حماقتیں — اُمِّ طیفور

شاہ عالمی بازار لاہور میں واقع سب سے بڑا بازار ہے، بلکہ اسے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا بازار قرار دیا جاتا ہے۔ شاہ عالمی مارکیٹ میں داخل ہونا ایسا ہی ہے جیسے ماضی میں قدم دھرنا… یہاں کئی مقامات پر گلیاں محض ایک گز چوڑی ہیں، جن کے دونوں اطراف پر چارچار منزلہ عمارتیں… خستہ حالی کے باوجود اپنی جگہ پر اکڑ کر قائم و دائم ہیں… جن میں سے اکثر آج بھی اُسی مشکل میں موجود ہیں جیسا کہ اُن کو سو سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ تنگ اور گھٹن زدہ گلیوں میں چھوٹی چھوٹی دکانیں سنبھالے دکان دار … کون سی ایسی چیز تھی جو وہاں بکنے کو موجود نہ تھی… ہر ذات کی چیز یہاں ملے گی اور بھانت بھانت کے لوگ ان تنگ اور چھوٹی دکانوں میں مول تول کرتے اطمینان سے خریداری کرتے دکھائی دیتے۔ یہاں پہ کسی چک نمبر… سے اُٹھ کر آئی ہوئی گنوار مٹیار بھی نظر آئے گی اور ایلیٹ کلاس کی پروردہ خواتین بھی ٹشو سے ماتھے پہ آیا پسینہ پونچھتی بھائو تائو کرتی دکھائی دیتی ہیں… وجہ…! صرف اور صرف مناسب داموں میں ہر شے کا دستیاب ہونا ہے۔
رنگین مزاج… ویلے، ناکارے مرد حضرات بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں، جو آنے جانے والی راہ چلتی خواتین سے ٹکرا کر حِظ اُٹھاتے ہیں۔ کسی دیسی باجی سے ٹکرا جائیں تو طیش کے مارے پلٹ کر بولے گی۔
”اناں اے…؟” جی کر ے گا تو ایک زور دار ہاتھ بھی دھر دے گی… اور اگر کسی برگر آنٹی سے ٹکر ہو جائے تو وہ بے چاری خفیف سی ہوتی تنبیہہً اتنا ہی کہیں گی … ”ایکس کیوزمی…!”





شاہ عالمی مارکیٹ کے ساتھ ہی سنیارہ بازار ہے اور سنیارہ بازار سے متصل ”رنگ محل”… اور رنگ محل، رنگین تھانوں سے اٹا پڑا ہے۔ کپڑوں کی ایک گنگا ہے جس میں خواتین غوطے کھاتی دکھائی دیں گی۔ ہر ورائٹی، رنگ اور کوالٹی کا کپڑا خرید لو… وہ بھی مناسب داموں! تھان کے تھان کھلوا لو اور جی نہ بھرے۔
بس ضرورت اس امر کی ہے جب بھی گھر سے نکلو تو گھڑی گھر چھوڑ کر نکلو اور گھر کے کونے کھدرے سے بھی ڈھونڈ ڈھانڈ کر چلّڑ ساتھ لے کر چلو کیوںکہ یہاں… ”لیتے چلے جائو… لیتے چلے جائو” والا حال ہے۔
ایسی ہی دوبے فکری ایک عدد مرد بچے کے ہمراہ منہ اُٹھائے کبھی اس دکان تو کبھی اُس دکان… گھسے چلے جا رہی تھیں۔ بابرا نے بازار میں انٹری مارنے سے پہلے ہی اپنے بیگ سے گاگلز نکال کر ماتھے پر ٹکا لئے تھے… اُس کی دیکھا دیکھی بتول نے گریبان سے اٹکے گاگلز دیدوں پر چڑھائے تھے اور بلا مبالغہ چار دفعہ تو ٹُھڈا کھا کر منہ کے بل گرتے بچی تھی…زچ ہو کر اُس نے مرد بچے، ببلو کا کالرپیچھے سے مٹھی میں جکڑ لیا تھا… وہ بے چارہ ہر چار سیکنڈ بعد گردن کو جھٹکا لگنے سے آنکھیں اور زبان باہر نکال لیتا تھا۔ ویسے بھی ببلو میاں گہرے سانولے اور بھاری تن و توش والے مرد بچے تھے… موٹا پا اتنا تھا کہ روز کے روز باہر گلی میں کھیلتے ہوئے کوئی کرتب دکھاتے اور نتیجتاً زبردستی پھنسائی ہوئی نیکر پچھواڑے سے چرتی چلی جاتی… اکثر تو ببلو میاں کو خبر بھی نہ ہوتی اور وہ سارا وقت دوسروں کی ”تفریح” کا موجب بنے رہتے۔ شام ڈھلے جب ببلو میاں گھر پہنچتے تو والدہ صاحبہ پچھواڑے پر اُس جگہ رکھ رکھ کر چار جوتے لگاتیں… کچھ وہ غریب دائمی نزلے کے مریض …! بات بعد میں کرتے اور ”شوں شُڑ” پہلے کرتے۔
اتنے رش میں بابرا اور بتول کے درمیان چلتا وہ زور سے ناک سڑکتا اور کبھی آستین سے پونچھ لیتا… بتول نے جب دوسری سے تیسری دفعہ یہ حرکت دیکھی تو فوراً اپنا دوپٹے کا وہ پلو جھٹک کر چھڑایا جو اُس نے بائیں ہاتھ میں کس کے یوں تھام رکھا تھا، جیسے قربانی کے جانور کی رسی پکڑ رکھی ہو۔ بتول کو اپنے نئے نکور جارجٹ کے دوپٹے پر ”گوند” ہرگز نہیں لگوانی تھی۔ اُس کے یوں دوپٹہ چھڑانے پر ببلو نے منہ بنا کر پہلے اُسے دیکھا اور پھر ایک نظر دائیں طرف چلتی بابرا کو… اور رگڑ کر ناک سڑکتا وہ بابرا کو ذرا نہ بھایا… شوں شڑ… انتہائی کوفت سے اُس نے بتول کو دیکھا اور بولی: ”اے بتول…! اس کے ناک پر ٹیپ لگا دے ورنہ ہر جگہ یہ نلکا ٹپکاتا رہے گا اور ہمیں شرمندہ کرواتا رہے گا…”
”ٹپکانے دئینگ بابرا… کون سا تجھے یا مجھے واسا بل بھیج دائینگ… آج بہ جانے دے سب کو … ہاہاہا…”
بتول کے ٹھٹھے پر بابرا نے ایک دھپ لگائی اور کھینچ کر سامنے والی کپڑوں کی دکان میں جا گھسی… اُف…! کوئی رش سارش تھاـ دونوں مردانہ وار مقابلہ کرتیں کائونٹر تک پہنچ گئی تھیں اور جب ببلو کا تربوز جیسا سر عورتوں کی کمر اور پیٹ سے ٹکراتا نمودار ہوا تو کتنا ہی نزلہ اُس کے منہ پر مونچھوں کی صورت بہار دکھا رہا تھا… باقی ماندہ وہ یقینا آنٹیوں کے کپڑوں سے تبرکاً لگاتا آیا تھا۔ بابرا کا جی متلایا، وہ منہ پھیر گئی… بتول سے برداشت نہ ہو ااور بولی:
”موٹے… ساری سریش( گوند) تم آنٹیوں کو چپکا آئینگ… کسی کو پتا لگنگ تو خود بھی جوتے کھائنگ اور ہمیں بھی پڑوائنگ…!”
”اے پھپھو…! یہ مینوں مارنی کیوں ایں … امی نوں دساں گا…”
ببلو بات سن کر روہانسا ہوتے ہوئے بولا۔ بتول کھسیانی ہو کر اُس کے چٹکی بھرتے ہوئے کان کے قریب بدبدائی۔
”بھینسے…! ہیر اُردو بولنگ… ورنہ میں تجھے ادھے ہی کسی دکان پر چھوڑنگ اور پتلی گلی سے نکلنگ… سمجھنگ…!
