”ہیلو!” ہارون نے جواب نہ ملنے پر دوبارہ کہا تھا۔ امبر نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”ہیلو ۔ میں امبر ہوں۔” اس نے جیسے جھجکتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
”مائی گڈینس۔” دوسری طرف سے ہارون کمال کی سنجیدہ آواز میں یک دم ایک عجیب سا جوش شامل ہو گیا۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم مجھے کال کر رہی ہو۔”
”کیوں’ کیا میں آپ کو کال نہیں کر سکتی۔” اس کے جوش نے اس کی خوشی میں اضافہ کیا۔
”یہی یقین تو خود کو دلانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ تم بھی مجھے کال کر سکتی ہو۔” ہارون نے دوسری طرف سے کہا۔ ”تم کیسی ہو؟”
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟”
”میں بھی بالکل ٹھیک ہوں۔”
”آپ پاکستان کب واپس آئے ؟”
”چند دن ہی ہوئے ہیں۔”
”اور آپ نے ہم لوگوں سے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔” امبر نے بے اختیار شکوہ کیا۔
”میں ابھی کانٹیکٹ کرنے کا سوچ ہی رہا تھا مگر تم نے پہل کر دی۔ فون کہاں سے کر رہی ہو؟” ہارون کمال کو یک دم خیال آیا۔
”ایک پی سی او سے۔”
”کیوں … تم لوگوں نے فون نہیں لگوایا؟”
”نہیں۔”
”اس وقت کس جگہ پر ہو؟” امبر نے اسے اپنا محل وقوع بتایا۔
”تم وہیں رہو میں آدھ گھنٹہ تک وہاں پہنچتا ہوں۔” ہارون کمال نے جواباً کہا۔
٭٭٭
آدھے گھنٹہ کے بعد وہ واقعی وہاں موجود تھا۔ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے امبر نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ وہ آخری بار کب کسی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی اور کس کے ساتھ’ اسے فوری طور پر یاد نہیں آیا۔
ہارون ہمیشہ کی طرح بہت باوقار اور پُرکشش لگ رہا تھا اور خلاف معمول وہ خاموش بھی نظر آ رہا تھا اس کی خوشی اس کے چہرے پر پڑھی جا سکتی تھی۔
”لانگ ڈرائیو پر چلتے ہیں۔” ہارون نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”مجھے گھر جلدی جانا ہے۔” امبر کو اچانک منیزہ کی ہدایات یاد آئیں۔
”کیوں؟” ہارون کمال یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
”ممی نے مجھے جلدی آنے کے لیے کہا تھا۔” امبرنے اس سے کہا۔
”اور میری خواہش ہے کہ تم دیر سے جاؤ۔” ہارون کمال کے انداز میں بلا کا اطمینان تھا۔
امبر جواب میں کچھ کہنے کے بجائے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ لئے اس کے چہرے کو دیکھتی رہی’ پھر ونڈ اسکرین سے باہر دیکھنے لگی۔
” How do you feel now? (کیسا لگ رہا ہے تمہیں)” ہارون کمال نے یک دم اس سے پوچھا’ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
”میڈیسن باقاعدگی سے لے رہی ہو؟” اس کے اگلے سوال نے امبر کی حیرانی کو دور کیا۔
”میڈیسن؟ ہاں۔” امبر کو اس کی توجہ اچھی لگی۔
گاڑی میں کچھ دیر خاموشی رہی پھر امبر نے ہارون سے کہا۔
”میں نے ان دنوں آپ کو بہت مس کیا۔”
ہارون کے چہرے پر نظر آنے والی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
