تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”پاپا اندر ہیں؟” سیکرٹری نے بڑی حیرانی کے ساتھ صبغہ کو دیکھا۔
”جی؟”
”منصور علی صاحب۔” صبغہ نے نام لیتے ہوئے کہا۔
”وہ آپ کے فادر ہیں؟”
”ہاں!”
سیکرٹری کچھ گڑبڑائی۔ کچھ پریشان ہوئی۔
”جی وہ اندر آفس میں ہیں۔”
”میں ملنا چاہتی ہوں ان سے۔ میرا نام صبغہ ہے۔”
”آپ بیٹھیں۔” سیکرٹری نے انٹرکام کا ریسیور اٹھانے سے پہلے کہا۔ صبغہ صوفے پر بیٹھ گئی۔
”کون آیا ہے؟” منصور نے حیرانی سے سیکرٹری سے پوچھا۔
”آپ کی بیٹی۔”
”امبر؟” منصور کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”نوسر… صبغہ…”
”آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔” منصور کو خاموش پا کر سیکرٹری نے کہا منصور کے ماتھے پر کچھ بل آئے پھر اس نے سیکرٹری سے کہا۔ ”اندر بھیجو۔”
”سر بلا رہے ہیں، آپ اندر جائیں۔” سیکرٹری نے صبغہ سے کہا۔ اس بار اس کی آواز میں احترام تھا۔ صبغہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔
”السلام علیکم پاپا!” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
منصور نے جواب دینے کے بجائے اس سے کہا ”بیٹھو۔” اس کا لہجہ نرمی سے خالی تھا۔ صبغہ اس کے سامنے ایک خالی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس سے پہلے کہ منصور اس سے کوئی سوال کرتا صبغہ بولی۔
”میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔” منصور کے چہرے کے تاثرات میں ایک دم تبدیلی آ گئی۔ اس کے ماتھے کے بل کم ہو گئے تھے۔
”کس لیے؟”
”آپ نے جو چیک بھیجا ہے اس کے لیے۔”
منصور چند لمحوں تک کچھ بول نہیں سکا پھر اس نے کہا۔ ”اس کی ضرورت نہیں۔”
”ممی بھی آپ کا شکریہ ادا کر رہی تھیں۔”




”یہ قابل یقین تو نہیں ہے۔” منصور نے منیزہ کا حوالہ سنتے ہی کہا۔ ”لیکن تم کہہ رہی ہو تو میں یقین کر لیتا ہوں۔”
صبغہ اٹھ کھڑی ہو گئی۔ ”تم صرف اسی لیے آئی تھیں؟” منصور نے صبغہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں… میں نے آپ کو فون کرنے کی کوشش کی تھی مگر آپ کا موبائل فون مسلسل بزی یا بند ملتا تھا اس لیے پھر میں یہاں آ گئی۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”تم آج کل کیا کر رہی ہو؟” منصور نے یک دم اس سے پوچھا۔
”میں جاب تلاش کر رہی ہوں۔”
”کیوں…؟ پڑھنا چھوڑ دیا تم نے؟”
”ہاں۔ مجھے جاب کی ضرورت ہے۔”
منصور کچھ بول نہیں پایا۔
