حماقتیں — اُمِّ طیفور

یہ ایک نہایت خوب صورت اور پر آسائش بنگلے کے ٹی وی لائونج کا منظر تھا۔ صبح کے ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا۔ ہر طرف پر سکون خاموشی تھی… لائونج کے دائیں جانب خوب صورت فرنچ ونڈو کے بالکل قریب راکنگ چیئر پر ایک پروقار، نفیس اور عمر رسیدہ خاتون گود میں پالتو بلی لئے اُسے سہلاتی ہوئے… دھیرے دھیرے جھول رہی تھیں۔ ہلکے رنگ کے دیدہ زیب کاٹن کے لائیٹ ایمبرائیڈری والے خوب صورت شلوار قمیص پر سادہ سفید دوپٹہ اوڑھے… اُن خاتون کی گریس دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ گردن کا اکڑائو شاہانہ مزاج کو ظاہر کرتا تھا… دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ وہ غیر محسوس انداز میں کچھ بڑبڑا بھی رہی تھیں… تبھی اچانک ایک جھٹکے سے یہ فسوں ٹوٹا…
کچن میں زور دار چھنا کا ہوا تھا اور ٹوٹے برتن کی کرچیاں اُڑ کر کچن کے دروازے سے باہر تک چلی آئی تھیں۔ سنجیدہ خاتون کے چہرے کے زاویے یکلخت تبدیل ہوئے تھے… ہر دوسرے دن یہ معمول تھا ان کا … کوئی نئی بات نہیں تھی… ساری عمر بیت چلی تھی برتن ٹوٹنے کی آوازیں سن سن کر اور اتنا ہی عرصہ نگین کو سنجیدہ خاتون کی باتیں سن سن کر ہو چلا تھا۔





”مہارانی جی… ! کیا توڑ دیا اب کے آپ نے … کوئی برتن جان کی امان پائے گا بھی کہ نہیں…” سنجیدہ خاتون کے سنجیدہ لہجے پر ایک خوب صورت عورت کا قدرے ہونق سا چہرہ کچن کے دروازے پر نمودار ہوا تھا جسے دیکھ کے سنجیدہ خاتون نے ایک بار پھر سوال دہرایا۔
”کیا ٹوٹا نگین…؟”
”وہ خالہ…! شیشے کا جار، اٹلی والا!”
”کون سا بھلا…!”
”وہی جو آپ کے بیٹے پچھلے ماہ لے کر آئے تھے…”
”ہم م م! یعنی تمہار شوہر…”
”ماں کا حق پہلا ہے خالہ…”
”اچھا…! مجھے وہ انگوٹھی بڑی بھائی تھی نگین جو میرا ”بیٹا” اٹلی سے لے کر آیا تھا… ڈائمنڈ کی… تمہارے لئے!”
”بیوی کا بھی کچھ حق ہوتا ہے نا… خالہ!”
”بڑی عیار ہو نگین…!”
”شکر ہے آپ نے مکار نہیں کہا… زہر لگتے ہیں مکار لوگ مجھے خالہ!”
”مکاری… عیاری کی خالہ ہوتی ہے نگین…”
”اوہ تیری…! نگین صدقے … کیا سولہ آنے درست کہا آپ نے … خالہ!”