”کیا میں یقین کر لوں کہ میں واقعی لکی ہوں؟”
”آپ کو یقین کر لینا چاہیے۔ کوئی سوال پوچھے بغیر۔ ” امبر جواباً بولی۔
”میں نے بھی تمہیں بہت مس کیا۔” ہارون کہنے لگا۔ ”مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ تم میرے لیے اتنی اہم ہو چکی ہو۔ صرف یہاں سے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میرے لیے اب تمہارے بغیر رہنا کتنا مشکل ہو گیا ہے۔”
امبر کو اس کے اظہار نے عجیب قسم کی خوشی دی۔ وہ ایسی بہت سی باتیں’ بہت سال طلحہ سے سنتی رہی تھی۔ وہ ان باتوں کے بعد طلحہ کا ردعمل بھی دیکھ چکی تھی۔ وہ محبت کے نام پر اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھوکہ کھا چکی تھی۔ اس کے باوجود وہاں بیٹھے ہارون کمال کے منہ سے نکلنے والے پُرفریب لفظ اسے صرف اس لیے اچھے لگ رہے تھے کہ وہ دھوکا تھے اور انسان کو فریب کھانا اور دینا دونوں ہی ہمیشہ سے بہت پسند رہے ہیں۔
”کیا کرتی ہو گھر میں سارا دن؟” ہارون نے یک دم موضوع بدل دیا۔
امبر ابھی اسی موضوع پر اس سے بہت کچھ سننا چاہتی تھی۔ ہارون کمال کے موضوع بدلنے پر وہ قدرے مایوس ہوئی۔ ”میں’ میں کچھ نہیں کرتی۔ وہاں کرنے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔ میں سارا دن اپنے کمرے میں رہتی ہوں۔” امبر نے سوچتے ہوئے جیسے اس سے کوئی شکوہ کیا۔
”تمہیں کوئی جاب کر لینی چاہیے۔” ہارون کمال نے جواباً کہا۔
”جاب؟” امبر جیسے حیران ہوئی۔ ”جاب۔ مجھے جاب کون دے گا۔میں اتنی کوالیفائیڈ نہیں ہوں۔”
ہارون نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ”عورت کی سب سے بڑی کوالی فیکیشن اس کی خوبصورتی ہوتی ہے اور یہی واحد کوالی فیکیشن ہے جس کی اس کو ضرورت ہے’ جو سوسائٹی میں اس کی بقا کو ممکن بناتی ہے اور تم … تم بہت خوبصورت ہو۔”
امبر کو اس کے جملوں نے کچھ عجیب سا احساس دیا۔ ”امبر” سے ”عورت” پر آ گیا تھا۔ اور وہ بھی ”ہر عورت” پر۔ ہارون کمال کو چہرہ پڑھنے میں ملکہ حاصل تھا’ اس نے اس وقت بھی امبر کا چہرہ پڑھنے میں دیر نہیں کی۔
”اگر تمہیں بُرا لگا ہو تو میں ایکسکیوز کرتا ہوں۔ میں صرف ویسے ہی ایک بات کر رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ تم جاب کر لو’ میرے پاس۔” اس نے ایک بار پھر پہلے کی طرح بات کو گھمایا۔
”آپ کے پاس؟” وہ سمجھ نہیں سکی۔
”مجھے آج کل ایک سیکرٹری کی ضرورت ہے۔” ہارون نے بڑی سہولت سے کہا۔ ”اور میں چاہتا ہوں یہ جاب تمہیں دوں۔”
امبر سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔
”اس لیے نہیں کہ تمہیں جاب کی ضرورت ہے صرف اس لیے ‘ کیونکہ میں چاہتا ہوں تم اپنا وقت تعمیری انداز میں گزارو اور اس لیے بھی کہ میں زیادہ سے زیادہ وقت تمہارے ساتھ گزار سکوں۔”
ہارون کمال نے آخری جملہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ ادا کیا۔ امبر اب بھی چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔
”میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ جو سہولیات میری سیکرٹری کو مل رہی تھیں وہ تمہیں مل سکیں’ ایک اچھا گھر’ گاڑی اور بہت اچھی پے۔ میں واقعی چاہتا ہوں کہ کم از کم تم اس علاقے سے نکل آؤ جہاں تمہاری بہن تمہیں لے گئی ہے وہ جگہ تمہارے قابل نہیں ہے۔”
امبر کے چہرے پر اب بھی کوئی تاثر نہیں آ رہا تھا۔
”بہت سی لڑکیاں اکیلے Independently رہتی ہیں تم بھی رہ سکتی ہو’ اگر اپنے اندر کچھ حوصلہ پیدا کرو۔” ہارون اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”بہت سی لڑکیاں اکیلے آزادانہ رہتی ہیں’ تم بھی رہ سکتی ہو اگر اپنے اندر حوصلہ پیدا کرو۔” ہارون نے امبر کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”اور میں جانتا ہوں۔ تم یہ کام بہت آسانی سے کر سکتی ہو۔”
”ممی اور صبغہ کبھی اس پر رضامند نہیں ہوں گی۔”
امبر نے طویل خاموشی کے بعد زبان کھولی ہارون خاموشی سے اس کا چہرہ پڑھ رہا تھا۔ وہ جیسے کچھ الجھ رہی تھی۔
”اگر انہیں آپ کے گھر میں شفٹ ہونا ہوتا تو وہ پہلے ہی …”
ہارون نے اس کی بات درمیان میں کاٹ دی۔
”میں ان کے شفٹ ہونے کی بات نہیں کر رہا’ میں تمہارے شفٹ ہونے کی بات کر رہا ہوں۔”
”اکیلے؟” اسے جیسے یقین نہیں آیا کہ یہ ہارون کا مطلب یہ ہو گا۔
”ہاں یقینا اکیلے۔” ہارون نے اثبات میں سرہلایا۔ امبر بمشکل مسکرائی۔ اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
”میں اکیلے نہیں رہ سکتی ہارون! یہ ناممکن ہے۔ ”اور پھر میں ایسا سوچ بھی لوں تب بھی صبغہ اور ممی اکیلے رہنے نہیں دیں گے۔”
”کم آن امبر!” ہارون نے ٹوکا اس کے لہجے میں ناگواری تھی۔ ”بار بار صبغہ کی بات مت کرو … تم اس سے بڑی ہو اس سے کہیں زیادہ آزادانہ فیصلے کر سکتی ہو … تمہیں اس سے کچھ بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اگر اکیلے رہنے کا فیصلہ کر لو تو وہ تمہیں کیسے روک سکتی ہے۔”
”مگر ممی … وہ تو روک سکتی ہیں۔”
”وہ کیوں روکیں گی … تم ان سے صاف صاف کہو کہ تم ان سے الگ رہنا چاہتی ہو۔”
”مگر میں ان سے الگ نہیں رہنا چاہتی۔” امبر نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔ ”میں الگ نہیں رہ سکتی … وہ میری فیملی ہیں۔”
”وہ تمہاری فیملی نہیں ہیں۔” ہارون نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”فیملی شوہر اور بچوں سے ہوتی ہے۔ تمہارا شوہر تمہیں طلاق دے چکا ہے۔ اب یہ تم پر ہے کہ تم اپنے پیرنٹس کے گھر میں رہو یا نہ رہو۔” وہ بڑی بے نیازی سے کہہ رہا تھا۔ ”اور چونکہ تمہارے پیرنٹس کے درمیان بھی علیحدگی ہو چکی ہے تو تمہارے لیے فیصلہ کرنا اور بھی آسان ہے۔” ہارون نے جیسے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔ ”تم قانونی طور پر بھی الگ رہنے کا حق رکھتی ہو اور تم خوامخواہ ڈر رہی ہو کہ تمہاری ممی تمہیں الگ نہیں رہنے دیں گی اور پھر میں ہوں نا … تمہیں کوئی بھی دقت پیش آئے تو میں تمہاری مدد کروں گا۔”
