”السلام علیکم، آنٹی گھر پر ہیں؟” دروازہ شہیر نے کھولا تھا اور صبغہ نے کسی تمہید کے بغیر فوراً فاطمہ کے بارے میں استفسار کیا تھا۔
”جی وہ گھر پر ہیں۔ آپ اندر آجائیں۔” شہیر نے دروازے کے سامنے سے ہٹتے ہوئے کہا۔ صبغہ اندر داخل ہوگئی۔
”آپ کمرے میں چلی جائیں۔ وہ نماز پڑھ رہی ہیں۔” شہیر نے اس کے عقب میں دروازہ بند کرتے ہوئے اس سے کہا۔
”جی!” صبغہ نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ اب دوسرے کمرے کی طرف جارہا تھا۔ صبغہ کو ایک بار پھر اس کی شباہت نے عجیب سا احساس دیا۔ اسے یقین تھا وہ شہیر کو پہلے کہیں دیکھ چکی ہے۔
وہ کمرے میں داخل ہو گئی فاطمہ نماز تقریباً ختم کرنے والی تھی۔ صبغہ کرسی پر جا کر بیٹھ گئی۔ فاطمہ نے چند لمحوں کے بعد سلام پھیرا۔
”السلام علیکم آنٹی!” صبغہ نے اسے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام، کیسی ہو صبغہ؟”
”میں ٹھیک ہوں، ہماری لائٹ چلی گئی ہے۔ باقی محلے میں ہے، میں الیکٹریشن کو بلوانا چاہتی ہوں۔” صبغہ نے اپنا مسئلہ بتایا۔
”فیوز اڑ گیا ہو گا۔” الیکٹریشن کی ضرورت نہیں۔ شہیر فیوز لگا دیتا ہے۔” فاطمہ نے جائے نماز سے اٹھتے ہوئے کہا۔
”نہیں نہیں آنٹی! آپ انہیں ڈسٹرب نہ کریں۔ میں صرف یہ چاہتی تھی کہ الیکٹریشن کا فون نمبر یا جگہ بتا دیں میں جاکر اسے لے آتی ہوں۔” صبغہ نے کہا۔
”بیٹا! یہ اتنا بڑا کام نہیں ہے کہ اس کے لیے الیکٹریشن کی ضرورت پڑے۔” فاطمہ نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا۔ ”اور پھر اندھیرا ہو چکا ہے اس وقت تم الیکٹریشن کو لینے جاؤ گی۔” وہ کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔
”شہیر بیٹا! ذرا صبغہ کے ساتھ چلے جاؤ۔ ان کے گھر کا فیوز اڑ گیا ہے۔ اسے لگا دو۔” صبغہ نے وہاں بیٹھے ہوئے ساتھ والے کمرے میں فاطمہ کو شہیر سے کہتے سنا۔
”میں چلا جاتا ہوں، آپ نے ثمر سے ثانی کو لانے کے لیے کہہ دیا ہے؟”
”نہیں، ابھی آتا ہے تو پھر بھیجتی ہوں۔ بس آنے ہی والا ہو گا۔” فاطمہ نے کہا اور دوبارہ اپنے کمرے میں واپس آگئی۔
صبغہ تب تک کھڑی ہو چکی تھی۔ ”جاؤ بیٹا! میں نے شہیر سے کہہ دیا ہے، وہ دیکھ لے گا۔” فاطمہ کہتے ہوئے دوبارہ جائے نماز کی طرف بڑھ گئی۔ صبغہ اسے سلام کرکے باہر صحن میں آگئی۔
چند منٹوں بعد ہاتھ میں تار کاٹکڑا لیے شہیر آگیا۔ ”آئیے۔” اس نے صبغہ سے کہتے ہوئے اور اسے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔
وہ صبغہ کے ساتھ اس کے گھر داخل ہوا تو۔ منیزہ صحن میں ہی کھڑی تھیں۔ منیزہ نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں صبغہ کو شہیر کے ساتھ آتے دیکھا۔ شہیر نے رسمی سے انداز میں انہیں سلام کیا۔
”ممی! یہ شہیر ہیں۔ فاطمہ آنٹی کہہ رہی تھیں کہ فیوز اڑ گیا ہوگا۔ شہیر ٹھیک کردیں گے۔” شہیر منتظر تھا کہ صبغہ بیٹری لے کر اس کے پاس آئے تو وہ اپنا کام شروع کرے۔ منیزہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا اور بیٹری صبغہ کو تھما کر اندر کمرے میں چلی گئیں۔