اب کے سنجیدہ بیگم بڑی طرح سٹپٹائی تھیں مگر تیر کمان سے نکل گیا تھا اب بات بدلے بغیر چارہ نہیں تھا۔
”بابرا کے رشتے کی بات کب تک کرنے آئیں گے وہ لوگ … کیا نام بتایا تھا اُس بچے کا… ہاں، سفیان… وہی اُس کے گھر والے … کب آئیں گے وہ…”
”اماں بتا رہی تھیں کہ ابھی تو سفیان اپنے ماں باپ سے بات کرنے والا ہے… دانش کا دوست ہے مگر میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی اُس سے… وہ لوگ بھی اسی شہر کے ہیں… دیکھیے کب تک آتے ہیں۔” نگین نے تفصیل سے جواب دیا تھا۔
”اب ذرا اپنی ماں سیانی کو کہو کہ بابرا کو ادھر کراچی بھیج دے… کچھ تربیت بھی ہو جائے اُس کی… خدا جانے کیا سے کیا ہو چکی بچی! مر مر کر تو بی۔ اے کر رہی ہے… اُمید تو نہیں کہ اس بار بھی پار لگے گی… اور اگر لڑکے والوں نے اُس کے لئے منع کر دیا کہ بھیا ہمیں نہیں چاہئے ایسی نالائق لڑکی … تو کیا کیجئے گا بی بہو…”سنجیدہ خاتون نخوت سے بولے چلی گئیں… بلی پھدک کر گود سے نکل بھاگی، اُسے بھی شاید مالکن کا پیار بھرا موڈ ہی بھاتا تھا۔
”وہ تو کسی صورت نہیں بھیجنے پہ آمادہ… خالہ! وہ کہتی ہیں کہ بابرا کی ڈولی اُنہی کے آنگن سے اُٹھے گی ورنہ میت اُٹھے گی…”
”واہ بھئی واہ…! بہت خوب … یہ تو خوب کہی اُس کم عقل نے، تم اُسے دوسرے آپشن کے لئے راضی کرو نا…”سنجیدہ خاتون استہزائیہ انداز میں کمر ٹیکتے ہوئے بولیں۔
”ارے نہیں خالہ…! ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے… خدا آپ کو سلامت رکھے…” نگین معصومیت سے سینے پہ بھنچی مٹھی رکھتے ہوئے بولی۔
”آئے ہائے کم فہم! میں تمہاری ماں کی بات کر رہی ہوں…”
”مگر وہ تو آپ کی بات کر رہی تھیں نا…”
”ستیاناس جائے اُس کا … جو میری میت اٹھانے کا سوچے … ساری عمر تیری ماں نے عقل کی ایک بات بھی نہیں پھوٹی… جیسی شوخی خود تھی ویسی ہی بیٹی میرے متھے مار دی اور اب آگے پوتی کی لٹیا بھی ڈوبی ہی سمجھو… تمہیں تو میں نے کھپا لیا… مگر ضروری نہیں کہ بابرا کو بھی ایسے ہی الو کے پٹھے مل جائیں… مجھے تو سوچ سوچ کے ہول اُٹھتے ہیں کہ نہ جانے بچی کیسی ”ٹوٹی فروٹی” سی ہو گئی ہو گی… اللہ کی شان!”
سنجیدہ خاتون انتہا درجے کی سنجیدگی کے ساتھ ٹھنڈے سانس بھرتی ہوئی بولیں تو چند پل کے لئے نگین بھی سوچوں کے سمندر میں اُتر گئی… سنجیدہ خاتون نے دزدیدہ نظروں سے بہو کو دیکھا اور سوچا شاید پتھر کو جونک لگی ہو مگر یہ صرف چند لمحے کے لئے تھا… اُس کے بعد نگین دوبارہ سے لاپرواہی سے کندھے اُچکاتی کچن کا رُخ کر چکی تھی۔ سنجیدہ خاتون چڑ کر راکنگ چیئر پہ جھولنے لگیں…!
٭٭٭٭





بیڈ روم میں گھمبیر خاموشی طاری تھی… شام کا سماں تھا اور نوکر چا کر بھی سرونٹ کوارٹر میں جا چکے تھے… ڈنر سے پہلے اُنھیں نہیں لوٹنا تھا۔ کمرے میں خوب صورت طرز کے وال کلاک کی دھیمی سی ٹک ٹک کی آواز تھی یا پھر شگفتہ بیگم کے نازک و نفیس سینڈل کی ہیل کی ٹک ٹک…!
کسی کسی وقت اُن کو انتہائی انہماک سے دیکھتے ریٹائرڈ بریگیڈئر فرقان عباسی کے ہنکارے کی آواز بھی ان آوازوں میںشامل ہو جاتی تھی… بیگم کو یوں بے چینی سے پورے کمرے کے چکر لگاتے دیکھ کر اُنھیں ہنسی بھی آرہی تھی جس کو وہ بمشکل دبائے بیٹھے تھے ورنہ سارا نزلہ اُنہی پر گرتا…!
