”تم مجھے یہ بتاؤ کہ آج کل کوئی اور کمرشل کر رہے ہو؟”
”ہاں کچھ دنوںتک ایک اور کمرشل شروع ہو گا۔ وہ تمہارے ساتھ ہی ہے۔”
”نہیں اس کا مجھے پتا ہے۔ مگر اس کے علاوہ کوئی اور؟”
”نہیں فی الحال تو نہیں، مجھے اپنا پورٹ فولیو بنوانا ہے مگر وہ ابھی تک نہیں بنوا سکا۔ ایگزامز کی وجہ سے بزی تھا۔ اب بنواؤں گا۔”
”کہاں سے بنواؤ گے؟” نایاب نے پوچھا۔
”ذیشان صاحب نے ایک آدمی کا نام دیا ہے۔ اس کے پاس جاؤں گا۔”
”پھر آگے کیا کرو گے؟”
”میں این سی اے جانا چاہتا ہوں۔ گرافک ڈیزائننگ میں ڈگری لینا چاہتا ہوں۔”
”ونڈر فل میں بھی NCA میں ایڈمیشن لوں گی۔ تم کو اگر اس سلسلے میں کوئی مدد کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہنا۔”
”نہیں، مجھے امید ہے مجھے کسی مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔”
”دیکھتے ہیں تمہیںمیری ضرورت پڑتی ہے یا نہیں۔” نایاب نے دعویٰ کرنے والے انداز میں کہا۔ ”ویسے میں جب NCA جوائن کر لوں گی تو ماڈلنگ چھوڑ دوں گی۔ اس نے ثمر کو اپنے آئندہ ارادے سے آگاہ کیا۔
”کیوں؟”
”کیونکہ میں ایک وقت میں دو کام نہیں کر سکتی اور پھر ماڈلنگ تو بس شوقیہ کر رہی ہوں۔ تمہارا کیا ارادہ ہے؟”
”میں NCA چھوڑ دوں گا ماڈلنگ نہیں۔”
”کیا مطلب؟”
”مطلب یہ کہ یہ میرا کیرئیر ہے۔”
”شوبز؟”
”ہاں شوبز، مجھے اسی میں اپنا کیرئر بنانا ہے۔”
”یعنی پروفیشنل ماڈل بننا ہے؟”
” صرف ماڈل نہیںایکٹر بھی۔”
”تو پھر NCA میں جانے کا کیا فائدہ؟”
”کوئی فائدہ نہیں مگر میری امی چاہتی ہیں کہ میں تعلیم مکمل کروں تو سمجھو بس وعدہ پورا کرنا ہے۔”
”اچھی بات ہے مگر میں تو اسے بہت جلد چھوڑ دوں گی۔ اب پھر تمہیں یہ آفر کروں گی کہ تمہیں کوئی مدد کی ضرورت ہو تومجھ سے کہنا، تو تمہیں برا لگے گا اور تم کہو گے کہ تمہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
”نہیں ، مجھے برا نہیں لگے گا مگر میں کہوں گا یہی کہ مجھے ضرورت نہیں پڑے گی۔”
”میں سمجھتی ہوں تم میں اتنا ٹیلنٹ ہے ثمر! کہ تمہیں واقعی کسی کی مدد کی زیادہ ضرورت نہیں پڑے گی۔” نایاب نے یک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”تم بڑی آسانی سے ٹاپ ماڈل اور ایکٹر بن سکتے ہو۔”
ثمر مسکرایا۔ ”تم مجھ سے یہ نہیں پوچھو گی کہ مجھے جانا کہاں ہے؟”
”اوہ سوری۔ میں نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ تمہارا گھر کہاں ہے؟” نایاب کو یک دم خیال آیا۔
ثمر اسے اپنا ایڈریس بتانے لگا۔ ”تمہیں مشکل ہو گی نایاب! اندرون شہر تم کبھی نہیں گئی ہو گی۔ بہتر ہے تم مجھے بس اسٹاپ پر اتار دو۔ میں چلا جاؤں گا۔” ثمر نے ایک بار پھر کہا۔
”جہاں انسان کبھی نہ گیا ہو وہاں ضرور جانا چاہیے۔ اور پھر میں نے تمہارے گھر پر چائے پینی ہے۔” نایاب نے بے تکلفی سے کہا۔
