حماقتیں — اُمِّ طیفور

اور پھر وقت نے ثابت کردیا کہ کس کی بساط پلٹ گئی… کون بڑھکیں مارتا رہ گیا اور کون بازی مار گیا… سب ششدر تھے۔ ایک بے یقینی سی بے یقینی تھی… ایک ہی گھر میں اس وقت دوہری فضا چھائی تھی… مسرت اور سوگواری کی…!
اماں حیران و پشیماں تو میاں جی اُفتاں و خیزاں… بلبل کامران و شادماں تو سنجیدہ ”گواچی گاں”…!
بلی تھیلے سے باہر آئے چند گھنٹے بیت چکے تھے… آج صبح حسب معمول اماں نے تمام کاموں سے فارغ ہو کر چولہے پر ساگ چڑھایا اور خود لسی بلونے بیٹھی تھیں… سنجیدہ برآمدے میں کرسی پر ٹانگیں اور چڑھائے… گھنٹوں کی آڑ میں اپنے ہاتھوں کو نفاست سے روغن بادام سے مساج کر رہی تھیں… جب کہ بلبل چھت کو جاتی سیڑھیوں کے نیچے چھپ کر موچنے سے ابرو کو بال نوچنے میں مشغول تھی… یہ اُس کا دیرینہ شوق تھا جو اماں سے چوری چھپے اکثر پورا کر لیتی تھی… آج بھی دائو لگ گیا تھا ورنہ اماں چولہے میں سے سلگتی لکڑی نکال کر دے مارتیں…





ایک زور دار آواز کی ساتھ میاں جی کواڑ بند کرتے اندر داخل ہوئے تھے… تینوں ماں بیٹیاں اپنی اپنی جگہ ہل کر رہ گئی تھیں…
پیچھے پیچھے مہمان بھی تھے جنہیں دیکھتے ہی اماں بے حد جوش سے اُٹھیں۔ جس تیزی سے اماں بانہیں واکئے آئی تھیں… درمیان میں کھڑے میاں جی ایک پل کو بری طرح بوکھلائے… سٹپٹائے اور پھر کھسیائے… دانتوں کے درمیان موجود خلا سے تھوڑی بہت ”کھی کھی” جیسی آواز بھی نکلی اور پھر جیسے اُنہوں نے دل میں یہ سوچا ”چل میاں! فیر کیڑی گل اے…” ساتھ ہی اماں کو بھر پور مسکراہٹ سے نوازتے ہوئے نیم مندی آنکھوں سے دونوں بازوں پھیلا دیئے… (اس وقت اُنہوں نے خود کو یقینا سنتوش کمار کا پٹھا سمجھ لیا تھا) مگر اگلے ہی پل اماں اُنہیں ”ڈبل کراس” کرتیں پیچھے کھڑی مہمان خاتون کے گلے جا لگیں… میاں جی بے چارے اُترے چہرے کے ساتھ بانہیں معلق کئے کھڑے رہ گئے… ”ہنہ! زنانی دا کوئی اعتبار نہیں…” میاں جی نے کندھے سے صافہ اُتار کر اُسے جھٹکا اور اماں کو کینہ توز نظروں سے گھورتے سائیڈ پر نمانے سے بن کھڑے ہو گئے۔
