شہیر الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ آفس سے باہر نکل آیا۔ اس کے پروموشن کی اطلاع پورے آفس میں پھیل چکی تھی اور وہ سارا دن مبارکباد ہی وصول کرتا رہا مگر اس کے باوجود اس کا ذہن الجھا ہوا تھا، وہ خوش نہیں تھا۔ کہیں نہ کہیں کچھ غلط تھا اور جو کچھ غلط تھا وہ بہت دیر تک راز میں نہیں رہا تھا۔ وہ چھٹی کے بعد اپنے آفس کی بلڈنگ سے باہر نکل کر اسٹاپ کی طرف جا رہا تھا جب ایک گاڑی یک دم اس کے قریب آ کر رکی۔
”ہیلو شہیر!” ایک مانوس سی آواز نے اس کے قدم روک دیے۔ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ اس نے جھک کر دیکھا، وہ شائستہ ہارون کمال تھی۔
ناگواری کی ایک لہر سی شہیر کے وجود سے گزری۔
شائستہ نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ ”آؤ میں ڈراپ کر دیتی ہوں۔”
”نہیں، میں چلا جاؤں گا۔” اس نے شائستگی سے انکار کیا۔”
”جانتی ہوں، تم چلے جاؤ گے مگر میں تمھیں خود ڈراپ کرنا چاہتی ہوں۔ آ جاؤ کم آن۔” اس کا لہجہ عجیب پچکارنے والا تھا۔
شہیر کو عجیب سی ہتک کا احساس ہوا۔ اسٹاپ پر اس کے آفس کے اور لوگ بھی جمع ہو رہے تھے اوران میں سے کچھ اس کی طرف متوجہ بھی تھے۔ شہیر کو محسوس ہوا کہ اس کے دو ٹوک انکار کے بعد بھی شائستہ شاید وہاں سے نہ جائے گی اور یہ تماشا بنانے والی بات تھی۔
تقریباً دانت پیستے ہوئے وہ گاڑی کے کھلے دروازے سے ڈرائیونگ سیٹ کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
شائستہ نے مسکراتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی۔ ”کیسے ہو تم؟”
”میں ٹھیک ہوں۔” شہیر نے شائستہ کی طرف دیکھے بغیر ونڈا سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
”That’s good۔” شائستہ نے اس کے کندھے پر اپنے بائیں ہاتھ سے ہلکی سی تھپکی دی۔ شہیر کا جسم تن گیا۔ اس کا دل چاہا تھا وہ پوری قوت سے اس کے ہاتھ کو جھٹک دے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے ذہن میں صبغہ کے گھر میں ہونیوالی امبر، ہارون اور منیزہ کی گفتگو گونج رہی تھی۔
وہ امبر اور ہارون کے ممکنہ تعلق کے بارے میں سوچ رہا تھا اور وہ شائستہ کو بھی اسی روشنی میں دیکھ رہا تھا۔ اگر اس کا شوہر اپنے سے آدھی عمر کی لڑکی کے ساتھ فلرٹ کرنے میں مصروف تھا، اس بات کا لحاظ کیے بغیر کہ وہ لڑکی اس کے فیملی فرینڈ کی بیٹی تھی، تو شائستہ کمال بھی اس کے نزدیک اسی کوشش میں مصروف تھی۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ وہ اپنے سے آدھی عمر کے مرد کے ساتھ افیئر چلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اس کی بیٹی کے دوست کا بھائی تھا اور اس کے شوہر سے بھی مل چکا تھا۔ شہیر دل ہی دل میں اس وقت بری طرح پیچ و تاب کھا رہا تھا۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” شائستہ نے اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کی دلی کیفیات کو بوجھنے کی پہلی کوشش کی۔
”ہاں، میری طبیعت ٹھیک ہے۔” شہیر نے اسی بے رخی سے جواب دیا۔