”یار بیگم بس کر دیں… اتنے چکر کاٹ چکی ہیں کہ ایک آدھ کلو وزن ضرور کم ہو گیا ہو گا… اور آپ کو یوں دیکھ دیکھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر پینڈولم کا گمان ہو رہا ہے…” بریگیڈئر صاحب نے بیگم کو رسان سے ٹوکا تھا۔ جن کے چہرے پہ بے چینی رقم تھی۔ وہ بے حد چڑچڑی بھی ہو رہی تھیں۔
”آپ مجھے مت بلائیے بریگیڈئر صاحب…! آج آپ ہی کی شہ پر آپ کا بیٹا میرے منہ کو آیا ہے… اسی لئے… اسی لئے میں اُس کے لاہور بسنت پر جانے کے خلاف تھی… جب اُس نے مجھے بتایا تھا ناں… کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ لاہوری گیٹ اُس کی نانی کے کہاں ٹھہرے گا تب ہی میں نے اُسے بہتیرامنع کیا تھا… میری چھٹی حس اُسی وقت الارم دینے لگی تھی مگر اُس نے میری ایک نہیں سنی… وہی ہو گیا نا جس کا ڈر تھا… ان گلی محلوں میں ایسے تہوار تو چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والی لڑکیوں کے لئے نعمت ہوتے ہیں… تہوار ختم ہوتے ہی کئی ایک کے رشتہ طے ہو جاتے ہیں… اب یہی دیکھ لیجئے… پھنس گیا ناں آپ کا سپوت بھی …کسی ایسے ہی چھوٹے ذہن کی چھوٹے گھر کی… چھوٹے کردار کی لڑکی کے دام میں آگیا…”تیز تنفس کے ساتھ نخوت اور حقارت سے بولتی شگفتہ بیگم،بریگیڈئر صاحب کو بالکل نہیں بھائی تھیں۔
”خدا کو مانیے بیگم… اتنے بڑے بڑے بول یوں بڑھ بڑھ کر نہیں بولنے چاہئیں… آپ نے کیسے ایک انجان بچی کو چھوٹے کردار کا کہہ دیا… بری بات… بہت بری بات!” بریگیڈئر صاحب نے چشمہ اتار کر صاف کرتے ہوئے بیگم کو سختی سے ٹوکا تھا… مگر جواباً وہ چمک کر بولیں۔
”آپ کو نہیں پتا… یہ گلی محلوں کی لڑکیاں کتنی ماہر ہیں ایسے کاموں میں، میں اچھے سے جانتی ہوں…”
”ظاہر ہے… آپ کیسے نہیں جانیں گی… آپ خود بھی تو وہیں کی ہیں اور اگر آپ کو یاد ہو تو میں بھی آپ کے گھر کے بالکل سامنے والے مکان پر شادی کے فنکشن میں ہی آیاتھا… یاد آیا یا کچھ اور کلیوزچاہئیں…”
بریگیڈئر صاحب کے ایک سوئی چبھانے پر ہی شگفتہ بیگم کے غبارے سے ہوا نکل گئی … وہ ایک دم ڈھیلی ہو کر بیڈ پر بیٹھی گئیں… نظر چرائے وہ دھیمے سے بولیں۔
”میرا یہ مطلب نہیں تھا… مگر آپ یہ بھی تو دیکھیں ناں کہ لڑکی نے ابھی بی۔ اے کیا ہے… ہمارا سفیان ماشاء اللہ سے سارا بزنس سنبھالے بیٹھا ہے… ایک سے ایک رشتہ ہے اُس کے لیے… کتنی ہی بچیوں کی مائیں منہ سے کہہ چکی ہیں مجھے اور میں تقریباً سبھی کو بڑی بے نیازی سے جواب دے بیٹھی ہوں کہ میرا سفیان خوب دیکھ بھال کر بیوی چنے گا… اب جب سب کو پتا چلے گا کہ سفیان نے کس کو اور کہاں سے چنا ہے تو ذرا سوچئے… مجھے کتنی تضحیک اُٹھانی پڑے گی…” شگفتہ بیگم روہانسی ہوئی جاتی تھیں… بس نہیں چل رہا تھا کہ اُس اَن دیکھی لڑکی پر ”بس” چڑھا دیں۔