”کیا؟” ثمر یک دم گڑبڑایا۔
نایاب بے اختیار ہنسی۔ ”سوری۔ یہ آخری بار تھا۔ مت پلانا چائے صرف ڈراپ کروں گی تمہیں۔”
”میں نے سوچا شاید تم آج مجھے جوتے کھلوانے کا ارادہ رکھتی ہو۔” ثمر بھی مسکرانے لگا۔
”کیوں؟” نایاب نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔
”میں جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں اگر میں شام کے وقت جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس کوئی لڑکی اپنے ساتھ گھر لے کر جاؤں گا تو کئی لوگوں کی انگلیاں مجھ پر اٹھیں گی اور پھر ہمارے گھر کا ماحول بھی اتنا لبرل نہیں ہے کہ میں اپنی امی سے جاکر کہوں کہ اس سے ملیں یہ ہے نایاب، میری دوست۔”
”مگر تم کمرشلز میں کام کر رہے ہو۔”
”کمرشلز میرے گھر پر نہیں ہوتے نایاب! نہ ہی ابھی کوئی میرے محلے میں یہ جانتا ہے کہ میں نے کمرشلز میں کام شروع کر دیا ہے۔”
”ہوں سمجھی۔” نایاب بھی کچھ سنجیدہ ہو گئی۔ ”تو کیا تم اسی لیے مجھے بار بار منع کر رہے ہو کہ میں تمہیں چھوڑنے نہ جاؤں؟”
ثمر نے اس بار گہرا سانس لیا۔ وہ بلاشبہ بے حد ذہین تھی۔
”ہاں میں وہاں تمہاری گاڑی سے اتروں گا تو یہ مناسب نہیں لگے گا۔” ثمر نے کہا۔
”ٹھیک ہے، میں تمہیں تمہارے علاقے کے قریب کسی بس اسٹاپ پر اترادوں گی۔ تم مجھے بتا دینا جہاں تمہیں مناسب لگے۔” نایاب نے اس بار فراخدلی سے کہا۔
”تمہارا کوئی فون نمبر ہے؟”
”نہیں۔”
”اور میرا فون نمبر، وہ ہے تمہارے پاس؟”
”نہیں، وہ بھی نہیں ہے۔”
”اچھا پھر نوٹ کرو۔” وہ اپنا موبائل نمبر ثمر کو لکھوانے لگی۔
ثمر کے کہنے پر ایک بس اسٹاپ کے پاس اس نے گاڑی روک دی۔
”ثمر! میرا بہت اچھا وقت گزرا ہے تمہارے ساتھ” ثمر خدا حافظ کہتے ہوئے دروازے کھولنے لگا تو نایاب نے کہا۔ ”مجھے خوشی ہے آج مجھے ایک اور اچھا دوست ملا ہے۔”
ثمر نے جواباً مسکرا کر اسے دیکھا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے گاڑی سے اتر گیا۔
نایاب کی گاڑی چند لمحوں میں نظروں سے اوجھل وہ گئی۔ ثمر بس اسٹاپ پر کھڑے لوگوں کے ہجوم کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا۔
٭٭٭
”آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟” صبغہ نے دروازہ کُھلنے پر منیزہ کا چہرہ دیکھتے ہی بے ساختہ پوچھا۔ منیزہ جواب دیے بغیر واپس مڑ گئیں۔ صبغہ نے دروازہ بند کرتے ہوئے منیزہ کو دیکھا۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔” منیزہ نے مڑ کر نہیں دیکھا، ”تم منہ ہاتھ دھولو میں کھانا لے کر آتی ہوں۔” وہ کہتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئیں۔
”نہیں، میں کھانا نہیں کھاؤں گی۔ میں نے ایک بیکری سے سینڈوچ لے لیا تھا۔” منیزہ نے کچن سے ہی کہا۔