”آپ نے خوامخواہ زحمت کی مجھے پک کرنے کی۔آپ مجھے اگلے اسٹاپ پر اتار دیں، میں چلا جاؤں گا۔”
”خیر ایسے تو ہم آپ کو نہیں اتاریں گے۔” شائستہ نے اس بار دھیمی سی ہنسی کے ساتھ کہا۔
شہیر کو اس کی ہنسی کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی مگر اس کے اشتعال میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
”جاب اور اسٹڈیز کے علاوہ کیا مشاغل ہوتے ہیں تمھارے؟” شائستہ نے اس بار موضوع تبدیل کرتے ہوئے پوچھا۔
”کوئی زیادہ مشاغل نہیں ہیں، میں کچھ ٹیوشنز کرتا ہوں یا پھر گھر پر ہی ہوتا ہوں۔” شہیر نے بادل نخواستہ جواب دیتے ہوئے کہا۔
”یہ تو کوئی اچھی بات نہیں ہے، کچھ مشاغل تو ہونے چاہئیں۔ زندگی صرف کام کے لیے تو نہیں ہوتی۔” وہ جیسے بڑبڑائی۔ ”تمھارے پاس کسی کلب کی ممبر شپ ہونی چاہیے میں کرتی ہوں کچھ۔” شہیر نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔
”مجھے کسی کلب کا ممبر بننے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کیونکہ میں جس کلاس سے تعلق رکھتا ہوں وہاں ہم اس طرح کے چونچلے افورڈ نہیں کر سکتے۔”
اس بار اس نے بڑے صاف اور دو ٹوک انداز میں شائستہ کو جتا رہا تھا۔
”ابھی افورڈ نہیں کر سکتے… آنے والے وقت میں کرنے لگو گے۔” شائستہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آنے والے وقت میں کیا ہوگا یہ مستقبل ہی بتائے گا۔ میں حال میں بیٹھ کر مستقبل میں گھوڑے نہیں دوڑاتا۔ اس کے لہجے میں اس بار کچھ ترشی تھی۔
شائستہ مسکرا دی۔ وہ جب بھی اسے دیکھتی تھی اس کے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں پاتی تھی۔ وہ ہارون کمال کی کاپی تھا مگر ایک بہت بہتر کاپی۔
”حال میں جیتے ہو، اچھا کرتے ہو۔” شائستہ نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ایم بی اے کے بعد کیا کرو گے؟” اس نے ایک بار پھر موضوع بدل دیا۔
”وہی کروں گا جو اب کر رہا ہوں… جاب۔” شہیر نے جواب دیا۔
”اور جاب بھی یہیں کرو گے جہاں اب کر رہے ہو؟” شائستہ نے سوال کیا۔
”پتا نہیں، میں نے ابھی طے نہیں کیا۔” شہیر نے کہا۔
”میرے پاس تمھارے لیے ایک بہترین آفر ہے۔” شائستہ نے یک دم اس سے کہا۔ وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ گلوز کمپارٹمنٹ کھولتے ہوئے اس میں سے ایک کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا رہی تھی۔
”یہ میرا وزیٹنگ کارڈ ہے۔”
شہیر نے کارڈ پکڑتے ہوئے الجھے ہوئے انداز میں کارڈ پر ایک نظر دوڑائی۔
”ہماری فیکٹری میں کچھ نئی اسامیاں نکلنے والی ہیں تم اگر ہمارے پاس آ جاؤ تو ہم تمھیں بہت اچھا پیکج دیں گے۔”
شہیر نے سر اٹھا کر شائستہ کو دیکھا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔
”گاڑی، گھر، میڈیکل… سب کچھ۔” شہیر کارڈ ہاتھ میں لیے اسے دیکھتا رہا۔
بلاشبہ ہارون کمال کی وہ فیکٹری اس شہر کی سب سے بڑی فیکٹریز میں سے ایک تھی اور وہاں جاب مل جانے کا مطلب کیا ہو سکتا تھا، یہ شہیر اچھی طرح جانتا تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اسے یہ آفر وہ عورت کر رہی تھی جسے وہ بے حد ناپسند کرتا تھا۔