شہیر تب تک دیوار پر لگے فیوز باکس کی طرف جاچکا تھا صبغہ بیٹری لے کرا سکے پاس کھڑی ہو گئی۔ فیوز واقعی اڑا ہوا تھا۔ شہیر کو فیوز لگاتے ہوئے ایک دو چیزوں کی ضرورت پڑی۔ صبغہ بیٹری اسے تھما کر اندر آتی جاتی رہی۔ شہیر کو فیوز لگانے میں چند منٹ لگے تھے۔ ایک جھماکے کے ساتھ صحن میں لگا بلب روشن ہو گیا۔
لائٹ آتے ہی منیزہ کمرے میں آن ٹارچ بند کرتے ہوئے باہر نکل آئیں۔
”آپ بیٹھیں، میں آپ کے لیے چائے بناتی ہوں۔” صبغہ نے رسماً شہیر سے کہا۔
”نہیں شکریہ، اس کی ضرورت نہیں۔” اس نے کہا اور بیرونی دروازہ بند کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔
صبغہ مڑی تو اس نے منیزہ کو صحن میں کھڑے دیکھا۔
”آپ کو اسے بیٹھنے کے لیے کہنا چاہیے تھا۔”
”کیوں؟ اس سے ہمارا کیا رشتہ ہے جو میں اسے بیٹھنے کے لیے کہتی۔” منیزہ نے تیکھے انداز میں کہا۔ ”اور تمہیں اسے چائے کی دعوت دینے کی کیا ضرورت تھی۔”
”میں نے اسے چائے کی دعوت نہیں دی تھی صرف چائے کا پوچھا تھا۔” صبغہ ہلکی سی خفگی کے ساتھ بولی۔
اپنے صحن میں قدم دھرتے شہیر کے پاؤں رک گئے۔ وہ ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو آسانی سے سن سکتا تھا۔
”چائے کا پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔” منیزہ نے اسی انداز میں کہا۔
”ممی! اس نے گھر آکر ہماری مدد کی۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم۔” منیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں نے تمہیں ان کے گھر اس لیے بھیجا تھا کہ تم الیکٹریشن کاپوچھ کر آؤ، یہ نہیں کہا تھا کہ تم ان کے بیٹے کو لے آؤ۔”
”فاطمہ آنٹی نے خود بھیجا تھا اسے، وہ کہہ رہی تھیں کہ معمولی کام ہے۔ شہیر کر دے گا۔”
”تمہاری اس فاطمہ آنٹی کو ہم سے ضرورت سے زیادہ ہمدردی ہے۔ انہیں تو موقع ملنا چاہیے ہماری مدد کرنے کا۔” منیزہ نے قدرے تنفر سے کہا۔
”آپ کو ایسے نہیں کہنا چاہیے ممی! وہ اچھی خاتون ہیں۔ اگر وہ ہماری مدد نہ کرتیں تو کتنے مسائل پیدا ہو جائے اس محلے میں ہمارے لیے۔” صبغہ نے قدرے جتانے والے انداز میں کہا۔
”ان کی وجہ سے کوئی زندگی اور قسمت بدل نہیں گئی ہماری اور تمہیں اتنا احسان مند ہونے کی ضرورت ہے نہ ہی ان سے اتنے تعلقات بڑھانے کی۔” منیزہ نے تنبیہہ کرنے والے انداز میں کہا۔
”وہ ہمارے برابر کے لوگ نہیں ہیں، اس محلے میں آکر رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان جیسے ہو گئے ہیں۔”
”یہاں بھی انسان رہتے ہیں ممی! اور انسانوں میں کیٹیگریز نہیں ہوتیں۔”
”خاندانوں میں تو ہوتی ہیں ناں اور ہم کم از کم خاندانی لوگ ہیں۔”
”آپ بے کار کی بحث کر رہی ہیں ممی! میں نے آپ سے صرف یہ ریکویسٹ کی تھی کہ کوئی بھی اگر ہمارے لیے کچھ کرے تو اس کا شکریہ ادا کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہوتا۔” صبغہ نے بات ختم کرنے کی غرض سے کہا۔
”آپ اگر ہارون کمال کو اس کی عنایتوں کے لیے سراہ سکتی ہیں تو پھر ہمارے آس پاس رہنے والے لوگوں کو بھی…”
