منصور نے گہرا سانس لیا اس وقت رخشی کے ساتھ بحث کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا۔ وہ منیزہ سے زیادہ شکی مزاج تھی اور اس سے زیادہ مکار۔ منیزہ کو بے وقوف بنانا قدرے آسان تھا۔ رخشی کو بے وقوف بنانا انتہائی مشکل۔ شادی کے شروع کا سنہری دور گر چکا تھا۔ اب منصور کو تصویر کا دوسرا رخ نظر آنا شروع ہو گیا تھا مگر وہ ابھی بھی رخشی کی محبت میں گرفتار تھا اور اس کی تمام خامیوں کے باوجود اس کو اپنی زندگی سے نکالنے پر تیار نہیں تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ پہلے کی طرح بے چوں چرا اس کی باتیں بھی مانا کرتا تھا مگر اسے احساس ہوتا تھا کہ ہر روز رخشی کے مطالبات بڑھتے جا رہے تھے اور اس کو خوش کرنا بے حد مشکل کام تھا۔ وہ بے حد تند خو تھی۔ اور بعض دفعہ منصور کو یک دم احساس ہوتا کہ ہر قسم کی جی حضوری کے باوجود رخشی بعض اوقات اس سے بالکل بیزار نظر آنے لگتی ہے اور اس وقت منصور کو اس کی اور اپنی عمر کا فرق بہت زیادہ چبھتا وہ جتنا ہینڈ سم یا اسمارٹ نظر آتا بہرحال اپنی عمر نہیں چھپا سکتا تھا۔ وہ اور رخشی ساتھ کھڑے کسی بھی طرح شوہر اور بیوی نظر نہیں آتے تھے لوگ انھیں باپ بیٹی ہی سمجھتے تھے۔ شاپنگ کے لیے جاتے ہوئے منصور کو بار بار اس ناخوشگوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا۔ رخشی ایک بیٹے کی ماں ہونے کے باوجود اٹھارہ، انیس سال کی لگا کرتی تھی دوسری طرف ہر آنے والا دن منصور کے چند بال کم کر دیتا، چہرے پر نئی جھری لے آتا یا کوئی اور نیا مسئلہ۔
”کس لیے آئی تھی صبغہ؟” رخشی پھر غرائی۔
”ایسا کرو رخشی! کہ تم خود جا کر صبغہ سے ہی یہ پوچھ لو کہ وہ میرے پاس کس لیے آئی تھی۔” منصور نے بالآخر جھلا کر کہا۔
”مجھے چیلنج کرو گے منصور! تو میں یہ بھی کر گزروں گی۔” وہ اور تپ گئی۔
”تمھیں بتایا ہے کہ وہ…”
رخشی نے منصور کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔ ”تم نے اسے ملنے کی اجازت نہیں دی مگر تم نے اس کے پیچھے ڈرائیور بھیجا کہ اس کو گھر چھوڑ کر آئے۔”
”وہ سڑک پر کھڑی تھی اتنے مردوں کے ساتھ۔” منصور نے جیسے احتجاج کیا۔ ”مجھے اچھا نہیں لگا تھا اس لیے میں نے ڈرائیور بھیجا۔”
”سڑک پر کھڑا ہونا اس کی اپنی چوائس تھی۔ ‘ہ خود تمہارا گھر چھوڑ کر گئی تھی۔”
”میں نے اسے گھر سے نکالا تھا۔” منصور نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”وہ کیوں اسامہ سے ملنے گئی تھی جب تم نے اسے منع کیا تھا۔”
”ہم آخر ایک ایسے مسئلے پر کیوں بحث کر رہے ہیں، جن کا ہماری زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔” منصور نے جھلاتے ہوئے کہا۔
”وہ اس لیے، تاکہ تمھیں یاد رہے کہ تمہاری بیٹیوں نے تمھارے ساتھ کیا کیا۔”
”مجھے اچھی طرح یاد ہے رخشی!”
