”میں قسم کھاتا ہوں امی؟ مجھے نہیں پتا کہ یہ کس کا کام ہے؟” ثمر، فاطمہ کو یقین دلانے میں مصروف تھا۔
”میں نے کسی سے پیسے نہیں مانگے۔ نایاب نے مجھے مدد کی آفر کی تھی، مگر نایاب کے علاوہ کسی اور سے میری اس سلسلے میں بات نہیں ہوئی، اور پھر میں جانتا کتنے لوگوں کو ہوں کہ کوئی میرے لیے یوں لاکھوں خرچ کرتاپھرے گا۔” فاطمہ ماتھے پر بل لیے کچن کے کاموں میں مصروف رہی۔ اس نے ثمر کی کسی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔ ثمر اس کے اس انداز سے بے حد زچ ہو رہا تھا۔
”امی! آخر میری بات پر اعتبار کیوں نہیں ہے آپ کو؟” ثمر نے بالآخر جھنجھلا کر کہا۔
”کیونکہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔” اس بار برتن دھوتے ہوئے یک دم فاطمہ نے پلٹ کر بے حد ناراضی سے کہا۔
”میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں۔” ثمر بے بسی سے بولا۔
”کم از کم میں واقعی کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو میرے لیے…”
”تم نے یہ روپے نایاب سے لیے ہیں؟” فاطمہ نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔ وہ نایاب سے اس کی دوستی کے بارے میں جانتی تھی۔ ثمر نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
”امی! اس نے مجھے صرف آفر کی تھی۔ یقین کریں اس نے میری فیس پے نہیں کی۔ آپ کو اگر یقین نہیں آتا تو پھر میں نایاب کو گھر لے آتا ہوں آپ خود اس سے پوچھ لیں۔” وہ بھی جھنجھلا گیا تھا۔ وہ خوامخواہ میں اس کے لیے مصیبت بن گئی تھی۔ باہر نایاب مشکوک ہو رہی تھی اور گھر میں فاطمہ، شہیر اور ثانیہ ناراض تھے۔
”آپ خود سوچیں، میں اتنا گیا گزرا ہوں کہ ہر ایک کے سامنے کشکول لے کر بیٹھ جاؤں گا کہ آؤ بھائی میری مدد کرو۔ مجھے این سی اے میں ایڈمیشن دلوا دو۔” وہ کہہ رہا تھا اور جو جو میری آواز سنے گا وہ بھاگتا آئے گا کہ میں حاضر ہوں تمہاری مدد کے لیے۔”
”مگر مدد تو کی ہے کسی نہ کسی نے تمہاری۔” فاطمہ نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”مگر اس کسی نہ کسی کا مجھ کو پتا نہیں ہے امی… اگر پتا ہوتا تو۔” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔ فاطمہ اسی طرح برتن دھو رہی تھی۔
”ہو سکتا ہے میرا بھی اچانک کوئی گاڈ فادر پیدا ہو گیا ہو، یا پھر کسی نے مجھے گود لینے کا فیصلہ کر لیا ہو۔” جھنجلاہٹ میں اس کی حس مزاح اور جاگ جاتی تھی۔ مگر اس کے منہ سے نکلے ہوئے اس جملے نے فاطمہ کو کچھ دیر کے لیے ساکت کر دیا تھا۔ مذاق میں کہے گئے ایک جملے نے یک دم اس کے دل میں بہت سے خدشات کو جگا دیا۔
ثمر اب بھی کچھ بول رہا تھا، اس نے فاطمہ کے ہاتھوں کی حرکت میں آنے والی تبدیلی کو دیکھا نہیں تھا یا پھر اس پر غور نہیں کیا تھا۔