صلاح الدین کی اماں، بہنیں اور بڑی بھابھی آئی تھیں… ایک تو مدت بعد ملاقات اوپر سے آنا بھی کچھ خاص…! اماں تو اماں، سنجیدہ اور بلبل کے بھی ہاتھ پیر اُکھڑے جاتے تھے۔ سنجیدہ نے تو عقل مندی یہ کی کہ مہمانوں کے پاس ہی بیٹھ رہی… خوب باتوں سے دل بہلائے رکھا۔ سیدھی سادی گھریلو عورتیں تھیں سیدھے طریقے سے بات کرنے والی اور سنجیدہ ٹھہری قرینے سے گفتگو کی قائل۔ مگر آفرین تھی کہ محض صلاح کی خاطر وہ ان ”پینڈوئوں” کی باتیں میٹھی گولی کی طرح چوسے جا رہی تھی۔ صلاح کی بڑی بہن خاصی موٹی تگڑی تھیں… اپنے تئیں پیار سے سنجیدہ کی ٹانگ پر ہاتھ مارا تو بے چاری بلبلا ہی اُٹھی… بڑی بہن بولیں۔
”ہیں نی… ! اپنا صلاح بتا رہا تھا کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک ”شیر بھی کھاتی ہے…”
”او نئیں آپا…! شیر کھاتی نئیں… شعر کہتی ہے…”
یہ صلاح الدین کی بھابی تھی جس نے تصحیح کی تھی… سنجیدہ نے میٹھی نظروں سے ”متوقع جیٹھانی” کو دیکھا۔
”ہم سب کوبھی جی بڑا مزہ آتا ہے شعر بولنے میں… ہمارا تو دن رات یہی کام کرتے ٹیم گزرتا ہے جی…” دو نسبتاً کم عمر لڑکیاں جو یقینا صلاح کی چھوٹی بہنیں تھیں … ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنستے ہوئے بولیں۔ سنجیدہ نے دل چسپی دکھائی…
”ارے واہ! بڑی خوشی ہوئی یہ جان کر … تو ذرا ہو جائے ایک…”
”ہاں جی…! اے لو… اے شعر شور تے ساڈے منہ وچوں پڑل پڑل کر کے باہر آندھے نیں… چل نسیم…!” ایک نے دوسر کوٹہوکا دیا تو دونوں کو جیسے کوئی چارج ہی کر گیا۔
”چٹا ککڑ بنیڑے تے……
کاسنی دوپٹے والیئے… منڈا عاشق تیرے تے…”
آہا…! سبھی جھوم اُٹھیں… دے تالی پہ تالی… اور تو اور صلاح کی اماں کا پلپلہ منہ بھی ککُڑ جیساہو گیا… سنجیدہ حق دق اُن کی شکلیں دیکھے گئی۔
”آلو مٹر پکائے ہوئے نیں……
ساڈے نالوں بٹن چنگے … جیڑے سینے نال لائے ہوئے نیں…”
اب کے یہ تان جیٹھانی نے لگائی تھی… چھوٹی بہن نے تپائی اُٹھا کر گود میں رکھ لی… لو جی ڈھولک بھی ہو گئی…
”گڈی آئی ٹیشن تے……
پراں ہٹ وے بابو… سانوں ماہیا ویکھن دے……”
یہ بلبل کی انٹری تھی… اُس نے باورچی خانے میں مطلب کی آوازیں سنیں تو اس کا رِخیر میں حصہ لینے پہنچ چکی تھی… اماں بے چاری ہونق بنی سمدھیانہ ملاحظہ کرتی رہیں اور سنجیدہ آنکھیں پھاڑے رہ گئی … ”ادب” کی درگت ملاحظہ کر رہی تھی۔ پیچھے پنجابی ٹپے اور ماہیوں کو ”با ادب” اور ”باملاحظہ” گانے والیاں گلے پھاڑتی اور تپائیاں بجاتی رہ گئیں تھیں۔
٭٭٭٭