”نہیں، یاد نہیں ہے، یاد ہوتا تو تم صبغہ کی شکل تک نہ دیکھتے۔”
”میں آئندہ اس سے نہیں ملوں گا۔”
”مجھے کیا پتا تم آئندہ اس سے ملتے ہو یا نہیں۔ میں چوبیس گھنٹے تو تمھارے ساتھ نہیں ہوتی۔”
”تم ایسا کرو تم چوبیس گھنٹے میرے ساتھ رہا کرو تاکہ تمھیں یہ جو ہر وقت مجھ پر شک رہتا ہے یہ ختم ہو جائے۔” منصور نے بے حد بیزاری سے کہا۔ رخشی اس کی بات پر مزید کھول گئی تھی۔
٭٭٭
امبر نے اپنے گھر سے مین روڈ تک کا فاصلہ بے حد جھلاہٹ میں طے کیا تھا۔ وہ اس قدر خوبصورت تھی کہ اگر وہ چادر اوڑھ کر بھی وہاں سے گزرتی تو راستے کے مردوں کو پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کر دیتی اور اب وہ جس لباس میں وہاں سے گزر رہی تھی اس نے یک دم اس گلی کے لڑکوں میں اشتیاق اور تجسس کو جنم دیا تھا۔ اس علاقے میں کسی لڑکی کا سر سے دوپٹہ ہی اتار دینا اسے محلے میں موضوع گفتگو بنا دیا تھا اور کہاں یہ کہ کوئی لڑکی جینز اور سلیولیس Top میں ملبوس ہو کر اس طرح سج سنور کر وہاں سے گزرے۔ گھر سے مین روڈ پر ہارون کمال کی گاڑی میں بیٹھنے تک بے شمار نظروں نے اس کا تعاقب کیا تھا۔
”اونہہ!…” امبر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سر جھٹک کر کہا۔
”کیا ہوا؟” ہارون نے اس کے حلیے کو پسندیدگی سے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب گاڑی اسٹارٹ کر رہا تھا۔
”یہ لوگ مجھے اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے انھوں نے کسی لڑکی کو پہلی بار دیکھا ہو۔” امبر نے تنفر آمیز انداز میں کہا۔
”اتنی خوبصورت لڑکی کو تو انھوں نے پہلی بار ہی دیکھا ہوگا۔” ہارون نے گاڑی کی اسپیڈ تیز کرتے ہوئے قدرے شوخ انداز میں اس سے کہا۔
”میرا دم گھٹنے لگا ہے۔” امبر نے ہارون کے جملے پر غور کیے بغیر کہا۔” یہ لوگ یہ محلہ میں اب…”
”میں نے تو تمھیں پہلے ہی کہا تھا۔ تم ایسے علاقوں کے لیے نہیں بنی ہو۔” ہارون نے اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
”یہ لوگ جس طرح کی اور جیسی زندگی گزارتے ہیں، تم ویسی زندگی نہیں گزار سکتیں۔”
”میں نے ممی اور صبغہ سے کہہ دیا ہے کہ اب میں وہی کروں گی جو میرا دل چاہے گا۔” صبغہ نے ہارون کو اطلاع دی۔
”پھر؟”
”پھر کچھ نہیں۔ جھگڑا ہوا اور کیا؟ وہ دونوں مجھے…”
اس کی بات نامکمل رہ گئی۔ ہارون کے موبائل پر کال آنے لگی۔ ہارون نے ہاتھ کے اشارے سے امبر کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔
”ہیلو میری جان!” امبر نے اسے چونک کر دیکھا۔
”ہیلو پاپا۔” دوسری طرف نایاب تھی۔ ”آپ کہاں غائب ہیں؟”
”کہیں نہیں۔ یہیں ہوں۔ غائب تو تم ہو دو دن سے۔”
”پاپا! آپ کو پتا ہے شوٹنگ کروا رہی تھی۔ رات کو جب واپس آئی تو آپ گھر پر ہی نہیں ہوتے تھے۔ آج بھی میں نے فون کیا ورنہ آپ کو کہاں خیال آنا تھا۔” وہ اب شکایت کر رہی تھی۔
”تم ذرا اپنا موبائل چیک کرو۔ دیکھو کتنی Missed کالز میری طرف سے ہوئی ہیں۔ تمھیں تو اتنا ہوش بھی نہیں ہوتا کہ کال ہی ریسیو کر لو۔” ہارون نے اسے پیار سے جھڑکا۔ اس کے کھلکھلا کر ہنسنے کی آواز امبر تک آئی۔ وہ عجیب سی نظروں سے ہارون کو دیکھ رہی تھی۔ اس وقت ہارون مکمل طور پر بدلا ہوا نظر آ رہا تھا۔