ببلو بے چارہ سہم کر پھپھی کے مزید قریب ہوا۔ رونے سے نزلے میں طغیانی آئی تو بتول نے نظر بچا کر ایک قدم آگے کھڑی ایک خالہ جی کی چادر کا پلو پکڑ کر ناک پر رگڑ دیا۔ اتنے رش میں ایسی کمینی حرکتیں عام بات ہیں۔





بابرا کچھ کھلتے رنگوں کے جوڑے نکلوا چکی تھی… بتول کے ساتھ مل کر بھائو تائو کروانے لگی۔
”آپی جی…! اونچی شاپ پر یہی کپڑا ساڑھے تین ہزار کا ملے گا۔ یقین مانیں ہمار اریٹ بالکل مناسب ہے۔ اٹھارہ سو میں ایسی شان دار چیز کہیں نہیں ملے گی…”
سیلز مین نے کپڑا بابرا اور بتول کے آگے پھیلایا، جسے بتول نے بڑی نزاکت سے چٹکی میں تھاما جب کہ بابرا کو اپنے گاگلز لگانے یاد آئے… آنکھوں پر ٹکا کر ناقدانہ نظروں سے کپڑا جانچنے لگی۔
”او آپی جی…! اے سورج دی لائیٹ نئیں… ایتھے انرجی سیور لگے ہوئے نے…”
ایک سیلز مین کو بابرا کے دماغ چل جانے کا اندیشہ ہوا تو یاد دہانی کروائی… دوسرے گاہک بابرا نے ٹشو پیپر کے ساتھ بڑی نزاکت سے چہرہ تھپتھپا کر دوبارہ سے کپڑے کو جانچا۔ سیلز مین کندھے اچکا کر دوسرے گاہک کی طرف متوجہ ہوا۔
”یہ کپڑا کچھ خاص نہیں ہے اور پرنٹ بھی پچھلے سیزن والا ہے… اوپر سے تم قیمت منہ پھاڑ کر بتا رہے ہو…”
”او… آپی جی… یہ دیکھیں…” سیلز مین نے اب سوٹ کا کپڑا کھڑے ہو کر خود پر پھیلایا اور بولا۔ ”یہ دیکھیں جی… کیسا شان دار پرنٹ ہے… صبح کا دوسرا تھان ہے جی… کھلتے ہی بک گیا تھا… اب یہ آخری سوٹ پیس ہے… لوگ تو بس دیکھتے ہی خرید لیتے ہیں… آپ بھی لے لیں جی… بار بار ایسی چیز نہیں آتی…”
سیلز مین ابھی بھی بڑے اسٹائل سے شرٹ پیس کندھے پر پھیلائے کھڑا تھا۔ انداز میں لچک نمایاں تھی۔
”ہاں سچ میں بہت پیارا لگ رہا ہے…” بابرا نے مدبرانہ انداز میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”وہی تو … وہی تو آپی جی… ! یہ تو مس کرنے والی چیز ہی نہیں ہے جی… دیکھیں تو سہی کیسا سج رہا ہے جی…”
سیلز مین کی باچھیں کھل گئیں…
”آہو…! بہت پریٹی ہوئینگ… بس تم جلدی سے ایک اُتار کر پیک کرنگ اور گھر لے جائینگ…” بتول کا مشورہ…
”ہیں جی…!” سیلز مین نے ناسمجھی سے دیکھا تھا۔
”ہاں جی…! اتنی تعریفیں کر رہے ہو تو خود ہی سلوا کر پہنو ناں… تم پہ جچ بھی خوب رہا ہے… دیکھو تو اپنی کمر کا بل… کیسا خم دے رکھا ہے تم نے… اپنا یہ سوٹ پیس بیچنے کے چکر میں… اس لئے خود کے لیے اُتار لو اور اماں سے کہنا تمہارے ناپ کا کسی ”درزن” سے سلوا دیں… چلو اب شاباش! وہ جو فیروزی اور فان شیفون دوپٹے والا سوٹ ہے… وہ دکھائو ذرا…”
سیلز مین نے ہکا بکا ہو کر بابرا کی تقریر سنی تھی اور پھر ایک نظر خود پہ ڈالی تو کھسیا گیا… جھٹ سوٹ پیس الگ کیا خود سے… ارد گرد کھڑی دو تین آنٹیوں نے اس بات کا مزہ لیا تھا۔ سیلز مین اب شرمندہ سا بابرا کو مطلوبہ سوٹ نکال کر دکھا رہا تھا۔
ہزارہا مین میخ کے بعد چار بلبل نانی کے اور چھے اپنے… کُل ملا کر دس جوڑے لئے تھے بابرا نے … سب کے سب ایک سے بڑھ کر ایک شوخ پرنٹ … کیا کرتی۔ بلبل نانی اور وہ خود ایک جیسے ہی رنگ اور پرنٹ پسند کرتی تھیں۔ اکثر تو بلبل نانی بابرا کے جھپٹ لیتیں… پھر پائپنگ اور چمچاتی لیسوں کا شوق الگ تھا۔ بتول نے بھی اوقات سے بڑھ کر خریداری کر لی تھی اور اب بل دیتے ہوئے ”اماں” یاد آرہی تھی جس نے گھر جا کر اس کی ”گُت” (چٹیا) پٹنی تھی۔ وہ بل میں کمی بیشی کے لئے ایڑی چٹیا تک کا زور لگا رہی تھی۔
”اے … اسمارٹ والے بھیا… ذرا مناسب کرنگ…”
”آپی جی… یہ بالکل مناسب ہوئینگ…” سیلز مین نے دانت نکوستے ہوئے بتول کی نقل اُتاری تھی۔ بتول کی تیوری چڑھ گئی۔
”اے ڈونکی سَن! نقل کس کی اتارنگ… تم کو معلوم نہیں کہ میں کس کی بہن ہوئینگ… میرا بھائی C.R.D ہوئینگ … دو منٹ میں تمہارا بوتھا بگاڑ دئینگ…”
بتول کی دھمکی سے کارگر ثابت ہوئی تھی۔ سیلز مین کے چہرے کا رنگ بدلا تھا اور پھر لہجے میں نرمی پیدا کرتے ہوئے بولا:
”ارے آپی جی…! تُسی تے غصہ کھا گئے۔ـ چلو میں گنجائش نکالتا ہوں… میں ٹوٹل میں ہزار کم کر دیتا ہوں… بس اس سے زیادہ نئیں جی…!”
