تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

ہارون نے ایک نظر منیزہ کے چہرے پر ڈالی جہاں آج اس ممنونیت اور تشکر کا کوئی نشان نہیں تھا، جو کچھ عرصہ پہلے ہارون کو دیکھ کر ان کے چہرے پر آ جاتا تھا۔ ہارون اندازہ کر سکتا تھا کہ ان کے ماتھے پر آنے والے بلوں کی وجہ کیا تھی مگر اسے کوئی ندامت تھی نہ شرمندگی۔
وہ آگے بڑھ کر صحن میں پڑی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے یہاں آنے کا قدم تو اٹھا لیا تھا مگر اب اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ گھر میں موجود دوسرے لوگوں کے سامنے امبر سے کوئی بات کیسے کرے۔
امبر بھی ایک کرسی کھینچتے ہوئے اس پر بیٹھنے لگی پھر یک دم اٹھتے ہوئے بولی۔
”میں چائے لاتی ہوں۔”
”نہیں، چائے کی ضرورت نہیں ہے۔” ہارون نے فوراً مداخلت کی؟ میں یہاں چائے پینے نہیں آیا۔ مجھے جلدی جانا ہے۔ کچھ ضروری کام نپٹنانا ہیں۔”
منیزہ وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہیں۔ ہارون اب واقعی کنفیوز ہو رہا تھا۔ وہ امبر سے جو کچھ کہنا چاہتا تھا، وہ منیزہ کے سامنے نہیں کہہ سکتا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس کی کسی بات پر اس طرح کے ردعمل کا اظہار کرے گی۔
”آپ اگر چائے پینے نہیں آئے۔” گفتگو کا آغاز بالآخر امبر نے ہی کیا تھا۔ ”اور آپ کو جلدی بھی ہے تو پھر آپ کس لیے یہاں آئے ہیں؟”
امبر کے انداز میں گرم جوشی کا وہ عنصر مفقود تھا جو اس سے پہلے ہارون کمال کو نظر آتا رہا تھا اور وہ اب بڑی آسانی سے یہ اندازہ کر سکتا تھا کہ وہ ناراض تھی اور اس کی ناراضی کی وجہ سے بھی وہ واقف تھا۔
”میں آپ لوگوں کو یہ بتانے آیا تھا کہ میں نے آپ لوگوں کے لیے گھر کا انتظام کر لیا ہے۔” ہارون کمال کو وہ موضوع سوجھ گیا جس پر وہ بات کر سکتا تھا۔
”کس لیے؟” امبر کا لہجہ اسی طرح ٹھنڈا تھا۔
”میری بات ہوئی تھی اس سلسلے میں۔” ہارون نے یاددہانی کرانے والے انداز میں کہا۔
آپ سے بھی، یہاں آنے کے چند دنوں کے بعد میں نے اس بارے میں بات کی تھی۔” ہارون نے منیزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”تب میں بیرون ملک جا رہا تھا اس لیے فوری طور پر اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکا مگر…” امبر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”مگر اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
”کیوں؟” ہارون نے بے حد تحمل سے پوچھا۔




”ہم یہاں خوش ہیں۔” اس بار منیزہ نے کہا۔ ”اور اگر ہمیں گھر تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئی تو ہم یہ کام خود کر لیں گے۔ آپ کی مدد کا شکریہ۔”
منیزہ نے اسے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا۔ ہارون کمال نے گردن موڑ کر امبر کو دیکھا۔ وہ اس کا ردعمل جاننا چاہتا تھا۔
”ممی ٹھیک کہتی ہیں۔ اب ہمیں کسی گھر کی ضرورت نہیں ہے۔”
”بے وقوف مت بنو امبر!” ہارون جھنجلا کر بولا۔ ”اب جب میں تمھارے کہنے پر گھر کا انتظام کر چکا ہوں تو تم کہہ رہی ہو کہ تمھیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔” اس کے لہجے میں ہلکی سی ناگواری تھی۔
”یہ علاقہ تم لوگوں کے رہنے کے لائق نہیں؟ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ تم لوگ یہاں کس طرح رہ رہے ہو۔ مجبوری کی بات اور ہے مگر اب جب میں آفر کر رہا ہوں کہ میں تم لوگوں کو ایک بہتر گھر میں شفٹ کر دیتا ہوں تو…”