”ہارون! میں ڈر نہیں رہی ہوں … میں صرف ان سے الگ نہیں رہنا چاہتی … میں ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ میں اکیلے نہیں نہیں رہ سکتی؟” ہارون اس بار کچھ جھنجھلایا۔
”بس میں نہیں رہ سکتی … مجھے ان لوگوں کے بغیر رہنے کی عادت نہیں ہے۔”
”عجیب منطق ہے۔” ہارون بڑبڑایا۔ ”فرض کرو … تمہاری شادی ہو جاتی ہے تب بھی تو تم اپنی فیملی سے الگ جا کر رہو گی۔”
”وہ اور بات ہے۔” امبر کا لہجہ تھکا ہوا تھا۔
”تب کیا اور بات ہے؟” ہارون جیسے جھٹلانے والے انداز میں کہا۔ ”اگر طلحہ کے ساتھ تمہاری رخصتی ہو جاتی تو گھر تو چھوڑنا ہی پڑتا تمہیں۔”
”پلیز ہارون! ہم یہاں طلحہ اور میری شادی کے بارے میں بات کرنے نہیں آئے۔”
”اوکے … ہم ان کے بارے میں بات نہیں کرتے۔” ہارون نے یک دم مصالحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا۔ ”مگر تم میری بات پر غور تو کر سکتی ہو… یا پھر تم ہمیشہ کے لیے ان Slums (گندی گلیوں) میں رہنا چاہتی ہو۔” ہارون کے لہجے میں حقارت تھی۔
”میں وہاں رہنا نہیں چاہتی۔” امبر نے اعتراف کرنے والے انداز میں کہا۔ ”میں جانتی ہوں میں وہاں زیادہ عرصے تک نہیں رہ سکتی مگر میں جہاں بھی رہوں گی اپنی فیملی کے ساتھ رہوں گی ۔ میں اکیلے کہیں جا کر نہیں رہوں گی۔” اس نے دوٹوک لہجے میں گویا بات ختم کر دی۔
ہارون نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ ”اور تمہاری فیملی کبھی بھی اس علاقے سے نہیں نکلے گی۔”
”نہیں ایسا نہیں ہے … صبغہ اور ممی کہہ رہی تھیں کہ ہم بہت جلد وہاں سے چلے جائیں گے۔” امبر نے بے ساختہ کہا۔ ”ممی نے تو اسی لیے آپ سے بات بھی کی تھی مگر اس وقت آپ بیرون ملک چلے گئے۔”
”ہاں … لیکن جب میں نے انہیں آفر کی تھی تب تو انہوں نے میری آفر قبول نہیں کی تھی۔” ہارون نے برہمی سے کہا۔ ”تب تو تمہاری بہن کی خود داری نے اسے اجازت نہیں دی تھی کہ وہ میری آفر کے بارے میں غور بھی کرتی ۔ حالانکہ میں تو تم لوگوں سے ہمدردی کی وجہ سے گھر کی آفر کر رہا تھا۔” ہارون کے لہجے میں تلخی آ گئی۔
”صبغہ ایسی ہی ہے … میں اسے سمجھاؤں گی۔” امبر نے جیسے ہارون کی ناراضی کو کم کرنے کی کوشش کی۔
”اور میں نہیں سمجھتا تمہیں اس میں کوئی کامیابی ہو گی۔ وہ تمہارے باپ کی طرح خاصی بددماغ اور بے لحاظ ہے۔” ہارون’ صبغہ کے بارے میں اپنے ”دلی جذبات” کو چھپا نہیں سکا۔
”نہیں … آپ اسے پاپا کے ساتھ کمپیئر نہیں کر سکتے۔” امبر کا لہجہ بدل گیا۔
”وہ پاپا کی طرح نہیں ہے … اس نے ہم لوگوں کے لیے اتنا بہت کچھ Sacrifice (قربان) کیا ہے۔”
”کیا Sacrificeکیا ہے؟” ہارون کے ماتھے پر بل آ گئے۔
”وہ پاپا کے گھر میں آرام سے رہ سکتی تھی۔ پاپا نے اسے تو گھر سے نہیں نکالا تھا مگر اس کو صرف ہمارے لیے … بلکہ میری وجہ سے اس گھر سے نکلنا پڑا۔”
ہارون نے کچھ نہیں کہا مگر اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اسے امبر کی یہ ”ہمدردی” پسند نہیں آئی تھی۔
”ہم لوگوں کی وجہ سے اس نے اسامہ سے طلاق لے لی۔”
