”اگر ہم کبھی یہ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ وہ ہمیں اس طرح چھوڑ سکتا ہے تو پھر یہ تصور کیوں کریں کہ وہ دوبارہ کبھی ہم سے مل نہیں سکتا۔” صبغہ کی آواز بھی دھیمی ہو گئی۔ روشان کا اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لینا ایک جھماکے کے ساتھ اسے یاد آیا تھا۔
”میں کسی قمت پر بھی اس رقم کو پاپا کو واپس نہیں کروں گی۔” صبغہ نے ٹیبل پر پڑا لفافہ اٹھاتے ہوئے حتمی انداز میں کہا۔
”اور آپ نے مجھے بتایا نہیں کہ امبر کو کیاہوا؟” صبغہ کو یک دم یاد آیا۔ ”اگر اس کا موڈ اس بات پر آف نہیں ہے توپھر؟”
”طلحہ کی شادی ہو رہی ہے۔” منیزہ نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔ صبغہ کچھ بول نہیں سکی۔
”ان لوگو ںکی منصور کے ساتھ بھی صلح ہو گئی ہے۔” منیزہ نے مزید اضافہ کیا۔
”آپ کو کس نے بتایا؟” صبغہ یک دم سنجیدہ ہو گئی وہ امبر کی کیفیت کا اندازہ کر سکتی تھی۔
”بھابھی نے ان لوگوں کو انوائیٹ بھی کیا ہے شادی پر۔ مگر صفدر بھائی ہماری وجہ سے نہیں جارہے۔”
”تو چلے جائیں۔ ان کے چلے جانے سے بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ پوری دنیا ہماری وجہ سے طلحہ کی فیملی کا بائیکاٹ تو نہیں کرے گی۔” صبغہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”تمہارا باپ بھی اس شادی میں جارہا ہے۔” منیزہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
صبغہ ایک لمحے کے لیے سُن ہو گئی، اس کا چہرہ زرد ہو گیا۔ کم از کم اس بار وہ یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ ”جانے دیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔” منصور کے وہاں جانے سے ”فرق”پڑتا تھا۔ وہ ان کا باپ تھا اور اس آدمی کی شادی میں جارہا تھا جس نے اس کی بیٹی کو طلاق دی تھی۔
”کسی کا خون اس سے زیادہ سفید کیا ہوگا۔” منیزہ بڑبڑا رہی تھیں۔ ”اور کوئی منصور سے زیادہ بے غیرت نہیں ہوگا۔”منیزہ اب کسی لحاظ کے بغیر منصور کے لیے الفاظ استعمال کر رہی تھیں۔
صبغہ نے رابعہ اور زارا کو دیکھا۔ وہ بظاہر سکول کا کام کرنے میںمصروف تھیں۔ مگر ان کے چہرے پر جس قدر سنجیدگی تھی وہ کسی کو بھی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ وہ دراصل ہوم ورک میں کتنا ”مصروف” ہیں۔
”آپ کو آنٹی سے پاپا کے بارے میں کوئی بات کرنا ہی نہیں چاہیے تھی۔ نہ آپ ان سے کچھ پوچھتیں نہ وہ ایسی باتیں ہم تک پہنچائیں۔ اس بار صبغہ کے لہجے میں شکوہ تھا۔
”میں نے اس سے کچھ نہیں پوچھا تھا۔ اس نے خود مجھے سب کچھ بتایا۔ ورنہ مجھے منصور کا احوال جاننے میں اب کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔” منیزہ نے ناراضی سے کہا۔ ”اور اگر تمہارا باپ ایسی حرکتیں کرے گا تو لوگ تو بغیر پوچھے یا سوال کیے بھی اس کے بارے میں بات کریں گے۔”
ایک رشتہ ٹوٹ جانے سے منصور علی صرف ”تمہارا باپ” ہوتا تھا بالکل اسی طرح جیسے منصور کے لیے منیزہ ”تمہاری ماں” ہو گئی تھی۔ اور ان دونوں کی ہر حرکت کے سارے اثرات اولاد پر آنے لگیں گے۔ صبغہ نے رنجیدگی سے سوچا۔
”آپ نے امبر کی تشفی کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی، اسے اکیلا کیوں پڑے رہنے دیا؟” صبغہ نے باہر نکلتے ہوئے منیزہ سے کہا۔ منیزہ نے جواباً کچھ کہا تھا مگر صبغہ سن نہیں سکی۔
صبغہ دوسرے کمرے میں آکر امبر کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی۔ امبر اب بھی اسی طرح چِت بے حس و حرکت لیٹی ہوئی تھی۔
صبغہ نے اس کا بازو ہلایا۔ ”مجھے پتا ہے تم سو نہیں رہی ہو۔”