امبر نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی۔ ”مگر کیوں؟… آخر آپ کا اور ہمارا تعلق کیا ہے کہ ہم آپ کے کہنے پر آپ کے دیے ہوئے گھر میں جا کر رہنے لگیں۔” امبر کے لہجے میں ترشی تھی۔
”اور کوئی ہم سے آپ کے بارے میں پوچھے تو ہم آپ کو کس نام سے متعارف کروائیں۔ کیا کہیں کہ آپ ہمارے انکل ہیں، فیملی فرینڈ ہیں، کیا ہیں؟”
وہ بے حد تلخ ہو رہی تھی اور اس کے لہجے میں جھلکتی تلخی کو ہارون نے بڑی آسانی سے محسوس کر لیا تھا۔ اسے یک دم یوں لگنے لگا تھا کہ اس پر کی جانے والی اس کی ساری محنت ضائع ہو گئی۔ وہ بالکل اسی طرح بات کر رہی تھی جس طرح طلحہ سے اپنی طلاق ہو جانے سے پہلے ہارون سے کیا کرتی تھی۔
”ہر رشتے کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔” ہارون نے بے حد تحمل سے کہا۔
”ہوتی ہے… ہر رشتے کو وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ ہم سوسائٹی میں رہتے ہیں، جنگل میں نہیں۔” امبر اسے بولنے نہیں د ے رہی تھی۔
ہارون چند لمحوں کے لیے کچھ بول نہیں سکا بس حیرانی سے امبر کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ وہاں کھل کر کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اور امبر کوئی لحاظ کرنے پر تیار نہیں تھی۔
”میں جو کچھ کر رہا ہوں آپ لوگوں کی ہمدردی میں کر رہا ہوں۔” ہارون نے سنبھل کر باری باری منیزہ اور امبر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ”میرا کوئی ذاتی مفاد تو نہیں ہے اس میں… آپ لوگوں کی فیملی کے ساتھ اتنی پرانی واقفیت ہے اسی لیے…”
امبر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”بس، سب کچھ ہمدردی کے لیے کر رہے ہیں؟ صرف اس لیے کہ ہماری فیملی کے ساتھ آپ کی پرانی واقفیت ہے اور کچھ نہیں کوئی اور جذبہ، کوئی اور احساس نہیں؟”
ہارون بری طرح پھنسا تھا اور اب وہ جذبات میں آ کر اس طرح وہاں چلے آنے پر اسے پچھتاوا ہو رہا تھا۔ بہتر تھا وہ کچھ دن اور انتظار کرتا۔ امبر کبھی نہ کبھی تو خود اس سے رابطہ کرتی تب اسے امبر اور منیزہ کے سامنے اس صورت حال سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔
”اگر یہ صرف ہمدردی اور تعلقات کا لحاظ ہے تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر یہ کچھ اور ہے تو پھر آپ کو یہ وضاحت کرنی پڑے گی کہ آپ کس جذبے کے تحت ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں؟”
”امبر! ہم باہر چل کر اس موضوع پر بات نہیں کر سکتے کیا؟” اس بار بالآخر ہارون پہلی بار اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
”باہر چل کر؟” امبر نے استہزائیہ انداز میں کہا۔ ”کہاں چل کر؟ آپ کی گاڑی میں؟ تاکہ آپ دوبارہ مجھے پہلے کی طرح جب چاہیں اتار دیں۔”
ہارون نے ایک طویل سانس لیا۔ ”آئی ایم سوری، اب ایسا نہیں ہوگا۔ ہم باہر چل کر اس موضوع پر تفصیلی بات کریں گے۔ اچھے ماحول میں۔”
”نہیں، آپ کو امبر سے جو بات بھی کرنی ہے، آپ یہیں کریں۔ میرے سامنے۔” منیزہ نے مداخلت کی۔ ”امبر آپ کے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔”
”صرف چند منٹ کی بات ہے۔” ہارون نے کہا۔
”صرف چند منٹ کی بات ہے تو وہ بات یہاں کیوں نہیں ہو سکتی۔” منیزہ کے انداز میں درشتی تھی۔
