گاڑی کو مین روڈ پر لاتے ہی ہارون نے کہا ”مجھے آج کا تمہارا رویہ بالکل اچھا نہیں لگا۔”
”اور مجھے آپ کا رویہ کتنا برا لگا ہے آپ کو اس کا اندازہ ہے؟” امبر نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”تمہاری آج کی باتیں بہت بچگانہ تھیں۔”
”اور اس سے پہلے میں جو کچھ کر رہی تھی، وہ بچگانہ تھا۔”
”میں تم سے اپنے اس دن کی حرکت کے لیے ایکسکیوز کر چکا ہوں۔” ہارون نے اپنے لہجے میں نرمی پیدا کی۔
”تمھیں صورت حال کو سمجھنا چاہیے تھا کیا اس سے پہلے میں کبھی تمھیں اس طرح چھوڑ کر گیا ہوں؟”
”میں صورت حال کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہوں اور مجھے اس صورت حال سے نفرت ہے۔” امبر نے اسی انداز میں کہا۔
”آپ کے رویے سے مجھے اور کچھ نہیں صرف اپنی اوقات کا پتہ چلا۔ صرف یہ اندازہ ہوا کہ میں تو کوئی بھی نہیں ہوں۔ میں تو اتنی غیر اہم ہوں آپ کی زندگی میں کہ آپ سڑک کے کسی بھی کنارے پر مجھے کبھی اتار کر چلے جائیں۔ کبھی بھی، کہیں بھی۔”
”امبر! میں نے تم سے کہا ہے۔ آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔” ہارون نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”ایسا تب نہیں ہوگا جب میرا اور آپ کا کوئی رشتہ ہوگا، جو ابھی نہیں ہے۔”
”تمھیں لگتا ہوگا کہ میرا اور تمہارا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ ہارون نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”مجھے لگتا نہیں بلکہ ایسا ہی ہے۔”
”پھر تمھیں غلط فہمی ہے۔”
”تو کیا ساری دنیا کو غلط فہمی ہے؟”
”لوگوں کی بات مت کرو، ہمیں لوگوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہونا چاہیے۔”
”ہمیں لوگوں سے دلچسپی ہو یا نہ ہو لوگوں کو ہم سے بہت دلچسپی ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ دنیا یہ سوال کرنے پر حق رکھتی ہے کہ ہم دونوں کا آپس میں رشتہ کیا ہے۔”
”تم جو مرضی نام دے دو اس رشتے کو… میری طرف تمہیں اجازت ہے۔” ہارون نے کہا۔
”رشتے کو نام عورت نہیں دیتی ،مرد دیتا ہے۔ جس رشتے کو صرف عورت نام دیتی ہے۔ وہ بس نام کا ہی رشتہ ہوتا ہے۔”
امبر بے حد سنجیدہ تھی۔ ہارون کمال کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس کے ساتھ باہر آ جانے کے بعد بھی ایسی ہی باتیں کرے گی۔
”آپ بتائیں کہ آپ میرے اور اپنے رشتے کو کیا نام دیتے ہیں؟”
”امبر! یہ فضول باتیں ہیں۔” ہارون نے ناگواری سے کہا۔
”آپ کے نزدیک یہ فضول باتیں ہیں مگر میری زندگی کا دار و مدار ان ہی فضول باتوں پر ہے۔” امبر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے تیز لہجے میں کہا۔
”مجھے کیا کہنا چاہیے آپ کو، انکل، فرینڈ یا کچھ اور؟”
”فرینڈ۔” ہارون نے بالآخر کہا۔ امبر کا چہرہ بجھ گیا۔
”اور مجھے دوستوں سے نفرت ہے۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے، آپ گاڑی روکیں، مجھے اترنا ہے۔” اس نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
”میں تم سے محبت کرتا ہوں امبر! مگر کیا بار بار اس کا اظہار ضروری ہے؟” ہارون نے اس بار کچھ خفگی سے جیسے گھٹنے ٹیکتے ہوئے کہا۔
”آخر میں کتنی بار تم کو یہ بتاؤں گا۔ کیا پہلے میں نے کبھی تم سے یہ نہیں کہا اور تم، تم اپنی ممی کے سامنے بھی مجھ سے یہی سوال کر رہی تھیں۔” وہ اب کچھ جھنجھلایا ہوا تھا۔ ”مجھ سے اپنے لیے جذبے کا پوچھ رہی تھیں کہ کیا یہ صرف ہمدردی ہے؟ اب تمہاری ممی کے سامنے میں یہ کہتا کہ نہیں یہ محبت ہے۔ اسی لیے تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم بعض دفعہ بہت بچگانہ انداز میں سوچتی اور بولتی ہو۔ کیا یہ بار بار کہنا ضروری ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں؟”
”آپ بار بار زبان سے یہ مت کہیں اس محبت کو کوئی نام دے دیں جو خود ہر وقت اس بات کا اظہار کرتا رہے گا کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے۔” امبر نے رسانیت سے کہا۔