شام تک سب مہمان جا چکے تھے… پیٹ بھر کھا کر اور جی بھر ٹپے ماہیے گا کر… ایک کو رُلا کر تو دوسری کو ہنسا کر… صلاح الدین کی اماں نے بلبل کی تلی (ہتھیلی) پر شگن رکھا تھا اور سنجیدہ کی تلی پسیج گئی تھی… وہ جلتے دل اور لڑکھڑاتے قدموں سے جو کمرے میں تب کی بندہوئی تو اب تک وہیں پڑی تھی… اُس کا دل یہ ماننے پر راضی ہی نہ تھا کہ صلاح نے خود بلبل کے لئے کہا ہے… اُف…! یہ بلبل، جس کو بات تک کرنے کی تمیز تک نہیں… مڈل پاس چھچوری بلبل… صرف گوری رنگت اور گدرایا جسم… اس کے علاوہ ایسا تھا کیا جو پی۔ ایچ ۔ ڈی ڈاکٹر صلاح الدین کو بلبل بھا گئی تھی… اور وہ سب کیا تھا پھر… سنجیدہ کے ساتھ ڈھیروں باتیں… ہر موضوع پر تبادلۂ خیال اور پھر اُس کی ذہانت و فطانت کو سراہنا… اُسے مزید تعلیم کے لئے قائل کرنا… کیا تھا وہ سب…؟
سوچ سوچ کر اور رو رو کر سنجیدہ کے دماغ کی چولیں ہل گئی تھیں… باہر سے بلبل کی ٹپے گاتی آواز وقفے وقفے سے سنائی پڑتی تو دل پر خنجر چل جاتے۔ بلبل جیت گئی تھی… یہ بازی اُسی کے ہاتھ رہی تھی… سنجیدہ کا رکھ رکھائو، نفاست اور طریقہ سلیقہ سب دھرے کا دھرا رہ گیا… بلبل کا چلبلا پن … ادائیں… اور شوخا پن، صلاح کو سلّو بنا گیا تھا…
٭٭٭٭





صلاح الدین سہرا باندھے بلبل کو بیاہ لے گئے اور سنجیدہ کو اماں نے دور پرے کے رشتے داروں میں بیاہ دیا… لڑکا یہ بھی خوب پڑھا لکھا اور اُونچی نوکری والا تھا… سنجیدہ کراچی سدھاری اور بلبل پنجاب میں بس گئی… دونوں بہنیں مانو مشرق و مغرب ٹھہریں۔ ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کی قسم جو کھائی تو کئی سال نہ ٹوٹی… سنجیدہ کبھی ملنے آتی تو اچانک آئی اور ایک رات ٹھہر کر واپسی کی کرتی… کبھی نوبت نہ آنے دیتی کہ اماں بلبل کو بلوا لیں اور یوں دونوں بہنیں کی ملاقات ہو جائے… حالاںکہ دونوں اپنے اپنے گھروں میں خوش تھیں… اگر بلبل صلاح الدین کے گن گاتی تھی تو سنجیدہ بھی معین ہمدانی کے ہمراہ مطمئن اور شاد تھی… بلبل ایک بیٹی کی ماں بن چکی تھی جب کہ سنجیدہ کے ہاں لڑکا تھا… مگر دونوں بچے خالہ جیسے رشتے سے محروم تھے… بلبل کی بیٹی ہو بہو اُس کا پر تو تھی… فلموں اور گانوں کی شوقین۔ بلبل نے بیٹی کا نام ”انجمن” رکھا تھا… اُس زمانے میں انجمن کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا اور بلبل کی اُس وقت پسندیدہ بھی وہی تھی…!
