتلا کر رکھا تھا… حالاںکہ وہ ہرگز بھی طبیعت پر گراں نہیں گزر رہے تھے، پر وہ اپنے مزاج کا کیا کرتیں جسے شوخی بھاتی ہی نہ تھی…
کھانا لگنے تک نگین اور بلبل نانی کی نان اسٹاپ چلتی زبانیں برداشت کرنے کے لئے سنجیدہ خاتون کو ضبط کے کڑے مراحل سے گزرنا پڑا تھا… مگر یہ تو اب روز کا قصہ تھا… بابرا کی شادی تک یہ چخ چخ پخ پخ روزانہ کا معمولی بننے والی تھی۔ دوپہر کے کھانے تک دانیال آ بھی گیا… سنجیدہ خاتون بمشکل چار نوالے زہر مار کرتی ہوئی کمرے میں گم ہو چکی تھیں اور اب اندر ٹہلتے ٹہلتے باہر سے آتی قہقہوں کی آوازوں پر کڑھے جا رہی تھیں۔ جی میں آیا کہ کسی بہانے خود بھی باہر جا کر بیٹھ جائیں… مگر اس انا کا کیا کرتیں جو کبھی پھن اُٹھانے سے باز نہ آئی…




۔
”ہونہہ…!اولاد دیکھو ذرا میری… ماں کی کوئی ہوش نہیں… اتنا نہیں ہوا دانیال سے کہ مجھ سے آکر کہہ ہی دے باہر آکر بیٹھنے کو…”
وہ جل جل کر سوچے چلی گئیں…
اور یہ تو بلبل نانی کا ”آرائیول ڈے” تھا… ابھی لمبا ”اسٹے” تو باقی تھا اور اس stay نے اگلے دن سے ہی گل کھلانے شروع کر دیئے تھے۔ بابرا کی شادی کی تاریخ طے کرنے کے لئے جب شگفتہ بیگم اور بریگیڈئر صاحب سفیان کے ہمراہ پہنچے تو سنجیدہ خاتون سے زیادہ بلبل نانی پیش پیش رہیں… مزے کی بات یہ کہ بلبل نانی سنجیدہ خاتون کو بھی ریفریشمنٹ کے لئے رکھے گئے لوازمات ضد کر کے کھلاتی رہیں جیسے اصل میزبان ہی وہی ہیں اور سنجیدہ خاتون بھی بلاوجہ خود کو مہمان مہمان سا محسوس کرنے لگیں… بلبل نانی کا ہنسی مذاق، چھیڑ چھاڑ سب مہمانوں کو محظوظ کئے دے رہی تھی… سبھی اُن کی گفت گو کو خوب انجوائے کر رہے تھے… اور تو اور شگفتہ بیگم بھی ہشاش بشاش سی بھرپور جواب دیتیں اور پھر چھت پھاڑ قہقہہ بھی لگاتیں… سنجیدہ خاتون کو رہ رہ کر مروڑ سے اُٹھتے رہے… اب ایسی بذلہ سنجی اُن کا خاصہ کب تھی…؟
تاریخ طے پا گئی… اگلے مہینے کے چاند کی چودہ … بلبل نانی نے سب کا منہ میٹھا کرایا تو سب سے بڑا موتی چور کا لڈو سنجیدہ خاتون کے منہ میں ٹھونس مارا… حالاںکہ اُنہیں اچھی طرح یاد تھا کہ سنجیدہ خاتون کو لڈو زہر لگتے ہیں…!
بابرا کی شادی کی شاپنگ شروع ہوئی تو بلبل نانی ایک بار پھر کمر کس کر میدان میں اُتری تھیں… صبح جا رہی ہیں… شام آرہی ہیں… رات جا رہی ہیں اور دیر رات آرہی ہیں… ”یا اللہ! اس بلبل کو اماں کیا کھلاتی رہی ہیں… گھوڑا ہے بالکل گھوڑا…” سنجیدہ خاتون دل ہی دل میں سوچتیں اور نظر لگانے والی نظروں سے بلبل نانی کو گھورے جاتیں… ایک آدھ دفعہ اُنہوں نے بھی دیکھا دیکھی کوشش کر کے دیکھ لی تھی مگر اُن کا اسٹیمنا ہرگز بھی بازاروں میں گھومنے والا نہیں تھا…!
