ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

اس کے بعد کیا ہوا تھا، اسے کچھ بھی ٹھیک سے یاد نہیں تھا۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی جیسے دنیا سے کٹ گئی تھی۔ اسے صرف یہ یاد تھا کہ اسے صبح اس وقت آفس جانا ہے، پھر ٹیوشنز کرنا ہیں اور رات کو واپس ہاسپٹل آ جانا ہے باقی ہر چیز جیسے اس کے ذہن سے نکل گئی تھی۔ اس واقعہ کے دو ہفتے کے بعد ہاسٹل نہ چھوڑنے پر ہاسٹل کی لڑکیاں کیا سوچتی رہی تھیں۔ وارڈن نے اسے کتنی ہمدردی سے دیکھا تھا۔ اس کے وجود پر یک دم اس طرح چھا جانے والی خاموشی نے اس کے وجود کو دوسروں کے لیے کتنا قابلِ اعتراض بنایا تھا۔ وہ ہر چیز سے لاپروا ہو چکی تھی۔ اس نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اس کے پاس آئینے کے سامنے جانے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ نماز پڑھنے بیٹھتی اور دعا مانگے بغیر اٹھ جاتی۔ سڑک پر چلتی تو ہر طرف اسے جہاںزیب نظر آتا اور پھر یہ الوژن ہر وقت اس کے ساتھ رہنے لگا۔ اسے یوں لگتا جیسے وہ اس کے پاس ہے۔ ہر وقت ہر جگہ… رات کو سونے سے پہلے اور صبح اٹھنے کے بعد اس کے ذہن میں ابھرنے والا آخری اور پہلا تصور اسی شخص کا ہوتا۔ بہت دفعہ میس میں سے کھانا اپنے کمرے میں لے جاتے ہوئے اس نے اپنے بارے میں لڑکیوں کی سرگوشیاں سنی تھیں۔
”اچھا تو یہ وہ لڑکی ہے جس کی شادی طے ہونے کے بعد منگیتر نے شادی سے انکار کر دیا… وہ بھی دو ہفتے پہلے۔ بے چاری۔ مگر ہوا کیا تھا؟ ہو سکتا ہے منگیتر کو اس کے بارے میں کسی ایسی ویسی بات کا پتا چل گیا ہو… آخر اتنے سالوں سے ہاسٹل میں رہ رہی تھی… مجھے کوئی بتا رہا تھا بہت سال پرانی منگنی تھی۔ بہت خوبصورت تھا اس کا منگیتر۔ یہاں ایک دو بار ملنے آیا تھا… باہر سے پڑھ کر آیا تھا… مجھے تو ترس آ رہا ہے… کتنا ظلم ہوا ہے اس پر… ہمیں حقیقت کا کیا پتا ہو سکتا ہے اسی میں کوئی برائی ہو ورنہ اتنی پرانی منگنی کون توڑتا ہے اور وہ بھی شادی کی تاریخ طے کرنے کے بعد… مگر لگتی تو نہیں ہے ایسی ویسی۔ چہرے سے کیا پتا چلتا ہے اصلیت کا پتا تو خدا کو ہی ہوتا ہے یا پھر ان کو جن کا واسطہ پڑے۔”
اگلے کئی ماہ وہ گفتگو کا موضوع بنی رہی۔ میس سے کھانا لیتے وہ سرگوشیاں سنتی۔ لڑکیوں کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ بہت کچھ سنتی رہتی۔ اسے کچھ بھی برا نہیں لگتا تھا۔ کوئی طنز، کوئی طعنہ، کسی کی مذاق اڑاتی ہوئی ہنسی، متجسس آنکھیں، ایک دوسرے کو کیے جانے والے اشارے، وہ کسی چیز پر مشتعل نہیں ہوتی تھی۔ شاید اسے اب تک یقین نہیں آیا تھا کہ یہ سب اس کے ساتھ ہوا ہے۔ شروع میں اسے سب کچھ خواب لگتا تھا۔ ایک ڈراؤنا خواب، مگر وہ خواب نہیں تھا اور خواب کو حقیقت مان لینے کی کوشش کرتے ہوئے وہ مکمل طور پر ذہنی انتشار کا شکار ہو گئی تھی۔ ہاسٹل کی لڑکیوں کے قہقہے ان کے چہروں کی مسکراہٹیں اسے عجیب لگتیں۔ وہ بچپن سے باقاعدگی سے نماز پڑھتی آ رہی تھی۔ اب آہستہ آہستہ وہ نماز چھوڑنے لگی۔ اگر نماز پڑھتی بھی تو دعا مانگتے ہوئے وہ بہت دیر تک خاموش بیٹھی رہتی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا، وہ خدا سے اب کیا مانگے۔ ویک اینڈ پر راولپنڈی جاتی تو امی اس سے بات کرتے کرتے رونے لگتیں۔ وہ تب بھی خاموشی سے انھیں دیکھتی رہتی اس کے پاس انھیں دلاسا دینے کے لیے کچھ تھا نہ آنسو پونچھنے کے لیے ہمت۔ وہ اس سے اصرار کرتیں کہ آخر اس نے کون سی شرائط ماننے کے لیے کہا تھا جس پر اس نے انکار کیا۔ وہ کچھ بتانے کے بجائے پھر خاموشی اختیار کیے رکھتی۔ اس کے اندر کیا کچھ بدل چکا تھا۔ اس کا اندازہ اس کی امی کو کبھی نہیں ہوا۔ انھیں صرف اس کی خاموشی ہو لایا کرتی تھی۔
”اس طرح گونگا بن جانے سے کیا تمہاری تکلیف کم ہو گئی ہے یا کم ہو جائے گی… مگر جو ہو گیا ہے اس پر پچھتانے کے بجائے سب کچھ بھول جاؤ کوشش کرو کہ اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرو حالانکہ جو کچھ تم کر چکی ہو… خیر اپنے آپ کو اس خول سے نکال لو، کبھی اپنی آنکھوں کو دیکھا ہے تم نے؟ کبھی کتنی چمک اور شوخی ہوتی تھی ان میں اور اب میں تمہیں دیکھتی ہوں تو مجھے خوف آنے لگتا ہے۔ اتنی اداسی اور اتنی خاموشی ہے تمہاری آنکھوں میں بھی کہ…”
عقیلہ ہاسٹل میں اسے کہتی رہتی۔ وہ اسے بھی بے تاثر خاموشی کے ساتھ دیکھتی رہتی۔
”محبت تاریک جنگل کی طرح ہوتی ہے ایک بار اس کے اندر چلے جاؤ پھر یہ باہر آنے نہیں دیتی… باہر آ بھی جاؤ تو آنکھیں جنگل کی تاریکی کی اتنی عادی ہو جاتی ہیں کہ روشنی میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتیں وہ بھی نہیں جو بالکل صاف، واضح اور روشن ہوتا ہے۔”
اس دن بھی عقیلہ کی بہت سی نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہی کہا تھا۔





”میں بھی ابھی کچھ دیکھ نہیں پا رہی ہوں۔ بس مجھے یہ اندازہ نہیں ہے کہ میں جنگل کے اندر ہوں یا باہر۔”
عقیلہ نے اسے چہرے پر چادر لیتے دیکھ کر ہمدردی سے اس کا سر تھپتھپا دیا۔
*…*…*
اگلے کچھ سالوں میں اس کی بہن کی شادی ہو گئی۔ ثاقب ایف ایس سی کرنے کے بعد آرمی میں چلا گیا اور معین بی کام کرنے کے بعد ایک موبائل فون کی کمپنی میں سیلز ایگزیکٹو کے طور پر کام کرنے لگا، اس کے کندھوں پر پڑی ہوئی ذمہ داریاں ہٹتی گئی تھیں اور خاموشی نے کچھ اور مضبوطی سے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا۔