”آپ بے کار میں خون جلا رہی ہیں… سفیان بتا رہا تھا کہ اُس کے دوست کی بہن ہے مگر بچپن سے نانی کے پاس رہی ہے… ورنہ ماں باپ تو اسی شہر میں ہیں اور بارات بھی ظاہر ہے کہ اُس کے ماں باپ کے گھر ہی جائے گی ناں…” بریگیڈئر صاحب ہاتھ میں تھامی کتاب کا صفحہ ذرا سا موڑتے ہوئے لاپرواہی سے بولے تھے مگر شگفتہ بیگم کی چیخ سنتے ہی کتاب اُن کے ہاتھ سے یک دم چھوٹ کر گئی…
”کیا…! کیا کہا آپ نے… بارات … کیسی بارات؟ کس کی بارات…؟ میں ابھی مانی نہیں بریگیڈئر صاحب اور آپ بارات لے کر چلے بھی گئے…”
”کب گیا… ؟ ادھر ہی بیٹھا ہوں… اتنا جلد باز نہیں ہوں میں… بس اپنی بارات کے لئے ہی جلد بازی دکھائی تھی… ساری عمر گزر گئی بھگتان کرتے…” بریگیڈئر صاحب قدرے ناگواری سے کتاب کا رپٹ سے اُٹھاتے ہوئے بولے۔
”اپنی خام خواہ کی ضد میں بیٹے کی خوشی برباد مت کریں بیگم… وہ اتنا بے وقوف ہرگز نہیں کہ کسی بھی راہ چلتی سے بیاہ رچالے… آخر کچھ تو دیکھا ہو گا ناں اُس نے … جبھی خوش بھی ہے اور مصر بھی…”
”ٹھیک ہے…!” شگفتہ بیگم ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئیں… ”ہم اسی ہفتے لاہور جائیں گے لڑکی دیکھنے… اُس کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہو گا…بس!”
”ٹھیک ہے ہم جائیں گے مگر فیصلہ ہو چکا بیگم… اب آپ بات پکی کیجئے چل کر… اور یاد رکھئے کہ بیٹے کی خوشی کے آڑے آئیں گی تو میں بھی آپ کو آڑے ہاتھوں لوں گا…”
بریگیڈئر صاحب کی وارننگ سنتے ہی شگفتہ بیگم غصے سے تلملاتی ہوئی واک آئوٹ کر گئیں۔ بریگیڈئر صاحب نے قدرے مطمئن ہو کر دوبارہ کتاب کھول لی تھی۔
٭٭٭٭
سنجیدہ خاتون غصے سے پیچ و تاب کھا رہی تھیں… قریب ہی نگین بیٹھی سہمی ہوئی شکل بنائے دانہ دانہ انگور بھی ٹونگتی جا رہی تھی جو وہ ابھی چند منٹ پہلے سنجیدہ خاتون کے لئے لائی تھی… اُسی وقت نگین نے لگے ہاتھوں یہ اطلاع بھی دے دی کہ بلبل امی بابرا کو کراچی بھیجنے کے لئے ہر گز راضی نہیں ہیں… سفیان کے گھر والے اُس کا رشتہ لے کر لاہور ہی آئیں… ہاں! شادی کے وقت سوچیں گی کہ کیا کرنا ہے جی میں آئی تو بابرا کو بھیج دیں گی ورنہ بارات بھی لاہور اُترے گی… لو جی… موٹے موٹے خوش نما انگوروں کی پلیٹ نگین کی گود میں دھری رہ گئی اور سنجیدہ خاتون تب سے محض غصہ ”ٹونگنے” میں غرق تھیں۔ پورے زور و شور سے بولے جا رہی تھیں۔
”اس بلبل نے بچپن سے میرے ارمانوں کا خون کیا ہے…”
”کون سے ارمان خالہ… اور خون کیسے کیا ہے… چاقو سے یا گولی ماری تھی…” سراسیمہ نگین نے اکٹھے انگور کے تین دانے منہ میں ڈالتے ہوئے پوچھا ۔
”اے یہ ایسا خون تھا جس میں نہ آلۂ قتل استعمال ہوا نہ کسی کو خون بہتا نظر آیا… بس ارمان فنا ہو گئے اور قبر میرے دل میں بنی…” سنجیدہ خاتون سنجیدگی کی تمام حدیں پار کرتی … آزردہ سی کائوچ پر آبیٹھیں…
”تبھی تو خالہ… آپ کے دل سے دھواں سا اُٹھتا ہے ناں … مجھے اکثر ایسی بو آتی ہے… جیسے … جیسے… ام م…!”
