تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”مجھے اس طرح کی دنیا اور اس طرح کے لوگوں کے ساتھ رہنے کی عادت کبھی نہیں ہو سکتی۔ میں لاکھ کوشش کروں تب بھی نہیں۔” صبغہ نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
”تو پھر یہ مت کہو کہ یہ سب کچھ تم ہمارے لیے کرنا چاہتی ہو۔ تم یہ سب کچھ صرف اپنے لیے کر رہی ہو۔ صرف اپنے لیے کرنا چاہتی ہو۔”
”اگر صرف اپنے لیے کرنا چاہتی تو بہت عرصہ پہلے کر چکی ہوتی، یہاں اس گھر میں کبھی نہ آتی۔” امبر نے کہا۔
”تم نے اس گھر میں کئی سال نہیں گزارے کہ تم یہاں ایڈجسٹ نہ ہو سکیں چند ماہ میں۔”
امبر نے صبغہ کی بات کاٹ دی۔ ”چند ماہ…؟ چند ماہ نہیں… وہ صدیاں تھیں اور یہ مت کہو کہ میں یہ سب صرف اپنے لیے کر رہی ہوں۔ تم صبغہ… تم صرف آج کو دیکھتی ہو، میں مستقبل میں جھانک رہی ہوں اور یہاں ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے، نہ ہو سکتا ہے۔”
”حال میں بیٹھ کر مستقبل میں جھانکنے والے پاگل ہوتے ہیں۔” صبغہ نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”پھر تم مجھے پاگل کہہ لو، پر ایک وقت آئے گا جب تم میرے فیصلے کو صحیح کہو گی۔”
”میں کبھی تمھارے اس فیصلے کو صحیح نہیں کہوں گی، تم اپنے ہاتھوں سے اپنے گلے میں پھندا ڈال رہی ہو۔”
”میں اس پھندے کو اپنے گلے سے نکال رہی ہوں جسے ممی اور تم نے اپنے ساتھ ساتھ میرے گلے میں بھی ڈال دیا ہے۔” امبر کا انداز برقرار تھا۔
”کہاں شادی کرے گا وہ تم سے… پی سی میں یا آواری میں؟” صبغہ نے اس بار بے حد تیز لہجے میں کہا۔ ”پورے شہر کو بلا کر ان کے سامنے تمھیں بیوی بنائے گا یا پھر کسی فلیٹ کے ایک کمرے میں چار لوگوں کے درمیان یا کورٹ میں کوئی وکیل شادی کروائے گا تم دونوں کی؟”
امبر کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔
”جو بھی ہوگا بہت جلد تمھارے سامنے آ جائے گا، طریقہ کوئی بھی ہو، وہ مجھ سے شادی تو بہرحال کرے گا۔” اس نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اس کے ہونٹوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔




”ڈائمنڈ رنگ لوگ صرف بیوی اور منگیتر کو نہیں پہناتے اور بھی بہت سی عورتوں کو پہنا دیتے ہیں۔ صرف ایک رِنگ ہاتھ میں پہننے سے رشتے نہیں بنتے امبر!” صبغہ حتی المقدور اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”یہ رشتوں کا آغاز تو ہوتا ہے۔” امبر اپنی بات پر اڑی ہوئی تھی۔
”شائستہ، ممی جیسی عورت نہیں ہے۔ تمہارا خیال ہے کہ وہ ہارون کو تم سے شادی کرنے دے گی؟”
”اس سے اجازت لینا ہارون کا مسئلہ ہے، میرا نہیں اور ہو سکتا ہے ہارون اس کو اس شادی کے بارے میں بتائے ہی نا۔”
”شائستہ گھر میں بیٹھنے والی عورت نہیں ہے کہ نہ وہ گھر سے نکلے گی، نہ اسے کچھ پتہ چلے گا۔ اسے جب بھی پتا چلے گا، وہ…”
امبر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”ہم خفیہ شادی کریں گے، کسی کو بھی اس شادی کے بارے میں نہیں بتائیں گے۔”
”خفیہ شادی کا مطلب جانتی ہو تم؟”
”بہت اچھی طرح، اپنے باپ کو ایسی شادی کرتا دیکھ چکی ہوں۔”
”اور اس کا انجام بھی دیکھ چکی ہو۔”