عقیلہ نے یکے بعد دیگرے کئی منگنیاں توڑی تھیں اور چند دن رونے دھونے کے بعد وہ بالکل نارمل ہو جاتی اور نئے سرے سے کسی بوائے فرینڈ کی تلاش شروع کر دیتی مگر امید کی تلاش جہاں زیب پر ختم ہو چکی تھی۔ عقیلہ ایک چھوٹے شہر سے تعلق رکھتی تھی اور لاہور میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ واپس نہیں گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کی ڈیتھ ہو گئی۔ دو بھائی شادی کرنے کے بعد اپنے الگ الگ گھروں میں سیٹل تھے۔ جبکہ وہ خود مستقل طور پر ہاسٹل میں مقیم تھی۔ بعض دفعہ امید اسے دیکھ کر سوچتی۔ کیا خوش رہنے کے لیے رشتے ضروری بھی ہیں یا نہیں اگر یہ اپنی پوری زندگی یہاں گزار سکتی ہے تو کیا میں بھی… ہاں کیا فرق پڑتا ہے یہاں رہنے سے… شاید گھر کی ضرورت اس کو ہوتی ہے جس کو خوش رہنا ہو اور مجھے تو صرف زندہ رہنا ہے، چاہے اس ہاسٹل میں یا کہیں اور… خوشی میری ضرورت ہے ہی نہیں۔
ہاسٹل میں رہنے والی ایک لڑکی ایک فاسٹ فوڈ کی چین میں کام کرتی تھی وہ اپنی جاب چھوڑ کر واپس جا رہی تھی۔
”تم اگر چاہو تو میں تمہارے لیے بات کر سکتی ہوں۔ جاب اچھی ہے کوئی ٹینشن نہیں پھر سیلری بھی بہت بہتر ہے۔”
اس نے ایک دن امید سے کہا۔ امید نے ان دنوں اپنی فرم بند ہونے کے بارے میں سنا تھا اور وہ فرم میں اس کا آخری مہینہ تھا۔ شاید عقیلہ نے اس کے بارے میں ہاسٹل کی کچھ لڑکیوں سے بات کی تھی یہی وجہ تھی کہ اس لڑکی نے امید کو اس جاب کے بارے میں مطلع کر دیا۔ امید نے کچھ بھی کہے بغیر اثبات میں سر ہلا دیا۔ فرم سے فارغ ہونے کے بعد اس کے پاس کوئی ذریعہ آمدنی نہ ہوتا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے وہ ٹیوشنز چھوڑ چکی تھی۔ اس پر اب گھر کو سپورٹ کرنے کی ذمہ داری نہیں تھی مگر اس کے باوجود اسے اپنے اخراجات کے لیے رقم چاہیے تھی۔ کم از کم اس وقت تک جب تک وہ واپس راولپنڈی نہ چلی جاتی۔ اگلے چند دنوں میں اس نے لڑکی کے ساتھ فاسٹ فوڈ کی انتظامیہ سے ملاقات کی پھر اس نے اپنی جاب سے ریزائن کر دیا۔ اگلا کچھ عرصہ وہ وہاں اپنے کام کی ٹریننگ حاصل کرتی رہی۔
*…*…*
اسے اس فاسٹ فوڈ چین میں کام کرتے بہت دن ہو گئے تھے۔ اسے احساس ہو رہا تھا بلامقصد ہر کسی کے لیے مسکرانا کتنا مشکل ہوتا ہے کہ بعض دفعہ یہ کام آنکھوں میں آنسو بھی لے آتا ہے۔ آرڈر نوٹ کرتے اور آرڈر کی ٹرے تھماتے وہ ہر بار مسکراتی۔ سارا دن اس کے سامنے بہت سے چہرے گزرتے رہتے۔ اس کے ساتھ کام کرنے والی لڑکیوں کا خیال تھا کہ وہ ضرورت سے زیادہ خاموش رہتی ہے۔ وہ خاموشی سے ان کا تبصرہ سنتی اور ان کے پاس سے اٹھ جاتی۔
اسے یاد نہیں اسے وہاں کام کرتے کتنے دن ہوئے تھے، مگر ایک دن وہاں اس نے جہاں زیب کو دیکھا تھا۔ اسے یقین نہیں آیا۔
”شاید یہ بھی ویسا ہی الوژن ہے جس کے ساتھ میں اتنے عرصے سے رہ رہی ہوں۔”