”خدا حافظ۔” وہ دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ بہت عرصے بعد چند لمحوں کے لیے منصور کے دل میں ہلکا سا ملال آیا تھا۔ بہت ہلکا سا… اسے دکھ ہوا تھا۔ بہت عرصے کے بعد اس نے صبغہ کو دیکھا تھا اور صبغہ کے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے اسے امبر اور باقی دونوں بیٹیوں کا خیال بھی آیا تھا اور وہ ان کے بارے میں صبغہ سے پوچھنا بھی چاہتا تھا مگر ایک عجیب سی جھجک آڑے آ گئی۔ صبغہ کے باہر نکلنے کے بعد اسے خیال آیا کہ وہ اسے ڈرائیور کے ذریعے گھر ڈراپ کروا دے۔ اس نے ریسیور اٹھا کر سیکرٹری سے صبغہ کو روکنے کے لیے کہا۔
”مگر سر! وہ باہر نکل گئی ہیں۔ کیا میں آفس بوائے کو پیچھے بھیجوں؟” وہ پوچھ رہی تھی۔ آفس بوائے کو پیچھے بھیجنے کا مطلب کیا ہوتا منصور غور کرتا رہا، پھر یک دم وہ کسی فیصلے پر پہنچ گیا۔
”نہیں۔ رہنے دو۔” اس نے فون رکھ دیا۔ مگر وہ بے حد الجھ گیا تھا۔
وہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور اپنے آفس کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا چند لمحوں کے بعد اس نے صبغہ کو بیرونی گیٹ کی طرف بڑھتے دیکھا۔ پھر اس نے صبغہ کو گیٹ پار کر کے مین روڈ پر بس اسٹاپ کی طرف جاتے دیکھا۔ ایک عجیب سے احساس نے منصور کو اپنی گرفت میں لیا۔ وہ دوسری منزل کی کھڑکی میں کھڑا اسے بس اسٹاپ کی طرف جاتے دیکھ کر شش و پنج اور بے چینی کا شکار تھا۔ وہ اس بس اسٹاپ پر ہر روز اپنے آفس کی طرف آتی درجنوں لڑکیوں کو کھڑے دیکھتا تھا۔ اس نے کبھی ان پر دوسری نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کی تھی اور اب اس کی اپنی بیٹی اسی ہجوم کا حصہ بننے والی تھی۔
”ڈرائیور کو باہر اسٹاپ پر بھیجو وہاں صبغہ کھڑی ہے۔ اس سے کہو کہ اسے گھر چھوڑ آئے۔” اس نے یک دم کھڑکی سے ہٹ کر انٹرکام اٹھایا اور سیکرٹری کو ہدایت دی۔
”یس سر۔”
منصور دوبارہ کھڑکی میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے کچھ دیر بعد اپنی گاڑی کو گیٹ سے نکل کر اسٹاپ کی طرف جاتے دیکھا مگر اس سے پہلے کہ وہ اسٹاپ پر پہنچتی۔ صبغہ اسٹاپ پر آ کر رکنے والی بس میں سوار ہو چکی تھی۔ منصور نے مایوسی سے اپنا نچلا ہونٹ کاٹا پھر کھڑکی سے ہٹ گیا۔
”آج کا دن برا تھا۔” اس نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ اسے یہ نہیں پتا تھا کہ آج کا دن ابھی مزید برا ہونے والا تھا۔ کیونکہ وہ بس اسٹاپ کے منظر میں اتنا محو تھا کہ اس نے رخشی کی گاڑی کو اندر آتے نہیں دیکھا تھا۔
رخشی جس وقت منصور کی سیکرٹری کے آفس میں داخل ہوئی وہ منصور کو انٹرکام پر بتا رہی تھی۔
”سر! ڈرائیور بس اسٹاپ پر صبغہ کو پک کرنے کے لیے گیا تھا مگر وہ بس میں چلی گئیں۔”
رخشی کے قدم رک گئے۔ ریسیور رکھتے ہوئے سیکرٹری نے رخشی کو دیکھا اور مسکرائی۔ ”السلام علیکم میڈم۔”
”صبغہ… منصور کی بیٹی آئی تھی یہاں پر؟” رخشی کے ماتھے پر بل نمایاں تھے۔
”یس میڈم!”