”اچھا اب ڈانٹیں مت، اس لیے فون نہیں کیا آپ کو۔”
”آل رائٹ سویٹ ہارٹ پھر کس لیے فون کیا ہے؟”
”میری گاڑی لگ گئی ہے۔”
”واٹ۔” ہارون بے اختیار متفکر ہوتے ہوئے بولا۔
”تم ٹھیک ہو؟”
”ہاں ٹھیک ہی ہوں۔ بس گاڑی کا زیادہ نقصان ہوا ہے مجھے تو صرف کچھ خراشیں آئی ہیں۔ وہ بھی شیشہ ٹوٹنے کی وجہ سے۔”
”مائی گاڈ کہاں ہو تم؟” ہارون نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”پاپا! میں مال پر ہوں مگر میں ٹھیک ہوں اور…”
”میں وہیں آ رہا ہوں۔” ہارون نے فون بند کرتے ہوئے یک دم گاڑی روکی اور امبر سے کہا۔
”امبر! پلیز تم چلی جاؤ… میری بیٹی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ مجھے وہاں جانا ہے۔” امبر نے بے یقینی سے اس کے چہرے کو دیکھا۔
”پلیز ذرا جلدی…” وہ امبر سے اترنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ امبر نے بے یقینی کے عالم میں دروازہ کھولا اور نیچے اتر گئی۔
”See You۔” اس نے اپنے عقب میں ہارون کی آواز سنی اور پھر اسے گاڑی دوڑاتے غائب ہوتے دیکھا۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑی رہ گئی۔
٭٭٭
”کس کے بچے ہیں؟” شائستہ نے اس آدمی سے پوچھا۔
”آپ ان معلومات کے لیے ادائیگی کریں گی؟”
”آپ جانتے ہیں یہ معلومات میری ضرورت نہیں ہیں۔” شائستہ نے قدرے رکھائی سے کہا۔
”مگر ان سے آپ کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔” اس آدمی نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟” شائستہ نے لاپروائی سے کہا۔ ”دوسرے دونوں بچوں میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی۔ میں نے تو صرف یہ چاہا تھا کہ آپ کے پاس اس پوری فیملی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات ہوں۔”
شائستہ دروازے کی طرف جانے لگی۔ مگر دروازہ کھول کر وہ اس کی ناب پر ہاتھ رکھ کر کچھ سوچنے لگی، پھر ایک دم واپس آئی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
”اچھا بتائیں کس عورت کے بچے ہیں؟” اس نے جیسے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”اور صرف عورت ہی نہیں مرد کے بارے میں بھی بتائیے۔”
اس سے پہلے کہ وہ آدمی کچھ کہتا۔ شائستہ نے اسے ہدایات دیں۔
”کس کے بچے ہیں؟” شائستہ نے اس شخص سے پوچھا۔
”آپ ان معلومات کے لیے ادائیگی کریں گی؟”
”آپ جانتے ہیں، یہ معلومات میری ضرورت نہیں ہیں۔” شائستہ نے قدرے رکھائی سے کہا۔
”مگر ان سے آپ کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔” اس نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟” شائستہ نے لاپروائی سے کہا۔ ”دوسرے دونوں بچوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی۔ میں نے تو صرف یہ چاہا تھا کہ اس پوری فیملی کے بارے میں آپ کے پاس زیادہ سے زیادہ معلومات ہوں۔”
شائستہ دروازے کی طرف جانے لگی۔ مگر دروازہ کھول کر باہر جانے کے بجائے وہ دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھ کر کچھ سوچنے لگی، پھر یک دم واپس آئی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