اماں اور میاں جی باری باری گزر گئے… سنجیدہ آئی اور رودھو کے تدفین کے بعد واپس ہولی… بلبل کو بلانا تو دور کی بات ٹھہری نظر ڈالنا بھی گوارہ نہ کیا… بلبل نے بھی ”درفٹے منہ” کہہ کر مٹی ڈال دی…
دونوں بہنوں کے شوہروں نے کئی بار کوشش کی کہ ان کے درمیان کی رنجش کو کسی طریقے سے ختم کیا جا سکے… بلبل تو صلاح الدین کے کہنے پر سب گلے شکوے بھلانے کو راضی تھی مگر سنجیدہ پروں پر پانی نہ پڑنے دیتی…
مرد حضرات کو آج تک یہ سمجھ نہ آ سکی کہ دونوں کے درمیان چپلقش آخر ہے کس بات پر… اس معاملے میں بلبل نے ساری عمر بہن کا پردہ رکھا… کبھی صلاح الدین کو بھنک تک نہ پڑنے دی کہ سنجیدہ اُس کے خواب لکھتی تھی اور سنجیدہ تو تھی ہی سدا سے اپنے خول میں بند… میاں کو بھی ساری عمر گلہ رہا کہ سنجیدہ خاتون کبھی بھی ہنسی اُن کے ساتھکھل کر ہنسی بولیں نہیں …اور وہ اپنے دل کا کیا کرتیں جس کی کسک کبھی گئی ہی نہیں… بہترین ہم سفر، خوب صورت بیٹا… سبھی کچھ تھا… بس ایک وہ نہ ہونے کا کانٹا ساری عمر جگر میں پیوست رہا…
اور یہ کانٹا صلاح الدین کی اچانک موت بھی نہ نکال سکی… کیسی اندوہناک خبر تھی… پتھر بھی رو پڑے… مگر سنجیدہ کا دل نہ پسیجا… آئی اور بے گانوں کی طرح ہو کر چلی گئی… معین ہمدانی کو بے حد غصہ آیا مگر خاموش ہو رہے… چند دن بعد خاموشی سے بیٹے دانیال کو لے کر پھر بلبل کے گھر پہنچ گئے… اُنہیں بلبل کی جوان بیوگی سے زیادہ انجمن کی یتیمی کا دکھ تھا۔ دونوں بہنوں کے تعلقات کیسے بھی رہے ہوں مگر اُن کی اور صلاح الدین کی بے حد دوستی تھی۔ وہ دل سے صلاح الدین کے معترف تھے… اُس کی ذہانت، بذلہ سنجی اور گفت گو کے فن کے قدر دان تھے۔ اب کے آئے تو انجمن کو پاس بٹھا کر خوب تسلی دلاسے دیئے… ہر طرح کی مدد اور تعاون کا یقین دلایا اور یہیںکیوپڈ نے اگلا تیر چلا دیا… دانیال کو روتی، ہچکیاں بھرتی اور ہوکوں کے درمیان بات کرتی انجمن ایسی بھائی کہ نہ ماں کی ناراضی کا خیال کیا اور نہ موقع محل کا… باپ کے کان میں بات ڈالنے کی دیر تھی… اُنہوں نے بھی ہتھیلی پر سرسوں جماد ی… اور دانیال اور انجمن کی بات طے کر دی۔ انجمن دانیال سے دو ڈھائی سال کے فرق سے ہوئی تھی… بلبل کے ہاں جڑواں بچے ہو کر مر گئے تھے… تب جا کر انجمن ہوئی اور بس اُس کے بعد اللہ کی مرضی…! جب کہ اُس وقت سنجیدہ کا دانیال دو ڈھائی سال کا تھا… انجمن ایف۔ اے کے پیپر دے کر رزلٹ کا انتظار میں تھی اور قوی اُمید بہی تھی کہ کلین بولڈ ہو جائے گی… کیوںکہ ذہنی اعتبار سے وہ اپنی ماں پر ہی پڑی تھی…دانیال نے تو باپ کے ساتھ کاروبار جما لیا تھا…