”انھوں نے سوچا ہوگا یتیم بچہ ہے، چلو اس پر کچھ مہربانی ہی کر دی جائے۔ اب انھیں کیا پتا تھا کہ اس مہربانی کی وجہ سے یہ یتیم بچہ گھر اور باہر کتنا ذلیل ہوگا۔ آپ کو اب تو مجھ پر کچھ رحم آیا ہوگا۔ سوچیں میں…” اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا۔ فاطمہ برتن چھوڑ کر کھڑی ہوئی اور بے حد ناراضی کے عالم میں کچن سے باہر نکل گئی۔
ثمر مزید بوکھلایا۔ فاطمہ عام طور پر کبھی اتنے غصے کا اظہار نہیں کرتی تھی، اور اکثر اس کی باتوں پر ہنس پڑتی تھی۔ اکثر اوقات وہ ایسی ہی باتیں کر کے اس کا غصہ ٹھنڈا کیا کرتا تھا۔ مگر اب وہ جس طرح کچن سے گئی تھی۔ وہ مزید پریشان ہو گیا تھا۔
ثمر اس کے پیچھے ہی کمرے میں چلا آیا۔ فاطمہ بیڈ پر بیٹھی رو رہی تھی۔ وہ حواس باختہ ہو گیا۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں پہلی بار اپنی ماں کو روتے دیکھا تھا اور رونے کی وجہ کیا صرف کسی کی طرف سے دی جانے والی وہ فیس تھی؟
”کیا ہوا؟ کیا ہوا؟” وہ بے حد گھبرائے ہوئے انداز میں فاطمہ کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے فاطمہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ فاطمہ نے اس کے ہاتھ کو جھٹکا نہیں مگر اس نے رونا بند کیا نہ ہی ثمر کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے کہ ثمر کچھ اور کہتا ثانی کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے اپنے گیلے بالوں کے گرد تولیہ لپیٹا ہوا تھا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی نہا کر غسل خانے سے باہر نکلی تھی۔
کمرے کا نظارہ دیکھ کر وہ بھی ثمر کی طرح ہی حواس باختہ ہوئی اور برق رفتاری سے فاطمہ کی طرف آئی۔
”کیا ہوا امی! تم نے کیا کہا ہے امی سے؟” فاطمہ کے جواب نہ دینے پر تقریباً روہانسی ہوتے ہوئے وہ ثمر سے بولی۔
”میں نے کچھ نہیں کہا۔ میں تو اپنی صفائی دے رہا تھا اور یہ یک دم ناراض ہو کر کچن سے چلی آئیں۔” ثمر بھی اب روہانسا ہونے لگا تھا۔
”امی… امی… پلیز چپ ہو جائیں۔” ثانی نے ثمر کی بات درمیان میں ہی کاٹتے ہوئے ایک بار پھر فاطمہ سے کہا، اور پھر اسے خاموش ہوتے نہ دیکھ کر خود بھی رونا شروع ہو گئی۔ ثمر کی طرح اس نے بھی زندگی میں پہلی بار فاطمہ کو روتے ہوئے دیکھا تھا اس صورت حال پر وہ دونوں بوکھلا گئے تھے۔
”اگر آپ کو میری کوئی بات بری لگی ہے تو میں اس کے لیے آپ سے معافی مانگتا ہوں۔” ثمر، ثانی کو روتے دیکھ کر اور پریشان ہوا۔
”پلیز مجھے معاف کر دیں اور چپ ہو جائیں۔” اس نے فاطمہ کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔
”میں این سی اے میں پڑھوں گا ہی نہیں، میں کہیں اور ایڈمیشن لے لوں گا۔” اس نے رونکھا ہوتے ہوئے کہا۔
اس کی بھرائی ہوئی آواز نے فاطمہ کو یک دم گردن موڑ کر اسے دیکھنے پر مجبور کیا۔ ثمر کی آنکھوں میں بھی نمی چمک رہی تھی۔ مگر اس نمی سے زیادہ فاطمہ کو اس کے اپنے سامنے بندھے ہوئے ہاتھوں نے پریشان کیا تھا۔ وہ ایک ہاتھ سے اس کے ہاتھوں کو کھولتے ہوئے اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔
”میں بس ایسے ہی پریشان تھی، اس لیے رونے لگی۔” اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اور بات ادھوری چھوڑ دی۔ ثمر نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔
”نہیں، اس نے ضرور آپ سے کوئی بدتمیزی کی ہوگی۔ آج شہیر بھائی آئیں گے تو میں ان کو بتاؤں گی۔” ثانی بھی اپنے آنسو پونچھنے لگی، مگر اس کا غصہ ختم نہیں ہوا تھا۔
”شہیر سے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ثمر نے مجھ سے کوئی بدتمیزی نہیں کی، میں نے کہا نا میں پریشان تھی اس لیے۔” فاطمہ نے کچھ سختی سے ثانی کو ڈانٹا۔
”آپ ہمیشہ اس کی سائڈ لیتی ہیں امی! ہمیشہ… اسی لیے یہ اتنا بدتمیز ہو گیا ہے۔” ثمر نے ناراضی سے ثانی کی بات کاٹی۔” تم بی جما لو کا کردار ادا کرنے کی کوشش مت کرو۔ میں نے معافی مانگ لی ہے۔ حالانکہ میں نے بدتمیزی بھی نہیں کی۔”
”تم دونوں اب اس بات کو ختم کرو۔” فاطمہ نے ثانی کو روکا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔
”دیکھو… دروازے پر کون ہے؟” فاطمہ نے دوپٹے کے پلو سے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
”شہیر بھائی ہوں گے۔” ثمر نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
”اس نے واقعی بدتمیزی کی تھی ناامی؟”
اس کے باہر جاتے ہی ثانی نے ایک بار پھر فاطمہ سے پوچھا۔
”نہیں، اس نے کوئی بدتمیزی نہیں کی، میں سچ کہہ رہی ہوں مجھے ویسے ہی رونا آ گیا تھا۔” فاطمہ نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔
”مگر پہلے تو آپ کبھی اس طرح نہیں روئیں پھر آج کیا ہوا؟” ثانی اس کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی، اس سے پہلے کہ فاطمہ کچھ کہتی ثمر اندر داخل ہوا۔ وہ ہاتھ میں ایک لفافہ پکڑے ہوئے تھے۔
”تمہاری ڈاک ہے۔” اس نے ثانی سے کہا اور لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔
”آئی بی اے سے ہے؟” ثانی نے پوچھا۔
”نہیں آئی بی اے کا ایڈریس تو نہیں ہے۔” ثمر نے کہا۔ لفافے کی پچھلی طرف کسی مکرم الدین کا نام تھا۔ ثانی نے لفافہ کھولنا شروع کیا۔
”مجھے کھانا پکانا ہے تم دونوں اب لڑنا مت۔” فاطمہ نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا۔ ثانی تب تک لفافہ کھول چکی تھی۔ ثمر بھی اس کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔
ثانی نے لفافہ کھول کر اندر موجود کاغذ نکالا۔
”میری پیاری بیٹی ثانیہ کے آئی بی اے میں ایڈمیشن کے لیے۔”
ایک جملے پر مشتمل اس کاغذ کے ساتھ ہی تین لاکھ کا ایک ڈرافٹ بھی نکلا تھا۔
”میرے خدا۔” ثانی کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ فاطمہ نے کمرے سے باہر جاتے جاتے پلٹ کر دیکھا۔ وہ دونوں اس کاغذ پر جھکے ہوئے ہکا بکا نظر آ رہے تھے۔ ڈرافٹ اب ثمر کے ہاتھوں میں تھا۔
”کیا ہوا؟ کس کا خط ہے؟” فاطمہ پریشان ہو کر واپس پلٹ آئی۔ ثانی نے کچھ کہے بغیر ثمر کے ہاتھ سے ڈرافٹ لے کر کاغذ کے ساتھ اس کو بھی فاطمہ کی طرف بڑھا دیا۔