”کیسا انجام؟” امبر تلخ انداز میں ہنسی۔ ”پاپا اور رخشی تو عیش کر رہے ہیں، ان کے لیے تو یہ شادی بہت اچھی ثابت ہوئی ہے۔ پریشانی تو ہمیں اٹھانا پڑی ہے۔” امبر نے کندھے جھٹکے۔
”اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ہارون اور تمہاری شادی کے بعد بھی ایسی صورت حال کا سامنا شائستہ کو کرنا پڑے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ شائستہ کے دباؤ پر تمھیں گھر سے نکال دے، طلاق دے دے۔” صبغہ نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔
”تو کیا ہوا…؟ نہ گھر سے نکالا جانا میرے لیے نئی چیز ہے، نہ طلاق…” امبر نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔
”ایک بار پھر مینٹل ہاسپٹل پہنچنا چاہتی ہو تم؟” صبغہ نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا۔
”نہیں، اس بار ایسی کوئی زحمت نہیں ہوگی آپ لوگوں کو۔ ہر بار مجھے کسی کلینک میں نہیں رکھنا پڑے گا۔” وہ اب دانتوں سے ناخن کتر رہی تھی۔
”تمھیں اگر ہارون سے شادی کرنا ہے تو پھر تم ابھی اور اسی وقت اس گھر سے نکل جاؤ اور دوبارہ کبھی مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔” منیزہ جو اب تک خاموشی سے صبغہ اور امبر کی گفتگو سن رہی تھیں بالآخر پھٹ پڑیں۔
”آپ مجھے گھر سے نکال رہی ہیں؟” امبر نے بے یقینی سے ماں کو دیکھا۔
”ہاں، میں تمھیں گھر سے نکال رہی ہوں، اگر بدنامی ہی لے کر آنا ہے تو پھر کہیں اور جا کر رہو۔”
”ممی…” صبغہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
منیزہ نے اسے جھڑک دیا۔ ”تم چپ رہو، تمھیں اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”میں نے آپ کے لیے پاپا کو چھوڑ دیا تھا اور آپ مجھے ہی گھر سے نکال رہی ہیں؟” امبر کو ماں کی بات پر ابھی تک یقین نہیں آیا۔
”تم نے میرا ساتھ دے کر مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا۔” منیزہ نے تلخی سے کہا۔ ”یہ سب کچھ تمہاری لائی ہوئی بلا تھی، تمہاری وجہ سے رخشی، منصور کی زندگی میں آئی تھی۔ تم باپ کو اس چڑیل کے گھر لے کر گئی تھیں۔” امبر سکتے کے عالم میں انھیں بولتے ہوئے دیکھتی رہی۔
”اور تم مجھ پر احسان جتا رہی ہو کہ تم نے میرا ساتھ دینے کے لیے منصور کا گھر چھوڑ دیا۔ اتنی تکلیف ہے تمھیں اس کا گھر چھوڑنے کی تو واپس چلی جاؤ وہاں، ہارون کمال کے بجائے اس کا گھر پھر بھی بہتر ہے تمھارے لیے۔ کم از کم وہاں رہ کر دنیا کو تو منہ دکھا سکو گی۔ ” منیزہ بے حد مشتعل تھیں۔ امبر کے چہرے کا رنگ بار بار بدل رہا تھا۔
”یہ سب میری وجہ سے نہیں ہوا ممی! آپ خود اس کی ذمہ دار ہیں۔” امبر نے بالآخر زبان کھولی۔ ”کوئی نہ کوئی کمی تو ہوگی آپ میں کہ پاپا نے دوسری شادی کی، ورنہ ساری دنیا کے مرد تو دوسری شادی نہیں کرتے۔” اس کی آواز منیزہ کی آواز سے بھی اونچی تھی۔
اس بار سکتے میں آنے کی باری منیزہ کی تھی۔ وہ پہلی بار کسی کے منہ سے یہ سن رہی تھیں کہ منصور کی دوسری شادی ان کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ تھی اور وہ بھی امبر کے منہ سے۔
”آپ کبھی بھی ایک اچھی بیوی ثابت نہیں ہوئیں۔” وہ کہہ رہی تھی۔ ”نہ اچھی بیوی، نہ اچھی ماں۔”