”میں امبر سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔” ہارون کمال نے بالآخر تمام لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا۔
”اگر بات گھر کی تبدیلی کے متعلق ہے تو اس کا جواب میں آپ کو پہلے ہی دے چکی ہوں۔” منیزہ نے کہا۔
”نہیں، مجھے صرف گھر کی تبدیلی کے بارے میں بات نہیں کرنی مجھے کچھ اور معاملات کے بارے میں بھی بات کرنی ہے۔”
”امبر سے آپ کے ایسے کون سے معاملات ہیں جن کے بارے میں آپ میرے سامنے بات نہیں کر سکتے۔” منیزہ نے دو بدو کہا۔
”یہ امبر جانتی ہے۔” ہارون نے بے حد دیدہ دلیری سے امبر کی طرف اشارہ کیا۔
امبر اس ساری گفتگو کے دوران خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھی۔ اس نے منیزہ کو روکا تھا نہ ہی ہارون کی کسی بات کا جواب دیا۔ وہ صرف ماتھے پر کچھ بل لیے پر سوچ نظروں سے ہارون کو دیکھ رہی تھی۔
اس سے پہلے کہ منیزہ کچھ اور تلخ ہوتیں اور ہارون سے کچھ کہتیں امبر نے مداخلت کی۔
”ٹھیک ہے، میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔”
اس نے یک دم کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ ہارون نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔
”امبر! تمھیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں ان سے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں چاہیے۔” منیزہ نے سختی سے اسے ٹوکا۔
”میں ان سے کوئی مدد لینے ان کے ساتھ نہیں جا رہی۔ میں ان سے صرف چند باتیں کرنے کے لیے جا رہی ہوں۔” امبر نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
ہارون بھی اپنی کرسی سے اٹھ چکا تھا۔
”مگر تمھیں اس کے ساتھ بات کرنے کی بھی…”
منیزہ نے کچھ کہنا چاہا مگر امبر نے بات کاٹ دی۔ مجھے ان سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ فکر مت کریں میں کچھ دیر میں آ جاؤں گی۔ چلیں۔ ”امبر نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا اور ہارون کے پیچھے اپنے گھر سے باہر نکل گئی۔
منیزہ پریشانی کے عالم میں اس کے پیچھے دروازے تک آئیں۔ انھوں نے باہر جھانک کر دیکھا۔ وہ دونوں گلی میں چلتے ہوئے دور ہوتے جا رہے تھے اور گلی کے موڑ سے صبغہ گھر کی طرف آ رہی تھی۔ منیزہ نے دروازہ بند کر لیا۔
٭٭٭
شہیر نے اپنے گھر کے صحن سے ساتھ والے گھر کے صحن میں امبر، ہارون اور منیزہ کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو سن لی تھی۔ اس کا ذہن کچھ اور الجھ گیا تھا۔ صبغہ، ہارون کو فیملی فرینڈ قرار دے رہی تھی اور وہاں ہونے والی گفتگو میں ہارون کسی اور ہی روپ میں نظر آ رہا تھا۔ شہیر اندازہ کر سکتا تھا کہ صبغہ اپنی بہن اور ہارون کے حوالے سے اس کو کبھی سچ بتانے کی جرأت نہیں کر سکتی تھی۔ مگر یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ صحن میں کھڑے چند منٹوں میں ہی اسے تصویر کا وہ رخ نظر آنے لگا تھا جسے صبغہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے جہاں صبغہ پر ترس آیا وہاں اس نے اپنے دل میں ہارون کمال کے لیے شدید ناپسندیدگی بھی محسوس کی تھی۔
”آخر وہ شخص دوسروں کی زندگیوں میں زہر گھولنے کی کوشش کیوں کر رہا تھا۔ اور امبر… امبر کے ساتھ اس کا تعلق کب سے اور کتنا گہرا تھا۔”
وہ پچھلے کچھ دنوں میں محلے میں امبر کی فیملی کے بارے میں ہونے والی چہ میگوئیوں سے واقف تھا۔ امبر کے دو تین بار مغربی لباس میں گھر سے باہر جانے اور وہاں کسی آدمی کی گاڑی میں بیٹھ کر کہیں جانے کا ذکر کیا جا رہا تھا۔