سیلز مین نے حتمی انداز میں بتول سے کہا تو اُسے مانتے ہی بنی، یہ بھی غنیمت تھا۔ اُس نے پسینہ پسینہ چہرہ پونچھنے کے لئے بابرا کے ہاتھ سے ٹشو پیپر اُچکا… جو اپنا بل کروا رہی تھی۔ ببلو پہ نظر پڑی تو ادھر آبشار جاری تھی۔ اُسی ٹشو سے اُس کا ناک صاف کیا اور بابرا کو اشارہ کر کے دکان سے باہر آکر کھڑی ہو ئی… جان میں جان آئی تھی… اب بس کسی جگہ بیٹھ کر پیٹ پوجا کرنی تھی… رش تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا۔ دکان میں گھٹن بھی بے تحاشا تھی۔ چند لمحے بیتے تو بابرا بھی عورتوں کو ٹکریں مارتی منہ زور گائے کی طرح ڈکراتی باہر نکل آئی۔ ایک پائوں کا جوتا ہاتھ میں تھا۔ یہ تو اُس نے بعد میں بتایا کہ اُسی جوتے کی نوک سب کو چبھاتی باہر نکلی ہے۔ دونوں قہقہیلگانے لگیں۔





”ویسے بتول… کمال کے سوٹ لیے ہم نے… قسم سے بلبل نانی خوش ہو جائیں گی… بی۔ اے کے فائنل شروع ہونے والے ہیں… ہم دونوں ہر پیپر میں نیا جوڑا پہن کر جائیں گی… قسم سے ہماری شو ہو جائے گی…”
”آہو…!” بتول بھی چسکا لیتے ہوئے بولی۔
”ویسے چڑیل… یہ تیرا کون سا بھائی C.R.D ہے… جس کی تڑی تو نے سیلز مین کو دی تھی… مجھے بھی بتا ذرا…”بابرا کو اچانک یاد آیا تو اُس نے بتول سے پوچھا۔
”ہاں تو غلط کب بولنگ…! اجمل بھیا… یہ اپنے ببلو کے پاپا … CRD ہی تو ہیں… چنگ چی رکشہ ڈرائیور… کیسا!”
بتول آنکھیں اُچکاتے ہوئے بولی تو بابرا تو مانو مرید ہو گئی اُس کی۔ بتول کو عقیدت مندانہ نظروں سے دیکھا پھر اپنے چہرے کا پسینہ پونچھنے کے لیے بتول سے ٹشو مانگا جو اُس نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا… بابرا نے اچھی طرح پسینہ پونچھااور ٹشو وہیں پھینک دیا… حشر ہو چکا تھا اُس کا۔
”او تیری…!” یک دم بتول کو کچھ یاد آیا۔
”کیا … کیا ہوا…”
”وہ بابرا… اس سے تو میں ببلو کا نلکا… میرا مطلب ہے نزلہ صاف کرنگ… تبھی تو اتنا گیلا ہوئینگ…”اتنے رش میں … اتنے لوگوں میں ایک تیز، کراری چیخ گونجی اور یہ بابرا کی تھی…!