فاطمہ نے کاغذ پر ایک نظر ڈالی پھر ڈرافٹ پر… اور اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ اس کے بدترین اندیشے صحیح ثابت ہونے لگے تھے۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ نایاب نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ جو بھی تھا ثانی اور ثمر دونوں سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔ فاطمہ نے اپنے حلق میں یک دم اگ آنے والے کانٹوں کو محسوس کیا اور وہ جو کوئی بھی تھا، وہ ثانی اور ثمر کے ساتھ ساتھ فاطمہ کو بھی بہت اچھی طرح جانتا ہوگا اور کب سے؟ یہ فاطمہ نہیں جانتی تھی اور وہ جو بھی تھا وہ اب کیا ثابت کرنا چاہتا تھا؟ اپنا اخلاص، اپنی ہمدردی یا پھر اپنا رشتہ؟
”میری پیاری بیٹی ثانیہ کے آئی بی اے میں ایڈمیشن کے لیے۔”
کاغذ پر لکھی تحریر فاطمہ کا منہ چڑا رہی تھی۔ اس کی ٹانگوں نے یک دم اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا۔ فاطمہ نے سانس لینے کی کوشش کی۔ وہ ناکام رہی۔ اس نے پھر کوشش کی۔ مگر پھر بھی ناکام رہی اور پھر اس نے ہر چیز کو دھندلاتے ہوئے محسوس کیا۔
٭٭٭
”یہ انگیجمنٹ رنگ ہے۔ میں اور ہارون شادی کر رہے ہیں۔”
منیزہ کو لگا جیسے ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہے۔ صبغہ بے حس و حرکت کھڑی تھی، اسے توقع نہیں تھی کہ وہ آج واپسی پر ہارون سے اس طرح کے عہد و پیماں کر کے واپس آئے گی۔
”تم ہوش میں تو ہو؟” منیزہ نے تقریباً غراتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں، میں بالکل ہوش میں ہوں۔ آپ کو میری کس بات سے یہ لگا کہ میرے ہوش ٹھکانے نہیں ہیں۔”
امبر کے انداز میں بے نیازی تھی بلکہ ایک عجیب طرح کی سرشاری بھی۔ اس کے پاؤں جیسے اس دن زمین پر نہیں تھے۔
”اپنے آپ کو رخشی مت بناؤ۔” منیزہ نے تلملاتے ہوئے کہا۔ امبر بغیر پلکیں جھپکائے یک ٹک منیزہ کو دیکھتی رہی۔
”مجھے رخشی کے برابر کھڑا مت کریں ممی!” اس کی آواز میں یک دم سرد مہری در آئی۔
”میں تمھیں اس کے برابر نہیں کھڑا کر رہی، تم خود اپنے آپ کو اس مقام پر لے آئی ہو۔” باپ سے یہی سبق سیکھا ہے تم نے… کہ اس کی طرح…”
امبر نے منیزہ کی بات کاٹ دی۔
”باپ سے کیا کیا سیکھا ہے، یہ بار بار یاد مت دلائیں۔” وہ مشتعل ہو کر بولی۔
”باپ نے جو کیا، اپنے لیے اپنی مرضی سے کیا پھر میں اپنی زندگی میں اپنی مرضی کے فیصلے کیوں نہ کروں۔”
”تمہارے باپ کی ”اپنی مرضی” نے کتنے لوگوں کی زندگی کو تباہ کیا ہے، تم انگلیوں پر گِن سکتی ہو۔” منیزہ جیسے پھنکاریں۔ ”اس کی اپنی مرضی ہم سب کو فٹ پاتھ پر لے آئی ہے اور تم…”
امبر نے ایک بار پھر منیزہ کی بات کاٹ دی۔ ”اور میری مرضی آپ کو کسی فٹ پاتھ پر نہیں لے جائے گی۔ میں آپ سب کو اس جگہ سے نکالنا چاہتی ہوں، وہاں لے کر جانا چاہتی ہوں جہاں سے ہم آئے تھے۔” اس کی آواز میں تیزی آ گئی۔ ان ساری آسائشوں کو دوبارہ آپ سب کی زندگی میں لانا چاہتی ہوں جن کو ہم سے چھین لیا گیا تھا۔”