”مطلب؟” ہارون کے ماتھے پر چند بل پڑ گئے۔
”آپ مجھ سے شادی کر لیں۔”
”کم آن۔” ہارون جیسے بے اختیار کراہا۔ مین روڈ سے اس نے گاڑی ایک سروس روڈ پر موڑتے ہوئے سڑک کے کنارے کھڑی کر دی۔
”یہ فتور تمھارے دماغ میں کس نے بھرا ہے؟” وہ ناراضی سے بولا۔
”آپ کے نزدیک مجھ سے شادی فتور ہے؟” امبر بھی برہم نظر آنے لگی۔
”تو پھر یہ محبت کا ڈرامہ کس لیے؟”
”میں تم سے کوئی ڈرامہ نہیں کر رہا۔ واقعی محبت کرتا ہوں۔”
”مگر آپ مجھ سے وہی محبت کرتے ہیں جس میں شادی کہیں نہیں آتی، نہ ہی آئے گی۔ امبر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ”کیونکہ شادی کا مطلب ذمہ داری ہے اور آپ میری ذمہ داری اٹھانا نہیں چاہتے۔”
”کیوں ذمہ داری اٹھانا نہیں چاہتا۔ میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تمھیں گھرمیں رکھوں گا۔ تم جو مانگو گی تمھیں دوں گا۔ میں تمہاری فیملی کے بھی اخراجات اٹھاؤں گا پھر تم کیوں اس طرح کہہ رہی ہو؟”
”میری فیملی کے اخراجات پاپا نے اٹھانا شروع کر دیا ہے۔” وہ امبر کی بات پر چونک پڑا۔
”کیا مطلب؟”
”پاپا ہمیں اخراجات کے لیے رقم بھجوا رہے ہیں اور اب ہم آپ کی مدد کے بغیر ہی بہت جلد اس علاقے سے کسی بہتر علاقے اور گھر میں منتقل ہو جائیں گے۔”
امبر نے جتانے والے انداز میں کہا۔ ہارون اپنے ہونٹ بھینچے بیٹھا رہا۔ منصور نے کب ان لوگوں کو رقم بھجوانی شروع کی تھی اس کا اسے اندازہ نہیں ہو سکا تھا اور اب وہ وہاں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ شاید امبر اور اس کی فیملی کے رویے میں آنے والی تبدیلی کی وجہ انھیں ملنے والی یہ رقم ہی تھی۔
”آپ کو اگر مجھ سے محبت ہے تو پھر آپ کو مجھ سے شادی کرنا پڑے گی۔” امبر پھر بولی۔ ”تاکہ میں دنیا کے سامنے آپ کو اپنا کہہ سکوں۔ مجھے صرف دولت کی ترغیب مت دیں۔ میں نے بہت دولت دیکھی ہے۔ آپ جانتے ہیں میرا باپ کروڑ پتی تھا اور میں اس کی چہیتی بیٹی تھی۔ آپ کیا میرے باپ سے زیادہ آسائشیں لا کر میرے سامنے رکھیں گے؟”
امبر کے لہجے میں عجیب سی چبھن اور کسک تھی۔
”نہیں ہارون! مجھے ان دوسری لڑکیوں کی طرح مت سمجھیں جو صرف پیسہ دیکھ کر آپ کے ساتھ چل پڑتی ہوں گی۔ میں آپ کے پاس Companionship کے لیے آئی تھی بدنامی اور رسوائی پانے نہیں۔” امبر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”میں نے یہ نہیں کہا کہ میں تم سے کبھی شادی نہیں کروں گا۔” ہارون نے یکدم پینترا بدلتے ہوئے کہا۔ ”میں تم سے شادی کروں گا۔ ظاہر ہے محبت کرتا ہوں تو شادی بھی کروں گا۔ مگر فوری طور پر یہ ممکن نہیں ہے۔” ہارون نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”ابھی ہمیں کچھ انڈر اسٹینڈنگ ڈویلپ کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے اس کے بعد…”
امبر نے ترشی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”ابھی بھی ہمیں انڈر اسٹینڈنگ ڈویلپ کرنے کی ضرورت ہے؟ ابھی بھی ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں کچھ سوچنا، کچھ جاننا، کچھ سمجھنا ہے؟” وہ بے یقینی سے ہارون کو دیکھ رہی تھی۔
”کیا ہے جو آپ میرے بارے میں نہیں جانتے اور میں آپ کے بارے میں، پھر بھی آپ کو مجھے اپنانے میں ہچکچاہٹ ہے۔”
”شادی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔”
امبر نے اس کی بات کاٹی۔ ”تو پھر محبت کو بھی بچوں کا کھیل مت بنائیں۔ مجھ سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے تب آئیں جب آپ مجھے اپنا نام دے سکیں۔”
”تم اتنی ضد کیوں کر رہی ہو؟” ہارون بے اختیار جھنجھلایا۔ آج وہ پہلی بار اسے کچھ بھی سمجھانے یا پھر دوسرے الفاظ میں اس کی ضد سے ہٹانے میں ناکام ہو رہا تھا اور یہ ناکامی اس کی جھنجلاہٹ میں اضافہ کر رہی تھی۔