اس نے خود کو بہلانے کی کوشش کی مگر اس دن وہ الوژن نہیں تھا۔ وہ واقعی جہاں زیب تھا۔ وہ کاؤنٹر کے کونے میں کھڑی بے حس و حرکت اس پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ وہ ایک لڑکی کے ساتھ ہنستا ہوا کاؤنٹر پر کھڑا اپنا آرڈر نوٹ کروا رہا تھا۔ امید کا دل چاہا وہ بھاگ کر اس کے پاس چلی جائے اس سے پوچھے کہ کیا وہ اسے یاد ہے؟ اسی وقت اس کے پاس ایک لڑکی آ کر اپنا آرڈر نوٹ کروانے لگی۔ جہاں زیب اب اس لڑکی کے ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر باتیں کر رہا تھا۔ وہ اس لڑکی کا آرڈر لے کر اندر چلی گئی۔ واپس آنے میں اسے دس منٹ لگے تھے اور… وہ… وہ وہاں نہیں تھا… اسے یقین نہیں آیا… ابھی وہ یہاں… اور اب…
”امید! تم ٹھیک ہو؟” اس کے ساتھ کام کرنے والی فیروزہ پوچھ رہی تھی۔
”ہاں۔” اس نے جیسے کسی کھائی سے جواب دیا تھا۔
”مگر تمہارا چہرہ اتنا زرد کیوں ہو رہا ہے؟” وہ اب اس کے ماتھے کو چھو رہی تھی۔
”تم ایسا کرو، کچھ دیر اندر بیٹھ کر آرام کرو پھر آ جانا۔”
وہ اس کا بازو پکڑ کر اسے اندر لے آئی۔ وہ بہت دیر چپ چاپ اندر بیٹھی رہی اسے اپنے اندر کہیں ٹیسیں اٹھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
”وہ لڑکی کون ہو سکتی ہے؟” اب وہ سوچ رہی تھی۔ ”شاید اس کی بیوی یا پھر گرل فرینڈ؟”
”بیوی۔” اس کے اندر ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ ہو رہی تھی۔ ”اگر میں چار سال پہلے… تو آج اس کے ساتھ میں ہوتی… اسی طرح یہیں۔”
اس کے اندر یک دم بہت شور ہونے لگا تھا۔ وہ بے اختیار رونے لگی۔ بہت دیر رونے کے بعد وہ منہ دھو کر واپس کاؤنٹر پر آ گئی۔ اس کی شفٹ ختم ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ تھا۔
تب ہی اس کے پاس ایک غیر ملکی آیا تھا۔ وہاں غیر ملکیوں کا آنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں تھی۔ وہاں ان کا بہت زیادہ آنا جانا تھا مگر اس غیر ملکی نے انگلش کے بجائے بہت شستہ اردو میں اپنا آرڈر نوٹ کروایا۔ ہمیشہ کی طرح اس نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کا آرڈر نوٹ کیا اور پھر کچھ دیر کے بعد آرڈر سرو کیا۔ شفٹ ختم ہونے کے بعد وہ وہاں سے آ گئی۔
اس رات وہ دیر تک بیٹھی روتی رہی تھی۔ عقیلہ کچھ دیر اسے خاموش کروانے کی جستجو میں مصروف رہی پھر تنگ آ کر وہ سونے کے لیے لیٹ گئی۔