”اور یہ سب کچھ تمھیں اپنے سے دوگنی عمر سے بھی زیادہ بڑے اس شادی شدہ مرد سے شادی کر کے ملے گا؟” اس بار صبغہ نے امبر کی بات کاٹی تھی۔
”ہاں یہ سب کچھ ایسے ہی ملے گا۔” امبر نے اسی انداز میں کہا۔
”اگر یہ سب کچھ تم ہمارے لیے کر رہی ہو تو مت کرو۔” صبغہ نے کہا۔ ”اور اگر اپنے لیے کر رہی ہو تو اپنے اوپر رحم کرو، لوگ دوسروں کو کنویں میں گرتے دیکھ کر بھی تو سبق حاصل کرتے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ تم کنویں میں گرنے کے بعد ہی سبق حاصل کرو۔”
”یہ جو زندگی ہے نا، یہ ایک ایسا راستہ ہے جس پر گڑھوں کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں۔” امبر، صبغہ کی طرف دیکھتے ہوئے عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ ”دل چاہے نہ چاہے، دیکھے بن دیکھے کبھی نہ کبھی گڑھے میں گرنا ہی پڑتا ہے اور زندگی صرف ایک گڑھے سے نکلنے سے لے کر اگلے گڑھے میں گر جانے تک کے فاصلے کا نام ہے۔”
اس کی آواز میں نمی تھی۔ صبغہ کچھ دیر تک بول نہیں سکی۔
”زندگی میں گڑھے ہی گڑھے ہیں۔” وہ اسی عالم میں بول رہی تھی۔ ”اور ہر گڑھا اتنا بڑا ہے کہ کوئی اسے پھلانگ نہیں سکتا۔”
”آدمی آنکھیں بند کرے تو اسے تمہاری طرح اندھیرے کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔” صبغہ نے تاسف سے اسے دیکھا۔
امبر بے اختیار استہزائیہ انداز میں ہنسی۔
”اور آدمی آنکھیں کھلی رکھے تو پھر اس کو دنیا سے گھن آنے لگتی ہے۔ کچھ دیکھنے کو جی نہیں چاہتا، پھر بہتر ہے کہ آنکھیں بند کر لی جائیں۔”
وہ مایوسی کے اندھیرے غار میں بند تھی۔ صبغہ نے بے بسی سے اسے دیکھا۔ وہ بے شک ذہنی امراض کے کلینک سے بظاہر صحت یاب ہو کر آ گئی تھی مگر اس کی ذہنی کیفیت اب بھی ویسی ہی تھی۔
”ہارون کمال نے تمہاری برین واشنگ کر دی ہے، تمھیں اس بات کا اندازہ ہے؟” صبغہ نے سنجیدگی سے کہا۔ امبر کے چہرے کے تاثرات یک دم بدل گئے۔
”وہ تمھیں ایکسپلائٹ کر رہا ہے۔ محبت کے نام پر وہ تمھیں استعمال کر رہا ہے؟”
”کیا خرابی ہے ایکسپلائٹ ہونے میں؟” صبغہ اکھڑ لہجے میں پوچھے جانے والے اس کے سوال پر دنگ رہ گئی۔
”دنیا میں ہر ایک یہی کرتا ہے۔ اگر ہارون کر رہا ہے تو کیا غلط کر رہا ہے۔” صبغہ اپنی بڑی بہن کو چپ چاپ تاسف بھری نظروں سے دیکھتی رہی۔ منیزہ کا دل چاہا، وہ اپنا سر پیٹ لیں۔
”دنیا میں کون کیا کر رہا ہے، اسے رہنے دو۔ تم اس ہجوم کا حصہ مت بنو۔” صبغہ نے اسے سنجیدگی سے سمجھایا۔ ‘ہتم رخشی کی طرح نہیں کر سکتیں، تم یہ یاد رکھو۔”
”صبغہ! میں اس طرح کی زندگی نہیں گزار سکتی۔” امبر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تم یہاں اس ماحول، اس گھر میں رہ سکتی ہو۔ تم کمپرومائز کر سکتی ہو ان تمام چیزوں سے، تم چار پانچ ہزار کی جاب کے لیے بسوں اور ویگنوں کے دھکے کھا سکتی ہو، میں نہیں۔”
اس کا لہجہ دو ٹوک تھا۔