٭٭٭٭
”بدل نوں ہتھ لاواں
میں اُڈی اُڈی جاواں … ہوا دے نال …”
بادلوں کو ہاتھ لگاتی … ہوا میں اُڑتی بابرا پورے وزن سے بلبل نانی کے پلنگ پر چھڑاپی (چھلانگ) مار کر بیٹھی تھی۔ بلبل نانی جو سرمے سے لمبی لمبی دھاریاں بنا کر آنکھوں کو زیبا علی سے مشابہ کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جا رہی تھیں… اس اُفتاد پر سلائی آنکھ میں پھیل گئی۔ـ
”اوئی ماں…! مر گئی… چڑیل کی بچی… میری آنکھ پھوڑ دی تو نے… ہائے او ربّا… پہلے میری اوپر کی کھیتی اُڑا دی کم بخت … اب آنکھ میں کٹار پھیر دی… منحوس ماری…!”
بلبل نانی دہائی دیتی آنکھ ملے جا رہی تھیں جس سے اب پانی بہہ رہا تھا۔ مگر بابرا اتنی خوش تھی کہ پھر بھی بلبل نانی سے لپٹے جا رہی تھی۔
”او بلبل نانی… آنکھ گئی بھاڑ میں … میں اتنی خوش ہوں کہ کیا بتائوں… آج میں نے صنم بلوچ سے بات کر ہی لی نانی… ہائے میں کی دساں…”
بابرا خوشی سے نہال لوٹ پوٹ ہوئے جاری تھی۔ بڑے عرصے سے وہ صنم بلوچ کے مارننگ شو میں کال ملا رہی تھی… کبھی مل کر نہ دی… آج اتفاقاً مل گئی تھی تو دماغ ساتویں آسمان پر اُڑ رہا تھا۔ جوش جذبات میں بلبل نانی کی آنکھ سے سوتے پھوٹ پڑے تھے۔ مگر جب بابرا کی پوری بات سن لی بہتی آنکھ چھوڑ چھاڑ سیدھی ہو بیٹھیں۔
”کیسے… کب … تو تو تب سے اُسے کھوئے والی قلفی سے بات کر رہی تھی اور مجھے بتایا بھی نہیں کم بخت… میری بھی بات کروا دیتی…”
”ہیں… کھوئے والی قلفی نہیں نانی… صنم بلوچ سے بات کر رہی تھی…”
”تو اُسی کو تو کہہ رہی ہوں… کھوئے والی قلفی… قسمے مجھے تو بالکل ویسی ہی لگی ہے…” بلبل نانی نے چسکا لیا تھا۔
”ہائے… بلبل نانی آپ نے مجھے تو کبھی بھی اتنا پیارا سا نام دیا… کیا میں آپ کو کسی بھی مزے کی چیز کی یاد نہیں دلاتی…” بابرا نے بڑے لاڈ سے بلبل نانی کے گلے میں بازو ڈالے…
”لگتی ہے… کیوں نہیں لگتی… تو تو بنی بنائی لڈو پیٹھی ہے…”
”آئے ہائے بلبل نانی… زہر لگتی ہے مجھے لڈو پیٹھی… نہ کوئی ذائقہ نہ شکل… بد عقل…!” بابرا کو یہ تشبیہہ ہرگز نہیں بھائی تھی۔ بلبل نانی نے پھر سے آنکھ رگڑنا شروع کر دی تھی۔
”اچھا بتا تو بات کیا ہوئی… کتنا تو میٹھا بولتی ہے وہ…”
”ہائے بلبل نانی… مجھ سے امپریس ہو گئی تھی… مجھے بولی کہ ذرا اونچا بولیں… سب آپ کو لائیو سن رہے ہیں اور اپنے ٹی وی کی آواز بند کریں… مگر بلبل نانی میں نے بھی ٹی وی کی آواز اور کھول دی اب مجھے بھی تو سننا تھا ناں کہ میں کیسا بول رہی ہوں… اُف! اتنی لمبی بات کی میں نے … کہ کیا بتائوں… اُس کو تو بولنے ہی نہیں دیا میں نے…”
”پاگل کی پُترے…!” بلبل نانی نے دو ہتھڑ بابرا کو دھرے…
”تو خود سے باتیں کر کے آئی ہے… وہ لوگ ٹی وی کی آواز بند نہ کرنے پر کال کاٹ دیتے ہیں… وڈی آئی شوخی…!”
”جی نہیں بلبل نانی … وہ کھوئے والی قلفی سڑ گئی تھی میری آواز سن کر… اس لئے فٹافٹ اشتہار لے آئی… ورنہ میری آواز سن کر تو اُڑتی چڑیا ٹھہر جائے…”
”آہو! سہم کر … ” بلبل نانی نے جملہ مکمل کیا۔
”اُڑائیں… اُڑائیں میرا مذاق… ذرا شیشہ لا کر دکھائوں… دیکھیں گی نا تو خود بھی سہم جائیں گی… آہو!”
