تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”میرے پیرنٹس میں Divorce (طلاق) ہو چکی ہے۔”
”اوہ۔”اس کے منہ سے یک دم نکلا۔ اس کے چہرے پر اب بے حد اطمینان تھا۔ وہ ایک بار پھر اپنی ریوالونگ چیئر کے دونوں ہتھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے گھمانے لگا۔ ”ہمیں پی آر او کے لیے کوالیفیکیشن اتنی نہیں چاہیے جتنا ”Cooperation (تعاون)” چاہیے۔ میں آپ کو یہ جاب دے سکتا ہوں آپ کے اس سی وی کو دیکھے بغیر… کیونکہ آپ خوبصورت ہیں مگر میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کس حد تک ”Cooperate (تعاون) کریں گی۔” اس نے اپنی طرف سے بہت کلیئر الفاظ میں صبغہ تک اپنا ”مفہوم” پہنچایا۔ یہ صبغہ کی بدقسمتی تھی کہ وہ اس کی بات کو سمجھ نہیں سکی۔
”Cooperate (تعاون) سے کیا مطلب ہے آپ کا؟ اگر آپ یہ پوچھ رہے ہیں کہ میں کیسا کام کروں گی تو میں بہت دیانت داری کے ساتھ کام کروں گی…” وہ اپنی بات مکمل نہیں کر سکی۔ اس نوجوان نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”اور ہمیں دیانت داری کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم کوئی اکاؤنٹس سیکشن میں تو نہیں لا رہے ہیں آپ کو… ہم تو فرنٹ ڈیسک پر بٹھائیں گے آپ کو اور اس کے ساتھ ساتھ میری سیکرٹری کے طور پر بھی کام کرنا ہوگا آپ کو۔ اور اس کے علاوہ میرے ساتھ تعلقات رکھنے پڑیں گے آپ کو اور ہماری کمپنی کے کچھ دوسرے کلائنٹس کے ساتھ بھی۔ ہم آپ کی ان خدمات کے لیے آپ کو اضافی مراعات دیں گے۔ میں اس لیے آپ کو یہ سب کچھ انٹرویو کے دوران ہی بتا رہا ہوں تاکہ آپ کو اپنے کام کی نوعیت کا اندازہ ہو جائے، بعد میں آپ ہمارے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہ کر دیں کیونکہ ہم جھوٹ اور فریب کے ذریعہ تو ہائر نہیں کریں گے آپ کو… ٹرمز اور کنڈیشنز پہلے ہی…”
وہ اپنا جملہ مکمل نہیں کر سکا۔ صبغہ یک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے برق رفتاری سے جھک کر اس کے آگے پڑی ہوئی فائل کھینچی اور کچھ کہے بغیر تیز قدموں کیساتھ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ اس کا پورا جسم غم و غصہ سے کانپ رہا تھا۔ اس نے اس چپراسی کو بھی نہیں دیکھا جو اس کے پیچھے بھاگتا ہوا آفس سے باہر آیا تھا۔
تیز لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے وہ اپنے ہونٹ بھینچے جیسے پلک جھپکتے میں وہاں سے غائب ہو جانا چاہتی تھی۔ باہر کی دنیا کا خوفناک چہرہ اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔
سڑک پر ٹریفک کا شور تھا۔ وہ سوچے سمجھے بغیر بہت دیر تک بلا مقصد سڑک پر چلتی رہی۔ اس کے کانوں میں ابھی بھی اس شخص کی باتیں گونج رہی تھیں اور اسے اپنا ہاتھ ابھی بھی اس کی گرفت میں لگ رہا تھا۔ وہ یک دم رک گئی اور اس نے اپنے دائیں ہاتھ کو دیکھا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کا ہاتھ گندا ہو گیا ہے۔ وہ ایک قریبی اسٹور کی طرف گئی۔ پانی کی ایک بوتل خرید کر وہ شاپ سے باہر نکلی اور اپنا دایاں ہاتھ اس سے دھونے لگی۔ بوتل کا سارا پانی ہاتھ کی پشت پر بہانے کے بعد بھی اسے تسلی نہیں ہوئی تھی۔ اسے اب بھی اپنا ہاتھ اسی طرح گندا لگ رہا تھا۔ پانی کی بوتل پھینکتے ہوئے وہ قریبی بس اسٹاپ کی طرف چلی آئی۔ اسے اس روز ایک اور جگہ بھی انٹرویو کے لیے جانا تھا مگر سب کچھ اس کے ذہن سے جیسے پلک جھپکتے میں غائب ہو گیا تھا۔