صبغہ نے بولنے کی کوشش کی لیکن امبر اس وقت کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھی۔
”رخشی کو پاپا کے پیسے سے دلچسپی تھی تو آپ کو بھی پاپا کے پیسوں سے ہی دلچسپی تھی، پاپا سے نہیں۔” منیزہ کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ ”آپ کے نزدیک بھی شوہر پیسہ کمانے والی ایک مشین تھا جو آپ کے لیے پیسہ لاتا رہتا اور آپ اسے اڑاتی رہتیں۔ آپ کے نزدیک پاپا کی کیا حیثیت تھی؟”
”اس وقت ممی کی بات نہیں ہو رہی، تمھیں گڑے مردے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔” صبغہ نے اسے ٹوکا۔
”ممی کی بات بھی تو ہونی چاہیے۔ ممی کی بات کیوں نہیں ہوتی۔ ممی کو آج تک کسی نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ ان جیسی عورتوں کے شوہر اکثر دوسری شادیاں کر لیتے ہیں۔” امبر ہذیانی انداز میں بول رہی تھی۔ ”اور ان کے بچوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ انھیں اب ہارون کمال برا لگ رہا ہے، تب کیوں نہیں لگتا تھا جب وہ کلینک میں باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ کیا تب ممی کو پتا نہیں تھا کہ یہ غلط ہے۔”
”تم ابھی اور اسی وقت یہاں سے نکل جاؤ۔” اس سے پہلے کہ امبر کچھ اور کہتی۔ منیزہ نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔
”میں چلی جاؤں گی، مجھے یہاں رہنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔” امبر نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”پھر جاؤ… ابھی اور اسی وقت یہاں سے جاؤ۔” منیزہ دھاڑیں۔
امبر بجلی کی سی تیزی سے کمرے میں موجود الماری کی طرف گئی اور اس میں سے اپنی چیزیں نکال کر بیڈ پر پھینکنے لگی۔
”ممی پلیز! یہ اس وقت کہاں جائے گی؟” صبغہ اس صورتحال پر گھبرا گئی۔
”یہ جہنم میں جائے مگر یہاں سے چلی جائے۔” منیزہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”ممی! لڑنے جھگڑنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا، بیٹھ کر…”
منیزہ نے صبغہ کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔ ”مجھے اب کوئی مسئلہ حل نہیں کرنا، میں تنگ آ گئی ہوں اس کے مسئلے حل کرتے کرتے۔ اسے جتنا سمجھانا تھا، میں نے سمجھا لیا۔ اب اسے دھکے کھانے دو۔”
امبر اپنا سامان ایک بیگ میں ٹھونسنے میں مصروف تھی، منیزہ کے آخری جملے پر اس نے جیسے تڑپ کر انھیں دیکھا۔
”میں دھکے کھاؤں گی؟ میں دھکے نہیں کھاؤں گی، آپ لوگوں سے بہتر زندگی گزاروں گی۔”
”امبر! کچھ تو ہوش سے کام لو، گھر چھوڑ کر اس وقت کہاں جاؤ گی؟”
صبغہ نے امبر کے ہاتھ سے بیگ لینے کی کوشش کی تو امبر نے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے دھکیل دیا۔
”میرے پاس جانے کے لیے بہت سی جگہیں ہیں، تم لوگوں کا کیا خیال ہے، مجھے یہاں سے نکال دو گے تو میں دھکے کھاتی پھروں گی۔”
”ممی نے جو کچھ کہا ہے، غصے میں کہا ہے…”
منیزہ، صبغہ کی بات کاٹ کر چیخیں۔ ”میں نے جو کچھ کہا ہے، ٹھیک کہا ہے۔ تم یہاں سے چلی جاؤ۔”
امبر نے شدید اشتعال کے عالم میں صبغہ سے اپنا بازو چھڑایا اور اپنا بیگ اٹھا کر تیز قدموں کے ساتھ… کمرے سے باہر نکل گئی۔