بات یہاں تک رہتی تو بھی ٹھیک تھی… مگر سنجیدہ خاتون کے کلیجے پر ہاتھ اس وقت پڑا جب صبح صبح اُنہیں کمرے سے باہر نامانوس سا شورو غل سنائی دیا… وہ حیران پریشان سی کمرے سے باہر نکلیں… آوازیں ڈائننگ روم سے آرہی تھیں… ذرا سا پردہ سرکا کر دیکھا تو دنگ رہ گئیں…
اُن کی پوری اسٹریٹ کی خواتین وہاں اکٹھی تھیں اور اُنہیں خبر تک نہ تھی… اندر یقینا ”ناشتہ پارٹی” چل رہی تھی… یقینا یہ سب بلبل کا کیا دھرا تھا… اُنہوں نے دل میں سوچا اور جی بھر کر کوسا۔ بلبل نانی کی وقفے وقفے سے آتی آوازیں ”یہ لیں ناں… اے وی چکھو ناں…” ایسی جاندار تھیں کہ لمحے بھر کو سنجیدہ خاتون کا جی چاہا کہ کاش بلبل کی جگہ اس وقت وہ خود ہوتیں… مگر وہ خود کیسے ہوتیں…؟ ایسا نہیں تھا کہ وہ بد اخلاق تھیں یا اسٹریٹ کی خواتین سے اُن کی علیک سلیک نہیں تھیں مگر اُنہوں نے کبھی بھی کسی کو ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دیا اور نہ خود بڑھیں… اس قسم کی ” پارٹیز” کی تو اُن کی زندگی میں ہرگز کوئی گنجائش نہ تھی… مگر نہ جانے کیوں ڈائننگ روم کی چہل پہل اور رونق اُنہیں بھا رہی تھی… یک دم اُن کا جی چاہا کہ وہ بھی اس رونق کا حصہ بن جائیں… یکایک اُن کے کان میں سامنے والی مسز ضیاء کی آواز پڑی تھی…
”ارے بلبل…! آپ تو کہیں سے بھی سنجیدہ کی بہن نہیں لگتیں… ویسے تو وہ بھی اخلاق کی بہت اچھی ہیں مگر آپ تو دل جیت لینے کا ہنر جانتی ہیں…”
”او بس جی… اصل وچ سنجیدہ دے اُتے اُس دے ناں دا بوہتا ہی اثر پئے گیا… تے میرے اُتے میرے ناں دا…”
ساری خواتین بلبل کی بات پر جی کھول کر ہنسیں… سنجیدہ کو گویا پتنگے سے لگ گئے۔ جھٹ واپس مڑیں اور اگلے دس منٹ میں نفیس سا جوڑا زیب تن کئے… پُروقار انداز لئے وہ ڈائننگ ہال میں بیٹھی تھیں… مگر آج جو چیز اُن کی شخصیت سے لگا نہیں کھا رہی تھی وہ اُن کے بلاوجہ کے قہقہے تھے… سب خواتین اس تبدیلی پر خوش گوار حیرت میں مبتلا … اُن کا بھرپور ساتھ بھی دے رہی تھی… نگین اور بلبل نانی ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے مسکرائے جا رہی تھیں۔ اس گھر کے درودیوار نے شاید پہلی بار سنجیدہ خاتون کا یہ روپ ملاحظہ کیا تھا…
٭٭٭٭
دن پہ دن گزرتے چلے گئے اور تیاریوں میں پتا بھی نہ چلا کہ بابرا کی شادی سر پر پہنچ گئی… بابرا نے ضد کر کے ایک ہفتہ پہلے ہی بتول کو بلوا لیا تھا… اُس کی اماں اُسے یوں بھیجنے پر ہرگز راضی نہ تھی مگر بابرا اور بلبل نانی نے خوب تسلی دلاسے دے کر منا لیا تھا… نگین نے دانیال کے کزن کی بیٹی فری کو دانش کے ہمراہ لاہور بتول کو لانے کے لئے بھیجا تھا… فری خوشی خوشی دانش کے ہمراہ ہولی… کیوںکہ وہ دانش میں دل چسپی لیتی تھی… بتول کو دیکھ کر بھی وہ مطمئن رہی تھی کیوںکہ بتول شکل کی بھلے خوب صورت تھی مگر اُس کا پہننا اوڑھنا ہرگز بھی دانش کی ٹیسٹ کے مطابق نہیں تھا… وہ خود بتول کے مقابلے میں بے حد طرح دار اور اسٹائلش تھی… تعلیمی قابلیت اضافی خوبی تھی… لیکن کچھ تو تھا جو گڑبڑ تھا…! واپسی کے سفر میں بتول کا بات بے بات لال انار ہو ہو جاناہرگز بھی نظر انداز کئے جانے کے قابل نہ تھا حالاںکہ فری نے ایک بار بھی دانش کو بتول پر نظر ڈالتے نہیں دیکھا تھا… جلن کے مارے جب ایک موقع پر فری نے بڑے دوستانہ انداز میں بتول کے کان میں سرگوشی کی ”میرا دانش پر کرش ہے…” ساتھ ہی شرما بھی دی… اوپراسا۔
”کیا ہے…؟” بتول نے بھنویں اچکائیں۔
”کرش ہے… کرش … دانش پر…” اب کہ فری نسبتاً ذرا ونچا بولی۔
”شرم نہیں آئینگ…! نہ تم نے اتنے اونچے لمبے منڈے کو پستہ بادام سمجھ لیا کیا جو اُسے کرش کرینگ… تمہاری تو اپنی اخروٹ ورگی بوتھی ہوئینگ…”
”کیا…!” فری نے حیرت کے مارے ‘کیا’ کو خاصا لمبا کیا تھا۔
”ہاں…!” بتول نے بھی اُسی کے انداز میں ”ہاں” کو اُس کے منہ پر دے مارا…
”ہونہہ…! جاہل…!” فری نے تنفر سے منہ پھیرا…
”اے سُننگ…! میرا بھی تجھے دیکھ کر وہ بولنے کو دل کرینگ…”
بتول کے پیار سے کہنے پر فری نے پلٹ کر اُسے دیکھا اور پوچھا۔
”کیا…؟”
”ڈی۔ ایف۔ ایم…!”
