تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۱

”کوئی بات نہیں۔ چائے سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
دونوں عورتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ فاطمہ کو ان کی آنکھوں میں تشویش نظر آئی۔ ثانیہ نے چائے بنانے کے لیے کپ سیدھے کیے۔
”کتنی چینی؟” اس نے ان عورتوں نے پوچھا۔ ایک عورت نے چونک کر ثانیہ کو دیکھا۔
”ایک چمچ۔” اس نے کہا اور اپنے چہرے کا نقاب اس طرح ہٹایا کہ وہ اس کی ٹھوڑی کو چھپائے ہوئے تھا۔ دوسری عورت نے بھی یہی کیا۔ ثانیہ اب پہلی عورت کو کپ تھما رہی تھی۔ فاطمہ کو اس عورت کا چہرہ شناسا لگا۔ وہ میک اپ کے بغیر تھی اور اس کی رنگت سانولی تھی مگر ادھیڑ عمر میں بھی اس کے نقوش بے حد پرکشش تھے۔
”یہ بیٹی ہے آپ کی؟” دوسری عورت نے فاطمہ سے پوچھا۔
”جی۔” فاطمہ نے مسکرا کر ثانیہ کو دیکھا۔ جواب چائے کا کپ دوسری عورت کی طرف بڑھا رہی تھی۔
”کتنے بچے ہیں آپ کے؟”
”دو بیٹے اور ایک بیٹی۔” فاطمہ نے کہا۔
”آپ کے چھوٹے بیٹے نے دروازہ کھولا تھا؟”
”جی، میرا چھوٹا بیٹا تھا وہ۔” فاطمہ نے کہا۔
”آپ اپنے بیٹے کی بات کر رہی تھیں۔” فاطمہ نے دوبارہ موضوع پر آتے ہوئے کہا۔
”میرا بیٹا… ہاں!” وہ عورت چونکی پھر گڑبڑائی۔ ”آپ تو اسے نہیں پڑھا سکیں گی آپ تو بڑی کلاسز کے بچوں کو پڑھاتی ہی نہیں۔”
”نہیں، میں نہیں پڑھاتی۔ میرا بڑا بیٹا کچھ عرصہ پہلے تک ٹیوشنز کیاکرتا تھا مگر اب وہ بھی نہیں کرتا ورنہ میں اسے آپ کے بیٹے کو پڑھانے کے لیے کہتی۔”
ثانیہ دوبارہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ چکی تھی۔ اسے اس گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے اس نے گردن موڑ کر ان عورتوں کی طرف دیکھا۔ خوبصورت نقوش والی عورت نے چائے پیتے ہوئے اپنی نظریں چرائیں۔ دوسری عورت فاطمہ کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف تھی۔
”آپ نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ کو میرے یہاں بھیجا کس نے ہے؟” فاطمہ کو اچانک خیال آیا۔
”آپ کے اسکول میں پڑھنے والے ایک بچے کے والدین ہمارے ساتھ والے گھر میں رہتے ہیں ان سے اپنے بیٹے کا ذکر کر رہی تھی تو انہوں نے آپ کے بارے میں بتایا۔”
”اوہ اچھا! ہاں یہاں اس علاقے کے کافی بچے میرے والے اسکول میں ہی پڑھتے ہیں۔” فاطمہ کہہ رہی تھی۔
ثانیہ کو ٹی وی دیکھتے ہوئے ایک بار پھر کسی کی نظروں کا احساس ہوا۔ اس دفعہ اس نے گردن موڑے بغیر صرف آنکھیں گھما کر اس عورت کی طرف دیکھا۔ اس کا اندازہ ٹھیک تھا، وہ عورت ایک بار پھر اسے ہی گھور رہی تھی، ثانیہ نے نظریں ہٹالیں۔




چائے کا کپ رکھنے کے بعد خوبصورت نقوش والی عورت نے نقاب پھر ٹھوڑی سے اوپر کھینچ لیا۔ دوسری عورت بھی اب نقاب چڑھا رہی تھی۔
”ہم لوگ چلتے ہیں اب۔ چائے کے لیے بہت شکریہ۔” وہ دونوں عورتیں کھڑی ہو گئیں۔
ثانیہ نے اسی عورت کو اس بار فاطمہ سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ گلے ملتے دیکھا۔ پھر وہ عورت اس کی طرف دیکھنے لگی۔
”خدا حافظ!” ثانیہ نے مسکراتے ہوئے اس سے عورت کہا، مگر وہ عورت اس کی طرف بڑھ آئی۔ ثانیہ اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس عورت نے فاطمہ کی طرح ثانیہ کو بھی بڑی گرم جوشی سے گلے لگایا اور پھر اس کا گال چوما، ثانیہ ہکا بکا رہ گئی۔ فاطمہ نے بھی کچھ حیرت سے اس عورت کو دیکھا۔ وہ دونوں عورتیں اب کمرے کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ فاطمہ ان کے ساتھ تھی۔ ثانیہ قدرے حیرانی سے اس عورت کی پشت کو دیکھ رہی تھی پھر کندھے اُچکاتے ہوئے وہ دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔
فاطمہ نے جس وقت ان عورتوں کے باہر جانے کے لیے صحن کا بیرونی دروازہ کھولا۔ اسی وقت شہیر بھی اپنے گھر کے باہر آکر ہی کھڑا ہوا تھا۔ دونوں عورتوں نے شہیر کو دیکھا جواب سلام کرتے ہوئے منتظر تھا کہ وہ دونوں عورتیں چوکھٹ پار کریں اور وہ گھر کے اندر داخل ہو۔ خوبصورت نقوش والی عورت پلکیں جھپکائے بغیر شہیر کو دیکھ رہی تھی پھر اس نے یک دم گردن موڑ کر فاطمہ سے کہا۔
”یہ…؟” اس کا اشارہ شہیر کی طرف تھا۔
”یہ میرا بڑا بیٹا ہے۔” فاطمہ کو محسوس ہوا کہ اس عورت کی نقاب سے نظر آنے والی آنکھوں میں ایک دم الجھن ابھری تھی پھر اس نے مڑ کر شہیر کو دیکھا اور سلام کرتے ہوئے چوکھٹ عبور کر گئی۔
ان کے جانے کے بعد شہیر اندر آیا۔ ”یہ کون تھیں؟” اس نے دروازہ بند کرتے ہوئے فاطمہ سے پوچھا۔
”ایسے ہی ایک بچے کی ٹیوشن کے لیے آئی تھیں۔” فاطمہ نے اندر جاتے ہوئے کہا۔
”مگر بے حد عجیب خواتین تھیں یہ امی!” ثمر اتنی دیرمیں اپنے کمرے میں سے باہر نکل آیا۔
”کیوں کیا ہوا؟” فاطمہ نے قدرے لاپرواہی سے ثمر سے پوچھا؟ وہ اس کی عادت سے واقف تھی اسے ہر دوسرا شخص عجیب لگتا تھا۔
”مجھے گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں۔” ثمر نے فاطمہ کے پیچھے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں امی! یہ احساس مجھے بھی ہوا وہ مجھے بھی اسی طرح گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں۔” ثانیہ بھی بولی۔
”بیٹا! بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔”
ثمر نے فاطمہ کی بات کاٹی۔ ”گھور گھور کر دیکھنے کی جیسے ثانی کی؟” ثمر نے بے حد معصومیت اور سنجیدگی سے پوچھا۔ ثانیہ نے ثمر کو گھورا، فاطمہ نے کاپی کھولتے ہوئے اپنی ہنسی ضبط کی۔
”نہیں امی! میں واقعی سیریس ہوں۔ ان کا دیکھنے کا انداز بہت عجیب تھا۔ میرے چہرے سے نظریں ہی نہیں ہٹا رہی تھیں وہ۔” ثانیہ نے سنجیدگی سے فاطمہ سے کہا۔
”پھر میں اپنا بیان واپس لیتا ہوں۔ وہ اگر صرف مجھے گھور کر دیکھتیں تو یہ ٹھیک تھا اور سمجھ میں آسکتا تھا کیونکہ میں ایک ”خوبصورت نوجوان ہوں” لیکن اگر وہ ثانیہ کو بھی دیکھ رہی تھیں تو پھر انہیں یقینا عادت ہی ہو گی۔” ثمر نے اسے ایک بار پھر اسے چھیڑا۔
ثانیہ نے کچھ کہنے کی بجائے نظریں ٹی وی کی طرف کر لیں۔
”لوگوں کی نظر دیکھیں امی! لوگ اب ثانیہ کو بھی گھورا کریں گے۔ یہ قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں۔”
ثانیہ اس بار بھی کچھ نہیں بولی۔
”منہ بند رکھو ثمر! اگر تمیں یہاں بیٹھنا ہے تو۔” اس بار فاطمہ نے اسے ڈانٹا۔
”میں نے کیا کہا۔ میں تو صرف ایک حقیقت بیان کر رہا تھا۔” ثمر نے کن اکھیوں سے ثانیہ کو دیکھا، اس کی خاموشی یقینا معنی خیز تھی۔ وہ اب بھی بظاہر اسے نظر انداز کیے مکمل طور پر ٹی وی اسکرین کی طرف متوجہ تھی۔
”جب سے لوگوں نے آئی بی اے کے ایڈمیشن ٹیسٹ کی تیاری شروع کی ہے لوگ بڑے مدبر ہو گئے ہیں، چھوٹے موٹے لوگوں کی باتوں کا جواب دینا ہی چھوڑ دیا ہے۔”
ثمر نے ایک اور جملہ کسا۔
”تمہارا منہ بند نہیں ہو سکتا۔” فاطمہ نے اسے پھر ٹوکا۔