”تم ہارون کمال کا مقابلہ ان لوگوں سے کر رہی ہو؟”
”میں کسی کا مقابلہ کسی سے نہیں کر رہی۔ میں صرف رویے کی بات کر رہی ہوں۔ اس بات کو ختم کریں اب۔” صبغہ نے بیزاری سے کہا اور اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ بے حد جھنجھلائی ہوئی تھی۔
دیوار کے دوسری طرف صحن میں کھڑے شہیر نے ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سنی تھی اور اسے بے حد غصہ آیا تھا۔ زندگی پہلی بار اس نے خاندن اور برابری کی بات سنی تھی اور وہ بھی کسی ایسی عورت کے منہ سے جو اسی جیسے ایک مکان میں اسی کے محلے میں رہائش پذیر تھی۔
دو کمرے کے ایک گھر میں ساری زندگی گزارنے کے باوجود اس نے اس محلے میں اپنی ماں کی وجہ سے بے پناہ عزت پائی تھی۔ لوگ فاطمہ کے بچوں کا فاطمہ کی وجہ سے احترام کرتے تھے اور اس کے بعد ان کے اپنے کردار کی وجہ سے ان کی قدر۔ اس نے کبھی یہاں کسی سے یہ نہیں سنا تھا کہ اس کا خاندان کسی کے خاندان سے کمتر تھا جبکہ اسی محلے میں بہت صاحب حیثیت لوگ بھی رہتے تھے اور آج پہلی بار وہ اس گھر میں اپنے خاندان کے حوالے سے گفتگو سن رہا تھا جن کی فاطمہ پچھلے کئی ہفتوں سے وقتاً فوقتاً مدد کرتی آرہی تھی اور وہ گھر اس مدد کو کس رنگ میں دیکھ رہا تھا۔ اس وقت وہاں کھڑے اس کے دل میں منیزہ کے لیے میل آگیا تھا۔
٭٭٭
”میں نے سوچا، میں دیکھ کر تو آؤں۔ اتنے ہفتے ہو گئے سب کچھ کیسا چل رہا ہے؟”
صفدر کی بیوی اس دن منیزہ کے ہاں آئی ہوئی تھیں گھر کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اب وہ منیزہ کے پاس کمرے میں بیٹھی تھیں۔
صبغہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھی جبکہ زارا اور رابعہ اسکول گئی ہوئی تھیں۔ صرف امبر گھر پر تھی اور وہ چائے بنا رہی تھی۔
”گھر ٹھیک ہی ہے، تم لوگوں کے لیے تو کافی ہے۔”
منیزہ نے سرہلا دیا۔ دو کمرے ان کے سرونٹ کوارٹرز میں ہوتے تھے اور وہ انہیں اس طبقے کے لیے بھی کافی نہیں سمجھتی تھیں اور اب وہ انہیں بتا رہی تھیں کہ دو کمرے ان کے لیے بہت کافی تھے۔
”محلہ بھی مجھے ٹھیک ٹھاک ہی لگ رہا ہے۔ اتنے کم پیسوں میں اتنا اچھا مکان آج کل کہاں ملتا ہے۔” منیزہ نے اس بار بھی کچھ کہنے کی بجائے صرف سرہلادیا۔
”صبغہ کہاں ہے نظر نہیں آرہی؟” انہیں یک دم صبغہ کا خیال آیا۔
”وہ کسی کام سے باہر گئی ہوئی ہے۔”
”جاب مل گئی اسے؟”
”نہیں ابھی ڈھونڈ رہی ہے۔”
”ہاں جاب ملنا بھی تو آج کل بہت مشکل ہے، اتنے کوالیفائیڈ لوگوں کو نہیں ملتی اس نے تو صرف اے لیولز کیا ہوا ہے۔” منیزہ ان کے اس تبصرے پر کڑھ کر رہ گئیں۔
”تم اس سے کہو کہیں ریسپشنسٹ یا سیکریٹری کی جاب کرلے آج کل صرف یہ جاب ہے جو آسانی سے مل جاتی ہے کم پڑھی لکھی لڑکیوں کو۔ بس اس جاب میں مسائل بڑے ہوتے ہیں لیکن مجبوری میں انسان کیا نہیں کرتا۔”
منیزہ نے اس بار بھی ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔
”اور سنا ہے زارا اور رابعہ کا اسکول تبدیل کر دیا تم نے؟ مجھے عائشہ نے بتایا تھا۔” انہوں نے اپنی بیٹی کا نام لیتے ہوئے کہا جو رابعہ اور زارا کی کلاس فیلو تھی۔