دانیال اور انجمن کی بات پکی کرنا ہی کوئی چھوٹی بات نہ تھی کجا کہ معین ہمدانی کو یکدم نکاح کی سوجھی… وہ بھی سنجیدہ کی لاعلمی میں…! بلبل تذبذب کا شکار تھی… دانیال بہترین لڑکا تھا مگر تھا تو سنجیدہ کا بیٹا۔ کل کو سنجیدہ انجمن کو بہو کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیتی تو ایک نیا فساد کھڑا ہو جاتا… مگر معین ہمدانی کی یقین دہانیوں اور دانیال کی ضد کے آگے بلبل کو ہار ماننی پڑی… چار بندوں کی موجودگی میں نکاح ہوا۔ بلبل نے بتاشے بانٹ کر منہ میٹھا کرایا اور انجمن کو رخصت کر دیا… سوچ سوچ کر دل پر ہاتھ پڑتا تھا… خود تو اکیلی رہ ہی گئی بیٹی بھی ایسے گھر بھیج دی جہاں اُس کی ازلی دشمن دانت تیز کئے بیٹھی تھی۔
معین ہمدانی اور دانیال، انجمن کے ہمراہ کراچی روانہ ہوئے تو جہاز میں بیٹھتے ہی معین صاحب کی سیٹی گم ہو چکی تھی… جو کارنامہ وہ انجام دے بیٹھے تھے اور پھر اُس کارنامے کو ہمراہ لئے سنجیدہ کے سامنے حاضری دینے والے تھے… اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہی اُنہیں ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔ دانیال ہر دو منٹ بعد باپ کے کان میں سرگوشی کرتا… ”کول ڈیڈ”! جب کہ وہ خود بھی جانتا تھا کہ یہ ہرگز اتنا کول نہیں… انجمن کے چہرے پر الگ ہوائیاں اُڑی تھیں…
جس لمحے گاڑی پورٹیکو میں رکی… معین ہمدانی نے دانیال کو اشارہ کیا… وہ خاموشی سے لابی سے ہوتا ہوا انجمن کواوپر کمرے میں چھوڑ آیا تھا… بس…! اُس کے بعد گملے ٹوٹنے سے لے کر برتن ٹوٹنے تک، اُکھاڑ پچھاڑ سے چیخ پکار تک… ہر ذات کی آواز انجمن نے کمرے میں بیٹھے بیٹھے سنی… سنجیدہ خالہ کی زنانہ آواز گلا پھاڑنے کے باعث مردانہ آواز میں تبدیل ہوئی تو خاموشی چھا گئی…





اُس کے بعد کی کہانی مختصراً ”طویل” تھی… انجمن کو جس دل سے سنجیدہ نے قبول کیا یہ اُس کا دل ہی جانتا تھا… کیسے کیسے تغیر و تبدل سے اُس ایک اکیلی جان (انجمن) کو گزرنا پڑا… یہ الگ قصہ تھا…
انجمن سے نگین بن کر خالہ کے دل پہ چڑھی یا نہیں مگر بسی ضرور کیوںکہ سسر اور شوہر کی منہ چڑھی ٹھہری… سنجیدہ کے دل کو بھی ہولے ہولے قرار آہی گیا… ڈیڑھ سال کے عرصے میں نگین کی گود میں جڑواں بچے آگئے تو مانو قدم مزید مضبوط ہو گئے… مگر ایک پریشانی جو انجمن کو مستقل لاحق تھی وہ بلبل کا اکیلا پن… بلبل ماں تھی… اُس کو بیاہ کر تنہا رہ گئی تھی… اوپر سے سنجیدہ کا جارحانہ رویہ …بلبل کو کبھی بیٹی کے گھر آنے کی جرأت نہ ہو سکی… خود نگین اس عرصے میں بہ مشکل دو سے تین دفعہ جا سکی… نگین جذباتی طور پر توڑ پھوڑ کا شکار رہنے لگی تو ایسے میں ایک دفعہ پھر معین صاحب کام آئے… دانیال کو اعتماد میں لیا اور ایک دن خاموشی سے نگین اور پوتے کے ہمراہ بلبل کے گھر پہنچ گئے… کسی بڑے طوفان کی پیش بندی کے طور پر دانیال کو پیچھے چھوڑ آئے تھے… یہ اب اُس بے چارے کے اعصاب کا امتحان تھا…
