”مومل کیسی ہے؟” اس نے فاطمہ سے پوچھا۔
”وہ ٹھیک ہے۔” اسے فاطمہ کا لہجہ کچھ بجھا بجھا سا لگا پھر وہ بل ادا کرنے کے لیے ڈاکٹر کے پاس گیا تھا اور ڈاکٹر نے اسے بٹھا لیا۔
”میں آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی۔ آپ کی طرف سے آپ کی مسز پر کیا بیٹے کے لیے کوئی دباؤ تھا؟”
اسفند نے حیرانی سے ڈاکٹر کو دیکھا۔ ”بالکل بھی نہیں۔ آپ کو یہ کس نے کہا ہے؟”
”تو پھر آپ کی مسز اس قدر رو کیوں رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو دیکھنے اور اسے فیڈ کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ ہم نے انہیں سکون آور انجکشن لگا کر سلایا ہے ورنہ ان کی حالت اس طرح رونے سے زیادہ خراب ہو جاتی۔”
وہ لیڈی ڈاکٹر کی بات پر ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔
”اگر آپ کی طرف سے ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا تو پھر انہیں کیا ہوا ہے؟” ڈاکٹر الجھ گئی تھی۔
”ہو سکتا ہے۔ انہیں خود ہی بیٹے کی خواہش ہو اور اس وجہ سے بیٹی کی پیدائش پر انہیں صدمہ پہنچا ہو بہرحال میری طرف سے ان پر کوئی پریشر نہیں تھا۔”
اس نے بہانا بنا کر ڈاکٹر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر پتا نہیں مطمئن ہوئی یا نہیں لیکن اس نے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ ستے ہوئے چہرے کے ساتھ ڈاکٹر کے آفس سے نکل آیا۔
”اسفند! تم اپنی بیٹی کو نہیں دیکھو گے؟” ربیعہ نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا۔
اس نے ایک تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ سرہلا دیا۔ انکو بیٹر میں اس نے پہلی بار اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھا اور پھر نرس نے اس کی بیٹی کو اس کے ہاتھوں میں تھما دیا۔
”آپ کی بیٹی بہت خوبصورت ہے۔ آپ کو دیکھ کر سوچ رہی ہوں۔ اسے تو خوبصورت ہونا ہی تھا۔” اس نے نرس کو کہتے سنا۔ وہ بہت غور سے اپنی بیٹی کا چہرہ دیکھنے لگا۔ اور پھر اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ اس نے اپنے کپکپاتے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ لیا۔ بہت نرمی سے اس کا ماتھا چوم کر اس نے اسے سینے سے لگا لیا۔ وہ کسمسانے لگی۔
نرس نے آگے بڑھ کر اس کی بیٹی کو لے لیا۔ پھر ربیعہ اور فاطمہ کے ساتھ وہ مومل کے پاس بھی گیا۔ وہ نیند آور ادویات کے زیر اثر سو رہی تھی۔ ورنہ اسے سامنے دیکھ کر وہ پھٹ پڑتی۔ وہ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ کر واپس آ گیا تھا۔