بابرا کلس کر بولی… بلبل نانی کا سرمہ آنکھ میں آئے پانی کی وجہ سے بہہ بہہ کر گال پر پھیلا تھا۔ بلبل نانی اس وقت خاصی مضحکہ خیز لگ رہی تھیں مگر وہ بھی بلبل نانی تھیں… اپنی تعریف کرنے میں پیدائشی ماہر تھیں۔
”جا…نی بابرا…! حسن والیاں نو شیشے ویکھن دی کی لوڑ… زیبا علی جب روتی تھی تو اُس کا بھی سرمہ گال پر بہہ آتا تھا… قسمے ہور سوہنی لگدی سی…!” بلبل نانی نے فضا میں زیبا علی کے خیالی چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”وہ زیبا علی تھی… آپ بلبل نانی ہیں… اُس کا کاجل بہہ کر پرنالہ نہیں لگتا تھا۔ مگر آپ کا چہرہ اس وقت سامنے والے شیخ صاحب کی داہنی دیوار کی طرح دکھ رہا ہے… جس کی چھت کے ساتھ پرنالہ لگا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو … اوئی… اوئی نانی… میری کمر…!”
بلبل نانی کی پیرٹ کلر کی پلاسٹک کی چپل نے بابرا کی کمر چھاپ دی تھی… وہ بلبلا اٹھی تھی…
”کم بخت! کرتی ہوں تیری ماں کو فون… تیری گزبھر کی زبان تیری دادی نے میرے گلے کے گرد لپیٹ دینی ہے… بی۔ اے کے امتحان سر پر کھڑے ہیں اور تجھے ان موٹی کھٹی میٹھی کڑیوں سے گپیں سوجھ رہی ہیں…”





”اُف…! دیکھیں بلبل نانی جتنی زور کا آپ نے میری کمر پر جوتا مارا ہے نا… اب اللہ کرے کہ میں اس دفعہ بی۔ اے میں پاس ہو جائوں…” بابرا ابھی تک کمر سہلا رہی تھی۔ اُس کی یہ عجیب منطق بلبل نانی کے پلے نہیں پڑی تھی۔
”چولیں نہ مار بابرا…! تیرا بھیجا تیری کمر میں فٹ ہے کیا؟ خوامخوا میں پھیل مت … سمجھی!”
”ہائے… نہیں بلبل نانی… آپ نے میری ریڑھ کی ہڈی سینک دی… اُس کا رابطہ حرام مغز سے ہونا ہے… اور یہ حرام مغز کی چوٹ جبڑی حرامی…”
”حیا کر … حیا! نانی کے سامنے گالی پھوٹ رہی ہے…”
”ہائے … ! ہائے یہ چوٹ میرے دماغ کا سب سودا سلف لے اُڑی… ہائے…!” بابرا نے اب کے اونچی سی دہائی دی تھی۔
”ہونہہ…!” بلبل نانی نے ہنکلارا… ”تیرے کھوپے میں بھلا ہے ہی کیا تھا… پہلے ہی اُجڑا پڑا ہے…”
”ارے نہیں بلبل نانی…! ایسی ایسی نادر و نایاب کہانیاں اسکینڈلز اور فلمی گانے فیڈ تھے کہ کیا بتائوں… اب تو سب پُٹھا سیدھا ہو گیا… سب گانے… دو گانے ہو کر میرے دماغ کے گرائونڈ میں کنچے کھیل رہے ہیں۔
”عجیب داستاں ہے یہ……
دل اپنا اور پریت پرائی……
کانٹوں سے کھینچ کر یہ آنچل……
تم ملے پیار ملا رے…… تم ملے پیار ملا رہے…!”
پورے ردھم میں بابرا کی آوازصحن میں چکرا رہی تھی… بلبل نانی وجد میں آئیں تھی… جھوم جھوم جا رہی تھیں جب بابرا کے پلپلے اور زخمی دماغ سے ہوتا ہوا ایک اور گانا زبان سے ادا ہوا ۔
”انار کلی…… ڈسکو چلی!”