محلے کے لڑکے اس فیملی میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے لگے تھے کیونکہ بہت عرصے کے بعد اس محلے میں ایسا کوئی خاندان رہنے آیا تھا جس کے ایک فرد کی حرکتیں قابل اعتراض تھیں اور دوسری طرف وہ اپنے چہرے مہرے اور طور طریقے سے کسی بھی طرح گلی محلے میں رہنے والے افراد کی طرح نظر نہیں آتے تھے اور اب ان کے گھر سوٹڈ بوٹڈ مرد کے آنے کا کیا مطلب نکالا جا رہا ہوگا۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنا شہیر کے لیے زیادہ مشکل نہیں تھا۔ وہ ان دشواریوں کا اندازہ لگا سکتا تھا جو آئندہ آنے والے کچھ عرصے میں صبغہ اور اس کی فیملی کو پیش آنے والی تھیں۔
ہارون کے جانے کے بعد بھی وہ صحن میں بچھے تخت پر ہی بیٹھا رہا پھر فاطمہ کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
”شہیر! اندر آؤ۔ مجھے تم سے کچھ بات کرنا ہے۔”
ثمر اس وقت گھر پر نہیں تھا جبکہ ثانی کچن میں کھانا پکانے میں مصروف تھی۔
”مجھے بھی آپ سے بات کرنا ہے امی!”
شہیر نے کمرے میں داخل ہوتے ہی فاطمہ سے کہا۔
فاطمہ اپنے بیڈ پر بیٹھی ایک قمیص کی ترپائی کرنے میں مصروف تھی، وہ کرسی کھینچ کر فاطمہ کے پاس بیٹھ گیا۔ فاطمہ نے قمیص کو بیڈ پر رکھ دیا۔ وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”تمھیں کیا بات کرنا ہے؟ کرو۔”
”نہیں، پہلے آپ وہ بات کریں جس کے لیے آپ نے مجھے بلوایا ہے۔” شہیر نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ”پھر میں آپ کو بتاؤں گا کہ مجھے آپ کو کیا بتانا ہے۔”
فاطمہ نے شہیر کی طرف دیکھا… وہ کچھ الجھا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اسے تشویش ہوئی۔
”کوئی پریشانی والی بات ہے؟” شہیر مسکرا دیا۔
”نہیں… نہیں کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے۔ ایسے ہی ایک دو باتیں کرنا ہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں مجھے بتائیں، آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟” شہیر نے فاطمہ کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا۔
”ثمر کا نام میرٹ لسٹ پر آ گیا ہے۔” فاطمہ نے کہا۔ وہ خلافِ معمول بہت سنجیدہ نظر آ رہی تھی۔
”زبردست… کب… اس نے آج بتایا ہے آپ کو؟” شہیر نے بے اختیار خوشی کا اظہار کیا۔
”ہاں!”
”اچھا ہوا۔ کم از کم ایڈمیشن کے بعد اس کا دھیان ماڈلنگ سے تو ہٹ جائے گا۔” شہیر واقعی بہت مسرور تھا۔ اسے اپنے کندھوں سے ایک بوجھ ہٹتا ہوا محسوس ہوا تھا ورنہ پچھلے کچھ عرصے سے ثمر کی ماڈلنگ سے متعلق مصروفیات دیکھ کر اسے یہی لگتا تھا کہ اس کی تعلیم کا باقاعدہ طور پر اختتام ہو چکا ہے۔
”میرٹ لسٹ پر نام تو آ گیا ہے مگر ایڈمیشن کے لیے خاصی بڑی رقم چاہیے۔” فاطمہ نے اسے اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔
”مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ آپ پیسوں کا بندوبست کر سکتی ہیں۔ اگر نہیں کر سکتیں تو پھر میں کسی اور کالج سے گریجویشن کر لیتا ہوں۔”
شہیر بھی سنجیدہ ہو گیا۔ ”آپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”نہیں، میرے پاس کچھ تو ہیں۔ جاب سے ریٹائرمنٹ کے بعد ملے تھے۔ مگر وہ میں نے اس لیے رکھے ہوئے ہیں کہ ثانی کی شادی پہ کام آئیں گے۔” فاطمہ نے کہا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!