”امبر رکو تو… پلیز۔” صبغہ اسے پکارتے ہوئے بیرونی دروازے تک اس کے پیچھے آئی مگر امبر نے ایک نہ سنی اور دہلیز پار کر گئی۔
صبغہ نے بے بسی سے گلی میں جلتی روشنیوں میں اسے تیز قدموں کے ساتھ کندھے پر بیگ ڈالے گلی کا موڑ مڑ کر اوجھل ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس نے بے اختیار اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
٭٭٭
”آخر ہوا کیا تھا آپ کو؟” شہیر نے شاید پچاسویں بار فاطمہ سے پوچھا تھا وہ کچھ دیر پہلے گھر واپس آیا تھا اور گھر واپس آتے ہی اسے فاطمہ کی بے ہوشی اور کچھ دیر پہلے آنے والے ڈرافٹ کے بارے میں پتا چل گیا تھا۔ وہ شائستہ کے ساتھ ہونے والی تلخ کلامی بھلا بیٹھا تھا اور اب بار بار بے چینی سے فاطمہ کی طبیعت کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ اس کے لیے اس ڈرافٹ کی آمد سے زیادہ پریشان کن بات فاطمہ کا اس طرح بے ہوش ہونا تھا۔
”کچھ نہیں ہوا تھا۔” فاطمہ حسب عادت ایک ہی جواب دے رہی تھی۔ ”بس میں پریشان ہو گئی تھی۔ تم بھی سوچو اگر اس طرح کا کوئی ڈرافٹ تمھیں ملتا اور وہ بھی ایک ایسے آدمی کی طرف سے جسے تم جانتے تک نہ ہو تو…”
فاطمہ نے ثانی اور ثمر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ شہیر کی طرح وہ بھی بے حد متفکر نظر آ رہے تھے۔
”پہلے ثمر کی فیس کی ادائیگی اور اب… اب…” فاطمہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”ہو سکتا ہے یہ ابو کی فیملی کے کسی فرد کی مہربانی ہو۔” شہیر کو اچانک خیال آیا۔ ”آپ نے کبھی تفصیل سے ابو اور اپنی فیملی کے لوگوں کا ذکر نہیں کیا۔ ہو سکتا ہے ابو کی فیملی کے کسی فرد…”
فاطمہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تمھارے ابو کی فیملی میں کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو اتنا امیر ہو کہ اتنی بھاری رقوم ہم لوگوں پر خرچ کرتا پھرے اور اگر ہوتا بھی تو اسے اس طرح چھپنے کی کیا ضرورت تھی، وہ سامنے آ جاتا۔”
”انھیں لگتا ہوگا کہ آپ ان سے یہ رقم لینا پسند نہیں کریں گی یا ایسی ہی کوئی اور وجہ بھی تو ہو سکتی ہے۔” ثمر نے اپنی رائے دی۔
”ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو۔” فاطمہ نے یک دم کہا۔ اگر وہ سب یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ان کے والد کے کسی رشتہ دار کا کام ہے تو یہ خیال فاطمہ کو ان کے بہت سے سوالوں سے بچا سکتا تھا۔ فاطمہ کے ذہن میں فوری طور پر یہ خیال آیا تھا۔
”ابو کی فیملی اب کہاں ہوتی ہے؟” شہیر نے اچانک فاطمہ سے پوچھا۔
”وہ اکلوتے بیٹے تھے۔ ان کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا۔” فاطمہ نے کئی بار کا دہرایا ہوا جھوٹ ایک بار پھر بولا۔
”مگر ان کی فیملی میں کوئی نہ کوئی تو ہوگا۔ ان کے کزنز… چچا وغیرہ… کوئی دوسرے رشتہ دار؟” شہیر نے پوچھا۔
”انھوں نے کبھی مجھے کسی سے نہیں ملوایا اس لیے میں نہیں جانتی کہ ان کے کوئی اور رشتہ دار ہیں بھی یا نہیں اور اگر ہیں تو کہاں ہیں۔”
فاطمہ نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے ان تینوں میں سے کسی نے اپنے باپ کی فیملی کے بارے میں اتنی تفصیل سے سوالات نہیں کیے تھے۔