”ایک سینڈوچ سے کیا ہوتا ہے۔ کئی دنوں سے تم اسی طرح دوپہر کا کھانا چھوڑ رہی ہو۔” منیزہ نے کچن سے ہی کہا۔
”ممی! اب تو ویسے بھی شام ہو رہی ہے، رات کا کھانا ہی کھاؤں گی۔ ابھی کھانا کھالوں گی تو رات کو نہیں کھا سکوں گی۔”
صبغہ نے بلند آواز میں منیزہ سے کہا۔ اپنا بیگ رکھتے ہوئے اس کی نظر امبر پر پڑی۔ جو بیڈ پر چت لیٹی تھی اس نے آنکھوں پر بازو رکھا ہوا تھا۔ صبغہ نے کرسی پر بیٹھ کر اپنے جوتوں کے تسمے کھولتے ہوئے حیرانی سے امبر کو دیکھا۔ شام کے پانچ بجنے والے تھے اور امبر اس وقت سویا نہیں کرتی تھی۔ صبغہ گھر آنے پر اکثر اسے ٹی وی دیکھتے یا کوئی کتاب پڑھتے ہوئے دیکھتی تھی مگر آج وہ سو رہی تھی یا ظاہر کر رہی تھی، اس نے صبغہ کے اندر داخل ہونے یا اس کی آواز پر بھی کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔
صبغہ نے گھر میں داخل ہونے پرمنیزہ کی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھی تھیں اور اب وہ امبر کو اس طرح چپ چاپ لیٹا دیکھ رہی تھی۔ اس کی چھٹی حِس نے اسے جیسے خبردار کیا۔ امی نے یقینا امبر سے ہارون کمال اور اس شاپنگ کے بارے میں بات کی ہو گی اور امبر، منیزہ سے الجھ پڑی ہو گی۔ اس نے امبر کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا۔
پاؤں میں چپل اڑس کر وہ اپنے کپڑے لے کر واش روم میں گھس گئی۔ نہانے کے دوران بھی وہ مسلسل امبر کے بارے میں سوچتی رہی پتا نہیں منیزہ نے کس طرح بات کی تھی او رکیا کہا تھا اور امبر نے جواباً کس رد عمل کا اظہار کیاتھا۔ اس کا ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا۔
وہ واش روم سے باہر نکلی تو منیزہ صحن میں تھیں نہ ہی کچن میں۔ صبغہ نے امبر کے کمرے میں جھانکا وہ وہاں بھی نہیں تھیں۔ پھر وہ دوسرے کمرے میں چلی آتی۔ منیزہ، زارا اور رابعہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ دونوں اپنا ہوم ورک کر رہی تھیں۔
”آپ نے امبر سے کوئی بات کی ہے؟” صبغہ نے منیزہ کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”کیسی بات؟” منیزہ نے قدرے چونک کر اس سے پوچھا۔
”ہارون کمال اور شاپنگ کے بارے میں؟” صبغہ نے انہیں یاد دلایا۔
”نہیں۔” منیزہ نے سرہلایا۔
”پھر امبر کو کیا ہوا ہے؟” صبغہ کو یک دم تعجب ہوا۔
”کیا ہوا ہے؟” منیزہ نے اس کا سوال دہرایا۔ صبغہ کو ان کا لہجہ عجیب سا لگا۔
”وہ اس وقت سو رہی ہے۔ عام طور پر تو اس وقت نہیں سوتی۔”
”ہاں عام طور پر تو اس وقت نہیں سوتی۔” منیزہ نے جیسے بڑبڑانے والے انداز میں کہا۔
”تو پھر اس کو اٹھا دیں۔ شام ہو رہی ہے۔”
”نہیں، اسے سویا رہنے دو۔”
”کیوں؟ کیا طبیعت خراب ہے اس کی؟” صبغہ کو یک دم تشویش ہوئی۔
”نہیں، طبیعت تو ٹھیک ہے۔”
”پھر؟” صبغہ نے الجھی ہوئی نظروں سے منیزہ کا چہرہ دیکھا کچھ نہ کچھ یقینا غلط تھا۔ منیزہ نے ایک لفافہ اس کی طرف بڑھا دیا۔