”میں نے کب کہا کہ میں سو رہی ہوں۔” امبر نے اسی طرح آنکھوں پر بازو رکھے ہوئے کہا۔ ”میں تمہاری ساری باتیں سُن چکی ہوں۔”
صبغہ جانتی تھی اس کا اشارہ کن باتوں کی طرف تھا۔
”اچھا اگر سُن چکی ہو تو پھر آنکھوں سے بازو ہٹاؤ اور مجھے دیکھو، آخر میرا سامنا کرنے سے کیوں کترا رہی ہو تم؟” صبغہ نے جان بوجھ کر ایسی بات کی کہ امبر نے فوراً اپنی آنکھوں سے بازو ہٹا دیا۔
”میں تمہارا سامنا کرنے سے کترا نہیں رہی ہوں۔ آخر میں کیوں کتراؤں گی؟” اس نے صبغہ کو دیکھتے ہوئے ناراضی سے کہا۔ صبغہ اس کی آنکھیں دیکھ رہی تھی جو بری طرح سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔
”میری بات سنو امبر!” صبغہ نے قدرے ناراضی سے اس کے بازو کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ ”Let that man go to hell” (اسے جہنم میں ڈالو) وہ شادی کرے، جو مرضی کرے۔ تم اس کے بارے میں سوچو تک نہیں۔”
”میں نہیں سوچتی اس آدمی کے بارے میں۔” امبر یک دم جھنجھلاتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”تو پھر اس طرح رونے کا کیا مطلب ہے؟”
”کوئی مطلب نہیں ہے۔”
”تو پھر مت روؤ۔”
”جب اسامہ شادی کرے گا تو تم مت رونا۔” اس کی آواز میں کاٹ تھی۔ صبغہ اس کی شکل دیکھ کر رہ گئی۔
”میں نہیں روؤں گی۔ میرے ماتھے پر ایک شکن تک نہیں آئے گی۔” صبغہ نے اسی انداز میں کہا۔ امبر عجیب سے انداز میں مسکرائی۔
”اس لیے۔ کیونکہ تم تو کبھی اس میں انٹر سٹڈ تھیں ہی نہیں۔”
”اچھا؟” صبغہ نے بے اختیار کہا۔
”تمہیں اس سے محبت ہوتی تو تم اس سے طلاق کبھی نہ لیتیں۔” امبر کا انداز عجیب تھا۔
”امبر! میں اب سب کچھ دوبارہ شروع نہیں کروں گی۔” صبغہ نے سر کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ ”میں کتنی محبت کرتی تھی اور کتنی نہیں۔ مجھے تمہیں بتانے یا تم پر ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” صبغہ نے قدرے ترشی سے کہا۔ ”ہاں البتہ تم اگر یہ کہنا چاہتی ہو کہ تم طلحہ سے اس سے کہیں زیادہ محبت کرتی تھیں جتنی میں اسامہ سے کرتی تھی تو ٹھیک ہے۔ میںمان لیتی ہوں پھر جھگڑا کس بات کا ہے۔” امبر کچھ دیر لاجواب سی ہو کر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر بولی۔
”میں چاہتی ہوں۔ تم کبھی میرے سامنے طلحہ کا ذکر مت کرو۔”
”ٹھیک ہے، میں نہیں کروں گی۔” صبغہ نے اسی انداز میں کہا۔ ”اور میں چاہتی ہوں کہ تم طلحہ کے بارے میں سوچو تک نہیں۔ اب تم کہو میں بھی ایسا نہیں کروں گی۔”
امبر نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ ”تمہیں پتا ہے اس کی شادی کس کے ساتھ ہو رہی ہے؟”
”مجھے یہ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر چونکہ تم بتانا چاہتی ہو اس لیے میں سن لوں گی کس کے ساتھ ہو رہی ہے؟”
”سعدیہ کے ساتھ۔”
”تو؟”
”تو کچھ نہیں۔ تمہارے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟” امبر کے انداز میں رنجیدگی تھی۔
”نہیں۔ میرے نزدیک نہیں ہے۔ جو شخص آپ کی زندگی سے نکل جائے پھر اس کی زندگی میں کوئی آئے کوئی جائے آپ کو پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔”
”کہنا آسان ہے۔”
”کرنا بھی آسان ہے۔ تم کوشش کرکے دیکھو۔”
امبر کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر وہ عجیب سے لہجے میں بولی۔ ”تم ہمیشہ اتنی لاتعلق کیوں ہوتی ہو؟”
صبغہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ وہ کندھے جھٹکتے ہوئے جھنجھلائے ہوئے انداز میں بولی۔ ”پاپا نے ہمیں چھوڑ دیا۔