”کیا تمھیں مجھ پر اعتبار نہیں رہا؟”
”مجھے کسی پر بھی اعتبار نہیں ہے۔ آپ پر کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، ہوگا یا نہیں یہ میں نہیں جانتی۔” امبر نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”صبغہ نے تمھیں…” ہارون نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
امبر نے ترشی سے اس کی بات کاٹ دی۔ ”صبغہ کے بارے میں کچھ مت کہیں۔ اس نے مجھ سے کوئی غلط بات نہیں کہی۔ نہ اس نے، نہ ممی نے۔ میرے باپ نے رخشی سے محبت کی تھی تو انھوں نے کسی چیز کو خاطر میں لائے بغیر اس سے شادی کر لی تھی۔ انھوں نے تو رخشی کو یہ سارے لیکچر نہیں دیے تھے جو آپ مجھے دے رہے ہیں۔”
وہ اب ایک عجیب سا موازنہ ہارون کے سامنے پیش کر رہی تھی۔
”میں وہ غلطیاں دہرانا نہیں چاہتا جو منصور نے کی تھیں۔” ہارون نے اس کی بات کا جواب دیا۔
”یعنی آپ مجھ سے شادی کی غلطی نہیں کریں گے؟” امبر عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ ہارون کہہ کر پچھتایا۔
”میں تم لوگوں کے ساتھ منصور کے سلوک کی بات کر رہا ہوں۔” اس نے بروقت بات سنبھالی۔
”یعنی آپ اپنی فیملی کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے؟” امبر بڑبڑائی۔
”ٹھیک ہے، مت چھوڑیں۔ میں یہ چاہتی بھی نہیں کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں۔ میں وہ سب کچھ دہرانا نہیں چاہتی جو پاپا نے ہمارے ساتھ کیا۔” وہ اب بڑبڑا رہی تھی۔
”مگر میں آج کے بعد دوبارہ آپ کی گاڑی میں تب بیٹھوں گی جب آپ مجھ سے شادی کے لیے تیار ہوں گے۔” ہارون نے بے بسی سے اسے دیکھا۔
٭٭٭
”سر! میں اندر آ سکتا ہوں؟” شہیر نے دروازہ کھول کر سی ای سے پوچھا۔ معراج ظفر نے چونک کر اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر کچھ ناگواری سی در آئی۔
”ہاں آؤ۔” انھوں نے اپنے سامنے پڑی ایک فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
”تھینک یو۔” شہیر نے کہا۔
”بیٹھو۔” معراج ظفر نے اپنے آفس ٹیبل کے دوسری طرف پڑی کرسی پر اسے بیٹھنے کے لیے کہا، وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔
”ہاں کہو، کس لیے آئے ہو؟”
شہیر کو ان کا لہجہ کچھ عجیب سا لگا۔ ان کے لہجے میں عجیب سی سرد مہری تھی۔ اس سے پہلے جب بھی وہ اس سے ملتے رہے تھے ان کا رویہ بہت اچھا ہوتا تھا نہ صرف یہ بلکہ وقتاً فوقتاً شہیر کے کام کی تعریف بھی کرتے تھے اور اب یک دم ان کے لہجے میں آنے والی تبدیلی حیران کن تھی۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ ان کے کہنے پر ہی اس کی تنخواہ میں غیر معمولی اضافہ کیا گیا تھا اور پروموشن دی گئی تھی ان کے لہجے کی سردمہری… شہیر نے اسے اپنا وہم سمجھا۔
”میں آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے آیا ہوں۔” شہیر نے بات کا آغاز کیا۔
”کس بات کے لیے؟” سرد مہری برقرار تھی۔
”آپ نے میری پروموشن…” وہ بات مکمل نہیں کر سکا معراج ظفر سے بڑی رکھائی کے ساتھ اس کی بات کاٹی۔
”ہاں ٹھیک ہے، پروموشن ہو گئی تمہاری اور کچھ؟” شہیر چند لمحے کچھ بول نہیں سکا۔ ان کا انداز ایسا قطعاً نہیں تھا کہ وہ اپنے اس ملازم سے بات کر رہے ہوں جسے انھوں نے ایک دن پہلے ہی پروموشن دی ہو۔
”اور میں پے کے لیے۔” شہیر نے ایک بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی مگر ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی گئی۔
”میں نے کہا نا ٹھیک ہے… اگر تم صرف اسی کام کے لیے آئے ہو تو جا سکتے ہو، میں مصروف ہوں۔”
انھوں نے دوبارہ فائل کھولتے ہوئے کہا۔ ان کا لہجہ ہتک آمیز تھا۔ شہیر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ جب سے یہاں جاب کر رہا تھا یہ پہلا اتفاق تھا کہ معراج ظفر نے اس سے اس طرح بات کی ہو۔ ان کے لہجے میں صرف رکھائی یا سردمہری نہیں تھی، ترشی اور تلخی بھی تھی اور توہین بھی۔