”نہیں، میں نہیں سمجھتا کہ میں اتنی جلدی اپنی جاب چھوڑوں گا۔ ابھی کچھ سال میں یہیں کام کروں گا۔ آپ یہ کارڈ رکھیں۔”
شہیر کے انکار نے شائستہ کے چہرے کی مسکراہٹ بجھا دی۔
”تم کارڈ اپنے پاس ہی رکھو، میری آفر کے بارے میں بعد میں سوچنا۔” شہیر نے جواب دینے کے بجائے اپنا والٹ نکال کر کارڈ اس میں رکھ لیا۔ شائستہ کے ساتھ کارڈ کو رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں بحث بے کار تھی۔
شائستہ کچھ دیر خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتی رہی۔ شہیر خاموشی سے ونڈا سکرین سے باہر جھانکتا رہا۔ وہ جلد از جلد گھر پہنچ جانے کی دعا کر رہا تھا اور وہ وقتاً فوقتاً اپنے اوپر پڑنے والی شائستہ کی نظروں سے بھی آگاہ تھا۔ کچھ دیر کے بعد شائستہ نے ایک گہرا سانس لیا اور خاموشی توڑی۔
”تمھیں پتا ہے، تمھیں دیکھ کرمجھے کوئی بہت یاد آتا ہے۔”
شہیر نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس سے کیا سوال کرے۔ کیا یہ پوچھے کہ کون یا پھر خاموش رہے۔
شائستہ ایک بار پھر خاموش ہو کر گاڑی ڈرائیو کرنے لگی۔ شہیر نے بھی خاموش رہنا بہتر سمجھا۔
”تم نے پوچھا نہیں کون؟” اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد خود ہی شہیر سے پوچھا۔
اس بار شہیر کے پاس کوئی جائے فرار نہیں تھی۔
”کون؟” اس نے بادل نخواستہ اس سے پوچھا۔
شائستہ نے اپنے گلاسز اتار دیے۔ شہیر نے دیکھا اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں۔ اس کا دل یک دم نرم ہوا۔ کچھ دیر پہلے کی ترشی اور تلخی منٹوں میں غائب ہو گئی۔ وہ ہمدردانہ نظروں سے شائستہ کو دیکھتے ہوئے جواب کا منتظر تھا۔وہ ڈیش بورڈ پر پڑے ٹشو باکس سے ایک ٹشو نکالتے ہوئے اپنی آنکھیں اس سے خشک کر رہی تھی۔
”کون یاد آتا ہے آپ کو؟” شہیر نے ایک بار پھر پوچھا۔
”میرا بیٹا۔” شہیر کچھ بول نہ سکا۔
٭٭٭
”اس طرح کیوں گھور رہے ہو مجھے؟” نایاب، ثمر کے فون کرنے پر کچھ دیر پہلے ہی این سی اے پہنچی تھی اور اب اس سے پوچھ رہی تھی۔
”نایاب! یہ ٹھیک نہیں ہے۔” ثمر نے بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔
”کیا ٹھیک نہیں ہے؟” وہ حیران ہوئی۔
”تم اچھی طرح جانتی ہو کہ کیا ٹھیک نہیں ہے۔”
”I Swear میں نہیں جانتی تم کیا کہہ رہے ہو۔”
”مجھے فیس کے لیے رقم کی ضرورت نہیں تھی۔ میری امی نے مجھے رقم دے دی ہے پھر تم نے میری فیس کیوں جمع کروائی؟” وہ بے حد ناراض تھا۔ نایاب نے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھا۔
”تم کیا کہہ رہے ہو؟”
”اتنا معصوم بننے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”ثمر! میں نے تمہاری فیس جمع نہیں کروائی۔”
”جھوٹ مت بولو۔”
”میں نے کروائی ہوتی تو میں تمھیں بتا دیتی۔ میں واقعی سچ کہہ رہی ہوں، میں نے تمہاری فیس جمع نہیں کروائی۔”
”نایاب! کافی مذاق ہو چکا ہے۔ اب مجھے صرف اپنا اکاؤنٹ نمبر بتاؤ تاکہ میں فیس کی رقم تمھارے اکاؤنٹ میں جمع کروا دوں۔” ثمر اب بھی سنجیدہ تھا۔