جس وقت معین ہمدانی نے اپنی پوتی کو بلبل کی گود میں ڈالا تو کئی لمحے تو بلبل کو ماجرا سمجھنے میں لگے… اور جب عقل کی گرہ کھلی تو خوشی سے روتے روتے نیم مدہوش ہو گئی… نگین اور معین صاحب اپنی بچی اُس کے حوالے کرنے آئے تھے… آج سے اُس کی دیکھ ریکھ اور پرورش سب بلبل کی ذمہ داری تھی… مالی طور پر گو بلبل کو کوئی پریشانی نہیں تھی مگر معین ہمدانی نے بچی کے خرچ کی ذمہ داری خود کے لئے مختص کی تھی… بلبل کی گود میں تو مانو انجمن کا بچپن ایک دفعہ پھر ہمکنے لگا تھا… نگین اور معین ہمدانی پوتے کے ہمراہ واپس ہو لیے… ابھی اُنہیں واپسی پہ بہت بڑے اعصاب شکن امتحان سے گزرنا تھا… اور اس بات کا ادراک بلبل کو بھی تھا۔ مگر وہ خوش تھی… بے حد خوش! اور یوں سنجیدہ خاتون کی پوتی… جس کا نام اُنہوں نے بڑے چائو سے سوہا رکھا تھا… وہ اب ”بابرا” بن کر بلبل نانی کی گود میں پلنے لگی۔ ویسے ہی جیسے انجمن پلی، بالکل ویسی ہی ڈھب پر بابرا پل بڑھ کر جوان ہوئی… فلموں گانوں کی رسیا، رسالوں کی دلدادہ… اور پڑھائی کی چور… ایک اور بلبل…!
٭٭٭٭





”حق… ہاہ!” بلبل نانی نے تھک کر ہاتھ کا پنکھا جھلاتے جھلاتے دائیں سے بائیں ہاتھ میں منتقل کیا اور ایک لمبی سانس گود میں سر رکھ کر لیٹی بابرا کے چہرے پر چھوڑی جسے اُس نے ناک سکوڑتے ہوئے تیزی سے ہاتھ سے رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔
”بلبل نانی…! ناشتہ کئے تین چار گھنٹے ہو چلے مگر آپ نے تو جیسے اچار سے کلیاں کی تھیں… ابھی تک آپ کی سانس میں ”لسوڑے” مہک رہے ہیں…”
بلبل نانی نے جھنجلا کر بابرا کا گود میں دھرا بڑا سا سر پرے پٹخا، ایک تو فجر کے بعد سے جوں لائیٹ گئی تھی… بارہ بجے چکے تھے اب تک کچھ پتا نہیں تھا… یو پی ایس بھی جواب دے گیا تھا اور بلبل نانی کا ہاتھ، پنکھا جھل جھل کے جواب دے چکا تھا۔ بابرا کا وقت مزے سے کٹ گیا تھا کیوںکہ آج بلبل نانی کی کہانی اُن کی زبانی سنی تھی… اُسی کہانی کے اختتام پر ہی تو ایک لمبی سرد آہ اُن کے منہ سے خارج ہوئی تھی… بابرا نے اپنا دومن کا سر دوبارہ گھسیٹ کے بلبل نانی کی گود میں دھرا اور بولی۔
”ویسے اگر نانا کی شادی دادی سے ہو جانے دیتیں تو آپ کا کیا جاتا بھلا … بلبل نانی…!”