بس اسٹاپ پر کھڑے بس کے لیے انتظار کرتے ہوئے اس کا سارا غم و غصہ جیسے آنسوؤں میں تبدیل ہو گیا تھا۔ صبغہ کو پتا نہیں کیوں اتنا رونا آیا تھا اور کیوں وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکی تھی۔ شروع کے چند منٹ تو اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ رو رہی ہے… سڑک پر نظریں جمائے بس کا انتظار کرتے ہوئے اس کے گالوں پر مسلسل پانی بہہ رہا تھا۔ پھر آس پاس کے لوگوں کی نظریں اپنے اوپر محسوس کرتے ہوئے اس کو اپنے آنسوؤں کا احساس ہوا۔ اس نے دوپٹے کے ساتھ آنکھوں اور گالوں کو رگڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ اس کے دونوں ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے۔ وہاں بس اسٹاپ پر کھڑے زندگی میں پہلی بار خود کو اتنا بے بس محسوس کیا۔ اس کے ہونٹ کپکپانے لگے۔
”تو اب اسے زندگی میں ایک جاب کی تلاش میں یہ سب کچھ سننا اور کرنا پڑے گا۔ چند روپوں کے لیے وہ پہلی بار انسان نما جانور سے مل کر آئی تھی۔ وہ ”چوپایہ” جو جیب میں چند نوٹ زیادہ رکھ کر لوگوں کی زندگیوں، عزتوں اور مجبوریوں کا سودا کرتا ہے۔
وہ بے آواز رو رہی تھی اگر اس نے دوپٹے کے ساتھ اپنے ہونٹ سختی سے بھینچ نہ رکھے ہوتے تو شاید وہ اس وقت بس اسٹاپ کے اس پول کے ساتھ کھڑی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہوتی۔
شہیر نے اسے بس اسٹاپ پر آتے ہی دیکھ لیا تھا۔ وہ عام حالات میں شاید اس پر ایک نظر ڈال کر اسے نظر انداز کر دیتا۔ مگر وہ اس وقت اس پر سے نظر نہیں ہٹا سکا۔ وہ گرد و پیش سے مکمل بے نیاز ایک پول کے پاس کھڑی رو رہی تھی۔ اس کا چہرہ بری طرح سرخ ہو رہا تھا۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر بینچ پر بیٹھا تھا مگر اتنی دور سے بھی اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کانپ رہی ہے۔ اسے خدشہ محسوس ہوا کہ وہ کسی بھی وقت گر جائے گی۔ صرف وہ اس کی طرف متوجہ ہونے والا اکیلا آدمی نہیں تھا۔ وہاں آس پاس بیٹھے اور کھڑے دوسرے مرد اور عورتیں بھی وقتاً فوقتاً اس کو دیکھ رہے تھے مگر کوئی آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔
شہیر آگے بڑھ کر اس کے پاس جانا چاہتا تھا مگر وہ بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔ صرف ہمسایہ ہونے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اس کو کسی بھی جگہ مخاطب کرتا اور پھر اس حالت میں پتا نہیں اس کا ردعمل کیسا ہو؟ شہیر نے اس کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔
اگلے چند منٹوں میں بس آ گئی۔ اسٹاپ پر کھڑے لوگ بس کی طرف لپکے۔ شہیر نے بھی بس کی طرف قدم بڑھایا مگر پھر ٹھٹک کر رک گیا۔ صبغہ ابھی بھی وہیں کھڑی تھی۔ وہ بس کی طرف نہیں گئی تھی۔ بس اسٹاپ یک دم خالی ہو گیا تھا اور لوگوں کی عدم موجودگی نے شہیر کی جھجک کو کچھ دیر کے لیے ختم کر دیا۔
وہ خود بس پر سوار ہونے کے بجائے اس کی طرف بڑھ آیا۔