تمہیں پرواہ نہیں ہے، صفدر انکل اور ان کی بیوی نے ہمارے ساتھ برا سلوک کیا تمہیں تکلیف نہیں ہے، روشان ہمارے پاس نہیں ہے، تمہیں پریشانی نہیں ہے۔ اسامہ سے تم نے اپنی مرضی سے طلاق لے لی۔ طلحہ کے مجھے طلاق دینے پر تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ زندگی میں کچھ ہے جو تمہیں پریشان کرتا ہو؟”
صبغہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی پھر اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
”بہت کچھ ہے جو مجھے پریشان کرتا ہے اور کر رہا ہے مگر میں تمہارے ساتھ شیئر کرکے کیا کروں۔” صبغہ آہستہ سے بولی۔ ”تم کوئی حل نکال سکتی ہو نہ مدد کر سکتی ہو۔ تم گھر میں سب سے بڑی ہو جن چیزوں کے بارے میں میں سوچ رہی ہوں ان کے بارے میں تمہیں سوچنا چاہیے یا کم از کم تم کو ”بھی” سوچنا چاہیے۔”
لاشعوری طور پر صبغہ کے لہجے میں تلخی آگئی۔ ”مگر تم۔ تم چار سال کے بچے کی طرح اپنی زندگی کے بارے میں سوچتی ہو۔ طلحہ تمہارے لیے لالی پاپ تھا۔ وہ کسی نے تم سے چھین لیا۔ اب جب تک کوئی تمہیں لالی پاپ دے نہیں دے گا۔ تم اسی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر روتی رہو گی۔”
امبر پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرے دیکھ رہی تھی۔
”تمہیں پتا ہے میں صبح اس گھر سے نکلتی ہوں سارا دن باہر رہتی ہوں تو مجھے کس کی فکر ہوتی ہے؟ ممی کی، زارا کی، رابعہ کی؟ نہیں۔ صرف تمہاری کہ تم گھر سے باہر نہ چلی جاؤ۔ یا تم نے اپنی میڈیسن ٹھیک طریقے سے نہ لی ہوں یا تم کسی بات پر ممی سے جھگڑا نہ کرو۔ مگر تم سکینڈ کے ہزارویں حصے میں بھی اپنے سے وابستہ دوسرے لوگوں کے بارے میں نہیں سوچتیں۔
صبغہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”تم ہم سب کی نظروں میں دھول جھونک کر ہارون کمال کے ساتھ چلی گئیں یہ سوچے بغیر کہ تمہاری اس حرکت کا نتیجہ کیا ہو گا۔”
”میں ہارون کمال کے ساتھ نہیں گئی۔” امبر نے بے ساختہ کہا۔
”جھوٹ نہیں بولو۔” صبغہ نے انگلی اٹھا کر سرخ چہرے کے ساتھ کہا۔ ”ایک غلط کام کرنے کے بعد تم میں اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہے کہ تم یہ مانو کہ ہاں میں نے یہ کام کیا تھا۔”
”میں اس کے ساتھ نہیں گئی۔” امبر نے اس بار تقریباً چیختے ہوئے کہا دوسرے کمرے سے منیزہ اندر آگئیں۔
”آپ نے سنا، یہ کیا کہہ رہی ہے۔ مجھ پر کیا الزام لگا رہی ہے؟” امبر نے اسی انداز میں منیزہ سے کہا۔
”بند کرو یہ سب کچھ صبغہ! وہ کہہ رہی ہے کہ وہ ہارون کے ساتھ نہیں گئی تو وہ نہیں گئی ہو گی۔” منیزہ نے جھڑکنے والے انداز میں کہا۔
”میں اس کا بینک اسٹیٹمنٹ نکلوا کر لائی ہوں۔ یہ اگر ہارون کے ساتھ نہیں گئی تو پھر کس نے اسے ہزاروں روپے کی شاپنگ کروائی ہے؟” صبغہ ناراضی سے بولی۔
”دکھاؤں تمہیں اسٹیٹمنٹ؟”صبغہ نے چیلنج کرنے والے انداز میں پوچھا۔ امبر نے اس بار کچھ نہیں کہا۔
”تمہیں یاد ہے تم ہارون کمال سے کتنی نفرت کیا کرتی تھیں؟” صبغہ نے اسے یاد دلایا اس کا لہجہ اس بار نرم تھا۔ ”تمہیں اس کی نظروں سے کتنی الجھن ہوتی تھی، تم اس کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتی تھیں اور اب۔ اب یک دم تمہارے لیے اس آدمی کے ساگھ گھومنا پھرنا قابل قبول ہو گیا ہے۔ کیسے؟”
امبر اپنے ماتھے سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی۔ ”میں تب غلط تھی۔”
صبغہ گنگ ہو گئی۔
”وہ دنیا میں واحد آدمی ہے جومجھے سمجھتا ہے۔” صبغہ نے منیزہ کو دیکھا۔
”جو مجھ سے ہمدردی رکھتا ہے۔ جومیری پرواہ کرتا ہے۔”
منیزہ بھی خاموش تھیں۔
”جس پر میں اعتبار اور بھروسہ کر سکتی ہوں۔ جو کسی بھی وقت میری مدد کر سکتا ہے۔”