”انسان میں اتنی ہمت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے لیے فیصلہ کر سکے جس وقت تم اسے حاصل کر سکتی تھیں اس وقت تم کو اخلاقیات یاد آ رہی تھیں۔ ایمان اور اسلام کی فکر پڑ گئی تھی اور اب اسے کسی اور لڑکی کے ساتھ دیکھ لینے پر رو رہی ہو۔ آخر تم اس کے لیے کتنا روؤ گی۔ چار سال ہو گئے یہ تماشا دیکھتے ہوئے۔ چار سال تو کوئی کسی مر جانے والے کے لیے بھی نہیں رویا کرتا اور تم ایک زندہ شخص کے لیے… اتنا ہی یاد آتا ہے تو چلی جاؤ اس کے پاس… اس کی بات مان لو… تمہارے بقول وہ تم سے محبت کرتا ہے۔ جب تم دونوں کے درمیان محبت ہے تو مسئلہ کیا ہے؟ جاؤ اس کے پاس اگر اس نے اب تک شادی نہیں کی تب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں… بالفرض شادی کر بھی لی ہے تو دوسری شادی کی جا سکتی ہے اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو کوئی بات نہیں شادی ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی۔ اگر بندہ کسی سے محبت کرتا ہے تو شادی کے بغیر بھی اس کے ساتھ رہا جا سکتا ہے بلکہ زیادہ اچھے طریقے سے رہا جا سکتا ہے۔”
عقیلہ اپنے بستر میں لیٹی ہوئی بہت دیر تک بولتی رہی تھی۔ وہ خاموشی سے آنسو بہاتے ہوئے اس کی باتیں سنتی رہی۔
اسے یاد نہیں، اگلے کتنے دن وہ ہر سڑک، ہر رستے، ہر گاڑی، ہر چہرے میں اسے ڈھونڈتی رہی تھی۔ اسے لگتا تھا، وہ ایک بار پھر اس کے سامنے آ جائے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس دن آیا تھا۔ کاؤنٹر پر کھڑے ہو کر، شیشوں سے باہر جھانکتے ہوئے، ہر گاڑی کے کھلتے ہوئے دروازے سے وہ اسی کے نکلنے کی امید کرتی تھی۔
اس دن وہ کاؤنٹر پر ایک کسٹمر سے آرڈر لے رہی تھی جب اس غیر ملکی نے آرڈر دینے کے بعد اچانک اس سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ وہ روز یہاں آتا ہے اور وہی اسے اٹینڈ کرتی تھی اس لیے وہ اس کا نام جاننا چاہ رہا تھا۔ وہ حیران ہوئی۔
”میں اسے اٹینڈ کرتی ہوں… روز؟” اس نے سوچا ”مگر مجھے یاد نہیں کہ یہ۔” وہ الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”مجھے جہاں زیب کے علاوہ کسی دوسرے شخص کا چہرہ یاد نہیں رہ سکتا۔”
اس نے دل میں اپنی کمزوری کا اعتراف کیا۔ آرڈر سرو کرتے ہوئے اس شخص نے ایک بار پھر اس کا نام پوچھا۔ اس نے اپنا نام بتا دیا۔ اس دن ہاسٹل جا کر وہ اس شخص کے بارے میں سوچتی رہی اور پھر اسے یاد آیا کہ ایک ماہ پہلے اسی شخص کی اردو سن کر وہ پہلی بار چونکی تھی۔
دوسرے دن لنچ کے اوقات میں وہ شخص پھر وہاں تھا، آج اس نے اسے پہچان لیا۔ پھر اس نے نوٹ کیا وہ واقعی روز وہاں آتا تھا اور اب وہ روز اس سے کوئی نہ کوئی بات کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ جواب دینے کے بجائے خاموشی سے اپنا کام کرتی رہتی۔ ایسے رابطے بڑھانے والے کتنے سطحی ہوتے تھے، وہ اچھی طرح جانتی تھی۔