”میری سمجھ میں نہیں آ رہا ثمر! کہ تم میری بات پر یقین کیوں نہیں کر رہے۔ جب میں کہہ رہی ہوں کہ میں نے تمہاری فیس جمع نہیں کروائی تو پھر تم یقین کر لو کہ میں نے جمع نہیں کروائی… البتہ میں ایسا کرنے کا سوچ ضرور رہی تھی۔” نایاب اس بار کچھ جھنجھلا کر بولی تھی۔
ثمر بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا۔
”اگر یہ مذاق ہے تو بہت بھونڈا مذاق ہے۔” اس نے بالآخر کہا۔
”یہ مذاق نہیں ہے۔ میں واقعی سچ کہہ رہی ہوں۔ مجھے خود بھی یہ جان کر حیرانی ہو رہی ہے کہ کسی نے تمہاری فیس جمع کروائی ہے۔ کہیں کسی اور لڑکی کے ساتھ بھی تو چکر نہیں چل رہا تمہارا؟”
ثمر اسی طرح الجھی ہوئی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ تمھیں خود بھی کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ ایک بار پھر آفس سے چیک کرو۔” نایاب نے بھی سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
ثمر نے کچھ کہنے کے بجائے اس کی آنکھوں کے سامنے کچھ رسیدیں کر دیں۔
نایاب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
نایاب نے سر اٹھا کر قدرے الجھی ہوئی نظروں سے ثمر کو دیکھا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھی۔
”یقین کرو میں نے تمہاری فیس جمع نہیں کروائی۔”
”یہ رسیدیں کس نے دیں؟”
”ڈاک سے گھر پر آئی ہیں اور میرے گھر کے ایڈریس کا بھی تمھیں ہی پتا ہے۔” ثمر کو اب بھی اس کی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
”جو تمھارے لیے حاتم طائی بن سکتا ہے اور آنکھیں بند کر کے یوں روپے خرچ کر سکتا ہے ،وہ شرلاک ہومز بن کر تمہارا ایڈریس حاصل نہیں کر سکتا؟” نایاب نے کہا۔
”میں سیریس ہوں نایاب!”
”میں بھی مذاق نہیں کر رہی۔ مجھے خود بھی حیرانی ہو رہی ہے کہ میرے علاوہ ایک دم تمہارا ایسا کون سا ہمدرد پیدا ہو گیا ہے۔ کس کو تمھارے این سی اے میں آنے سے دلچسپی ہو سکتی ہے۔ کسی اور لڑکی کے ساتھ بھی دوستی ہے تمہاری؟” نایاب اب اس سارے معاملے کو کسی اور رنگ میں دیکھ رہی تھی۔
ثمر نے نایاب کے تاثرات کو دیکھا اور وہ مزید الجھ گیا۔ اگر وہ نایاب کا کام نہیں تھا تو پھر کس کا کام تھا۔ کون ایسا خیر خواہ پیدا ہو گیا تھا، جو اس میں اس حد تک دلچسپی رکھتا تھا کہ اس کے تعلیمی اخراجات اٹھا رہا تھا۔
”اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟” نایاب نے اسے پریشان دیکھ کر کہا۔ ”بہت جلد تمھیں پتا چل ہی جائے گا یہ فیور کس نے کیا ہے۔ ظاہر ہے وہ ہمیشہ تو اپنے آپ کو چھپائے نہیں رکھے گا، اور پھر اس فیور کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا۔” نایاب نے اس کے بازو کو آہستہ سے تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
”خیر…! میں کسی کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔” ثمر نے ان رسیدوں کو دوبارہ والٹ میں ڈال کر اسے جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