بلبل نانی جھٹکا کھا کر پرے ہوئیں اور پیر مار کر بابرا کو بھی دھکیل دیا… بے چاری بمشکل توازن رکھ پائی ورنہ قلا بازی بہت خوب لگتی…
”یہ اپنی انارکلی کو ڈسکو نہیں، قبرستان میں بھیج کر آ… کم بخت سارے پرانے گانوں کا ناس مار دیا…”
”بلبل نانی آج آپ میری جان لے کر چھوڑیں گی… ابھی الٹ کر گرتی تو میرے بقیہ دماغ کی چٹنی بن جاتی جسے آپ دوپہر کے کھانے میں مزے لے لے کر کھاتیں…”
بابرا نے جیسے خود پر ترس کھا کر بولا تھا…
”نانا…نا! وہ تو میں چیل کوئوں کو ڈال دیتی… خود کھا کر ہیضہ کروانا تھا میں نے …اب بک بک بند کر اور ذرا کل کالج کا چکر لگا کے آ…بتول بتا رہی تھی ڈیٹ شیٹ آگئی ہے… خدا کا واسطہ ہے اس دفعہ کسی طرح تم دونوں نکل جائو بی۔ اے سے… ورنہ تم دونوں کو کسی اچھے لڑکے نے منہ نہیں لگانا… آئی سمجھ!”
بلبل نانی دوپٹے کے پلو سے چہرہ رگڑتے ہوئے بولیں…
”ہماری چھوڑیں بلبل نانی… اس وقت تو آپ کے منہ کی مجھے سمجھ نہیں لگ رہی … اچھی بھلی بلبل نانی سے اس وقت آپ مرغی نانی لگ رہی ہے۔” بابرا کے لیے بلبل نانی کو چڑانا بائیں ہاتھ کا کام تھا۔
”باز آجا… باز آجا بابرا! پِٹ جائے گی میرے ہاتھ سے تو نالائقے! کل دفع ہو دونوں اور ڈیٹ شیٹ لے کر آئو… پورے سال میں گن کے اٹھارہ دن تو جاتی ہو تم دونوں کالج… باقی سارا سال گھر کی دیواروں میں سوراخ کرتی رہتی ہو اپنی پھٹی ہوئی آوازوں سے…!” بولتے بولتے بلبل نانی کی اپنی آواز پھٹنے والی ہو گئی تھی۔ بابرا اُکتا کر انگڑائی لیتے ہوئے بولی۔
”کھسماں نوں کھائے پڑھائی بلبل نانی…! میرا تو دل ہی مر چکا ہے دوبارہ بی۔ اے میں فیل ہو کر… اس دفع بھی میرا دل کہتا ہے کہ میری وکٹ اُڑ رہی جانی ہے… یہ تو بس دادی کے ڈر سے سے امتحان دینے لگی ہوں… ورنہ…!” بابرا کی آزردگی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔
”تیری دادی سے یاد آیا کہ آج تیری ماں کا فون آیا تھا… پیچھے سے تیری دادی اچھل اچھل کر بول رہی تھی… مجھے پتا تھا کہ میرے خلاف ہی بکنے رہی ہے… میں بھی اپنے نام کی ایک ہوں… تیری ماں سے بولا کہ ذرا اسپیکر آن کر… تیری ساس سے دعا سلام کر لوں اب تیری ماں بھی بالکل مجھ پر گئی ہے… قسمے رج کے بھولی ہے، اُسی وقت اسپیکر آن کیا… بس پھر کیا تھا… میں نے فوراً تیری دادی کو آواز لگائی…” ہور سنا کرلیے (چھپکلی)… کیسی گزر رہی ہے تیری… آج کل کس دیوار پر ٹنگی ہوتی ہے…”بس بابرا… اتنا کہنا تھا میرا اور پیچھے تیری دادی وہ کلپی… وہ کلپی کہ میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی…”
بلبل نانی جوش سے لال ہوتی اپنا کارنامہ سنا رہی تھیں اور بابرا فخریہ نظروں سے بلبل نانی کو دیکھ رہی تھی… ایسی حرکتیں دونوں کی طبیعت بشاش رکھتی تھیں… بڑا دل لگتا تھا دونوں کا۔
”ہائے…! بلبل نانی مجھے بھی آواز دیتیں ناں… میں بھی ذرا آکر سنتی… دو باتیں میں بھی لگاتی… تھوڑا سا انھیں اکساتی… پھر ہاتھ پہ ہاتھ مار کر تالی بجاتی… ہاہاہا…ہا!”