مومل بہت زیادہ دن بچی سے نفرت نہیں کر پائی۔ تیسرے دن اس نے روتے ہوئے اسے گود میں لے لیا تھا۔ اس کے دل میں اسفند کے لیے نفرت تھی لیکن اپنی بیٹی کے لیے نفرت نہیں رہ پائی۔ ربیعہ اور فاطمہ کی طرح اسفند نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔ چند دن ہاسپٹل میں رہ کر وہ گھر آ گئی تھی اور اسفند کے لیے اس کے تیور پہلے سے بھی زیادہ بگڑے ہوئے تھے۔ وہ بات بے بات اس سے الجھ پڑتی اور بعض دفعہ جب وہ زاشی کو اٹھانے لگتا تو وہ اسے ہاتھ لگانے نہ دیتی۔ اس کا رویہ اسفند کی سمجھ سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا کہ وہ خودکشی کر لے۔ وہ صرف اسے آرام و آسائش دینے کیلئے رات گئے تک کسی جانور کی طرح کام کرتا رہتا تھا اور وہ پھر بھی اسے معاف کرنے پر تیار نہیں تھی۔ وہ پھر بھی خوش نہیں تھی۔
انہیں دنوں اس کا سی ایس ایس کا رزلٹ آؤٹ ہوا تھا اور وہ ساتویں پوزیشن لے کر کامیاب ہوا تھا۔ ایک سال میں یہ پہلی خوش خبری تھی جو اسے ملی تھی پچھلے سال میں کی گئی ساری محنت’ ساری ذلت اسے بھول گئی تھی۔ وہ بے حد پُرسکون اور مطمئن تھا اور اس اطمینان اور سکون نے مومل کے وجود میں ایک آگ بھڑکا دی تھی۔ ربیعہ اور فاطمہ نے گھر آ کر اسے مبارک باد دی تھی اور وہ طیش میں آ گئی تھی۔
”مجھے اس کی کامیابی کی کوئی خوشی نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ ناکام ہوتا تو مجھے خوشی ہوتی۔”
”مومل! فضول باتیں مت کرو۔ کیا تم خوش نہیں ہو کہ اب تم بھی ایک اچھی زندگی گزار سکو گی’ معاشرے میں تم لوگوں کا کوئی مقام ہو گا تمہاری بیٹی کو ساری آسائشات ملیں گی۔” ربیعہ نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا تھا۔
”بھاڑ میں جائیں یہ آسائشیں۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے خوش حال زندگی نہیں چاہیے۔ مجھے ان سب آسائشات سے نفرت ہے جو مجھے اس کے طفیل ملیں گی۔”
”مومل! تم سب کچھ بھول کیوں نہیں جاتیں؟” فاطمہ نے اس سے کہا تھا۔
”اگر یہ سب تمہارے ساتھ ہوتا تو کیا تم بھول جاتیں؟”
”بھولنے کی کوشش ضرور کرتی۔” فاطمہ نے نظریں چراتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا۔
”لیکن میں کبھی بھولنے کی کوشش بھی نہیں کروں گی۔ میں سب کچھ یاد رکھوں گی اور اسے بھی یاد دلاتی رہوں گی۔”
”تم اپنی زندگی جہنم بنا لو گی۔”
”کیا اب یہ زندگی جہنم نہیں ہے۔” ربیعہ نے بے بسی سے اسے دیکھا۔ وہ کچھ سننے ‘ کچھ سمجھنے پر تیار ہی نہیں تھی۔
٭
”حسن انکل تم سے بات کرنا چاہتے ہیں؟” اس دن راشد نے اسفند کو آفس فون کر کے بتایا تھا۔
”کیوں؟”
”یہ میں نہیں جانتا۔ بس انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے رابطہ کر کے ان کا پیغام تم تک پہنچا دوں۔”
”ٹھیک ہے میں کل شام کو گھر جاؤں گا۔” اس نے راشد کو مطلع کیا تھا۔
دوسرے دن وہ شام کو چھ ماہ کے بعد گھر گیا تھا۔ سب اس سے بڑی گرم جوشی سے ملے تھے سوائے حسن علی کے۔
”تو تم نے سی ایس ایس کوالیفائی کر لیا ہے؟” اسے دیکھتے ہی انہوں نے سگار سلگاتے ہوئے بے تاثر لہجے میں کہا۔
”اور اب تمہیں یقین ہو گیا ہو گا کہ تم میرے محتاج نہیں رہے اور میرے بغیر بھی آرام سے زندگی گزار سکتے ہو۔” ان کا لہجہ بہت سرد تھا۔ وہ خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔
”تم نے اپنے فیصلے میں کوئی تبدیلی کی ہے؟”
”نہیں۔” اس نے مختصر جواب دیا۔
”ٹھیک ہے پھر تم جاؤ۔”
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
”پاپا! میری ایک بیٹی ہے۔ کیا میں خود کو ٹھوکروں سے بچانے کے لیے اسے دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دوں۔”
”ہاں۔ اسے بھی چھوڑ دو۔ ایسے رشتوں کی ہمارے خاندان میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی نہ ہی ایسی اولادیں قبول کی جاتی ہیں۔ تم اس کی ماں کو کچھ روپیہ دے دینا’ وہ خود ہی اسے پال لے گی۔” انہوں نے جیسے بات ہی ختم کر دی تھی۔
”نہیں۔ میں اپنی بیٹی کو نہیں چھوڑ سکتا۔ بات اگر صرف ضد کی ہے تو ٹھیک ہے پھر آپ کو جو کرنا ہے کر لیں لیکن میں اسے طلاق نہیں دوں گا۔”
وہ تلخ لہجے میں کہہ کر کمرے سے باہر نکل آیا۔
٭
پھر وہ ٹریننگ کے لیے اکیڈمی چلا گیا تھا۔ ہر ہفتہ ویک اینڈ پر وہ آتا اور زاشی کو اٹھائے رکھتا۔ مومل زاشی کے لیے اس کے اس التفات پر جیسے جھلس جاتی تھی۔ اسفند کی موجودگی میں زاشی اگر رونے لگتی تو وہ اسے بُری طرح پیٹتی۔ اسفند اسے روکنے کے بجائے خاموشی سے سب کچھ دیکھتا رہتا اور جب وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال چکی ہوتی تو وہ روتی ہوئی زاشی کو اٹھاتا اور باہر لے جاتا۔ اور جب وہ کچھ دیر بعد اسے واپس لے کر آتا تو زاشی اپنے ہاتھوں میں کھانے پینے کی کوئی چیز پکڑے اس کی گود میں کھلکھلا رہی ہوتی۔ اور اس کی یہ ہنسی مومل کو زہر لگتی۔
زاشی سے اس کا یہ سلوک اسفند کو دلبرداشتہ کر دیتا تھا۔ وہ جب بھی اسے مارتی تھی۔ ساتھ بلند آواز میں بولتی اور طعنے دیتی۔ اسفند جانتا تھا۔ وہ یہ سب اسے سناتی ہے ورنہ ڈیڑھ سال کی وہ بچی کیا سمجھ سکتی ہے۔ اس کی ہزار معذرتیں بھی مومل کے دل کو صاف نہیں کر سکی تھیں۔ وہ اکیڈمی واپس جانے کے بعد یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہتا کہ جب مومل اس کے سامنے زاشی کو بخشنے پر تیار نہیں ہوتی تھی تو اس کے پیچھے تو پتا نہیں وہ اس کا کیا حشر کر دیتی ہو گی۔
یہی وجہ تھی کہ وہ جب ویک اینڈ پر واپس گھر آتا تو سارا وقت زاشی کو لپٹائے رکھتا۔ اسے سیر کے لیے باہر لے کر جاتا۔ اس کے لیے کھلونے لاتا۔ اس کے ساتھ کھیلتا۔ وہ جیسے ایک دن میں پورے ہفتے کی تلافی کر دینا چاہتا تھا۔
زاشی بھی مومل کے بجائے اسفند سے زیادہ مانوس ہو گئی تھی اسے باپ کا لمس زیادہ پسند تھا۔ وہ جب ویک اینڈ پر گھر آتا تو وہ اسے دیکھ کر مسکرانے لگتی یوں جیسے اس نے اسفند کو پہچان لیا ہو۔ اس کی زبان سے ادا ہونے والا پہلا لفظ بھی پاپا ہی تھا۔ اسفند کی غیر موجودگی میں زاشی کے ساتھ مومل کا سلوک بہت اچھا ہوتا تھا۔ وہ اسے گود میں اٹھائے رکھتی اور بعض دفعہ بے اختیار ہو کر اسے چوم لیتی۔ وہ تھی ہی اتنی خوبصورت کہ اس پر بے اختیار پیار آتا تھا۔ اس نے اپنے باپ کے سارے نقوش لیے تھے۔ وہی تیکھی ناک’ ڈارک براؤن آنکھیں’ لمبی خم دار پلکیں’ باریک ہونٹ اور سیاہ گھنے چمکدار بال جس میں اسفند کی طرح بعض جگہوں پر براؤن بالوں کے گچھے بھی تھے۔ وہ اسفند سے اس قدر مشابہہ تھی کہ اس کی گردن پر بھی اسی جگہ تل تھا جس جگہ اسفند کا تل تھا۔ بعض دفعہ اس کی یہ مشابہت مومل کو بہت تکلیف پہنچاتی تھی۔