”ہاں، اب اتنا مہنگا اسکول افورڈ کرنا مشکل تھا پھر ہمارے گھر سے بہت فاصلے پرتھا۔” منیزہ نے بالآخر خاموشی توڑی۔
”اچھا کیا تم نے، جتنی بچت تم لوگ کر سکتے ہو تمہیں کرنا چاہیے کل کو کام آئے گی۔ چار بیٹیوں کو بیاہنا آسان کام تو نہیں۔”
”تب ہی امبر چائے کی ٹرے لے کر اندر داخل ہوئی۔ صفدر کی بیوی کی توجہ امبر کی طرف مبذول ہو گئی۔
”ارے، امبر چائے بنا رہی تھی؟ چائے بناناآتا ہے امبر کو؟یا ابھی سیکھی؟” انہوں نے بے حد تعجب کا اظہار کرتے ہوئے امبر سے پوچھا۔
”چائے بنانا پہلے بھی آتی تھی مجھے۔” امبر نے مدھم آواز میں ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
‘لیکن پہلے کبھی میں نے تمہیں بناتے نہیں دیکھا اس لیے حیران ہو رہی تھی میں۔” صفدر کی بیوی نے بڑی معصومیت سے کہا۔
”امبر آج کل کیا کر رہی ہے؟”
کچھ نہیں گھر پر ہی ہوتی ہے۔” منیزہ نے امبر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا ”کھانا وغیرہ بھی بنا لیتی ہو گی پھر تو؟”
”نہیں وہ میں ہی بناتی ہوں۔” منیزہ نے ایک بار پھر مداخلت کی۔ امبر خاموشی سے چائے بنانے میں مصروف رہی۔
”گھر میں بے کار بٹھائے رکھنے کا کیا فائدہ ہے۔ تمہیں اب امبر کے لیے رشتہ ڈھونڈنا چاہیئے۔”
امبر نے چائے بناتے بناتے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
”ابھی تو گھر تبدیل کیا ہے۔ کچھ سیٹ ہو جائیں پھر میں یہ کام بھی کروں گی۔” منیزہ نے جلدی سے کہا۔ امبر نے کپ ان کی طرف بڑھا دیا۔
”اب جتنی جلدی یہ کام کر سکتی ہو، کرو۔” صفدر کی بیوی نے کپ پکڑتے ہوئے کہا۔
”ارے ہاں، طلحہ کی شادی ہو رہی ہے۔ تمہیں پتہ ہے؟”
امبر کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ صفدر کی بیوی کے لہجے میں بلا کا اطمینان تھا۔ منیزہ چند لمحے کچھ بول نہیں سکیں۔ انہوں نے ایک نظر امبر کو دیکھا جس کا چہرہ سفید ہو رہا تھا اور وہ صفدر کی بیوی کی طرف دیکھ رہی تھی پھر انہوں نے صفدر کی بیوی کو دیکھا جو اب اطمینان کے ساتھ چائے کے گھونٹ لے رہی تھیں۔
”نہیں، مجھے نہیں پتا۔” منیزہ نے بمشکل کہا۔
”ہاں واقعی، تمہیں کیسے پتا ہوگا۔ تم لوگ تو یہاں آکر سب سے کٹ کرہی رہ گئے ہو۔” صفدر کی بیوی نے بات جاری رکھی۔
”جب ہم سے ان کا رشتہ ختم ہو گیا تو پھر وہ اس کی شادی کریں نہ کریں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔” منیزہ نے اس بار قدرے سختی سے کہا۔
”ہاں، میں سمجھتی ہوں۔ لیکن میں تو تمہیں بتانا چاہ رہی تھی کہ اس کی شادی سعدیہ سے ہو رہی ہے۔”
”کون سعدیہ؟” منیزہ کے منہ سے بے اختیار نکلا مگر یہ سوال نہیں تھا۔ وہ جانتی تھیں سعدیہ کون تھی۔
”ارے تمہاری نند کی بیٹی، امبر کی بڑی دوستی تھی اس کے ساتھ، کالج میں دونوں اکٹھے ہی تو پڑھتی تھیں۔”صفدر کی بیوی نے جتانے والے اندازمیں مبر کو دیکھا۔ اس بار منیزہ کچھ نہیں بول سکیں۔ امبر کا چہرہ کچھ اور سفید ہو گیا تھا۔ ٹیبل کا سہارا لیتے ہوئے وہ اٹھی اور کسی معمول کی طرف کمرے سے نکل گئی۔