”کس لیے؟”
”منصور صاحب سے ملنے۔”
”اور منصور اس سے ملا؟”
”یس میڈم!” اس کا اقرار رخشی کو تپانے کے لیے کافی تھا۔
وہ بے حد غصے میں منصور کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ منصور، رخشی کو سامنے دیکھ کر بے اختیار چونک گیا۔
رخشی اکثر اس کے آفس آیا کرتی تھی اور زیادہ تر بغیر بتائے ہی آیا کرتی تھی۔ مگر وہ کمرے میں اس طرح دروازہ کھول کر ان تاثرات کے ساتھ نہیں آتی تھی۔ منصور کو پلک جھپکنے میں احساس ہو گیا تھا کہ اس نے صبغہ کو دیکھا ہے یا پھر سیکرٹری کی گفتگو سنی ہے اور وہ بے اختیار جھلا گیا۔
”آؤ رخشی… بیٹھو” منصور نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”مجھے یہاں بیٹھنے کے لیے تمھارے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہے۔” رخشی نے جیسے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا اور ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
”کیوں ناراض ہو رہی ہو؟”
”اتنا معصوم بننے کی ضرورت نہیں ہے منصور! اب تم مجھ کو بھی دھوکا دو گے۔”
”کیسا دھوکا؟ تم کیا بات کر رہی ہو؟” منصور کے تیکھے لہجے میں بولا۔
”تمہاری اولاد یہاں تم سے ملنے آتی ہے اور تم نے ایک بار بھی مجھ سے ذکر تک نہیں کیا۔”
منصور نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ ”کوئی مجھ سے یہاں ملنے نہیں آتا۔”
رخشی نے اس کی بات کاٹی۔ ”جھوٹ مت بولو منصور! ابھی تھوڑی دیر پہلے صبغہ یہاں تم سے مل کر گئی ہے اور…” منصور نے اس کی بات کاٹی۔
”میں نے کب کہا وہ نہیں آئی۔ وہ آئی تھی مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ساری اولاد مجھ سے ملنے یہاں آتی ہے۔” منصور نے کچھ غصہ سے کہا۔ ”مجھے ان سے ملنا ہوتا تو میں انھیں گھر بلاتا۔”
”اور میں انھیں اس کا گیٹ تک کراس نہ کرنے دیتی۔ تمھیں پتا ہونا چاہیے وہ گھر میرے اور میرے بیٹے کے نام ہے۔”
”ہم ایک فضول بحث کر رہے ہیں۔ تم سے کہہ دیا ہے کہ کوئی اور مجھ سے ملنے نہیں آتا صرف صبغہ آئی ہے۔”
”آئی ہے یا آتی ہے؟” رخشی نے اسی طرح دل جلانے والے انداز میں کہا۔
”نہیں آئی ہے۔” منصور نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”صرف آج آئی ہے۔”
”کس لیے؟” منصور اس کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ وہ رخشی کو یہ بتانا نہیں چاہتا تھا کہ اس نے ان لوگوں کو کوئی رقم بھجوائی ہے اور اب ماہانہ بھجوانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
”وہ روشان سے ملنا چاہتی تھی۔” منصور نے جھوٹ بولا۔
”اور روشان سے ملنے کے لیے وہ یہاں آئے گی۔” رخشی مشتعل تھی اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ منصور جھوٹ بول رہا ہے۔
”وہ مجھ سے اجازت مانگنے آئی تھی۔” منصور نے کہا۔
”اور تم نے اجازت دے دی؟”
”نہیں۔”
”اور اس نہیں کا صبغہ کو پہلے سے ہی پتا تھا تو پھر وہ یہاں کیوں آئی۔” رخشی نے بحث کرتے ہوئے کہا۔
”وہ سمجھ رہی تھی کہ اب کافی عرصہ گزر گیا ہے اور شاید میں اسے روشان سے ملنے کی اجازت دے دوں گا۔” منصور نے کہا۔
”تم امبر کے بارے میں یہ کہتے تو میں مان لیتی۔ اپنی دوسری بیٹیوں کے بارے میں کہتے تو بھی میں مان لیتی۔ مگر صبغہ کے بارے میں، میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ وہ تم سے اس طرح کی اجازت لینے کے لیے آئی ہوگی۔”
”تمھیں اندازہ نہیں ہے دوسرے بچوں کی نسبت صبغہ اور روشان آپس میں زیادہ قریب ہیں۔” منصور نے تحمل سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”مجھے اچھی طرح اندازہ ہے اور میں صبغہ کو اس سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہوں۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!