”وہ… کیا…؟”
”دُرفٹے منہ…!” بتول بولی اور بیگ سے سچ مچ کا اخروٹ نکال کر فری کے حیرت سے پھٹے ہوئے منہ میں ٹھونس کر ریل کی کھڑکی سے باہر بھاگتے نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگی…
٭٭٭٭





خوب رونق لگی تھی… پوری کوٹھی سر سے پائوں تک سجی تھی (بقول بلبل نانی کے) اور بالکل ایسے ہی سر سے پائوں تک بلبل نانی بھی سجی بنی پھر رہی تھیں… پیلا بنارسی غرارہ اور کرن چنا دوپٹہ اوڑھے وہ آج اپنے دور کی تمام ہیروئنز کو مات دے کر رہی تھیں… آج بابرا کی مہندی تھی… پورا گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا… کچھ ہی دیر میں لڑکے والے مہندی لے کر پہنچ جاتے اسی لئے ہڑبونگ سی مچی تھی… ساتھ والے خالی پلاٹ پر انتظام کیا گیا تھا…
بابرا ہلکے پیلے اور آتشی گلابی کنٹراسٹ جوڑے میں بے حد حسین دکھ رہی تھی… پیلے رنگ کی کام والی ساڑھی سے سجی نگین آتے جاتے اُس کی بلائیں لے رہی تھیں… بتول کے لئے مہندی کی مناسب سے خوب صورت سا جوڑ انگین نے خو دبنوا کر دیا تھا جو بلاشبہ اُس پر اُٹھ رہا تھا… پھولوں کا زیور پہنے مصروف سی اِدھر اُدھر پھرتی وہ مسلسل کسی کی نظروں کے حصار میں تھی… بابرا کے لئے پھولوں کا زیور کمرے میں لے جاتے یک دم وہ ٹھٹک کر رک گئی تھی… صرف وہی کیا… لائونج میں کھڑے بیٹھے سبھی افراد کی حیرت زدہ آنکھیں جیسے پتھرا سی گئی تھیں…
ہلکے پھلکے کام سے مزین دیدہ زیب ہرے رنگ کا بنارسی شرارہ پہنے… کلائیوں میں گجرے … کانوں میں جھمکے اور گلے میں گلوبند سجائے… سنجیدہ خاتون سہج سہج سیڑھیاں اُتر رہی تھیں… اللہ … اللہ! یہ اندازِ دل نشین بھی دیکھنا تھا… ساری عمر بیتی تھی… ہلکے رنگ پہنتے اوڑھتے… اب جو اس طرز کا لباس فاخرہ زیب تن کئے سنجیدہ خاتون سب کے بیچ کھڑی تھیں تو گویا زبانیں گنگ ہو گئیں… ہوش آیا تو تعریف و ستائش کے ڈونگرے برستے چلے گئے… بلبل نانی دوسرے کونے پہ کھڑی… مسکراتی ہوئی بابرا کے کمرے کی طرف چل دیں… ابھی اُنہیں اپنے ڈھائی بالوں میں بتول سے پراندہ ڈلوانا تھا… لگے ہاتھوں شاید موتیے کے پھولوں کی چار لڑیاں بھی پرو لیتیں…!
سسرال والے مہندی لے کر پہنچے تو ڈھول کی تھاپ پر لڑکے اتھرے بیلوں کی طرح بھنگڑے ڈالنے لگے… دانش کھینچ کھانچ کے بلبل نانی کو بھی درمیان میں لے آیا… دو چار ٹھمکے جما دیئے تو دیگر ”مائیوں” کا دل بھی ہمکنے لگا… آگئیں سب کی سب میدان میں… شگفتہ بیگم کا مزاج بھی بے انتہا خوش گوار تھا… اکلوتے بیٹے کی شادی تھی جھومنے کا موقع تھا سو ذرا کھل کر جھومیں… پھر تو وہ گھمسان کا رن پڑا … جس سے جیسا بن پڑا… ٹھمکا بھی مارا اور بھنگڑا بھی ڈالا۔ یقینی امر تھا کہ یہاں سے جانے کے بعد ان مائیوں کی کمریں درد کا راگ الاپنے والی تھیں…!