”کیوں؟” صبغہ نے اس کی بات کاٹی۔
”کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔” امبر نے صبغہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ منیزہ کے دل کی دھڑکن جیسے رک گئی۔ صبغہ کے بد ترین خدشات صحیح ثابت ہو رہے تھے۔
”اور ہم سب؟، ہمیں تمہاری پرواہ نہیں ہے؟”
”نہیں، تم سب لوگ مجھے الزام دیتے ہو۔” امبر نے قطعی انداز میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
”تم، ممی، تمہارے نزدیک میں برائی کی جڑ ہوں۔” امبر کے لہجے میں آگ تھی۔ ”میری وجہ سے گھر ٹوٹا ہے۔ میں خود غرض ہوں۔ میں آوارہ ہوں، میں، میں…”
وہ بات کرتے کرتے رکی۔
”ہارون کمال ایسا نہیں سمجھتا۔ تم میں اور اس میں یہی فرق ہے۔ وہ مجھے Blame نہیں کرتا۔”
”وہ کیوں تمہیں کسی چیز کے لیے Blame کرے گا۔”صبغہ نے رنجیدگی سے کہا۔ ”اس کا ہماری زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارا دکھ اس کا دکھ نہیں ہے۔ ہماری تکلیف اس کی تکلیف نہیں ہے۔ وہ کھوکھلی باتیں کرتا ہے تم سے۔”
صبغہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو امبر نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”تم صبغہ! مجھ سے جیلس ہوتی ہو کیونکہ تمہاری زندگی میں کوئی ہارون کمال نہیں ہے۔”
”میں لعنت بھیجتی ہوں ہارون کمال اور اس کی صنف کے سارے لوگوں پر۔” صبغہ نے اس کی بات کاٹ کر سرخ چہرے کے ساتھ کہا۔
”تم جیلس ہوتی ہو کہ تمہاری زندگی میں ایسا کوئی نہیں جو ہارون کمال کی طرح تمہارے لینے سے پہلے بازار کی ہر چیز اٹھا کر تمہارے سامنے رکھ دے۔”
وہ وہی سب کچھ کہہ رہی تھی جو ہارون کمال نے اس سے کہا تھا۔ صبغہ اس کی زبان سے نکلنے والے زہر کی تلخی محسوس کر رہی تھی۔
”اور تمہاری زندگی میں ایسا کوئی نہیں ہے جو تمہارے ایک اشارے پر تمہارے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو۔”
صبغہ بول نہیں پارہی تھی۔
”اورتم جیلس ہو کیونکہ تم نے سب کچھ کھو دیا ہے اور میں نے ابھی سب کچھ نہیں کھویا۔”
صبغہ نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
”ہاں، میں ہارون کے ساتھ گئی تھی۔” امبر نے با آواز بلند کہا۔ ”ہاں اس نے مجھے شاپنگ کروائی تھی۔”
منیزہ کا چہرہ فق ہو رہا تھا۔
”اور میں آئندہ بھی اس سے ملوں گی۔” اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”تمہارے بقول میں سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اس سے ملنے گئی۔ اب میں بغیر دھول جھونکے جاؤں گی۔”
وہ ایک لمحہ کے لیے رکی۔ اس نے صبغہ کی آنکھوں میں اترتی ہوئی نمی کو دیکھا اور پھر کہا۔
”اور چونکہ تم نے مجھے یہ احساس دلا دیا ہے کہ میں گھر میں سب سے بڑی ہوں تو پھر میں تمہیں یہ مشورہ دیتی ہوں کہ تم میری جگہ لینے کی کوشش نہ کرو۔”
صبغہ کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔
”تم نے اتنے عرصے چیزوں کو اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کی اور تم ہمیں ڈیفنس سے یہاں لے آئی ہو اب مجھے سب کچھ کرنے دو اور دیکھو کہ میں تم سب کو کہاں لے کر جاتی ہوں۔”
صبغہ اٹھ کر کھڑی ہوئی پھر تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔
”تم…” منیزہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر امبر نے ہاتھ اٹھا کر سختی سے ان کی بات کاٹ دی۔
”کافی باتیں ہو گئیں ہیں۔ آج کے لیے اتنا کافی ہے۔” وہ دوبارہ اسی انداز میں بیڈ پر چت لیٹ گئی۔ اس نے اپنی آنکھوں پر بازو رکھ لیا تھا۔ منیزہ کچھ دیر چپ چاپ اسے دیکھتی رہیں پھر کمرے سے باہر نکل گئیں۔
٭٭٭