”جیسے میرے دل میں باربی کیو پارٹی چل رہی ہو… تکے کباب بھنے جا رہے ہوں… ہیں ناں…”
سنجیدہ خاتون نے نگین کی مشکل آسان کرنے کے لئے انتہائی جلے کٹے انداز میں بات پوری کی۔
”ائی… ائی شاواش…!” نگین نے جوش سے ہاتھ پہ ہاتھ مارا تو سنجیدہ خاتون اپنی جگہ سے اُچھل کر ذرا پرے ہو بیٹھیں۔
”بالکل ماں پر گئی ہے کم عقل!… ساری عمر ہو گئی سکھاتے سکھاتے مگر تمہارے منہ سے ”شاواش” ہی نکلا… اب تو مجھے مغالطہ سا ہوتا ہے کہ اصل لفظ یہی تو نہیں…”
سنجیدہ خاتون نے نخوت سے بہو کو دیکھا اور تاسف سے سر ہلائے گئیں۔
”میں تو یہ کہہ رہی تھی خالہ کہ مجھے یقین تھا کہ آپ کے دل میں باربی کیو پارٹی چلتی ہے … آپ نے جب کبھی ڈکار مارا تو مجھے اکثر آپ کے منہ سے تکے کبابوں کی ہی خوشبو آئی…”
”استغفراللہ…! نگین تمہیں اللہ پوچھے… ارے تم کوئی تمیز والی بات بھی کرو گی کیا… زندگی میں ایک دفعہ… محض ایک دفعہ!”
”کی تھی ناں خالہ… یاد ہے شادی کے بعد جب میں نے آپ کو ماسی جی کی بجائے خالہ کہا تھا تو آپ نے شکر ادا کرتے ہوئے بولا تھا…
”شکر ہے نگین! تم نے بھی کوئی مہذب لفظ منہ سے نکالا…”
نگین کے چہرے پر ماضی یاد کرتے ہوئے گلابیاں سی پھوٹ پڑیں…
”واہ بہت خوب بیٹا…!” سنجیدہ خاتون طنز کا جامہ پہنتے ہوئے بولیں…”اُس وقت کو یاد کروں تو آج بھی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں … جب صرف تمہاری دیکھا دیکھی گھر کی کام والیوں نے بھی مجھے ”ماسی جی” بولنا شروع کر دیا تھا… اچھا بھلا بیگم صاحب کہتے کہتے … ایک اسی پر بعید کیا، تمہاری محبت میں رہ کر سبھی ٹھٹھے لگانا بھی سیکھ گئیں… فلموں کی لت بھی لگی اُن کو… رہی سہی کسر یہ بھی پوری ہوئی کہ ایک دن صفائی والی سر پر نقلی جوڑا اور آنکھوں میں کاجل کے لمبے لمبے ڈورے ڈالے چلی آئیں تھیں… جانے دو لڑکی… اُن وقتوں کو مت چھیڑو، تمہاری ماں پر غصہ آئے جاتا ہے…”
”وقت کو کدھر چھیڑا خالہ… آپ کو چھیڑا…” نگین کی سنجیدگی اور بے نیازی عروج پر تھی ”ویسے خالہ، بلبل امی پہ اتنا غصہ کیوں آتا ہے آپ کو… آج تک آپ لاہور نہیں گئیں اور نہ وہ کبھی ادھر آئیں… فون پر بھی بات نہیں کرتیں، ہو جائے تو گولے برساتی ہیں… آخر ہوا کیا تھا آپ دونوں کے بیچ…” نگین کھسک کر قریب ہو بیٹھی۔ آنکھوں میں تجسس تھا۔
”کبھی ماں سے پوچھا …” سنجیدہ خاتون کی جانچتی نظر…
”جی پوچھا…” نگین کا بھولپن…
”کیا کہا اُس نے…” اگلا سوال…