”یہ کیا ہے؟” صبغہ مزید الجھی۔
”آج بھابھی آئی تھیں۔”
”اوہ…” صبغہ نے بے اختیار کہا۔ ”کیا انہوں نے کچھ کہا ہے۔ آپ سے یا امبر سے؟” صبغہ نے لفافہ تھامتے ہوئے پوچھا۔
”وہ کیا کہیں گی۔ ان کی کہی ہوئی کوئی بات تو اب ہمیں بری بھی نہیںلگتی۔” منیزہ تلخی سے مسکرائیں۔ ان کے پاس رہ کر عادت ہو گئی ہے، ہمیں یہ سب کچھ سننے کی۔ اب اتنے دنوں بعد اگر چند اور طنز کر گئی ہیں تو کیا برا ماننا۔”
صبغہ تب تک لفافہ کھول کر اس کے اندر سے چیک نکال چکی تھی۔ وہ پچیس ہزار کا چیک تھا۔
”پاپا نے بھجوایا ہے؟ کیا وہ آئے تھے یہاں؟” صبغہ نے بے اختیار کہا۔
”نہیں۔ بھابھی دے کر گئی ہیں۔ صفدر بھائی کے ہاں بھجوایا تھا اس نے۔” منیزہ نے بتایا۔
”تو کیا اس بات پر امبر کا موڈ آف ہوا ہے؟”
”نہیں، امبر کو تو میں نے ابھی اس چیک کے بارے میں بتایا ہی نہیں۔” منیزہ نے کہا صبغہ اب چیک واپس لفافے میں ڈال رہی تھی۔
”پاپا نے کس لیے بھجوایا ہے یہ چیک؟”
”تم لوگوں کے ماہانہ اخراجات کے لیے۔ وہ اب ہر ماہ اسی طرح ہمیں چیک بھجوایا کرے گا۔ پچیس ہزار کا چیک اس کے نزدیک ہماری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ اب جب ہم دو کمرے کے اس جھونپڑی نما گھر او راس خستہ حال علاقے میں آکر رہنے لگے ہیں اور بچوں کا اسکول تبدیل کروا دیا ہے تو اسے یاد آگیا ہے کہ بھیک کے نام پر ہر ماہ کچھ نہ کچھ ہمیں خیرات کرنا اس کا فرض ہے۔”
”ممی! یہ بھی بہت ہے کہ انہیں خیال آگیا ہے۔ وہ کچھ نہیں بھجوا رہے تھے تو ہم نے ان کا کیا بگاڑ لیا۔” صبغہ نے لفافہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ ”جن حالات میں ہم رہ رہے ہیں پچیس ہزار ہمارے لیے بہت کافی ہیں۔ اگر پاپا ہر ماہ اتنی رقم ہمیں بھجواتے رہیں تو ہم بہت آسانی سے زندگی گزار سکیں گے بلکہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ بچا بھی لیا کریں گے۔” صبغہ کے چہرے پر اطمینان تھا۔
”پچیس ہزار سے کیا بچائیں گے؟” منیزہ کو صبغہ کی بات پر طیش آیا۔ ”کیا ساری زندگی یہاں اسی علاقے میںرہ کر ہر ماہ میں پیسے جوڑتی رہا کروں گی اور تمہارا باپ اور ا سکی دوسری بیوی ساری دنیا میں عیش کرتے پھریں گے۔”
”پاپا اگر پچیس ہزار ہمیں ہر ماہ بھجواتے رہیں تو ہم کسی بہتر علاقے میں جا سکیں گے، میں کوئی جاب کر لوں گی۔ حالات بہتر ہو جائیں گے ممی! بہر حال آج کا دن اچھا ہے۔”
صبغہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کے کندھوں سے یک دم جیسے کوئی بوجھ اتر گیا تھا۔ ہر ماہ ایک معقول رقم آنے کا مطلب تھا کہ اس کو فوری طور پر کسی جاب کی ضرورت نہ پڑتی وہ اپنی تعلیم دوبارہ شروع کر سکتی تھی اور ساتھ پارٹ ٹائم کوئی چھوٹا موٹا کام بھی کر لیتی تو بھی انہیں کسی مالی مشکل کاشکار نہیں ہونا پڑتا۔