بابرا نے اپنی ہی بات کا مزہ لیتے ہوئے قہقہہ لگایا۔
”اصل بات تو میں بتانا ہی بھول گئی… تیری ماں کہہ رہی تھی کہ دانش آرہا ہے اس مہینے کے آخر تک … بسنت قریب ہوتی ہے تو تیرے بھائی کو ہوش آجاتی ہے ادھر کی … ورنہ کبھی نانی اور بہن کا خیال نہیں آیا اُسے…” بلبل نانی کے انداز میں شکایت تھی۔ دانش اُن کا اکلوتا نواسا اور بابرا کا جڑواں بھائی تھا…جو سال کے سال آتا تھا اور وہ بھی صرف بسنت کے تہوار کے لئے… وہ اس تہوار کے لئے کریزی تھا… بابرا کی اُس سے بہت بنتی تھی حالاںکہ دونوں کے مزاج اور رکھ رکھائو میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ لیکن بلبل نانی سے اُس کی کچھ خاص الفت نہیں تھی… وہ اپنی دادی سے زیادہ قریب تھا اور بلبل نانی کو اس بات کا خاصا قلق تھا جبھی شکوے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں۔
”بالکل بلبل نانی…! اُسے اس بات کا خیال ہونا چاہئے کہ لاہور میں اُس کی جوان بہن اور بڈھی نانی…”
”بڈھی ہو گی تیری ماں… کم بخت!”
بڑھاپے کا طعنہ بلبل نانی کو تیر کی طرح لگتا تھا۔
”آئے ہائے…نانی! آپ کو سچ اتنا کڑوا کیوں لگتا ہے… مجھے تو کبھی نہیں لگا… اب ساری دنیا میری خوب صورتی کو سراہتی ہے تو کیا میں بھی سر پھاڑ دوں سب کا…” بابرا کے انداز میں اتنی معصومیت تھی کہ بلبل نانی بمشکل مسکراہٹ دباتے ہوئے بولیں۔
”پٹر پٹر بند کر اب … اور اوپر والا کمرہ اچھی طرح صاف کر دے۔ دانش کے ساتھ اُس کا کوئی یار بیلی بھی آرہا ہے… مشٹنڈے بسنت دیکھنے کے شوق میں پتا نہیں کیا چن چاڑھ کر جائیں گے…”
”اوئی ماں…! سچی میں بلبل نانی…” بابرا تجسس کے مارے ذرا آگے کو کھسکی پھر خود پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے مدبرانہ انداز میں گویا ہوئی۔
”دیکھیں بلبل نانی…! ہر ماں باپ کو ایک دن یہ خاص الخاص دن دیکھنا پڑتا ہے… آپ کے صحن کی بیری کو بھی دنیا نے تاڑ لیا ہے… اب اسی دنیا کا باسی شاید پتھر مارنے آرہا ہے… آپ بیچ میں مت آنا نانی… اور وٹہ مجھے لگنے دینا…”
”دورفٹے منہ تیری شکل کا منحوس…!” بلبل نانی نے کس کر ایک چپیڑ بابرا کے سر پر دے ماری… وہ بدک کر فوراً پر ے ہوئی تھی۔
”تیری دھر کونے جیسی شکل پہ کوئی وٹہ مارنے نہیں آرہا… بسنت منانے آرہے ہیں دونوں… اور بسنت پر پورا آسمان رنگ برنگی گڈیوں سے بھرا ہوتا ہے… تیرے جیسی وِنگی (ٹیڑھی) گڈی تو وہ پہلی نظر میں ہی بو کر دے گا…” بلبل نانی کی اتنی ”گہری” بات پر بابرا کا دل بھر آیا… دوپٹے کے پلو سے نادیدہ آنسو پونچھے اور بولی ”بلبل نانی…! تاریخ خود کو دہراتی ہے… مجھے یقین ہے کہ میرا نصیب آپ پر پڑا ہے… آئے گا …آئے گا کوئی بلبل نانی… جس کی عقل پر پتھر پڑے ہوں گے بالکل نانا کی طرح…” بات مکمل کرتے ہوئے بابرا نے بلبل نانی کی نئی قمیص کا گھیرا ہاتھ میں لے کر زور سے ناک سڑکا… اور جب تک بلبل نانی کو اُس کی بات پلے پڑی وہ اندر کمرے میں گم ہو چکی تھی… اُس کے بعد جس جس ذات کی گالی بلبل نانی کو یاد تھی… اپنی قمیص دھوتے ہوئے وہ بابرا کو نوازی رہی تھیں…
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

تھکن — سمیرا غزل

Read Next

آؤ کتابیں کھولیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!