”سارا دن تو بند رہتا ہے صرف بولنے اور کھانے کے وقت کھولتا ہوں۔ ثانیہ کی طرح بیس گھنٹے تو کھلا نہیں رکھتا۔” اس نے ایک بار پھر ثانیہ کو چھیڑا۔
”ثمر! اگر اب ایک لفظ تمہارے منہ سے نکلا تو میں تمہیں یہاں سے نکال دوں گی۔” فاطمہ نے اس بار خاصی ناراضی سے کہا۔
”یعنی آپ چاہتی ہیں کہ میں ایک لفظ کبھی نہ بولوں زیادہ سے زیادہ الفاظ کا استعمال کروں۔ اچھا… اچھا سوری… سوری… سمجھ گیا میں۔” ثمر نے ایک دم فاطمہ کو اٹھتے دیکھ کر کہا۔
”میں تو پہلے ہی جارہا تھا۔” وہ اٹھ کر تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا۔ فاطمہ دوبارہ بیٹھ گئی۔ وہ دروازے کے پاس جا رکا اور مڑ کر سنجیدگی سے پہلے ثانیہ کو دیکھا پھر فاطمہ اور بولا۔
”میرے ذہن میں ابھی ابھی ایک خیال آیا ہے امی! ہو سکتا ہے وہ دونوں خواتین مجھے اور ثانیہ کو کسی اور مقصد کے لیے دیکھ رہی ہوں۔”
فاطمہ نے چونک کر ثمر کو دیکھا وہ بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
”کس مقصد کے لیے؟”
”ہوسکتا ہے ان کے بھی کوئی ہماری عمر کے بیٹا بیٹی ہوں اور وہ آج کل ان کے لیے رشتے کی تلاش کر رہے ہوں۔ اب میں تو ان کو دروازے پر ہی پسند آگیا تھا۔ یہ تو مجھے یقین ہے۔ انہوں نے سوچا ہو چلو لگے ہاتھوں لڑکے کی بہن کو بھی اپنے ہی گھر لے آئے ہیں کم از کم ہماری بیٹی توا گلے گھر جا کر سُکھی رہے گی اور…”
اس کے منہ سے اور کوئی لفظ نہیں نکل سکا۔ ثانیہ چلاتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگی تھی۔ فاطمہ نے بے اختیار آنکھیں بند کر لیں اسے اندازہ تھا اب باہر کیا ہنگامہ ہونے والا تھا۔
٭٭٭
”آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟” منصور نے اس صبح روشان سے ناشتے کی میز پر پوچھا۔ رخشی بھی دونوں کی طرف متوجہ ہوئی اس نے باری باری روشان اور منصور کو دیکھا۔
”میں ایم بی اے کرنا چاہتا ہوں۔” روشان نے سنجیدگی سے کہا۔
”کہاں سے؟” منصور نے اس سے پوچھا۔
”آئی بی اے سے۔”
”پاکستان سے؟” منصور کو جیسے دھچکا لگا۔
”ہاں!”
”پاکستان میں پڑھنے کا کیا فائدہ ہے۔” رخشی نے یک دم گفتگو میں مداخلت کی ”منصور” آپ اسے باہر کے کسی ملک میں پڑھنے کے لیے بھیجیں۔ جب آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو اسے پاکستان میں کیوں پڑھائیں۔”
”آپ یہ پلاننگ اپنے بیٹے کے لیے کریں۔” روشان نے اس کی بات کاٹتے ہوئے سرد لہجے میں جواب دیا۔ ”میں اپنے لیے یونیورسٹی کا انتخاب کر چکا ہوں۔”
”دیکھا آپ نے کس طرح بات کرتا ہے۔” رخشی یک دم بلبلائی۔ ”میں اسے اپنی اولاد سمجھتی ہوں اور یہ۔”
”آپ دوسروں کی اولاد کو ا پنی اولاد سمجھنے پر وقت ضائع کرنے کے بجائے صرف اپنی اولاد کو اپنی اولاد سمجھیں تو اپنے ساتھ ساتھ آپ دوسروں کے مسائل میں بھی کمی کر دیں گی۔” روشان نے ایک بار پھر اسی ترش انداز میں کہا۔
”روشان! تم تمیز سے بات کرو۔” اس بار منصور نے روشان کو جھڑکا۔
”فی الحال تو تمیز سے ہی بات کر رہا ہوں اور میں نے ایک بات بھی ایسی نہیں کی، جو بدتمیزی کے دائرے میں آتی ہو۔” روشان نے اسی اندازمیں بات کرتے ہوئے کہا۔
”دیکھ رہے ہو تم، یہ ہمیشہ مجھ سے اسی طرح بات کرتا ہے۔” رخشی نے منصور کو پھر مخاطب کیا۔
”غلط بیانی مت کریں۔ میں تو آپ سے بات ہی نہیں کرتا یہ زحمت آپ خود کرتی ہیں۔” روشان نے رخشی کی بات کاٹ کر کہا اس کا لہجہ اب بھی روکھا تھا۔