”گھسماں نوں کھانی…!” ایک بار پھر اُس کا سر پرے پٹخا اور اب کے پنکھا بھی کاندھے پر دے مارا ”کم بخت…! دکھا دیا خون کا اثر… آگیا دل میں درد… خونِ جگر پلاپلا کر تجھے پالا اور تو میرا ہی گھر والا قربان کر رہی ہے …”
بابرا کندھا مسلتے ہوئے کینہ توز نظروں سے نانی کو گھورے جا رہی تھی… ایک دم چمک کر بولی:
”ارے بلبل نانی…! سوچئے کیسی شان دار فلمی اسٹوری بن جاتی… آپ قربانی دیتیں… سنجیدہ دادی اور نانا ایک ہو جاتے… آپ ساری عمر روتی کرلاتی… نانا کی تصور کو دل میں بسائے گزار دیتیں اور پھر اس کہانی کا اختتام کسی مزار کے احاطے میں لگے پرانے پیڑ کے نیچے بیٹھی ایک اجاڑ مائی کی موت پر ہوتا … جس کے منہ سے کپڑا ہٹایا جاتا تو وہ قربانی کی دیوی … بلبل نانی نکلتیں…” بابرا نے ایسا نقشہ کھینچا کہ بلبل نانی بھی فضا میں کسی غیر مرئی نقطے کو گھورتے جیسے کھوسی گئیں اور چند لمحوں بعد ایک سوگوار سی ہچکی اُن کے لبوں سے برآمد ہوئی… وہ بولیں۔
”ہائے ہائے نی… ! وچاری دکھاں اچ ای ٹُر گئی… کیسی الہڑ مٹیار نوں رول دتا زمانے نے…”
بابرا نے تعجب سے اُن کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے اُسی غیر مرئی نقطے کو گھورا مگر ککھ بھی نہ دکھا… بلبل نانی کی آنکھوں کے آگے ہاتھ جھلاتے ہوئے بولی۔
”جانے دیں بلبل نانی… ! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا… ہوتا تو آپ کو کون سا ایوارڈ مل جانا تھا… آپ بس اب دعا کریں… آج بتول نے رزلٹ کا پتا کرانا ہے… دعا کریں کہ…”
بابرا کی بات منہ کی منہ میں رہ گئی اور دھاڑ سے داخلی دروازہ کھولتی بتول فاطمہ خود بھی دھاڑیں مارتی داخل ہوئی تھی… بلبل نانی اور بابرا کو تو یوں لگا جیسے بھونچال سا آگیا ہو… بتول بین ڈالنے کے انداز میں بازو لہراتی ہوئی اُن دونوں کے سروںپر آکر تان اُڑاتی بولی:
”ساڈا چڑیاں دا چنبہ ہوئینگ…
اساں اُڈ جائینگ… اساں اُڈ جائینگ…”
”اوہ تیری …!” بابرا کے منہ سے ڈرامائی سرسراہٹ نکلی۔
”بلبل نانی… اُڑ گئی وکٹ… وہ بھی رن بنائے بغیر…”
”او چپ کر … اول فول نہ بک… یہ دیدہ ہوائی تو اپنے ویاہ کا سندیسہ دینے آئی ہے شاید…” بلبل نانی نے ناک سے مکھی اُڑاتے ہوئے بولا تو بتول کو گویا پنکھے لگ گئے… دھپ سے دونوں کے اوپر آن گری… دونوں نے فٹ بال کی طرح اچھال کر اُسے پرے پھینکا… وہ پھر سے دہائی دیتے ہوئے بولی۔
”ہائے…! کیسا ویاہ… کدھر کا ویاہ… اب تو بس بِستی (بے عزتی) ہوئینگ نانی… وڈی ساری بِستی… دل کے ارمان آنسوئوں میں دھلنگ … ہائے…!”
”یعنی کہ بتول…” بابرا زور زور سے پسینے کے باعث سر کھجاتے ہوئے بولی… ”کسی ایک سبجیکٹ نے بھی عزت نہ رکھی… اس سے تو اچھا ہم دونوں اڈے لگا کر جہیز کے لئے چار جوڑوں کو موتی ہی ٹانک لیتیں…”
اس سے پہلے کہ بلبل نانی جوتا ہاتھ میں پکڑتیں… اُن کی نظر داخلی دروازے پر کھڑے کھسیائے کھسیائے سے سفیان اور نخوت سے ناک چڑھائی اُس کی ماں اور ہنسی دبائے بریگیڈئر صاحب پر جا ٹھہری… وہ لوگ یقینا کچھ دیر سے تو وہاں کھڑے ہی تھے… تاثرات بتاتے تھے اور سب کچھ جان بھی چکے تھے… جس کے لئے آئے تھے اُس کی تعلیمی قابلیت بھی اور ذہنی اہلیت بھی…!