٭
اسفند اب اپنے ماں باپ سے بھی ملنے جانے لگا تھا۔ مومل کو طلاق دینے کے لیے ابھی بھی اس پر دباؤ موجود تھا اور اس دباؤ کی بنیادی وجہ نوشین تھی جو کہیں اور شادی کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ لیکن وہ اپنی بات پر قائم تھا وہ مومل اور زاشی کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔ لیکن بہرحال حسن نے اپنی جائیداد سے دوسرے بچوں کی طرح اُس کا حصہ بھی اُسے دے دیا تھا پھر ان ہی دنوں خاندان میں ہونے والی ایک تقریب میں اس کی ملاقات نوشین سے ہوئی۔ اور یہ ملاقات دونوں کو پھر ایک دوسرے کے قریب لے آئی تھی۔ اگر وہ ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزار رہا ہوتا تو شاید وہ اتنی جلدی نوشین کی طرف مائل نہ ہوتا لیکن جس طرح کی زندگی وہ مومل کے ساتھ گزار رہا تھا اور جس طرح وہ اس کے ہاتھوں تذلیل کا نشانہ بنتا تھا۔ اس نے اسفند کو ایک بار پھر نوشین کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کی سوچ میں واضح تبدیلی آ چکی تھی۔
وہ ویک اینڈ پر گھر گیا اور مومل کو بغور دیکھتا رہا۔ پہلی بار وہ اسے نوشین سے کمپیئر کر رہا تھا اور ہر چیز میں نوشین کا پلہ بھاری تھا۔ وہ مومل سے زیادہ خوبصورت’ زیادہ دولت مند’ زیادہ تعلیم یافتہ تھی اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ اسفند سے بے تحاشا محبت کرتی تھی۔ مومل کا رویہ اب بھی اس کے ساتھ ویسا ہی تھا وہ اب بھی اس کا کوئی کام نہیں کرتی تھی نہ اسے مخاطب کرتی تھی۔ وہ پہلی بار اضطراب کاشکار ہوا تھا۔
”مومل کو میری ضرورت نہیں ہے۔ وہ میرے ساتھ خوش نہیں ہے۔ جتنی محبت اور توجہ وہ زاشی کو دیتی ہے۔ اتنی تو نوشین بھی دے سکتی ہے۔ اس زبردستی کے رشتے کو قائم رکھنے کا کیا فائدہ ہے۔ مجھے اسے آزاد کر دینا چاہیے۔ میں اسے اتنا روپیہ دے دوں گا کہ اسے کوئی مالی پریشانی نہیں ہو گی وہ آرام سے زندگی گزار سکتی ہے۔ اور میں … میں نوشین کے ساتھ نئے سرے سے زندگی شروع کر سکتا ہوں۔”
وہ جتنا ان سوچوں کو دماغ سے نکالنے کی کوشش کرتا۔ وہ اسے اتنا ہی پریشان کرتیں۔ وہ اب جب بھی گھر آتا۔ ہر وقت مومل اور نوشین کا موازنہ کرتا رہتا اور پھر اس کا رویہ تبدیل ہوتا گیا تھا۔
مومل یہ جان چکی تھی کہ وہ دوبارہ اپنے والدین سے ملنے لگا ہے کیونکہ اب ایک بار پھر اس کے پاس ایک بہت مہنگی سی گاڑی تھی اور اس نے فلیٹ کو بھی فرنشڈ کروایا تھا لیکن اس کے ذہن میں یہ بات کہیں نہیں تھی کہ وہ اب اسے چھوڑ دینا چاہتا ہے۔ انہیں دنوں ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد فاطمہ واپس اپنے والدین کے پاس چلی گئی تھی کیونکہ اس کی شادی طے ہو گئی تھی۔