ہارون نے اس بار مداخلت کی ”Now I Disagree With You” (میں تم سے اتفاق نہیں کرتا)
امبر کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
”اس نے تم لوگوں کی وجہ سے اسامہ سے طلاق نہیں لی … کوئی لڑکی بھی اس طرح کا احمقانہ فیصلہ صرف اپنے ماں باپ یا بہن بھائیوں کے لئے نہیں کرتی۔ اس نے اسامہ سے اس لیے طلاق لی کیونکہ وہ جانتی تھی وہ اس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔ ہو سکتا تھا کل شادی کے بعد اسامہ اسے خود طلاق دے دیتا۔” ہارون کی پوری کوشش تھی کہ امبر کو صبغہ سے بدظن کر دے۔
اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ اس گھر میں جا کر تمہاری اور منصور کی وجہ سے بہت سارے پرابلمز کاشکار ہو گی … تو اس نے بڑی عقل مندی اور سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت پہلے ہی اس پھندے سے جان چھڑا لی جو کل اس کے لیے مصیبت کا باعث بن سکتا تھا۔”
”ایسا نہیں ہے۔” امبر نے ترشی سے ہارون کی بات کاٹی۔ ”وہ اسامہ سے کتنی محبت کرتی تھی آپ کو اندازہ نہیں ہے۔”
”مجھے بہت اچھی طرح اندازہ ہے۔” ہارون نے اس کی بات کاٹی۔ ”وہ تمہاری طرح اس ایک رشتے کے لیے جذباتی نہیں تھی جو اس پر اس وقت مسلط کیا گیا جب وہ بہت چھوٹی تھی۔ منصور کی طرح وہ بھی بہت پریکٹیکل ہے اور اسی لیے میں تم سے کہہ رہا تھا کہ وہ بالکل تمہارے باپ کی طرح خود غرض اور بدلحاظ ہے۔”
”طلحہ نے تمہیں طلاق دی اور تمہارا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا کیونکہ تم طلحہ سے محبت کرتی تھیں۔ اب یہ ایک دوسری بات ہے کہ وہ اس قابل تھا یا نہیں … لیکن تم صبغہ کو دیکھو اسامہ کے ساتھ تعلق ختم کرنے کے لیے اس نے پہل کی اور اس پر کسی قسم کا کوئی اثر ہوا؟ نہیں … بالکل بھی نہیں … ایسے لوگوں کو چالاک کہا جاتا ہے مگر تمہاری طرح کے لوگ ایسے لوگوں کو ہیرو بنا لیتے ہیں۔” وہ عجیب سے انداز میں ہنسا۔ امبر کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑ گئی تھی۔ اسے عجیب خجالت سی محسوس ہو رہی تھی۔
اسے یہ خوف محسوس ہوا کہ میں بغیر کسی واضح تعلق کے تمہاری مدد کر رہا ہوں تو بس تمہیں طلحہ کی جگہ کوئی اور نعم البدل نہ مل جائے … اور اس نے اپنی پوری کوشش کی کہ وہ تمہیں مجھ سے جتنا دور لے کر جا سکتی ہے’ لے جائے۔”
”ہارون ! ایسا نہیں ہے۔ آپ صبغہ کو بہت غلط سمجھ رہے ہیں۔” امبر نے کمزور لہجے میں صبغہ کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ ”وہ میری بہن ہے’ میری وجہ سے بہت پریشان رہتی ہے۔ وہ کیوں مجھے ناخوش دیکھنا چاہے گی؟”
”یہ بہن بھائیوں کی محبت کا قصہ صرف کتابوں میں پایا جاتا ہے۔” ہارون نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔ ”تم جس طرح اپنی مدر کے لیے گھر چھوڑ کر نکل گئیں … وہ نہیں نکلی اسے تب تم لوگوں کا خیال کیوں نہیں آیا؟ بقول تمہارے اسے تم سے محبت ہے تو پھر اس وقت اس نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ امبر کو اس کی ضرورت ہے۔” ہارون کی آواز تیز ہو گئی۔