شہیر نے بیڈ کے پاس پڑے ٹیبل پر رکھے ڈرافٹ کو اٹھا کر اس پر ایک نظر دوڑائی۔ ”میں اس ڈرافٹ کے ذریعہ پتا کروانے کی کوشش کرتا ہوں کہ یہ مکرم الدین صاحب کون ہیں۔” اس نے کچھ دیر کے بعد کہا۔ ”انھوں نے جہاں سے یہ ڈرافٹ بنوایا ہے وہاں ان کے کوائف ہوں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہاں ان کا بینک اکاؤنٹ بھی ہو۔” وہ بڑبڑا رہا تھا۔
”اکثر لوگ اپنے بینک اکاؤنٹ کو استعمال کرتے ہوئے ہی اس طرح کے ڈرافٹس بنواتے ہیں۔”
شہیر نے ڈرافٹ ایک بار پھر ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس کے جملے نے فاطمہ کے پیروں تلے سے ایک بار پھر زمین نکال دی۔ مکرم الدین نامی اس آدمی تک پہنچنے کا کیا مطلب تھا، وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ اگر وہ آدمی اپنے آپ کو چھپا رہا تھا تو بہتر یہ تھا کہ وہ بھی اس کی شناخت جاننے کی کوشش نہ کرتی، یہی اس کے لیے اور ان تینوں کے لیے بہتر تھا۔
”تمھیں کسی قسم کی تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” فاطمہ نے یک دم وہ ڈرافٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔ ”ان صاحب تک پہنچ کر ہم لوگوں کو کیا کرنا ہے۔”
”ہم ان سے پوچھیں گے کہ وہ ہم پہ اس طرح کی مہربانیاں کیوں کر رہے ہیں۔” ثمر نے لقمہ دیا۔
”یقینا میری فیس بھی انھوں نے ہی ادا کی ہوگی اور اس طرح کی مہربانیاں کرنے کی کوئی وجہ تو ضرور ہوگی۔”
فاطمہ ڈرافٹ لے کر کمرے میں موجود الماری کی طرف بڑھ گئی دراز کھول کر وہ ڈرافٹ اس نے اندر رکھ دیا پھر پلٹ کر ان تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
”جو وجہ ہوگی خود ہی سامنے آ جائے گی تم لوگوں کو اپنا دماغ اس پر کھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”ویسے امی! ہماری لائف کچھ فلمی نہیں ہوتی جا رہی؟” ثمر نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ ”ایک غریب خاندان تین غریب مگر ذہین بچے۔”
شہیر گہرا سانس لیتے ہوئے اپنے کمرے میں جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جانتا تھا ثمر کی بکواس اب کچھ دیر جاری رہے گی۔ ”اور پھر اچانک ایک دن ایک خزانہ…”
ثانی بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ”امی کھانا باہر صحن یا کچن میں ہی کھا لیتے ہیں۔ اس کا منہ اب بند نہیں ہوگا۔” ثانی نے ثمر کی بات نظر انداز کرتے ہوئے فاطمہ سے کہا۔
”اور دیکھتے دیکھتے ہی ان کے دن پھر جاتے ہیں۔”
اور فاطمہ باہر نکلتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ
”ہر خزانہ اچھے دن نہیں لاتا نہ ہر کہانی کے آخر میں ”وہ سب” ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ مکرم الدین کب اور کتنے دن چھپا رہتا ہے اور آگے کیا کرتا ہے مجھے یہی دیکھنا ہے۔”
”سوچیں کہ پھر کیا ہوتا ہے۔” ثمر بھی اٹھ کر اس کے پیچھے آتے ہوئے کہنے لگا۔ ”ہم لوگ بیٹھے بٹھائے کروڑ پتی بن سکتے ہیں۔ ڈیفنس میں ایک بڑا سا گھر لے کر…”
ثمر نے اپنے سے آگے چلتی ہوئی ثانی کی بڑبڑاہٹ سنی۔
”اور لوگ کہتے ہیں شیخ چلی کو مرے زمانہ ہو چکا ہے۔”
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!