”آپ کو بڑی بڑی اور چھوٹی چھوٹی کتنی ہی گالیاں دیں…” نگین کی معصومیت سے آکھیں پٹپٹانے پر سنجیدہ خاتون کا جی چاہا… کَس کے ایک چماٹ گال پر دھریں… مگر ضبط کر گئیں اور ناک سکیڑ کر بولیں ”تمہاری اماں کو آتا ہی کیا ہے… اسکول جاتی تھی تب بھی بات بات پر گالی بک دیتی تھی… یا گانا… بس یہ دو ہی شوق تھے اُس کے … وہ تو میری سلجھی طبیعت کی وجہ سے اُس میں کچھ انسانی اثرات تھے وگرنہ ہر وقت فلمی ہیروئنز کی طرح گولہ گنڈا بنی رہتی تھی…”
”ہائے… ! خالہ مجھے تو مدت ہوئی گولہ گنڈا کھائے… یہاں کے گولے گنڈے میں وہ بات کیا جو چوبرجی کے گولے گنڈے میں تھی۔ یہاں کے تو گنڈے (پیاز) اتنے گول نہیں ہوتے جتنے وہاں کے گولے گنڈے، گول ہوتے ہیں…” نگین اپنی جھونک میں بولے جا رہی تھی اور سنجیدہ خاتون چہرے کے بگڑے زاویوں کے ساتھ ذرا سا منہ کھولے اُسے دیکھے چلی گئیں۔
”پتا نہیں تمہیں تمہاری ماں نے کیا کھا کے پیدا کیا تھا لڑکی…!”
”خالہ… ! گولہ گنڈا!” نگین فخریہ بولی۔
”تمہارے باپ کی تو ایک بات تمہارے اندر نہیں آئی… حالاںکہ اتنا لائق فائق اور قابل آدمی تھا…” سنجیدہ خاتون کے لہجے میں بے زاری تھی۔
”بلبل امی کہتی ہیں کہ ابا اُن کے ساتھ رہتے رہتے اُنہی جیسے تو ہو گئے تھے، بلکہ آخری دنوں میں تو ابا کو خود پہ ”آغا طالش” کا گمان ہوتا … وہ کیا ہے نا خالہ! ساری عمر یہی سب سنتے تو بیت گئی اُن کی۔”
”حق ہاہ! تمہاری ماں نے کیسا ہیرا مٹی میں رول دیا… بے جوڑ شادیوں کا انجام کبھی بخیر نہیں ہوتا۔”
”ہاہ… ہائے خالہ! بے جوڑ کیوں… ابا نے تو پسند سے کی تھی یہ شادی… پھر ایسا کیوں کہہ رہی ہیں آپ…”نگین برا مانتے ہوئے بولی تو سنجیدہ خاتون نے نخوت سر جھٹکا کر بولیں۔
”ارے تو جوڑ ہی تو نہیں تھا یہ… وہ تو تمہاری عیار ماں نے بھولا بھالا جان کر… چکنی چپڑی باتیں بنا کر دام میں کیا… ورنہ کہاں تمہاری مڈل پاس ماں اور کدھر تمہارا ڈاکٹر باپ… شعر و شاعری سے شغف علیحدہ… خوشبو جیسی ٹھنڈی میٹھی گفت گو کرنے والا… اور جب شادی کا وقت آیا تو…”
سنجیدہ خاتون کی آنکھوں میں نہ جانے کیسا کرب سا چھا گیا… بات ادھوری چھوڑ کر آنکھیں موند لیں، کائوچ پہ نیم دراز سی کسی اور ہی دنیا میں جا پہنچی تھیں… نگین نے ایک آدھ آواز دی مگر جواب نہ ملا تو پورے انہماک سے انگوروں کا صفایا کرنے لگی تھی۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

تھکن — سمیرا غزل

Read Next

آؤ کتابیں کھولیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!