”تم نے اس کا انداز دیکھا ہے۔” رخشی بھڑکی۔
”کیا میں ناشتے کی ٹیبل سے اٹھ کر چلا جاؤں یا آپ مجھ سے مزید کوئی بات کرنا چاہتے ہیں۔”
روشان نے رخشی کی بات کاٹتے ہوئے خشک لہجے میں منصور کو مخاطب کیا۔ منصور نے اپنے سولہ سال کے بیٹے کو دیکھا جو اب قد میں اس سے بھی لمبا ہو چکا تھا۔ بورڈنگ میں جانے کے بعد دونوں کے درمیان عجیب سی خلیج حائل ہو چکی تھی۔ پہلے والی بے تکلفی یک دم جیسے دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئی تھی۔ وہ ویک اینڈز پر گھر آنے پر بھی اپنے کمرے میں گھسا رہتا۔ اس سے سامنا ہونے پر بھی صرف خاموشی تھی جو منصور کا استقبال کرتی۔ وہ اس کے سامنے رخشی کے بیٹے کو گود میں لیتے ہوئے جھجکتا تھا اور رخشی استحقاق سے روشان کے سامنے اپنا بیٹا لا کر اسے تھما دیتی۔ منصور کو لگتا تھا ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے اور روشان کے درمیان غیریت کی یہ خلیج بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے روشان کے جیب خرچ میں اضافہ کر دیا تھا۔ وہ اسے آئے دن نت نئی چیزیں دلواتا رہتا۔ مگر اس کی سرد مہری میں کمی نہیں آئی تھی۔ وہ چیزیں بھی لے لیتا اور اپنی چپ بھی نہیں توڑتا تھا۔
یہ صرف تب ٹوٹتی تھی جب رخشی سامنے آتی تھی۔ رخشی کو عادت تھی کہ وہ اکیلے میں کبھی روشان کو مخاطب کرتی یا نہ کرتی مگر منصور کے سامنے وہ روشان کو کچھ نہ کچھ ضرور کہتی تھی اور روشان ٹکڑا توڑ جواب دیتا تھا۔
منصور پہلے ہر موقع پر رخشی کی سائڈ لیتے ہوئے روشان کو جھڑکتا مگر پھر یکدم اسے محسوس ہونے لگا کہ اس طرح وہ روشان کو خود سے اور دور کر رہا ہے۔ تب وہ ان دونوں کے جھگڑے میں خاموشی اختیار کرنے لگا یا پھر اگر روشان کو کچھ کہتا بھی تو سوچ سمجھ کر نرم اور محتاط لفظوں میں اور اس کی یہ نرمی رخشی کو کھلتی تھی۔
اس وقت بھی ناشتے کی ٹیبل پر یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔
”بیٹا! رخشی تمہاری سوتیلی ماں ہے۔ تم اس کی عزت کیا کرو۔”
”میں اپنی ماں کو چومتا تھا، گلے لگاتا تھا۔ کیا ان کے ساتھ بھی ایسا کیا کروں؟”
وہ کرسی دھکیل کر کھڑا ہو گیا۔’منصور ساکت رہ گیا۔ رخشی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”اس طرح کی عورتیں جو زبردستی دوسروں کے جوان بچوں کی مائیں بننا چاہتی ہیں انھیں عزت کی ضرورت ہوتی ہے نہ عزت دی جاتی ہے انھیں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ آپ پہلے ہی انھیں دے رہے ہیں تو پھر مجھ سے مطالبات کیوں کر رہے ہیں۔” اس نے کھڑے ہو کر رخشی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا۔
”مجھ سے ایک دو سال بڑی ہے یہ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں اسے ماں سمجھوں۔”
منصور کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ روشان بول رہا ہے۔ وہ لمبے ڈگ بھرتا کچھ بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ منصور نے رخشی کو دیکھا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔
”اس لیے کہہ رہی تھی تم سے کہ اسے پاکستان سے باہر بھجوا دو پہلے میری اولاد کو اس سے خطرہ تھا، اب مجھے اس سے ڈر لگتا ہے مجھے کچھ ہوا تو میں بتا رہی ہوں تمھیں، میں روشان کو مار دوں گی۔”
وہ یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۰

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!