بلبل نانی بوکھلائی ہوئی استقبال کو اُٹھیں تو سر کھجاتی بابرا کو بھی ہوش آیا… اور آنکھیں میچ کر نیم وامنہ سے سسکیاں بھرتی بتول بھی الرٹ ہو گئی… دونوں اندر کمرے میں بھاگنے کے چکر میں ایک دوسرے سے بری طرح ٹکرائیں…
بلبل نانی کے اُنہیں ڈرائنگ روم میں بٹھانے تک شکر تھا کہ اچانک لائیٹ بھی آگئی… بابرا فٹافٹ جوڑا پکڑے واش روم میں بھاگی تھی جبکہ بتول کو نانی نے اپنے ساتھ کچن میں لگایا… پیچھے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تینوں نفوس ایک دوسرے سے اپنے اپنے تاثرات چھپانے میں مگن تھے… سفیان کو بابرا کے رزلٹ اور اُس کے حلیے پر شرمندگی تھی اس لئے ماں سے نظریں چرائے جا رہا تھا… جو بھی تھا پہلا امپریشن ہرگز بھی اچھا نہیں پڑا تھا جب کہ وہ جانتا تھا کہ بابرا کیسی نک سک سے تیار رہنے والی لڑکی تھی۔ شگفتہ بیگم محض بریگیڈئر صاحب کے ڈر کی وجہ سے اپنے غصے اور طیش پر قابو رکھے ہوئے تھیں… یہ تھی ہونے والی بہو کی تعلیمی قابلیت … بی۔ اے فیل!… باقی رہ گئے بریگیڈئر صاحب تو اُن کا جی چارہ رہا تھا کہ اونچے اونچے قہقہے لگائیں… اُنہیں اس ساری سچویشن نے بشاش کر دیا تھا… نہ اُنہیں بابرا بری لگی تھی اور نہ اُس کے بی۔ اے میں فیل ہونے کا اُنہوں نے نوٹس لیا تھا… بلکہ وہ تو بابرا کے معصوم چہرے اور بھولپن سے اپنے رزلٹ پر کیے گئے دو حرفی تبصرے کو اب تک انجوائے کر رہے تھے…
کچھ دیر میں بلبل نانی لوازمات کے ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں تو ماحول قدرے بہتر تھا… اور مزید بہتر بابرا کے آنے سے ہو گیا۔ نہائی دھوئی خوب صورت شوخ رنگوں کے لباس میں وہ یک دم شگفتہ بیگم کو بھی چونکا گئی… وہ واقعی خوب صورت تھی اس میں کوئی شک نہیں تھا… مگر شگفتہ بیگم اپنے تاثرات کو کمال مہارت سے چھپا گئیں… سفیان بھی اب بے حد مطمئن سا چائے کے گھونٹ بھر رہا تھا… بتول نے بالکل سگی بہنوں کی طرح حق میزبانی ادا کیا… بریگیڈئر صاحب تو اُس کی ”آئینگ” اور ”جائینگ” والی گفت گو پر جی کھول کر قہقہے لگاتے رہے… بہترین ماحول میں چائے پی گئی… باتوں باتوں میں بریگیڈئر صاحب نے آنے کا مقصد بیان کیا… بلبل نانی کو کون سا معلومات کروانی تھیں سو ہاں کہہ دی… بریگیڈئر صاحب نے بیگم کو اشارہ کیا تو شگفتہ بیگم جیسے ہار مانتے ہوئے اُٹھیں اور پرس سے انگوٹھی نکال کر بابرا کی انگلی میں ڈال دی… ماتھے پر پیار بھی دے دیا… بریگیڈئر صاحب کے لئے یہ بھی بہت تھا… بیٹے کا چمکتا چہرہ اُنہیں اس وقت کل کائنات سے عزیز تھا… ویسے بھی گھر ڈگریوں کی بنیاد پر کہاں بستے ہیں… یہ تو دلوں کے تال میل سے پنپتے ہیں…!
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

تھکن — سمیرا غزل

Read Next

آؤ کتابیں کھولیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!