”صبغہ… صبغہ… صبغہ” وہ تیسری دفعہ اپنا نام سن کر چونکی تھی۔ گردن موڑ کر اس نے دائیں طرف کھڑے آدمی کو دیکھا اور اس کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ کیا ضروری تھا کہ کوئی جاننے والا اس حالت میں اس کو دیکھتا۔
”آپ ٹھیک ہیں؟” وہ تشویش سے پوچھ رہا تھا۔ صبغہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی اور یہ کوشش ”کافی” ثابت ہوئی۔ وہ یک دم بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
شہیر حواس باختہ ہو گیا۔ صورت حال بے حد عجیب ہو گئی تھی۔ سڑک سے گزرنے والے لوگ ان دونوں کو دیکھتے ہوئے اب وہاں رکنے لگے تھے۔ وہ اپنی ہمدردی پر بے اختیار پچھتایا۔
”آپ یہاں بینچ پر بیٹھ جائیں۔ اگر رونا بھی ہے تو بھی بیٹھ کر روئیں… میں آپ کو پانی لا کر دیتا ہوں۔”
وہ کہتے ہوئے چلا گیا۔ صبغہ نے بینچ پر بیٹھ کر اپنا چہرہ دوپٹے سے ڈھانپ لیا۔ وہ اپنی ہچکیوں اور سسکیوں کو روک نہیں پا رہی تھی مگر کم از کم اب کوئی اس کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہا تھا اور نہ وہ خود کسی کو دیکھ سکتی تھی۔
”ان کی طبیعت خراب ہے۔” اس نے کچھ دیر بعد شہیر کو کسی عورت کو بتاتے سنا۔
”ہاں ہم بس گھر جانے والے ہیں۔” صبغہ کو یک دم احساس ہوا کہ اس کی وجہ سے شہیر کو بھی پریشانی اور خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
”یہ پی لیں۔” صبغہ نے اپنے چہرے کو دوپٹے سے رگڑا اور شہیر کی طرف دیکھے بغیر جوس کا وہ پیک پکڑ لیا جو وہ اسے پکڑا رہا تھا۔
”بیٹا! یہ رکشہ کھڑا ہے، اسے لے آؤ۔” اسی عورت نے دوبارہ شہیر سے کہا جو پہلے اسے صبغہ کو گھر لے جانے کا مشورہ دے رہی تھی۔ شہیر نے پلٹ کر ایک نظر اس رکشہ کو دیکھا پھر صبغہ کو اور پھر کچھ کہے بغیر اس رکشہ کی طرف بڑھ گیا۔
”آئیں!” چند منٹوں کے بعد اس نے کہا۔ صبغہ نے کوئی اعتراض یا سوال نہیں کیا۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور رکشہ میں جا کر بیٹھ گئی۔ وہ بھی اس کے برابر آ کر بیٹھ گیا۔ رکشہ کچھ دیر چلتا رہا پھر اچانک شہیر نے کہا۔
”بس یہیں پر روک دیں۔” صبغہ نے کچھ الجھ کر اسے دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔ اسے نیچے اترتے دیکھ کر وہ بھی نیچے اتر گئی۔
”میں نے آپ کو یہاں اس لیے اتارا ہے کیونکہ آپ اس طرح گھر جائیں گی تو صرف آپ کے گھر والے ہی پریشان نہیں ہوں گے بلکہ محلے کے لوگ بھی آپ کو عجیب نظروں سے دیکھیں گے۔”
صبغہ کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آنے لگے۔ شہیر نے بے چارگی سے اسے دیکھا۔
نہر کے کنارے ایک جگہ لگے ہوئے نل سے صبغہ نے اپنا منہ دھویا پھر اس بینچ پر آ کر بیٹھ گئی جس پر شہیر بیٹھا ہوا تھا۔ شہیر نے قدرے افسوس سے اسے دیکھا۔ منہ دھونے کے باوجود چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور آنکھیں بری طرح سوجی ہوئی تھیں۔ اس کے چہرے پر پڑنے والی ایک نظر ہی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ اس کے ساتھ کچھ ہوا ہے۔
صبغہ نے اپنے بیگ سے برش نکال کر بالوں کو برش کیا اور بالوں کو ایک بار پھر اچھی طرح سمیٹ کر باندھ لیا۔ بالوں کی لٹیں جو پہلے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اب سمٹ چکی تھیں۔ وہ کچھ بہتر نظر آ رہی تھی۔ شہیر اس سارے عمل کے دوران نہر کے بہتے پانی کو دیکھتا رہا۔