سفیان کے کوئی رشتے دار بزرگ تھے… عمر اسی سے تجاوز کر چکی تھی… بڑے شوق سے بلبل نانی کو تاڑنے میں مگن تھے … ہر ہر ٹھمکے پر بڑے میاں کا دل اُچھل کر حلق میں آجاتا جسے اُنہیں تھوک نگل کر دوبارہ واپس ٹھکانے پر پہنچانا پڑتا…
رسم شروع ہونے تک وہ بزرگ بلبل نانی کو اپنی حد سے تجاوز کرتی نظروں کی وارفتگی سے زچ کر چکے تھے… بلبل نانی کے بھانپنے کی دیر تھی… سر پر پہنچ گئیں اور لے لیا آڑے ہاتھوں…
”ہاں جی بزرگو…! کی مسلہ اے… کیوں اوس ویلے دے ویکھی جاندے او…” بزرگ سٹپٹائے اور چندی آنکھوں سے بولے ”ارے نہیں خاتون…! اصل میں ہم تو قدرت کے عطیہ کردہ حسن و جمال کا نظارہ کر کے اُس کا شکر بجا لا رہے تھے…”
”کیہڑا باجا بجا رہے تھے… بزرگو! آپ کا تو اپنا منہ باجے ورگا… اصلی کا باجا بجا لیا تو سانس کے ساتھ فیفڑے (پھیپھڑے) وی بار آجانے…”
”ارے نہیں خاتون…! آپ ہماری بات کا مطلب نہیں سمجھیں… اصل میں ہمارا مدعا…”
”ہائے میں مر گئی… کون مردہ… کتھے… اووی ویاہ والے گھر…”
اب کے بزرگ کی سٹی حقیقی معنوں میں گم ہوئی تھی… وہ ایسے طرزِ تخاطب کے عادی ہی کہاں تھے… آئیں بائیں شائیں کرنے لگے…
”نہیں نہیں محترمہ…! ہم مردے کی بات نہیں کر رہے… ہم تو اپنی بات کر رہے ہیں…” اب کے وہ بزرگ مزید دھیمی آواز میں گویا ہوئے ۔
”او… اچھا اچھا…! آہو بابیو تسی آپ وی کسی مردے سے کٹ (کم) نئیں… میں تاں آپے ویکھ کر سہم گئی سی… بس جی… اللہ نوں یاد کریا کرو… کوئی وی رات قبر وچ آسکدی اے…”
”اجی خاتون…! اپ تو ہمیں نیم پاگل دکھائی پڑتی ہیں… بھلا کوئی مہمان کے ساتھ ایسی باتیں بھی کرتا ہے… ابھی ہماری عمر ہی کیا بھلا…!”
وہ بزرگ واقعی جیسے سہم سے گئے… راہ فرار ڈھونڈتے نظر آئے…
”ہونی اے کوئی اسی توں اُتّے تے نوے توں تھلے… بس جی گِٹکاں (گٹھلیاں) پڑھن دا ویلا اے…”
”اجی ہٹیے ہمارے راستے سے… آپ انتہائی نامعقول خاتون ہیں… بات تک کرنے کی تمیز نہیں آپ کو…”
”کی کئیا ای…!” بلبل نانی جلال میں آتے ہوئے آستین چڑھاتے ہوئے بولیں۔
”مینوں گل کرن دی تمیز نئیں… مینوں…! بوہتی گل کیتی تے اک ہتھ چھڈاں گی… تے ساری دی ساری نقلی بتیسی بار آجانی اے…”
اُن بزرگ نے سٹپٹاتے ہوئے پہلے جبڑے پر ہاتھ پھیرا اور پھر اِرد گرد نگاہ کی… شکر ادا کیا کہ کوئی دیکھ نہیں رہا تھا… عافیت اسی میں جانی کہ جلدی سے بلبل نانی کے سامنے سے ہٹ جائیں…
یہ الگ بات کہ باقی کا سارا فنکشن بلبل نانی کی استہزائیہ نظروں نے اُن بزرگ کو زچ کئے رکھا… اسی کا نتیجہ تھا کہ بارات اور ولیمے پر وہ بزرگ بلبل نانی کو کہیں دکھائی نہ دیئے…
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

تھکن — سمیرا غزل

Read Next

آؤ کتابیں کھولیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!