”میں نے تمہیں یہ چیک یہ بتانے کے لیے نہیں دیا کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ آج کا دن اچھا ہے یا برا۔” اس کی بات منیزہ کو اور بری لگی۔ ”میں نے تمہیں یہ چیک اس لیے دیا ہے کہ تم جاکر اسے منصور کے منہ پر مارو اور اس سے کہو کہ یہ خیرات ہمیں نہیں چاہیے۔”
صبغہ ہکا بکا منیزہ کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ”مطلب؟”
”مطلب یہ کہ ہمیں اس کی رقم کی ضرورت نہیں ہے۔”
”آپ نے خود ہارون کمال سے کہا تھا کہ وہ پاپا کو مجبور کرے کہ وہ ہر ماہ ہمیں اخراجات کے لیے کچھ رقم دیں۔” صبغہ نے یاد دلایا۔ ”اور اب جب انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا ہے تو آپ کو اس رقم کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ چاہتی ہیں یہ رقم ان کے منہ پر ماری جائے؟”
”منصور کے نزدیک پانچ افراد کے ماہانہ اخراجات صرف پچیس ہزار روپے ہیں۔ بس اتنا کافی ہے؟ جب ہم اس گھر میں رہتے تھے تب ساٹھ ستر ہزار روپے خرچ کرتی تھی میں۔ گھر کے یوٹیلٹی اور گروسری کے بلز وہ خود دیا کرتا تھا اور اب جب سب کچھ ہمیں کرنا ہے تو بس پچیس ہزار۔” منیزہ غصے میں بات مکمل نہیں کر سکیں۔
”وہ ”تب” تھا ممی! یہ ”اب” ہے۔ ہم پاپا کومجبور نہیں کر سکتے کہ وہ ہمیں اپنے اخراجات کے لیے اتنی رقم دیں جتنی وہ پہلے دیتے تھے۔” صبغہ نے رسانیت سے کہا۔ ”ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ یہ یاد رکھیں کہ ہم ”ہیں” اور ان کی ذمہ داری ہیں۔” وہ تحمل سے بولی۔
”اگر وہ شخص ہمیں ایک اچھے گھر میں نہیں رکھ سکتا تو پھر ایسے گھر میں رہ کر ہمیں اس کے ٹکڑوں پر پلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔” منیزہ نے جیسے صبغہ کی سب باتوں کو رد کرتے ہوئے کہا۔
”یہ ”ٹکڑے” نہں ہیں ممی! ہمارا حق ہے۔ ہم پاپا کی اولاد ہیں۔ ہماری کفالت ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔” صبغہ نے ماں کا غصہ کم کرنے کی کوشش کی۔
”ایسی کفالت کہ ہم چیزوں کے لیے ترسیں؟”
”ہم نہیں ترسیں گے۔ اگر اتنے روپے آگئے ہیں تو پھر ہو سکتا ہے کچھ عرصہ کے بعد پاپا کو خیال آئے کہ انہیںہمیں کوئی گھر بھی لے دینا چاہیے۔ یا پھر اس رقم کو بڑھا دینا چاہیے۔ پھر آپ یہ بھی سوچیں کہ روشان بڑا ہو رہا ہے جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا تو ہو سکتا ہے وہ ہمیں سپورٹ کرے۔” صبغہ نے کہا۔
”روشان، وہ ہمیں سپورٹ کرے گا؟” منیزہ کے لہجے میں اب بھی تلخی تھی مگر اب ان کی آواز دھیمی ہو گئی تھی۔ ”اس نے باپ کے ساتھ رہنے کو ماں کے ساتھ رہنے پر ترجیح دی۔ اتنے عرصے میں ایک بارماں کوشکل دکھانے کی زحمت نہیں کی اور تم مجھے سبز باغ دکھا رہی ہو کہ وہ ہمیں سپورٹ کرے گا۔”