کچھ دیر دونوں اسی طرح چپ چاپ بیٹھے رہے۔ پھر صبغہ نے جیسے میکانکی انداز میں شہیر کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں اس کے کسی سوال کے بغیر ہی بتا دیا تھا۔ وہ اپنے ذہن اور کندھوں سے جیسے کوئی بوجھ اتار رہی تھی۔
وہ جب خاموش ہوئی تو شہیر نے کہا۔ ”یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے کہ اس پر آپ اس طرح روتیں۔”
صبغہ نے جیسے بے یقینی سے شہیر کو دیکھا۔ وہ بالکل سنجیدہ تھا۔ اس کے نزدیک یہ اتنی بڑی بات نہیں تھی۔
”آپ اتنے عرصہ سے جاب ڈھونڈ رہی ہیں۔” وہ کہہ رہا تھا ”مختلف آفسز میں جا رہی ہیں۔ اب تک تو آپ کو اس طرح کی باتوں کا عادی ہو جانا چاہیے تھا۔”
”میرے ساتھ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔” اس نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
”پھر آپ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں۔” شہیر نے برجستگی سے کہا۔ ”سارے آفس برے ہوتے ہیں نہ سارے لوگ… آپ کو اس سے پہلے کوئی برا تجربہ نہیں ہوا… آج ہوا… تو رونے کے بجائے آپ اس واقعہ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتیں۔”
صبغہ کا دل ایک بار پھر بھر آیا۔
”دیکھیں۔ میرا مقصد آپ کو رُلانا نہیں ہے۔” شہیر نے جلدی سے کہا۔ ”میں آپ کو صرف ایک بات سمجھا رہا ہوں۔ اس طرح ہر اشتہار کو دیکھ کر آفسیز میں جانے کے بجائے آپ کسی ریفرنس سے کہیں جائیں… آپ کا تعلق اچھی فیملی سے ہے، آپ کو تو بڑی آسانی سے کوئی ریفرنس مل جائے گا۔”
”اگر یہ میرے لیے آسان ہوتا تو مجھے اب تک جاب مل چکی ہوتی۔” وہ بے حد مایوس نظر آ رہی تھی۔
”آپ چاہیں تو میں آپ کے لیے کوشش کر سکتا ہوں۔ بہت اچھی جاب کا وعدہ تو میں نہیں کرتا مگر ایک ریزن ایبل جاب آپ کو دلوا سکتا ہوں۔” شہیر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
صبغہ نے ایک نظر اسے دیکھا مگر خاموش رہی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے اس کے اندر اکٹھا ہونے والی فرسٹریشن یوں اچانک باہر آ جائے گی اور وہ بھی اس طرح۔ شہیر کے سامنے شرمندگی محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ وہ وہاں بیٹھی اپنے آپ کو مطمئن بھی محسوس کر رہی تھی۔ اس کے باوجود کہ شہیر سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
وہ کچھ دیر اور وہاں بیٹھے رہے تھے۔ شہیر وقفے وقفے سے اس سے سوال کرتا رہا تھا اور وہ اسے اپنے فیملی کرائسس کے بارے میں بتاتی رہی۔ وہ بہت عرصہ کے بعد کسی سے اس طرح بات کر رہی تھی اور اسے احساس ہی نہیں ہو پا رہا تھا کہ اسے کس حد تک بتانا چاہیے اور کس حد تک بتا رہی تھی۔ شہیر خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کے انداز میں بردباری تھی جو اس کی عمر کے لڑکوں میں عام طور پر نہیں ہوتی۔
”یہ ہارون کمال کون ہے؟”
وہ اس کے اچانک پوچھے جانے والے سوال پر یک دم ساکت ہو گئی تھی۔ وہ ہارون کمال کو کیسے جانتا تھا اور اگر جانتا تھا تو کس حد تک… صبغہ نے پریشان نظروں سے شہیر کو دیکھا۔ وہ جواب کا منتظر تھا۔ صبغہ کی نظروں سے جھلکنے والی پریشانی نے اسے کچھ حیران کیا۔
”اگر آپ بتانا نہیں چاہتیں تو مت بتائیں۔” شہیر نے اسے خاموش دیکھ کر کہا۔
