”امی! ثانی کی شادی ابھی بہت دور ہے۔ اس کا آئی بی اے میں ایڈمیشن ہو گیا تو اسے وہاں بڑی آسانی سے اسکالر شپ مل جائے گا۔ چار پانچ سال تو اسے اپنی تعلیم ختم کرنے میں لگیں گے۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا۔ تب تک مجھے بھی کوئی اچھی جاب مل جائے گی۔ ثمر بھی سیٹ ہو جائے گا۔ ثانی کی شادی کی آپ کو فکر نہیں ہونی چاہیے۔ اس وقت ثمر کوروپے کی زیادہ ضرورت ہے۔ آپ اسے روپے دے دیں۔”
”میں اسی بارے میں تم سے مشورہ کرنا چاہتی تھی۔ ثمر این سی اے میں ایڈمیشن لے تو لے گا، مگر اسے وقتاً فوقتاً روپے کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ بار بار ہم اسے روپیہ کہاں سے دیں گے؟” فاطمہ کی پریشانی میں اب بھی کمی نہیں آئی تھی۔
”وہ ماڈلنگ سے تھوڑے بہت پیسے تو کما ہی رہا ہے۔ انھیں استعمال کر لیا کرے گا اور پھر میرا ایم بی اے بھی ختم ہو رہا ہے۔ میں بھی کوئی بہتر جاب ڈھونڈوں گا، یا پھر چند ٹیوشنز اور کر لوں گا۔ آپ پریشان نہ ہوں۔” شہیر نے فاطمہ کو تسلی دی۔
”مگر پریشانی یہ ہے کہ اگر ثمر نے این سی اے میں ایڈمیشن لینے کے بعد کالج چھوڑ دیا تو؟ تمھیں پتا تو ہے اس کے مزاج کا۔” فاطمہ نے اپنے خدشے سے اسے آگاہ کیا۔
”امی! وہ اتنا بھی غیر ذمہ دار نہیں ہے۔ ڈیڑھ دو لاکھ روپے اس کی فیس میں جائے گا تو پھر وہ ننھا بچہ تو نہیں ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر بیٹھ جائے گا۔”
”میں چاہتی تھی کہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم کو تم تینوں میں برابر تقسیم کروں۔ سارا ثمر پر خرچ ہو گیا تو پھر تمھیں یا ثانی…”
شہیر نے فاطمہ کی بات کاٹ دی۔ ”مجھے اور ثانی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور نہ ہی ہمیں اس کی ضرورت پڑے گی۔ اس وقت اس کی ضرورت صرف ثمر کو ہے۔ آپ اس کو رقم دے دیں۔”
فاطمہ نے گہرا سانس لیا۔ اسے توقع تھی کہ شہیر یہی سب کچھ کہے گا کیونکہ ثانی بھی تقریباً ایسی ہی باتیں کر چکی تھی۔ مگر اس کے باوجود اس نے ضروری سمجھا تھا کہ وہ اتنی بڑی رقم ثمر کو دینے سے پہلے شہیر سے بات کر لے۔
”ہے کہاں یہ؟” شہیر کو اچانک اس کی عدم موجودگی کا احساس ہوا۔
”کچھ دیر پہلے باہر گیا ہے۔ کہہ رہا تھا تھوڑی دیر میں آ جائے گا۔ اب تمھیں اس کی ”تھوڑی دیر” کااچھی طرح اندازہ تو ہو گا۔”
”ہاں مجھے اندازہ ہے۔ آپ کو بس یہی بات کرنا تھی؟” شہیر نے پوچھا۔
”ہاں۔ تمھیں کیا کہنا تھا؟” فاطمہ کو اچانک یاد آیا۔
”مجھے آپ کو ایک اچھی خبر دینی ہے۔” شہیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”کیا؟”
”میری پروموشن ہو گئی ہے۔”
”ارے… واقعی؟” فاطمہ نے پرجوش انداز میں بولی۔ ”ہاں، اور آپ کو پتا ہے میری پے میں کتنا اضافہ ہوا ہے؟” شہیر نے پہیلی بوجھنے والے انداز میں کہا۔
”کتنا؟’
‘
”پانچ ہزار روپے۔” شہیر اطمینان سے بولا۔
”پانچ ہزار روپے؟” فاطمہ کو یقین نہیں آیا۔
”ہاں، اب سات ہزار کے بجائے مجھے ہر ماہ بارہ ہزار روپے ملا کریں گے۔”
”مجھے یقین نہیں آ رہا۔” فاطمہ نے بے اختیار کہا۔
مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا۔ مگر جب اکاؤنٹنٹ سے بات ہوئی تو اس نے تصدیق کر دی۔ ”میں اس لیے کنفیوز ہوں کیونکہ آفس میں کسی اور کی پے میں اضافہ نہیں ہوا، اور نہ ہی کسی کی پروموشن ہوئی۔ مجھے عجیب لگا کہ صرف میری ہی پروموشن کیوں کی گئی ہے۔”
فاطمہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”اس میں عجیب لگنے والی کیا بات ہے؟ تم کام بھی تو کتنی محنت سے کرتے ہو۔”
”ہاں مگر وہاں مجھ سے بھی زیادہ محنت سے کام کرنے والے لوگ ہیں… اور آج تک کسی کی پے میں اتنا اضافہ نہیں کیا گیا۔
”تو تمھیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس طرح مشکوک نہیں ہونا چاہیے… آخر جنھوں نے تمھیں پروموشن دی ہے انھوں نے کچھ دیکھ کر ہی دی ہوگی۔ وہ کوئی بے وقوف تو نہیں ہیں کہ خوامخواہ تنخواہ بڑھاتے پھریں گے۔ میں تو ابھی محلے میں مٹھائی بانٹوں گی، شکرانے کے نفل پڑھ کر۔
فاطمہ نے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی تو شہیر نے اسے روک دیا۔
”یہ کام کرنے سے پہلے آپ میری ایک اور بات سن لیں۔” اس بار اس کا لہجہ عجیب سا تھا۔
فاطمہ چونک گئی ”کیا بات ہے؟”
”مجھے ساتھ والوں کے بارے میں آپ سے کچھ باتیں کرنا ہیں۔”
”ساتھ والوں کے بارے میں، کن ساتھ والوں کے بارے میں؟” فاطمہ حیران ہوئی۔
”صبغہ کی فیملی کے بارے میں۔”
”ان کے بارے میں کیا کہنا ہے تمھیں؟” فاطمہ واقعی پریشان ہو گئی۔
”آپ کو پتہ ہے آج کل ان کے بارے میں محلے میں کیسی باتیں ہو رہی ہیں؟”
”ان کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں؟” فاطمہ کو واقعی حیرت کا جھٹکا لگا۔
”کوئی اور فیملی ہوتی تو میں پروا کرتا نہ ہی آپ سے کوئی بات کرتا مگر آپ نے ہر ایک سے یہی کہہ رکھا ہے کہ صبغہ کی فیملی ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے اور اب ان کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں تو مجھے خدشہ ہے کہ کل کو ہمارے بارے میں بھی باتیںہوں گی۔” شہیر بے حد سنجیدہ تھا۔
”کیسی باتیں؟”
”محلے کے لڑکے کہہ رہے ہیں کہ اس فیملی کی لڑکیوں کا کردار اچھا نہیں ہے۔”
”بکواس کر رہے ہیں۔” فاطمہ نے بے اختیار کہا۔ ”وہ کتنا اچھا خاندان ہے تم تو…”
شہیر نے فاطمہ کی بات کاٹ دی۔ ”امی! میں اپنی بات نہیں کر رہا میں آپ کو وہ بتا رہا ہوں جو لوگ کہہ رہے ہیں۔ ابھی آپ میرے منہ سے یہ باتیں سن رہی ہیں، چند دنوں میں اور لوگوں کے منہ سے بھی سنیں گی۔”
”مگر لوگ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے کہنے لگے ہیں… کچھ دنوں پہلے تک تو سب کچھ ٹھیک تھا۔” فاطمہ کو پریشانی ہو رہی تھی۔
”صبغہ کی بڑی بہن جینز وغیرہ پہن کر کسی آدمی کے ساتھ جاتی رہی ہے۔”
”امبر؟” فاطمہ نے بے اختیار کہا۔
”ہاں۔”
”کس آدمی کے ساتھ؟”
”ان کا کوئی فیملی فرینڈ ہے ہارون کمال، اس کے ساتھ۔ آج وہ آدمی ان کے گھر آیا ہوا ہے اور آپ کو پتا ہے ایسی باتیں چھپی نہیں رہ سکتیں۔” شہیر نے دھیمے لہجے میں کہا۔
”آپ امبر کی امی سے بات کریں اور انھیں یہ سب کچھ بتائیں اور اب کسی سے بھی ان کا تعارف ہمارے رشتے داروں کے طور پر مت کروائیں۔”
فاطمہ کچھ دیر گم صم بیٹھی اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ پریشان ہو گئی تھی۔ شہیر کو اس کی پریشانی کا اندازہ تھا مگر اسے یہ سب کسی نہ کسی طرح سے صبغہ کے گھر تک پہنچانا تھا۔ صبغہ سے ملاقات کے دوران اس کا دل چاہا تھا کہ وہ یہ باتیں اس کو بتا دے مگر اس کی حالت اس وقت اتنی خراب تھی کہ وہ اسے کوئی اور شاک نہیں دے سکتا تھا۔
”اور مجھے آپ کو ایک اور بات بھی بتانی ہے۔ آج میں صبغہ سے ملا تھا۔” فاطمہ نے چونک کر شہیر کو دیکھا۔
٭٭٭