فاطمہ کے جانے کے بعد ربیعہ کی آمد بھی کم ہو گئی تھی کیونکہ وہ اسپیشلائزیشن کے لیے باہر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اس دفعہ وہ کافی دنوں بعد مومل کے پاس آئی تھی۔ اسفند بھی گھر آیا ہوا تھا۔ ربیعہ سے کچھ دیر تک بات چیت کرنے کے بعد وہ باہر چلا گیا تھا اور ربیعہ یک دم فکر مند نظر آنے لگی۔
”مومل ! یہ اسفند کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے؟” اس نے مومل سے پوچھا۔
”کیا بدلا ہے اس میں؟” مومل نے لاپروائی سے جواب دیا۔ ربیعہ اس کی بات پر حیران ہوئی۔
”مومی! یہ تمہیں پتا ہونا چاہیے۔ تمہیں اس کی بیوی ہو کر یہ نہیں پتا کہ اس میں کیا تبدیلی آئی ہے اور میں یہاں پندرہ منٹ اس کے ساتھ بیٹھی ہوں تو مجھے پتا چل گیا ہے کہ وہ پہلے جیسا نہیں رہا۔”
”تو میں کیا کروں؟” مومل نے ناگواری سے کہا تھا۔ وہ چند لمحے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”مومی! میں نے دو تین بار اسے کسی لڑکی کے ساتھ گھومتے پھرتے دیکھا ہے۔ میں نہیں جانتی وہ لڑکی کون ہے لیکن اسفند کا جو رویہ اس کے ساتھ نظر آتا ہے’ وہ کوئی اطمینان بخش بات نہیں ہے۔ تم اس کی بیوی ہو تمہیں اس پر چیک رکھنا چاہیے۔”
”مجھے اس پر چیک رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہی مجھے اس بات سے کوئی دلچسپی ہے کہ وہ کس کے ساتھ اور کیوں پھرتا ہے۔ میری طرف سے وہ جہنم میں جائے۔”
ربیعہ اس کی بات سن کر یک دم کھڑی ہو گئی۔
”ٹھیک ہے میرا کام تمہیں متنبہ کرنا تھا’ میں نے کر دیا اگر تم جانتے بوجھتے نقصان اٹھانا چاہتی ہو تو میں کیا کر سکتی ہوں۔”
وہ خفگی کے عالم میں وہاں سے چلی آئی تھی۔ مومل پر اس کی باتوں یا خفگی کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اس نے اب بھی اسفند کے روئیے کو جانچنا شروع نہیں کیا تھا۔
اسفند پہلے ہی کی طرح فلیٹ پر آتا تھا لیکن اب وہ گھر پر اتنا دھیان نہیں دیتا تھا۔ پہلے وہ ہر بار آنے پر اس سے پوچھتا کہ کیا گھر میں کسی چیز کی ضرورت ہے یا بغیر پوچھے ہی کسی چیز کی کمی محسوس ہونے پر وہ چیز لے آتا لیکن اب وہ ایسا نہیں کرتا تھا۔ وہ بس ہر ماہ کچھ روپے بیڈ کی دراز میں رکھ دیتا۔ اب وہ گھر پر کھانا بھی نہیں کھاتا تھا۔ ہاں البتہ زاشی کے لیے اس کی محبت اور توجہ میں کمی نہیں آئی تھی۔ پھر انہیں دنوں اسے پہلی پوسٹنگ ملی اور وہ اے ایس پی کے طور پر ملتان چلا گیا۔ جانے سے پہلے اس نے مومل سے صرف اتنا کہا۔
”اب شاید میں ہر ہفتے نہ آ سکوں اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو تم اس نمبر پر راشد کو کال کر لینا۔”
ربیعہ کو اس کی پوسٹنگ کی خبر ملی تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بار پھر اس کے پاس آئی۔