پھر اس نے اپنی شفٹ تبدیل کروا لی اور اس نے اب اس غیر ملکی کو شام کے وقت آتے دیکھا۔ اب وہ غور کرنے لگی اور اس کی سرگرمیاں پہلی بار اس کی نظروں میں آنے لگیں۔ وہ شام سے رات تک وہاں بیٹھا رہتا وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی چیز لیتا رہتا مگر وہاں سے جاتا نہیں تھا۔ وہ جب بھی اسے دیکھتی، وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا تھا اور امید کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ اپنی نظریں کہیں اور مرکوز کر لیتا۔ وہ صرف امید کی نظروں میں ہی نہیں آیا تھا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والی دوسری لڑکیاں اور لڑکے بھی اس کی موجودگی کا نوٹس لینے لگے تھے۔
*…*…*
ویک اینڈ پر وہ اپنے گھر آئی۔ راولپنڈی آ کر ہمیشہ وہ بہت ہی عجیب کیفیات سے دوچار رہتی تھی۔ بعض دفعہ اسے یوں لگتا جیسے وہ بہت غلط جگہ آ گئی ہو اور بعض دفعہ اسے یوں لگتا جیسے وہ کسی غلط جگہ سے آ گئی ہو۔
”میں چاہتی ہوں، اب تم لاہور سے مستقل یہاں آ جاؤ… اب ضرورت نہیں ہے کہ تمہیں کمانا پڑے۔ تمہارے بھائی اب اتنا کمانے لگے ہیں کہ تمہیں اس طرح دوسرے شہر میں نہ رہنا پڑے۔”
اس رات اس کی امی نے اس سے کہا تھا۔ اس نے حیرانی سے ماں کا چہرہ دیکھا۔
”اچھا تو کیا میری جدوجہد ختم ہو گئی؟” اس نے سوچا۔
”اب تم یہیں راولپنڈی میں رہو۔ میں تمہارے لیے کچھ رشتے دیکھ رہی ہوں۔ چاہتی ہوں کہ جلد ہی تمہاری شادی کر دوں۔”
وہ بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ امی کچھ دیر بعد اٹھ کر چلی گئیں۔
”شادی! کیا میں شادی کروں گی؟… جہاں زیب کے علاوہ کسی دوسرے سے… اب جب سب کچھ ختم ہو چکا ہے… اب کس لیے؟ خود کو دھوکا دینے کے لیے۔ یا کسی دوسرے کو؟” اس کا ذہن جیسے اس بات کو قبول ہی نہیں کر رہا تھا۔
”کیا آزمائشیں کبھی ختم ہو سکتی ہیں؟” وہ سوچ رہی تھی۔
”اور وہ بھی میری آزمائشیں؟ لاہور سے واپس آ جاؤں… کہاں، یہاں راولپنڈی… اور یہاں دوبارہ سے رشتے جوڑنے کی کوشش کروں… کیا امی محسوس نہیں کر سکتیں کہ جہاں زیب کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ رہنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔”
وہ دو دن کے لیے لاہور سے راولپنڈی آئی تھی مگر دو دن کے بجائے ایک ہفتہ وہاں رہی۔ واپسی میں ایک بار پھر اس نے خاموشی سے امی کی گفتگو سن کر سر ہلا دیا۔
”کاش میں انھیں بتا سکتی کہ اب شہر بدلنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ گھر ہو یا نہ ہو مجھے فرق نہیں پڑتا۔ سب کچھ چار سال پہلے ختم ہو گیا تھا۔ اب تو صرف راکھ اور کھنڈر ہیں راکھ اور کھنڈر پر دوبارہ عمارت تعمیر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔” اس نے گھر سے نکلتے ہوئے سوچا تھا۔
*…*…*




Loading

Read Previous

دربارِ دل — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Read Next

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!