”اچھا بتائیں، کس عورت کے بچے ہیں؟” اس نے جیسے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”اور صرف عورت ہی نہیں مرد کے بارے میں بھی بتائیں۔” اس سے پہلے کہ وہ شخص کچھ کہتا۔ شائستہ نے اسے ہدایات دیں۔ وہ شائستہ کو کچھ بتاتے بتاتے رک گیا۔
”مرد کے بارے میں؟” اس نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”ہاں۔ مرد کے بارے میں۔ ان بچوں کے باپ کے بارے میں۔”
شائستہ نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”ان بچوں کے باپ کے بارے میں تو میں نہیں جانتا۔” اس نے قدرے بے چارگی سے کہا ”کیونکہ اس عورت کا تعلق جس طرح کے بیک گراؤنڈ سے ہے وہاں باپ کے بارے میں پتا چلانا بہت مشکل ہے۔”
”کوئی طوائف ہوگی یا ایسی ہی کوئی دوسری عورت اور ایسی عورت کے ”ایڈونچر” کے بارے میں جان کر میں کیا کروں گی۔”
شائستہ کے انداز میں تحقیر تھی۔
”ہاں البتہ ان بچوں کے باپ کے بارے میں جاننا چاہوں گی، وہ بھی اس صورت میں اگر وہ باپ کوئی نامور آدمی ہو تو؟”
وہ آدمی کچھ دیر خاموشی سے شائستہ کو دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”یہ عورت بھی اپنے بچوں کو تلاش کر رہی ہے۔”
”کس لیے؟ واپس لینا چاہتی ہے؟” شائستہ نے کہا۔
”پتا نہیں… یہ تو میں نہیں جانتا… صرف یہ جانتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں اور اس عورت کے بارے میں ساری معلومات کروا رہی ہے۔”
”تو کروانے دیں مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” شائستہ دوبارہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”میں ان دونوں بچوں کے باپ کے بارے میں معلومات حاصل کر کے آپ کو دے سکتا ہوں اگر آپ کو دلچسپی ہو تو۔” اس نے شائستہ کو اٹھتے دیکھ کر جلدی سے کہا۔
”مجھے دلچسپی ہے۔” شائستہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”مگر مجھے لگتا ہے مجھ سے زیادہ آپ کو دلچسپی ہے کہ آپ مجھے اس عورت اس کے بچوں اور ان بچوں کے باپ کے بارے میں بتائیں۔
”میں نے باپ کا ذکر نہیں کیا تھا اس کا ذکر آپ نے کیا تھا۔” اس نے شائستہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”اوکے مجھے دلچسپی ہے اور میں نے ہی باپ کا ذکر کیا ہے مگر مجھے صرف باپ میں دلچسپی ہے۔” شائستہ نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”آپ جب باپ کے بارے میں معلومات حاصل کر لیں تب مجھے بتائیں اور میں طے کروں گی کہ ان معلومات کے لیے آپ کو کتنا معاوضہ دینا چاہیے۔”
شائستہ نے ایک بار پھر کمرے کے دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ وہ اب دروازہ کھول رہی تھی اس سے پہلے کہ وہ باہر نکل جاتی اس کو ایک خیال آیا اور اس نے مڑ کر اس شخص سے کہا۔
”ہاں مگر، آپ نے مجھے عورت کا نام نہیں بتایا؟”
اس آدمی نے سر اٹھا کر شائستہ کو دیکھا۔
٭٭٭
سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر اس نے دور جاتی ہوئی ہارون کمال کی گاڑی کو بے یقینی سے دیکھا۔ اسے اس کو چھوڑتے ہوئے دو منٹ بھی نہیں لگے تھے اور وہ صرف دو دن پہلے ہی تو اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا۔ اسے بتا رہا تھا کہ وہ اس کے لیے کائنات کی سب سے اہم لڑکی ہے اور اب وہ اس دھول زدہ سڑک کے کنارے کھڑی آس پاس گزرتے مردوں کی نظروں کا نشانہ بنتی ہوئی اس گاڑی کو دیکھ رہی تھی جو منٹوں میں غائب ہو گئی تھی۔
اس نے زندگی میں بہت سے مقامات پر بے پناہ تحقیر محسوس کی تھی۔ تب جب منصور نے اسے ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کے گیٹ سے باہر نکال دیا تھا۔ تب جب وہ کوشش کے باوجود طلحہ سے رابطہ نہیں کر پا رہی تھی، تب جب اس نے طلحہ کی طرف سے بھیجا جانے والا طلاق نامہ موصول کیا تھا۔ انکل صفدر کے گھر پر گزارے جانے والے مہینے بھی تحقیر اور تذلیل سے بھرپور تھے۔ مگر اس لمحے اس سڑک کے کنارے اس طرح بے عزت کیا جانا اس کے لیے زندگی میں سب سے زیادہ تحقیر آمیز لمحہ تھا۔
وہاں چند منٹ پہلے درجنوں لوگوں نے اسے ہارون کمال کی گاڑی میں بیٹھتے دیکھا تھا اور اسی سڑک پر کچھ آگے آ کر درجنوں لوگوں نے اسے چند منٹوں بعد ہی اسی گاڑی سے نکلتے دیکھا۔ وہ گاڑی پر سوار ہوتے ہوئے ساتویں آسمان پر تھی۔ پوری دنیا جیسے اس کے پیروں کے نیچے بچھی ہوئی تھی۔ آس پاس سڑک پر چلتے میلے کچیلے لوگ اسے کیڑوں جیسے لگ رہے تھے۔ ان کی چبھتی ہوئی نظریں امبر کے دل میں ان کے لیے نفرت کو بڑھا رہی تھیں۔ وہ خوش تھی کہ وہ ان میں سے نہیں تھی۔
چند منٹوں کے بعد وہ اس سڑک پر کھڑی تھی۔ کسی نے جیسے اسے آسمان سے دھکا دیا تھا اور اس کے پیروں کے نیچے زمین بھی نہیں رہی تھی، صرف پاتال تھا اور اب سڑک پر کھڑے اسے لگ رہا تھا وہ بھی ان ہی میلے کچیلے لوگوں کا حصہ بن گئی ہے۔ ہارون کمال نے اسے جھٹکا نہیں تھا جیسے اسے اپنے گریبان میں جھانکنے کا موقع دے دیا تھا یا پھر شاید آئینہ دکھا دیا تھا۔
وہ کسی بت کی طرح وہیں سڑک پر کھڑی اس طرف دیکھتی رہی، جہاں ہارون کی گاڑی گئی تھی یوں جیسے اسے یہ امید ہو کہ ہارون اپنی غلطی محسوس کرے گا اور بیچ راستے سے واپس آ جائے گا۔ یوں جیسے وہ امبر کو نایاب پر ترجیح دے گا۔ اس نے بھی تو ہارون کو ہر ایک پر ترجیح دی تھی۔ وہ اس کے لیے گھر میں ہر ایک سے لڑ کر آئی تھی۔ وہ اس کے لیے ہر مخالفت مول لے رہی تھی اور وہ اسے صرف چند لمحے اور ”ایک رشتہ” لگا تھا بھاگ جانے میں۔
اس سڑک سے واپس گھر تک کا سفر اس کی زندگی کا سب سے مشکل ترین سفر تھا۔ گھر سے سڑک تک جاتے ہوئے اس نے ہر اس نظر کو محسوس کیا تھا جو اس پر کسی غلط انداز میں پڑی تھی۔ سڑک سے گھر تک آتے ہوئے اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہوا، اس کے احساسات صرف ایک جگہ جم کر رہ گئے تھے۔ نایاب اور ہارون کی بات چیت بار بار اس کے دماغ میں گونج رہی تھی۔ اسے ان دونوں کے درمیان اپنا آپ بے کار اور بے مصرف لگا تھا۔
”آخر میں ہوں کون؟ ہارون سے کیا رشتہ ہے؟ اور کسی رشتہ کے بغیر اسے کون آئندہ کبھی اس طرح مجھے سڑک پر چھوڑ کر چلے جانے سے روکے گا؟”
٭٭٭