صبغہ نے گلی کا موڑ مڑتے ہی ہارون اور امبر کو دیکھ لیا تھا اور جو تھوڑی بہت ہمت اس کے اندر باقی تھی وہ بھی غائب ہو گئی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ ہارون اور امبر کو وہاں وہ اپنی گلی میں اکٹھا دیکھے گی۔ وہ دونوں یقینا گھر سے کہیں باہر جا رہے تھے اور ان دونوں نے بھی صبغہ کو دیکھ لیا تھا۔ امبر اور ہارون دونوں نے اسے دیکھتے ہی نظریں چرا لی تھیں۔ وہ دونوں خاموشی سے اس کے پاس سے گزر گئے تھے۔
اگر گلی میں کچھ لڑکے کھڑے نہ ہوتے تو صبغہ ان دونوں کا راستہ روکتی اور امبر کو ہارون کے ساتھ جانے نہ دیتی مگر اس وقت وہاں ان دونوں کا راستہ روکنے کا مطلب تلخ کلامی تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ گھر کا معاملہ گلی تک آ جائے۔ ہونٹ بھینچے ہوئے وہ ان کے پاس سے گزر کر اپنے گھر تک آ گئی، مگر اسے اس وقت منیزہ پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔ گھر کا بیرونی دروازہ بند نہیں تھا سو اس کے ہاتھ لگاتے ہی کھل گیا۔ وہ غصے میں بھری اندر داخل ہوئی۔
منیزہ صحن میں کھڑی تھیں، صبغہ کو اکیلے اندر آتے دیکھ کر چونک گئیں۔
”تم نے امبر کو نہیں روکا؟”
منیزہ توقع کر رہی تھیں کہ وہ امبر کو واپس گھر لے آئے گی مگر اب اسے اکیلا واپس آتے دیکھ کر انھیں مایوسی ہوئی۔
”میں اسے کیسے روک سکتی تھی جب آپ نے اسے اپنی مرضی سے یہاں سے جانے دیا ہے تو میں اسے کیسے واپس لاؤں۔” وہ یک دم اپنی برداشت کھو بیٹھی۔
”میں نے اسے روکا تھا مگر وہ رکی نہیں۔ میری مرضی کے بغیر…”
منیزہ نے وضاحت دینے کی کوشش کی تو صبغہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”آپ کی مرضی کے خلاف کیسے چلی گئی۔ میں نہیں مانتی آپ نے اس آدمی کو گھر کے دروازے سے کیوں نہیں بھگا دیا، کیوں اسے اندر بلایا۔ کیا آپ کے لیے ایک تجربہ کافی نہیں ہے؟”
”تمھیں امبر کے مزاج کا پتہ ہے۔” صبغہ نے ایک بار پھر منیزہ کی بات کاٹی۔
”مجھے آپ کے مزاج کا بھی پتا ہے۔”
”تم اسے لے آتیں۔”
”آپ گھر کی سربراہ ہو کر اسے گھر کے اندر نہیں رکھ سکیں تو میں گلی سے اسے کیسے لے آتی۔ پورے محلے کو تماشا دکھاتی؟”
”وہ ابھی آ جائے گی، کہہ کر گئی ہے۔” منیزہ نے یکدم اپنا لہجہ بدلا۔ ”آج تو اس نے بھی ہارون کمال کو کھری کھری سنائی ہیں۔”
”اور کھری کھری سنانے کے بعد ایک بار پھر اسی کے ساتھ چلی گئی؟” صبغہ کو اور غصہ آیا۔
”تم پریشان مت ہو۔ میں نے کہا نا وہ ابھی آ جائے گی نہ صرف میں نے بلکہ امبر نے بھی ہارون سے کہہ دیا ہے کہ ہمیں اس کے دیے ہوئے گھر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اس کی مدد نہیں چاہیے۔”
منیزہ نے بتانا شروع کیا مگر صبغہ ان کی بات سنے بغیر کمرے میں چلی گئی۔ اپنا بیگ ایک طرف اچھال کر وہ ڈھے جانے والے انداز میں بیڈ پر لیٹ گئی۔
”تمھیں کیا ہوا ہے؟” منیزہ بھی اس کے پیچھے ہی اندر آئی تھیں اور شاید پہلی بار انھوں نے صبغہ کی سوجی ہوئی آنکھوں اور ستے ہوئے چہرے پر غور کیا۔
”کچھ نہیں ہوا مجھے۔”
وہ آنکھیں بند کیے بڑبڑائی۔ گھر کے باہر جتنی پریشانیاں تھیں گھر کے اندر اس سے زیادہ پریشانیاں تھیں۔ وہ جتنا برا دن باہر گزار کر آئی تھی اتنی ہی بری شام گھر کے اندر اس کی منتظر تھی۔
”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟” منیزہ کو اس کی خاموشی نے پریشان کیا۔
”میری قسمت ٹھیک نہیں ہے، باقی تو سب کچھ ٹھیک ہی ہے۔”
اس نے دل میں سوچا اور آنکھیں موندے لیٹی رہی۔
٭٭٭