مگر اس وقت ایک جھماکے کے ساتھ صبغہ کی نظروں کے سامنے ہارون کمال کا چہرہ آ گیا۔ اس نے اس مشابہت کو بالآخر شناخت کر لیا جو ہر بار شہیر کا سامنا ہونے پر اسے پریشان کرتی تھی۔ وہ ہارون کمال سے مشابہت رکھتا تھا اور تھوڑی بہت نہیں… بہت زیادہ مشابہت۔ اور اب وہ اس سے ہارون کمال کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ وہ جانتی تھی۔ ہارون شہیر کا باپ نہیں ہے کیونکہ شہیر کا باپ مر چکا تھا مگر پھر ہارون سے شہیر کا کیا تعلق تھا؟ وہ کس حوالے سے ہارون کمال کے بارے میں پوچھ رہا تھا؟
”آپ ہارون کمال کو کیسے جانتے ہیں؟” شہیر اس کے لہجے پر چونک گیا۔
”میں نے آپ کے گھر میں کئی بار اس کا نام سنا ہے۔” شہیر نے سادہ لہجے میں جواب دیا۔
”بس؟” صبغہ نے جیسے تصدیق چاہی۔
”ہاں… چونکہ ایک ہارون کمال کو میں بھی جانتا ہوں تو میں نے اس لیے آپ سے پوچھا۔” صبغہ ایک بار پھر چونکی۔
”آپ کس ہارون کمال کو جانتے ہیں؟”
”میں ذاتی حیثیت میں تو نہیں جانتا۔” شہیر نے کہا۔ ”میرا بھائی ماڈلنگ کر رہا ہے اور ہارون کمال کی بیٹی اس کے ساتھ ان کمرشلز میں کام کر رہی ہے، اسی حوالے سے ایک بار اس کی فیملی سے ملنا ہوا۔”
”نایاب… ان کی بیٹی؟”
”ہاں۔” شہیر نے سر ہلایا۔
”اور ان کی بیوی سے بھی ملاقات ہوئی؟”
”شائستہ ہارون کمال؟” صبغہ جیسے بڑبڑائی۔
”اس کا مطلب ہے کہ یہ وہی ہارون کمال ہے جس کی فیملی سے آپ کا تعلق ہے۔” شہیر نے کہا۔
”تعلق۔” صبغہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ہارون کا تعارف کس حوالے سے کروائے… منصور علی کے حوالے سے یا امبر کے حوالے سے۔
”میرے فادر کے فرینڈ ہیں۔” اس نے مختصر جواب دیا۔ شہیر کو احساس ہوا، اس کے انداز میں ہارون کے نام پر ناپسندیدگی تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ اس کے والد کے دوست تھے۔ وہ جانتا تھا کہ صبغہ کے والد اور والدہ کے درمیان علیحدگی ہو چکی ہے اور وہ اس ناپسندیدگی کو سمجھ سکتا تھا جو وہ اپنے باپ کے حوالے سے کسی بھی شخص کے لیے رکھ سکتی تھی۔
”ہمیں اب چلنا چاہیے، دیر ہو رہی ہے۔” شہیر نے یک دم موضوع بدلتے ہوئے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی اور کھڑا ہو گیا۔
”آئی ایم سوری…” صبغہ نے اسے اٹھتے دیکھ کر کہا۔
”کس لیے؟” وہ حیران ہوا۔
”میری وجہ سے آپ کو خوا مخواہ تکلیف ہوئی… آپ کا وقت ضائع ہوا۔” وہ مشکور لہجے میں بولی۔
”یہ معمولی بات ہے۔ آپ اس طرح نہ سوچیں۔” شہیر نے لاپروائی سے کہا۔
٭٭٭
ہارون کمال نے اس دن کے بعد اگلے کئی دن بڑی بے تابی کے ساتھ امبر کی کال کا انتظار کیا تھا مگر امبر کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تھا اور تب اسے خدشہ ہوا کہ کہیں اس دن اس طرح راستے میں اتار دینے کی وجہ سے امبر ناراض نہ ہو گئی ہو۔
اسے خود بھی احساس تھا کہ اس کا امبر کو اس طرح گاڑی سے اتار دینا نامناسب تھا مگر وہ اس وقت نایاب کی وجہ سے اس طرح حواس باختہ ہوا تھا کہ اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا۔ وہ امبر کو ساتھ لے کر نایاب کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔ کوئی دوسری لڑکی ہوتی تو وہ شاید اسے نایاب کے سامنے ساتھ لے ہی جاتا کیونکہ نایاب کے لیے ماں باپ کے دوست کوئی انوکھی بات نہیں تھے مگر امبر کو وہ جانتی اور پہچانتی تھی اور اسد کے حوالے سے اس کے بارے میں ہارون کے احساسات اور جذبات سے بھی واقف تھی اور اب… ہارون کے ساتھ امبر کو دیکھ کر وہ خود تو چونکتی سو چونکتی… شائستہ سے اس کا تذکرہ کرنے سے بھی باز نہیں رہتی اور ہارون اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔
مگر اب اس کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ اسے یک دم امبر اپنی مٹھی سے نکلتی ہوئی نظر آ رہی تھی اور شاید یہ پریشانی ہی تھی جس نے بالآخر اسے ان گلیوں میں جانے پر مجبور کر دیا تھا جہاں وہ کبھی پاؤں رکھنا پسند نہ کرتا۔ امبر کا ایڈریس اس کے پاس تھا اور کئی دنوںتک اس کا انتظار کرنے کے بعد وہ ایک شام اس کا گھر ڈھونڈتے ہوئے ان گلیوں میں چلا ہی آیا تھا۔
امبر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اس نے ساتھ والے دروازے کے باہر شہیر کو کھڑے دیکھا۔ دونوں نے ایک لمحے میں ایک دوسرے کو پہچانا تھا۔ ہارون حواس باختہ ہو گیا۔ اسے گمان بھی نہیں تھا کہ ان گلیوں میں بھی اس کا کوئی شناسا مل سکتا ہے۔ دوسری طرف شہیر اسے دیکھ کر حیران تھا۔ ہارون کمال جیسے شخص کا اس محلے کے ایک گھر کی دہلیز پر موجود ہونا… وہ سمجھ نہیں سکا تھا۔
ہارون نے اسے دیکھ کر یک دم منہ موڑ لیا اور مکمل طور پر اسے نظر انداز کیا۔ شہیر نے بھی اسے مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنے گھر کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا مگر اس کا ذہن مکمل طور پر الجھا ہوا تھا۔
منیزہ نے دروازہ کھولا ہارون کو اپنے دروازے پر دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئی تھیں۔ فوری طور پر ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے وہاں دیکھ کر کس ردعمل کا اظہار کریں۔ یقینا وہ اپنا دروازہ اس پر بند نہیں کر سکتی تھیں اور اندر بلانے کا مطلب…
”السلام علیکم بھابھی!” ہارون نے بڑے تپاک سے سلام کیا۔
منیزہ دروازے کے سامنے سے ہٹ گئیں۔ یہ اندر آنے کا اشارہ تھا۔ ہارون اندر داخل ہو گیا۔ سامنے کمرے سے نکلتی ہوئی امبر نے اسے اندر آتے دیکھا اور وہ صحن میں قدم رکھتے رکھتے ٹھٹک گئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ وہاں آئے گا۔
”ہیلو امبر!” ہارون نے مسکراتے ہوئے کہا۔
امبر جواب دینے کے بجائے کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر بے حد مدھم آواز میں بولی۔ ”ہیلو!”
”کیسی ہو تم؟” ہارون بڑے خوشگوار لہجے میں پوچھنے لگا یوں جیسے ان کے درمیان کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
”میں ٹھیک ہوں۔” امبر نے اس بار منیزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو صحن میں ان دونوں سے کچھ فاصلے پر کھڑی ان دونوں کے چہروں کو الجھے ہوئے انداز میں دیکھ رہی تھیں شاید وہ یہ سوچنے میں مصروف تھیں کہ اس صورت حال میں انھیں کیا کرنا چاہیے۔
امبر نے دوبارہ ہارون کو دیکھا پھر صحن میں پڑی کرسیوں پر نظر ڈالی اور پھر ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہارون سے بولی۔
”بیٹھیں۔” ہارون کچھ حیران ہوا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اسے وہاں صحن میں ہی بیٹھنے کے لیے کہے گی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!