”آپ کو امبر کے سامنے یہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا۔” منیزہ نے اس کے کمرے سے نکلنے کے بعد کہا۔
”اب تو سال سے بھی زیادہ ہو گیا اس کی طلاق کو، اب کیا فرق پڑتا ہے۔ امبر تو بھول گئی ہو گی یہ سب کچھ۔” صفدر کی بیوی کے لہجے میں بلا کا بھولپن تھا۔
”ہاں وہ سب کچھ بھول گئی ہے پھر بھی آپ کو یہ سب کچھ اس کے سامنے نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ہم اس کے سامنے طلحہ کا ذکر نہیں کرتے۔” منیزہ کے لہجے میں تھکن اتر آئی۔
”اگر میں یہ سب نہ کہتی تو کوئی اور یہ سب کہہ دیتا اب ساری دنیا تو طلحہ کا ذکر کرنا بند نہیں کر سکتی۔” صفدر کی بیوی کے لہجے میں ہلکی سی خفگی آگئی۔ ”ہمیں تو انہوں نے شادی میں بھی بلایا ہے۔ مگر تمہارے بھائی کو تمہارا اور اپنی بھانجیوں کا خیال تھا اس لیے ہم لوگ شادی پر نہیں جارہے۔ ویسے میں نے سنا ہے منصور اور مسعود کی صلح ہو گئی ہے اور منصور اور رخشی اس شادی میں جارہے ہیں۔” منیزہ کی ہمت اب جواب دے رہی تھی۔ مگر صفدر کی بیوی اطمینان سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھی پھر چائے کا کپ رکھ کر اس نے اپنا بیگ کھولا۔
”ہاں، یہ منصور نے تمہارے اور بچوں کے لیے ایک چیک بھجوایا ہے۔ اس کا پیغام بھی تھا کہ وہ ہر ماہ بچوں کے لئے کچھ رقم بھجواتا رہے گا۔” انہوں نے ایک لفافہ نکال کر منیزہ کی طرف بڑھا دیا۔ وہ چپ چاپ اس لفافے کو گھورتی رہیں۔
”تم اگر مجھے اپنا ایڈریس دے دو تو وہ یہ چیک براہِ راست یہاں پہنچا دیا کرے گا۔” صفدر کی بیوی نے اپنا بیگ بند کرتے ہوئے کہاکہ۔
”مجھے تو خوشی ہوئی کہ اس میں ابھی بھی ضمیر نام کی کوئی چیز باقی ہے ورنہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں اس نے جو کچھ کیا ہے…” وہ بات کرتے کرتے رکیں پھر اچانک پوچھا۔ ”تم نے فون لگوا لیا یا نہیں؟”
”نہیں، فون کی کیا ضرورت ہے ہمیں؟” منیزہ نے تلخی سے کہا۔
”ہاں یہ بھی ٹھیک ہے، جتنی بچت ہو سکے تمہیں کرنی چاہیے۔” صفدر کی بیو ی نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”میں اب چلتی ہوں دیر ہو رہی ہے۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا مجھے۔ تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ ماہانہ خرچہ کی تو خیر اب تمہیں ضرورت نہیں رہی مگر پھر بھی تمہارے بھائی کہہ رہے تھے کہ تم سے پوچھ لوں۔”
صفدر کی بیوی نے جاتے جاتے منیزہ کو بتا دیا تھا کہ وہ اب انہیں ماہانہ خرچ کے نام پر چند ہزار روپے بھی نہیں بھجوائیں گے جن کا صفدر نے پہلے وعدہ کیا تھا۔
صفدر کی بیوی کے جانے کے بعد منیزہ دوسرے کمرے میںآگئیں۔ امبر اپنے بیڈ پر چت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ منیزہ اس کے پاس جاکر بیڈ پر بیٹھ گئیں۔ اپنا ہاتھ اس کے بازو پر رکھتے ہوئے دھیرے سے بولیں۔
”تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مت سوچو کچھ بھی۔”
امبر نے کسی ردِّ عمل کا اظہار نہیں کیا وہ اسی طرح چھت کو گھورتی رہی۔